Nai Baat:
2025-09-27@10:16:17 GMT

جناب جاوید احمد غامدی سے سوال؟

اشاعت کی تاریخ: 8th, February 2025 GMT

جناب جاوید احمد غامدی سے سوال؟

اگلے روز جناب جاوید احمد غامدی کا ایک پروگرام یو ٹیوب پر دیکھا، میں اکثر ان کے پروگرام دیکھتا، سنتا اور کوئی متاثر کن بات لگے تو اس کو دوستوں میں بھی شیئر کرتا ہوں۔ اس پروگرام میں ان سے سوال کیا گیا جو درحقیقت ان کا اپنا ہی دیا ہوا سوال ہوتا ہے جو وہ اپنے آپ کراتے ہیں اور اس کے جواب کی بھرپور تیاری کیے ہوئے ہوتے ہیں۔ وہ ایک جید اور بہت بڑے عالم ہیں۔ ان کی درس و تدریس کی زندگی ان کی پڑھی ہوئی کتابیں شاید جب وہ بتائیں تو کئی پروگرام درکار ہیں۔ سیاسی، مذہبی یا کسی بھی حوالے سے علمیت کے دعویدار کو ایک وقت ہوتا ہے کہ بہت کم لوگ سنتے ہیں لیکن پھر قدرت ایک وقت اس کو عطا کرتی ہے کہ لوگ اس کی بات توجہ سے بنتے، حوالہ دیتے اور عمل کرتے ہیں۔ جب کوئی نہیں سنتا تو بات اور ہے مگر جب سننے والے ایک حوالے کے طور پر حیثیت دے دیں تو پھر احتیاط لازم ہے جیسے غامدی صاحب نے فرمایا کہ داڑھی سنت نہیں ہے۔ سوال ہوا کہ آپ نے پہلے تو شعائر دین قرار دیا تھا۔ فرماتے ہیں تب میرا اتنا ہی علم تھا جبکہ خود کلین شیو نہیں کرتے بہرحال جب سننے والے حوالہ دینے لگے تو فرما دیا کہ داڑھی سنت رسول نہیں ہے۔ میرا موضوع ان پر کیا گیا یہ سوال ہے اور اس کا جواب ہے کہ کیا آقا کریم جنات کے بھی رسول تھے جس کے جواب میں وہ اپنی علمی رعونت میں مسکراتے ہوئے جواب دیتے ہیں کہ میری تو عمر گزر گئی اس بات کی وضاحت کرتے کرتے پھر کہے دیتا ہوں۔ فرمانے لگے کہ قرآن عظیم کے اصول کے خلاف ہے یعنی جس پیغمبر کو بھی بھیجا جائے گا وہ انہی لوگوں میں سے بھیجا جائے گا پھر حوالہ دیتے ہوئے فرمایا ”کہ اے جن و انس کیا تمہارے اندر تم میں سے ہی رسول نہیں آئے؟ (مفہوم) یہاں میں پہلا سوال کرتا ہوں کہ کیا جنوں کے کسی نبی کا نام بتا سکتے ہیں؟ پھر بالکل ہی سیاق و سباق اور حقائق سے ہٹ کر توجیہ بیان کر دی گئی کہ جنوں پر الہام ہوتا ہے اور کہانت کا سارا دار و مدار جنات کے الہام پر ہے اور یہ کہ جن اوپر یعنی فرشتوں کے پاس کی گئی باتیں سن سکتے ہیں،
کہ کیا ہونے والا ہے اور یوں انہوں نے قرآن کریم کی آیات سن لیں جبکہ واقعہ یوں ہے ”اے نبی، کہو میری طرف وحی بھیجی گئی ہے کہ جنوں کے ایک گروہ نے غور سے سنا پھر (جا کر اپنی قوم کے لوگوں سے) کہا :”ہم نے ایک بڑا عجیب قرآن سنا ہے جو راہ راست کی طرف رہنمائی کرتا ہے اس لیے ہم اُس پر ایمان لے آئے ہیں اور اب ہم ہرگز اپنے رب کے ساتھ کسی کو شریک نہیں کریں گے۔“ اور یہ کہ ”ہمارے رب کی شان بہت اعلیٰ و ارفع ہے۔ اس نے کسی کو بیوی یا بیٹا نہیں بنایا ہے“۔ اور یہ کہ ”ہمارے نادان لوگ اللہ کے بارے میں بہت خلاف حق باتیں کہتے رہتے ہیں۔“ اور یہ کہ ”ہم نے سمجھا تھا کہ انسان اور جن کبھی خدا کے بارے میں جھوٹ نہیں بول سکتے۔“ اور یہ کہ ”انسانوں میں سے کچھ لوگ جنوں میں سے کچھ لوگوں کی پناہ مانگا کرتے تھے، اس طرح انہوں نے جنوں کا غرور اور زیادہ بڑھا دیا“۔ اور یہ کہ ”انسانوں نے بھی وہی گمان کیا جیسا تمہارا گمان تھا کہ اللہ کسی کو رسول بنا کر نہ بھیجے گا۔