Nai Baat:
2025-09-17@23:26:23 GMT

’’پیکا آرڈیننس‘‘ خطرہ کس کو ہے؟

اشاعت کی تاریخ: 5th, February 2025 GMT

’’پیکا آرڈیننس‘‘ خطرہ کس کو ہے؟

آج صحافتی برادری اور اپوزیشن کی طرف سے جس نئے نافذ کردہ پیکا آرڈیننس پر بہت شور مچایا جا رہا ہے یہ ہمارے یا صحافت کے لئے کوئی نیا قانون نہیں۔ اس سے قبل ماضی میں جھانکیں تو اس سے ملتے جلتے کئی ناموں سے صحافت کی تاریخ میں کئی بار ایسے ہی سخت ترین قوانین کے نام پر قدغن لگائی گئی۔ اخبارات کی بندشوں سے لے کر کوڑوں تک کی سزائیں اور ڈکلیئریشن کی منسوخی کے احکامات تک سابق صدر ایوب خان کی ظلمت کی رات ہو یا بھٹو کی سخت گیر پابندیاں یا پھر ڈکٹیٹر جنرل ضیاء الحق کا سیاہ ترین دور جب سنسرشپ کی آڑ میں پاکستان کے نامور بڑے ادیبوں اور صحافیوں کو شاہی قلعے کے قیدخانوں میں ڈال کر سزائیں سنائی گئیں۔ ان میں نثار عثمانی، الطاف حسین قریشی، ضیاء شاہد اور مجیب الرحمن شامل ہیں یعنی اس دور میں سچ لکھنے والے ہاتھوں پر ہتھکڑیاں تو قلم کی نب کو توڑا گیا… یہاں اس حقیقت کو بھی دیکھتے چلیں کہ ماضی و حال میں ہر حکومت اپنی مرضی اور پسند کا میڈیا چاہتی ہے اور وہ جب اس کے بارے بولتی ہے تو شکایات کے طویل انبار لگا دیتی ہے۔ جیسے تمام معاملات کے بگاڑ کا ذمہ دار میڈیا ہے اور تمام سیاستدان سب دودھ کے دھلے ہیں۔ ہمارے ہاں ایک زمانہ پرنٹ میڈیا کا گزرا، بہت طاقتور، زور آور… جس نے کئی حکومتیں توڑیں اور بنائیں، اس کے بعد الیکٹرانک میڈیا آیا جو آج بھی جاری و ساری تو ہے مگر اس قدر طاقتور نہیں بلکہ اس کے مقابلے میں طاقتور آیا تو سوشل میڈیا جس نے ایک عام آدمی سے لے کر اشرافیہ اور سیاست کے ایوانوں سے لے کر گھروں کی چار دیواریوں تک کو بھی ننگا کر دیا۔ شتر بے مہار سوشل میڈیا کو آپ کسی بھی طرح صحافت یا آزادی اظہار کے بڑے پلیٹ فارم کا درجہ نہیں دے سکتے… اور اب تو یہ ایک ایسا بدمعاش میڈیا بن گیا جس نے ہر ایک کی عزت کو دائو پر لگاتے ہوئے ماحول کو خطرے میں ڈال رکھا ہے۔ دیکھا جائے تو اس تباہی کا آغاز بانی پی ٹی آئی اور اس کے حواریوں نے کیا اور پاکستان کی سالمیت پر یوں تابڑ توڑ حملے کر دیئے جیسے ہم پاکستان نہیں بلکہ بھارت کے ساتھ ٹکرا رہے ہیں۔ بانی پی ٹی آئی نے اپنی گندی ذہنیت کے تحت سوشل میڈیا کو ایسی زبان دے ڈالی جس نے نسلوں کو بگاڑ کے رکھ دیا… میرے نزدیک سب سے بڑا تخریب کار سوشل میڈیا ہے۔ ہمارے ہاں یوں تو بڑی بڑی تخریب کاریاں ہوتی رہتی ہیں مگر سوشل میڈیا آج کے دور کا سب سے بڑا تخریبی میڈیا ہے۔ پاکستان میں گزشتہ دو عشروں میں ٹی وی سکرین سے لے کر اخبارات اور رسائل کی اشاعت میں حیرت انگیز اضافہ ہوا اور سوشل میڈیا کے آنے سے پہلے ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں چالیس لاکھ سے زائد لوگ اخبارات، ٹی وی اور رسائل پڑھا کرتے تھے، جو اب نہیں ہے۔

