سجاول، سماجی ثقافتی زرعی مالیاتی میلے کی تیاریوں کے حوالے سے اجلاس
اشاعت کی تاریخ: 4th, February 2025 GMT
سجاول(نمائندہ جسارت) ڈپٹی کمشنر زاہد حسین رند کی زیر صدارت سماجی ثقافتی زرعی مالیاتی میلے کی تیاریوں و انتظامات کا جائزہ لینے کے حوالے سے دربار ہال سجاول میں اجلاس منعقد ہوا، جس میں ریونیو، پولیس، زراعت، صحت، سوشل ویلفیئر، جنگلات ، تعلیم، آبپاشی، نکاسی آب، بلڈنگز، ہائی ویز، پبلک ہیلتھ، لوکل گورنمنٹ، پاپولیشن ویلفیئر، لائیو اسٹاک،لائیواسٹاک فشریز، پی پی ایچ آئی، ریسکیو 1122 کے علاوہ ملکی و غیر ملکی این جی اوز کے نمائندوں نے شرکت کی۔ اجلاس میں متعلقہ محکموں کے افسران کی جانب سے ڈپٹی کمشنر کو انتظامات و تیاریوں کے بارے میں تفصیلی بریفنگ دی گئی۔ ڈپٹی کمشنر نے کیے گئے انتظامات پر اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ میلے کی تقریبات اسٹیٹ بینک آف پاکستان اور ضلعی انتظامیہ سجاول کے مشترکہ تعاون سے کل 4- فروری 2025ء بروز منگل کو صبح 11 بجہ بوائز ڈگری کالج گراؤنڈ سجاول میں افتتاح کیا جائے گا۔ میلے کے انعقاد کے حوالے سے ڈپٹی کمشنر سجاول زاہد حسین رند نے بتایا کہ مرکزی تقریب میں سیمینار، پینل ڈسکشن، ثقافتی شو، تحائف اور لکی ڈرا سمیت ایرانی سرکس اور موت کے کنواںکا بھی اہتمام کیا گیا ہے تاکہ لوگوں کو تفریح کے مواقع مہیا ہو سکیں۔ ان کا کہنا تھا کہ میلے میں کاشتکاری کی مشینیں، زرعی فنانسنگ، زرعی مصنوعات و اختراعات، بیج کمپنیاں، کیڑے مار ادویات، کھاد، ذخیرہ کرنے کی سہولت، لائیو اسٹاک اور ڈیری ڈسپلے، خوراک اور دیگر اسٹالز سمیت شام کے وقت لوک موسیقی کا بھی انتظام کیا گیا ہے۔ ڈپٹی کمشنر نے مویشی مالکان، مقامی افراد، محققین، کسان، طلبہ، صنعت کے پیشہ ور افراد اور صحافی برادری سے اپیل کی ہے کہ وہ سماجی ثقافتی زرعی مالیاتی میلے اور نمائش میں زیادہ سے زیادہ شرکت کرکے متوجہ ہوکر معلومات حاصل کریں۔ بعد ازاں، ڈپٹی کمشنر نے بوائز ڈگری کالج گراؤنڈ کا دورہ کرکے انتظامات و دیگر امور کا جائزہ بھی لیا۔
.ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: ڈپٹی کمشنر
پڑھیں:
تاریخی سرخ لاری: سعودی عرب اور خلیج کی ثقافتی پہچان
سرخ رنگ کی مشہور لاری، جسے مقامی طور پر ’لاری‘ کے نام سے جانا جاتا ہے، خلیجی ممالک اور خصوصاً سعودی عرب کی ایک اہم ثقافتی علامت بن چکی ہے۔ 1940 سے 1970 کی دہائی کے درمیان، جب سفر کے ذرائع محدود تھے اور حالات مشکل، تو اسی سرخ لاری نے نقل و حمل میں بنیادی کردار ادا کیا، ان لاریوں نے دور دراز دیہاتوں کو شہروں سے جوڑنے میں کلیدی کردار ادا کیا۔
سعودی پریس ایجنسی کی ایک رپورٹ کے مطابق مورخ عبداللہ الزہرانی کا کہنا ہے کہ اس دور میں مقامی باشندے اور حجاج کرام لمبے سفر کے لیے انہی لاریوں پر انحصار کرتے تھے، جو کئی دنوں پر محیط ہوتے تھے۔ ’ سرخ لاری نقل و حمل میں ایک انقلاب کی حیثیت رکھتی تھی، خاص طور پر خاندانوں اور بچوں کے لیے آرام دہ ذریعہ سفر کے طور پر۔‘
یہ بھی پڑھیں:
صرف مسافروں کی آمد و رفت ہی نہیں بلکہ ان لاریوں کی اقتصادی اہمیت بھی غیر معمولی تھی۔ ’یہ گاڑیاں کھانے پینے کی اشیاء کو بازاروں اور تجارتی مراکز تک پہنچاتیں، جبکہ تاجر کھجوریں، مصالحے، مویشی اور کپڑے جیسا سامان بھی ان کے ذریعے منتقل کرتے، جس سے دیہی تجارت کو فروغ اور خطے کی باہمی وابستگی کو تقویت ملی۔‘
طائف کے جنوبی دیہاتوں سے تعلق رکھنے والے مقامی شہری سالم الابدالی نے بتایا کہ ان کے والد ایک سرخ لاری چلاتے تھے، انہوں نے یاد کرتے ہوئے کہا کہ ان لاریوں کا سرخ رنگ، ہاتھ سے بنایا گیا سن روف، دیودار کی لکڑی کے فرش اور ہاتھ سے سلی ہوئی کپڑے کی چھت، جو مسافروں کو موسم کی شدت سے بچاتی تھی، سب کچھ منفرد تھا۔
مزید پڑھیں:
سالم الابدالی کے مطابق، سرخ لاری اونٹوں کے بعد مقامی آبادی کے لیے سب سے اہم سفری ذریعہ تھی اور اس سے کئی داستانیں، تجربات اور سفر کے دوران گائے جانے والے لوک نغمے جُڑے ہوئے ہیں۔ بعض ڈرائیور تو دیہاتیوں کو مفت میں بھی سفری سہولت دیتے تھے، جو اس دور کی باہمی مدد اور سماجی یکجہتی کی اعلیٰ مثال تھی۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
خلیج سرخ سعودی عرب لاری