“ اور یہ کہ ”ہم نے آسمان کو ٹٹولا تو دیکھا کہ وہ پہریداروں سے اٹا پڑا ہے اور شہابیوں کی بارش ہو رہی ہے۔“ اور یہ کہ ”پہلے ہم سن گن لینے کے لیے آسمان میں بیٹھنے کی جگہ پا لیتے تھے، مگر اب جو چوری چھپے سننے کی کوشش کرتا ہے وہ اپنے لیے گھات میں ایک شہاب ثاقب لگا ہوا پاتا ہے۔“ اور یہ کہ ”ہماری سمجھ میں نہ آتا تھا کہ آیا زمین والوں کے ساتھ کوئی بُرا معاملہ کرنے کا ارادہ کیا گیا ہے یا ان کا رب انہیں راہ راست دکھانا چاہتا ہے۔“ اور یہ کہ ”ہم میں سے کچھ لوگ صالح ہیں اور کچھ اس سے فروتر ہیں، ہم مختلف طریقوں میں بٹے ہوئے ہیں۔“ اور یہ کہ ”ہم سمجھتے تھے کہ نہ زمین میں ہم اللہ کو عاجز کر سکتے ہیں اور نہ بھاگ کر اُسے ہرا سکتے ہیں۔“ اور یہ کہ ”ہم نے جب ہدایت کی تعلیم سنی تو ہم اس پر ایمان لے آئے۔ اب جو کوئی بھی اپنے رب پر ایمان لے آئے گا اسے کسی حق تلفی یا ظلم کا خوف نہ ہو گا۔“ اور یہ کہ ”ہم میں سے کچھ مسلم (اللہ کے اطاعت گزار) ہیں اور کچھ حق سے منحرف۔ تو جنہوں نے اسلام (اطاعت کا راستہ) اختیار کر لیا انہوں نے نجات کی راہ ڈھونڈ لی، اور جو حق سے منحرف ہیں وہ جہنم کا ایندھن بننے والے ہیں۔“(مفہوم)
گویا جناب آقا کریم کی محفل میں جن حاضر ہوئے جس کی اللہ نے وحی کے ذریعے آقا کریم کو خبر دی اور ان میں سے جو جن ایمان لائے ان کا ذکر ہے۔ میرا غامدی صاحب سے سوال ہے کہ ”رب العالمین“ رب کے عربی لغت میں معانی ہیں۔ مالک اور آقا، پالنے اور پرورش کرنے والا۔ خبر گیری اور نگہبانی کرنے والا، مدبر، فرمانروا، حاکم اور منتظم گویا ان سب معنوں میں کائنات کا رب ہے۔ اب آقا کریم کو سورة انبیاءمیں رحمت اللعالیمن کا لقب دیا گیا ہے۔ ”اور ہم نے آپ(ﷺ) کو تمام جہانوں کیلئے رحمت بنا کر بھیجا۔ (مفہوم)“۔
اب اگر رب العالمین تمام عالمین کا رب ہے تو ظاہر اس میں تمام سیارے، زمین، آسمان، سمندر، فضائیں پوری کی پوری کائنات جس کو انسان دیکھ بھی نہیں سکا نہ اس کا علم احاطہ کر سکا، کا رب ہے اس میں صرف پہاڑ، زمین تو نہیں آتے بلکہ اس کائنات میں بسنے پلنے سانس لینے والی اور موجود تمام مخلوقات کا رب ہے۔ اب آقا کریم کو تمام عالمین کے لیے رحمت بنا کر بھیجا گیا۔ ظاہر ہے رحمت بغیر رسالت اور نبوت کے ممکن نہیں۔ یہ انبیاءکرام میں آقا کریم کا خاصا ہے کہ وہ تمام عالمین کے لیے رحمت بن کر آئے اور قیامت تک رہیں گے۔ تو میرا غامدی صاحب سے سوال ہے کہ رب کے لیے عالمین اور آقا کریم کی رحمت کے لیے عالمین میں کیا کوئی فرق ہے اور مخلوقات میں جن شمار نہیں ہیں، جن کے لیے ابھی آقا رحمت بن کر آئے اور اپنے ہی پروگرام میں غامدی صاحب فرماتے ہیں کہ اللہ کا پیغام تمام عالمین کے لیے ہوتا ہے اس میں انبیاءکرام کا ذکر کیا اور ان پر ایمان لانے والوں کا بھی کیا جو حقیقی ہے تو کیا جب آقا کریم کے ذریعے جو اللہ کا پیغام مکمل ہوا اس میں سے جن باہر ہیں اور رحمت اللعالمین کی تعریف عالمین کے حوالے سے مختلف ہے؟ میرے خیال سے اللہ رب العالمین ہے تو اللہ ہی نے فرمایا کہ خاتم النبیین رحمت اللعالمین ہیں اور اس عالمین کی تعریف میں کوئی تبدیلی نہیں لہٰذا رسول اللہ آقا کریم تمام عالمین کے بشمول جنات کے بھی رسول اور نبی ہیں۔ (جاری ہے)