اس کے باوجود یہ آج بھی اتنا طاقتور اور مؤثر ہتھیار ہے جو کسی بھی گروہ یا قیادت کو تباہ و برباد کرکے رکھ سکتا ہے اور یہ چاہے تو کسی بھی وقت مصنوعی لیڈرشپ سے لے کر مصنوعی جماعت تک کو سامنے لا سکتا ہے اور جب چاہے لوگوں کے ذہن بدل کر رکھ دے جیسا کہ گزشتہ تین چار سالوں سے دیکھا جا رہا ہے۔ اس بات میں بھی کوئی دو رائے نہیں کہ یہ جب چاہتا ہے لوری دے کر گہری نیند سلا دے اور جب چاہے زندگی کو حرارت دے کر فساد برپا کرا دے۔ آج کا میڈیا نہ تو قومی دھارے میں دیکھا جا رہا ہے نہ اس کا قومی سلامتی کے ساتھ کوئی تعلق جوڑا جا سکتا اور نہ یہ عوامی تصویر بنا، یہاں اپنے ذاتی مفادات اور دولت کمانے کی آڑ میں سیاسی شرپسندوں نے سوشل میڈیا کو اپنی جاگیر سمجھ لیا اور نظریہ تخریب کاری کے تحت تمام اخلاقی حدود کو عبور کرکے حالات کو مزید سنگینی کی طرف دھکیل دیا۔

سوشل میڈیا پر ایک سیاسی جماعت کی وجہ سے پاکستان کی خوبصورت رنگوں بھری تصویر کی بجائے جس برے نقشہ کو پیش کیا جا رہا ہے، ایسا کچھ بھی نہیں، دولت کی ہوس اور وقتی شہرت نے اس معاشرے کے چند ناسوروں نے ہمارے صاف اور شفاف معاشرے اور اداروں پر انگلیاں اٹھانا شروع کیں اور صوبائی سطح سے قومی سطح تک صوبائی تعصب کا پرچار کیا جو غلط اور گہری سازش ہے۔ اگر اس سازش کو جلد نہ روکا گیا تو اس ملک پر لوگوں کا تھوڑا بہت جو اعتبار ہے وہ بھی اٹھ جائے گا۔ سوشل میڈیا کے تخریب کاروں کے لئے پیکا جیسے قوانین بہت ضروری ہیں۔ ضرورت تو اس امر کی ہے کہ اس قانون کو بے لگام سوشل میڈیا چلانے والے نام نہاد صحافیوں پر لاگو کیا جائے۔ جن کی وجہ سے ایک عام آدمی کی زندگی بھی متاثر ہو رہی ہے۔ اس بے لگام سوشل میڈیا کی وجہ ہی سے آج ہر بندہ یہ سوال کر رہا ہے کہ ’’بنے گا کیہ‘‘ گو حکومت وقت ان پر ہاتھ ڈالنے کے لئے اس قانون کو منظور کراتے ہوئے سزائوں کا تعین بھی کر دیا ہے گو اس قانون کے خلاف اٹھنے والی آوازیں اس کو کالا قانون قرار دے رہی ہیں اور اس کی مخالفت کرنے والے اس بات کو کیوں نظرانداز کرتے ہیں کہ اسی سوشل میڈیا یا واٹس ایپ، فیس بک اور انسٹا گرام پر جو ہوش اڑانے والی پوسٹیں، غلط کردارکشی، غلط تصویرکشی اور ہر اچھی بات کو توڑ مروڑ کر پیش کرنا، ملک سے باہر بیٹھے تحریک انصاف کے نامور یوتھئے جو صرف ڈالرز کمانے کے چکر میں دنیا بھر میں پاکستان کو بدنام کر رہے ہیں، ان کو روکنے کے لئے ایسا ہی قانون چاہئے جو ان کی گردنوں کو جکڑ سکے۔ پیکا قانون تو بنایا ہی تخریب کاری صحافت کو فروغ دینے والے نام نہاد صحافیوں کے لئے جو پاکستان کو بدنام کرنے کی کوئی کسر نہیں چھوڑ رہے۔
مجھے تو حیرانگی ان صحافیوں پر ہو رہی ہے جو اس کی مخالفت کرتے ہوئے اس کو کالاقانون قرار دے رہے ہیں۔ وہ تو پاکستان اور اداروں کے ساتھ مخلص ہیں پھر ان کو پیکا قانون سے خطرہ ہے کیا؟ اگر میں بطور صحافی یہ دیکھوں کہ جب مجھے ملک مخالف تحریکوں میں نہ تو حصہ لینا ہے نہ مخالف قوتوں کی آواز بننا ہے نہ میرے نظریات غلط ہیں نہ میں غلط بات لکھنے کے حق میں ہوں تو پھر خطرہ کس بات کا ہے؟ تو پھر پیکا جیسے ایک نہیں ہزاروں آرڈیننس بھی آجائیں تو خطرہ کس بات کا… بات ذرا سوچنے والی ہے، پھینکنے والی نہیں…

.

ذریعہ: Nai Baat

کلیدی لفظ: سوشل میڈیا جا رہا ہے سے لے کر کے لئے ہے اور

پڑھیں:

 لازوال عشق ڈیٹنگ شوکا ٹیرز جاری: سوشل میڈیا صارفین نے بے حیائی اور فحاشی کے فروغ کی کوشش قرار دیدیا

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

کراچی (رپورٹ:منیر عقیل انصاری)پاکستانی اداکارہ عائشہ عمر کی میزبانی میں نئے ڈیٹنگ شو ’لازوال عشق‘ کا ٹیزرمنظرعام پر آگیا ہے جس پر سوشل میڈیا صارفین اپنے ردعمل کا اظہار کررہے ہیں۔لازوال عشق کب نشر ہوگا؟ اس بارے میں تفصیلات تو موجود نہیں البتہ 12 ستمبر کو یوٹیوب پر شو کا ٹیزرنشر ہونے کے بعد ایک ہنگامہ برپا ہوگیا ہے۔

ناقدین کے مطابق یہ شو پاکستان کی ثقافت اور تہذیب کے خلاف ہے ۔لازوال عشق پاکستان کا پہلا ڈیٹنگ رئیلٹی شو ہوگا جسے ایک عالیشان بنگلے میں فلمایا جائے گا۔ اس شو میں چار نوجوان جوڑے (کپلز) شامل ہوں گے جو 100 دن تک ایک ہی چھت کے نیچے رہتے ہوئے ”سچی محبت“ تلاش کرنے کی کوشش کریں گے۔

تمام شرکاءچوبیس گھنٹے کیمروں کی نگرانی میں رہیں گے، مختلف چیلنجز، ڈیٹس اور کھیلوں میں حصہ لیں گے جبکہ آخر میں جیتنے والا جوڑا ایک شاندار انعام کا حق دار ہوگا۔شو کی میزبانی خود عائشہ عمر کریں گی۔شو کا ٹیزر سامنے آتے ہی سوشل میڈیا صارفین نے اس پر شدید تنقید شروع کر دی ہے اور اسے اسلامی معاشرتی اقدار کے منافی قرار دیا ہے۔

متعدد صارفین نے سوال اٹھایا ہے کہ ایک اسلامی جمہوری ملک میں اس طرح کے ڈیٹنگ شوز کی اجازت کیسے دی جا سکتی ہے؟ایک صارف نے لکھا کہ کون لوگ ہیں یہ کہاں سے آتے ہیں یہ لوگ۔ایک صارف نے غم و غصے کا اظہار کرتے ہوئے لکھا: یہ شو دراصل پاکستانی معاشرے میں بے حیائی اور فحاشی کو فروغ دینے کی ایک کھلی کوشش ہے۔ یہ نکاح جیسے مقدس بندھن کو کمزور کرنے کی سازش ہے۔

دوسرے صارف نے کہا کہ یہ اسلامی جمہوریہ پاکستان ہے، کوئی سیکولر ریاست نہیں ہے۔ اس طرح کے شوز کو پروموٹ کرنا نوجوانوں کو نکاح کے بغیر تعلقات قائم کرنے کی ترغیب دینا ہے۔ایک خاتون صارف نے انتہائی غم وغصے کا اظہار کرتے ہوئے کہا،ہمارے چینلز پر فخر سے بتایا جا رہا ہے کہ یہ پاکستان کا پہلا ڈیٹنگ شو ہے، گویا اب یہاں بغیر نکاح کے لڑکے لڑکی کا اکٹھے رہنا جائز قرار دیا جا رہا ہے۔