.

ذریعہ: Nai Baat

کلیدی لفظ: تمام عالمین کے میں سے کچھ اور یہ کہ پر ایمان سکتے ہیں کا رب ہے سے سوال ہوتا ہے ہیں اور ہے اور کے لیے

پڑھیں:

تاثیرِ قرآن اور تعمیرِ کردار

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

قرآن کے اعجاز کا سب سے بڑا پہلو اس کی وہ قدرتِ تاثیر ہے جس سے یہ انسان کو اندر سے بدل کر رکھ دیتا ہے ۔ پھر یہ انسان ہر لمحہ اللہ تعالیٰ کو یوں اپنے سامنے حاضر وموجود پاتا ہے کہ اپنے تمام تر امور و معاملات میں اسی کی عبادت اور اسی کی اطاعت کا دم بھرتا ہے اور تسلیم و رضا کی اس انتہائی بلندی کو پہنچ جاتا ہے جس کے بارے میں خود قرآن ہی کا بیان ہے، ترجمہ: ’’کہو میری نماز، میرے تمام مراسمِ عبودیت، میرا جینا اور میرا مرنا، سب کچھ اللہ رب العالمین کے لیے ہے‘‘ (الانعام: 162)۔
مذکورہ آیت میں جس تبدیلی کا ذکر ہے قرآن انسان کے دل کے اندر اپنا نور داخل کرکے اس تبدیلی کا آغاز کرتا ہے۔ چوںکہ یہ نور اپنے اندر پھیلنے کی صلاحیت رکھتا ہے لہٰذا رفتہ رفتہ بڑھتا رہتا ہے اور زندگی بھی اسی رفتار سے اس کی لَو میں چلنے لگتی ہے اور بالآخر یہ انسان ایک نئی زندگی کا آغاز کر لیتا ہے جس سے وہ پہلے آشنا ہوتا ہے نہ اس کا خوگر اور عادی!
قرآنِ کریم نے انسانی دل میں اس نور کے داخل ہونے سے قبل کی زندگی کو موت سے تعبیر کیا ہے اور بعد کی زندگی کو حیات کا نام دیا ہے، فرمایا، ترجمہ: ’’کیا وہ شخص جو پہلے مردہ تھا پھر ہم نے اسے زندگی بخشی اور اس کو وہ روشنی عطا کی جس کے اجالے میں وہ لوگوں کے درمیان زند گی کی راہ طے کرتا ہے اس شخص کی طرح ہو سکتا ہے جو تاریکیوں میں پڑا ہوا ہو اور کسی طرح اُن سے نہ نکلتا ہو‘‘ (الانعام :122)۔
اس اعتبار سے قرآن وہ روح ہے، جو دل میں جاگزیں ہو کر دل کو زندگی سے ہمکنار کردیتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے بھی قرآنِ مجید کے بارے میں یہی بیان کیا ہے، فرمایا، ترجمہ: ’’اسی طرح (اے نبیؐ)! ہم نے اپنے حکم سے ایک روح تمھاری طرف وحی کی ہے۔ تمھیں کچھ پتا نہ تھا کہ کتاب کیا ہوتی ہے اور ایمان کیا ہوتا ہے، مگر اس روح کو ہم نے ایک روشنی بنا دیا جس سے ہم راہ دکھاتے ہیں اپنے بندوں میں سے جسے چاہتے ہیں ‘‘ (الشوریٰ: 52)۔

جب یہ روح دل میں داخل ہوتی ہے تو دل کے تمام گوشے نورِ ایمان سے جگمگا اٹھتے ہیں۔ پھر اس روشنی کا کام یہ ہوتا ہے کہ وہ خواہشات اور حُبِّ دنیا کو وہاں سے نکال باہر کرتی ہے اور اس کا اثر انسان کے کردار، اس کی ترجیحات اور دلچسپیوں پر واضح دکھائی دیتا ہے کہ وہ سب بدل کر رہ جاتے ہیں۔ یہی وہ کیفیت ہے جس کو نبی اکرمؐ نے اس موقع پر واضح فرمایا تھا جب صحابہؓ نے قرآنِ مجید کی اس آیت کے بارے میں دریافت کیا تھا، ترجمہ: ’’کیا وہ شخص جس کا سینہ اللہ نے اسلام کے لیے کھول دیا اور وہ اپنے رب کی طرف سے ایک روشنی پر چل رہا ہے‘‘ (الزمر: 22)۔ (اس شخص کی طرح ہو سکتا ہے جس نے ان باتوں سے سبق نہ لیا؟)۔ نبی کریمؐ نے فرمایا: ’’جب نور دل میں داخل ہو جاتا ہے تو دل کھل جاتا ہے اور کشادہ ہو جاتا ہے‘‘۔ صحابہؓ نے پوچھا: یارسولؐ! اس کی نشانی کیا ہے؟ آپؐ نے فرمایا: (آخرت) کی طرف میلان اور دارِغرور (دنیا) سے کنارہ کشی اور موت کے آنے سے پہلے پہلے موت کے لیے تیاری‘‘ (اخرجہ البیہقی فی الزھد)۔
قرآنِ کریم کی تاثیر اور انسانی دلوں کو بدل ڈالنے کی قوت ناقابل بیان ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس کی ایک مثال قرآنِ کریم میں ہی بیان فرمائی ہے۔ فرمایا، ترجمہ: ’’اگر ہم نے یہ قرآن کسی پہاڑ پر بھی اُتار دیا ہوتا تو تم دیکھتے کہ وہ اللہ کے خوف سے دبا جا رہا ہے اور پھٹا پڑتا ہے۔ یہ مثالیں ہم لوگوں کے سامنے اس لیے بیان کرتے ہیں کہ وہ (اپنی حالت پر) غور کریں‘‘ (الحشر: 21)۔
امام قرطبیؒ کہتے ہیں کہ اگر پہاڑوں کو عقل عطا کرکے ان سے قرآن کے الفاظ میں خطاب کیا جاتا تو پہاڑ اس کے مواعظ کے سامنے یوں مطیع ہو جاتے کہ تم ان کی سختی کے باوجود انھیں اللہ کے خوف وخشیت سے روتا اور ٹوٹتا پھوٹتا دیکھتے (الجامع لاحکام القرآن)۔