ایک صارف نے کہا کہ انڈیا کا ’اسپلٹز ولا‘ اور امریکہ کا ’لو آئی لینڈ‘ کھلی فحاشی دکھاتے ہیں، کیا اب پاکستان بھی اسی راہ پر چلنے لگا ہے جہاں نوجوانوں کے ذہن میں یہ بات بٹھائی جارہی ہے کہ اب نکاح یا شادی کی ضرورت نہیں؟“صارفین کی ایک بڑی تعداد نے پیمرا اور وزارت اطلاعات سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ شو پر فوری پابندی عائد کریں۔ کچھ صارفین نے خبردار کیا کہ اگر اس طرح کے پروگرامز کو جاری رہنے دیا گیا تو یہ نوجوان نسل کو بگاڑنے اور خاندانی نظام کو تباہ کرنے کا سبب بن سکتے ہیں۔

ایک صارف نے تنبیہ کرتے ہوئے کہا،”اگر عوام مشتعل ہوئے تو نیپال، بنگلہ دیش اور سری لنکا جیسی صورتِ حال یہاں بھی پیدا ہو سکتی ہے۔ حکومت کو ہوش کے ناخن لینے چاہئیں۔“ایک اور صارف کا کہنا تھا، ”ایک طرف فیملی وی لاگرز کو بے حیائی پھیلانے پر روکا جا رہا ہے اور دوسری طرف ڈیٹنگ شوز کو کیسے اجازت دی جا رہی ہے؟ یہ دوہرا معیار کیوں؟‘دوسری جانب ابھی تک شو کی پروڈکشن ٹیم یا عائشہ عمر کی جانب سے اس شدید عوامی ردعمل پر کوئی باضابطہ بیان جاری نہیں کیا گیا ہے۔

تاہم، ٹیزر میں عائشہ عمر نے دعویٰ کیا ہے کہ یہ پروگرام ایک بالکل منفرد اور پاکستان کے لیے نیا تجربہ ہوگا جو ناظرین نے پہلے کبھی نہیں دیکھا ہوگا۔

دوسری جانب امن ترقی پارٹی کے بانی چیئرمین محمد فائق شاہ نے پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی (پیمرا) کو ایک خط لکھا ہے جس میں لازوال عشق ڈیٹنگ شو پر فوری پابندی کا مطالبہ کیا ہے،

انہوں نے درخواست میں لازوال عشق جو یوٹیوب پر نشر ہورہا ہے، شوکو پاکستانی اقدار اور روایات کے خلاف قرار دیا ہے، محمد فائق شاہ کا کہنا ہے کہ غیر اسلامی و غیر اخلاقی مواد نوجوانوں کو گمراہ کر رہا ہے۔

معاشرتی اور خاندانی نظام کو تباہ کرنے والا مواد ناقابل قبول ہے۔ لازوال عشق ڈیٹنگ شو درآمدی فارمیٹ ہے جو فحاشی اور بے راہ روی کو فروغ دے گا،انہوں نے پیمرا اور پی ٹی اے کو سخت نگرانی کا مطالبہ کیا ہے۔

متعلقہ مضامین

  • عائشہ عمر کا نازیبا ریئلٹی شو؛ پیمرا نے وضاحت جاری کردی
  • سکولز میں بچوں کے موبائل فون استعمال کرنے پر پابندی کی قرارداد منظور
  • این سی سی آئی اے کی جیل میں تفتیش، سوشل میڈیا اکاؤنٹس سے متعلق سوالات پر عمران خان مشتعل ہوگئے
  • این سی سی آئی اے کی عمران خان سے جیل میں تفتیش: سوشل میڈیا اکاؤنٹس سے متعلق سوال پر جذباتی ردعمل
  •  لازوال عشق ڈیٹنگ شوکا ٹیرز جاری: سوشل میڈیا صارفین نے بے حیائی اور فحاشی کے فروغ کی کوشش قرار دیدیا
  • ہمارے احتجاج سے قاضی فائز عیسیٰ کو ایکسٹینشن نہیں ملی،علی امین گنڈاپور
  • نیپال: روایتی ووٹنگ نہیں، سوشل میڈیا پر ہوگا وزیر اعظم کا انتخاب
  • روایتی ووٹنگ نہیں، سوشل میڈیا پر ہوگا وزیر اعظم کا انتخاب، نیپال
  • ہمارے احتجاج کے باعث قاضی فائز عیسیٰ کو ایکسٹینشن نہیں ملی، علی امین گنڈاپور
  • سوشل میڈیا اسٹار احمد شاہ کا چھوٹا بھائی عمر انتقال کرگیا