قرآنِ کریم کی اس مثال میں قرآنِ حکیم کی قوتِ تاثیر پر غور و فکر کرنے کی دعوت بھی ہے تاکہ تمام انسانوں کے لیے حجت قائم ہو جائے اور اس آدمی کا دعویٰ غلط قرار پائے جو یہ کہتا ہو کہ وہ قرآن کو سمجھنے کی اہلیت نہیں رکھتا۔
جو شخص پوری دیانت داری اور طلبِ ہدایت کے ارادے سے قرآن کو کتابِ ہدایت و شفا سمجھ کر اس کی طرف آتا ہے، اس شخص پر قرآن کی عجیب تاثیر ہوتی ہے۔ اس کی شخصیت میں گہری بنیادوں پر استوار ہونے والا ایک مکمل انقلاب برپا ہو جاتا ہے۔ اس کی شخصیت کی ڈھلائی اور تشکیل ایک ایسے نئے انداز سے ہوتی ہے جو اللہ تعالیٰ کو پسند اور محبوب ہے۔ اس باب میں اگر کسی کو شک ہو تو وہ اُن اصحابِ رسولؐ کی زندگیوں کا مطالعہ کرے جو اسلام سے قبل جاہلیت کی اتھاہ گہرائیوں میں ڈوبے ہوئے تھے، لیکن اسی حالت میں جب قرآن کی بھٹی میں داخل ہوتے ہیں تو ایسے نئے انسان بن کر باہر نکلتے ہیں جن پر ساری انسانیت کو آج تک فخر ہے۔
قرآن نے صحابہؓ کو اس لیے بدل کر رکھ دیا تھا کہ صحابہؓ قرآن کو سمجھنے، اس کے مقصدِ نزول کو جاننے اور اس کے معنی و مفہوم کی قیمت کا ادراک کر لینے کے بعد اسی کو اپنی زندگیوں کا رہنما سمجھتے تھے۔ صرف سمجھتے ہی نہیں تھے بلکہ اس کا سو فیصد مظاہرہ کرتے تھے۔ اس معاملے میں ان کے رہنما و مقتدا اور استاذ و معلّم رسولؐ تھے اور اللہ کے رسولؐ زندگی کے ایک ایک لمحے کو قرآن کی رہنمائی میں گزار رہے تھے۔ آپؐ کی زندگی پر قرآن کا رنگ یوں چڑھا ہوا تھا کہ آپؐ چلتے پھرتے قرآن تھے۔ آپؐ کا اندازِ تلاوت اور طریقۂ قرأت یہ تھا کہ آپؐ قرآن کو ٹھہر ٹھہر کر ترتیل کے ساتھ پڑھتے تھے۔ ایک بار تو آپؐ نے تہجد کی نماز میں یہ آیت دہراتے ساری رات گزار دی، ترجمہ: ’’اب اگر آپ انھیں سزا دیں تو وہ آپ کے بندے ہیں اور اگر معاف کر دیں تو آپ غالب اور دانا ہیں‘‘ (المائدہ : 118)۔
قرآن کی قوتِ تاثیر اس وقت مزید واضح ہوکر سامنے آتی ہے جب ہم رسولؐ کے یہ کلمات سنتے ہیں کہ: ’’مجھے سورۂ ہود اور اس جیسی دیگر سورتوں نے بوڑھا ہونے سے قبل ہی بوڑھا کر دیا ہے‘‘ (صحیح الجامع الصغیر)۔

جب اللہ کے رسولؐ پوری پوری رات ایک آیت کو دہراتے گزار دیتے ہیں اور قرآن کی تذکرۂ آخرت پر مشتمل سورتیں آپؐ کے اوپر بڑھاپا طاری کر دیتی ہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ محض قرآن کے الفاظ کی تلاوت سے یہ کیفیت پیدا نہیں ہو سکتی تھی۔ یہ لازماً قرآن کے مفہوم و معنٰی کے اثرات تھے۔ اس سے یہی نتیجہ نکلتا ہے کہ قرآن کی حقیقی قدروقیمت اس کے معانی و مفاہیم کے اندر ہے۔
آج ہمارے ہاتھوں میں بھی وہی قرآن ہے جو صحابہ کرامؓ کے پاس تھا۔ انھیں تو اس قرآن نے ایک بے مثال گروہ بنا دیا، لیکن ہم—؟ آج ہمارے اندر ان جیسے نمونے اور کردار کیوں پیدا نہیں ہوتے؟ کیا آج قرآن کی تاثیر ختم ہو گئی ہے؟ نہیں، ہرگز نہیں! قرآن کی تاثیر ختم نہیں ہوئی بلکہ وہ دلِ بیدار نہیں ہیں جن کے اندر یہ تاثیر پیدا ہوتی ہے۔ اس حقیقت سے مفر نہیں کہ قرآن کی طرف رجوع کی صورت میں ہی ہم اس پریشان کن صورتِ حال کو ختم کر سکتے ہیں۔ قرآن کو چھوڑ کر یا اس کو نظرانداز کرکے کوئی ذریعہ اور طریقہ ایسا نہیں جو امت کی اصلاح اور تبدیلی میں بنیادی کردار ادا کر سکے اور مطلوبہ نتائج فراہم کرے!

ارشاد الرحمن گلزار

متعلقہ مضامین

  • جلسوں سے بانی پی ٹی آئی آزاد نہیں ہونگے، گورنر خیبر پی کے فیصل کریم کنڈی 
  • عمران خان جلسوں سے آزاد نہیں ہوں گے، فیصل کریم کنڈی
  • وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا واضح پالیسی دیں،اداروں کےساتھ ہیں یادہشتگردوں کے،فیصل کریم کنڈی
  • 6-0 کے اشارے پر بھارتی بورڈ کو کیا اعتراض ہے؟ حارث رؤف کا سماعت کے دوران آئی سی سی سے سوال
  • سلمان اکرم راجہ نے فلک جاوید کی گرفتاری اور ڈیل کی خبروں کی تردید کر دی
  • تاثیرِ قرآن اور تعمیرِ کردار
  • آپ لوگ جب جیل میں تھے ،تومیڈیا سے بات کر سکتے تھے،پیشیوں پر آتے تھے مگر یہاں عمران خان کو وٹس ایپ کال پر پیش کیا جارہا ہے،عاصمہ جہانگیر کے سوال پر رانا ثنا اللہ نے کیا جواب دیا؟جانیے
  • فواد چوہدری نے فلک جاوید کی گرفتاری پر رد عمل جاری کر دیا 
  • عملدرآمد کرانیوالی عدالت ڈگری کوکالعدم نہیں کر سکتی ،جسٹس شکیل احمد
  • ایم کیو ایم کے الزامات بے بنیاد، کراچی کو نعروں نہیں عملی خدمت کی ضرورت ہے، سعدیہ جاوید