جناب جاوید احمد غامدی سے سوال؟
اشاعت کی تاریخ: 8th, February 2025 GMT
اگلے روز جناب جاوید احمد غامدی کا ایک پروگرام یو ٹیوب پر دیکھا، میں اکثر ان کے پروگرام دیکھتا، سنتا اور کوئی متاثر کن بات لگے تو اس کو دوستوں میں بھی شیئر کرتا ہوں۔ اس پروگرام میں ان سے سوال کیا گیا جو درحقیقت ان کا اپنا ہی دیا ہوا سوال ہوتا ہے جو وہ اپنے آپ کراتے ہیں اور اس کے جواب کی بھرپور تیاری کیے ہوئے ہوتے ہیں۔ وہ ایک جید اور بہت بڑے عالم ہیں۔ ان کی درس و تدریس کی زندگی ان کی پڑھی ہوئی کتابیں شاید جب وہ بتائیں تو کئی پروگرام درکار ہیں۔ سیاسی، مذہبی یا کسی بھی حوالے سے علمیت کے دعویدار کو ایک وقت ہوتا ہے کہ بہت کم لوگ سنتے ہیں لیکن پھر قدرت ایک وقت اس کو عطا کرتی ہے کہ لوگ اس کی بات توجہ سے بنتے، حوالہ دیتے اور عمل کرتے ہیں۔ جب کوئی نہیں سنتا تو بات اور ہے مگر جب سننے والے ایک حوالے کے طور پر حیثیت دے دیں تو پھر احتیاط لازم ہے جیسے غامدی صاحب نے فرمایا کہ داڑھی سنت نہیں ہے۔ سوال ہوا کہ آپ نے پہلے تو شعائر دین قرار دیا تھا۔ فرماتے ہیں تب میرا اتنا ہی علم تھا جبکہ خود کلین شیو نہیں کرتے بہرحال جب سننے والے حوالہ دینے لگے تو فرما دیا کہ داڑھی سنت رسول نہیں ہے۔ میرا موضوع ان پر کیا گیا یہ سوال ہے اور اس کا جواب ہے کہ کیا آقا کریم جنات کے بھی رسول تھے جس کے جواب میں وہ اپنی علمی رعونت میں مسکراتے ہوئے جواب دیتے ہیں کہ میری تو عمر گزر گئی اس بات کی وضاحت کرتے کرتے پھر کہے دیتا ہوں۔ فرمانے لگے کہ قرآن عظیم کے اصول کے خلاف ہے یعنی جس پیغمبر کو بھی بھیجا جائے گا وہ انہی لوگوں میں سے بھیجا جائے گا پھر حوالہ دیتے ہوئے فرمایا ”کہ اے جن و انس کیا تمہارے اندر تم میں سے ہی رسول نہیں آئے؟ (مفہوم) یہاں میں پہلا سوال کرتا ہوں کہ کیا جنوں کے کسی نبی کا نام بتا سکتے ہیں؟ پھر بالکل ہی سیاق و سباق اور حقائق سے ہٹ کر توجیہ بیان کر دی گئی کہ جنوں پر الہام ہوتا ہے اور کہانت کا سارا دار و مدار جنات کے الہام پر ہے اور یہ کہ جن اوپر یعنی فرشتوں کے پاس کی گئی باتیں سن سکتے ہیں،
کہ کیا ہونے والا ہے اور یوں انہوں نے قرآن کریم کی آیات سن لیں جبکہ واقعہ یوں ہے ”اے نبی، کہو میری طرف وحی بھیجی گئی ہے کہ جنوں کے ایک گروہ نے غور سے سنا پھر (جا کر اپنی قوم کے لوگوں سے) کہا :”ہم نے ایک بڑا عجیب قرآن سنا ہے جو راہ راست کی طرف رہنمائی کرتا ہے اس لیے ہم اُس پر ایمان لے آئے ہیں اور اب ہم ہرگز اپنے رب کے ساتھ کسی کو شریک نہیں کریں گے۔“ اور یہ کہ ”ہمارے رب کی شان بہت اعلیٰ و ارفع ہے۔ اس نے کسی کو بیوی یا بیٹا نہیں بنایا ہے“۔ اور یہ کہ ”ہمارے نادان لوگ اللہ کے بارے میں بہت خلاف حق باتیں کہتے رہتے ہیں۔“ اور یہ کہ ”ہم نے سمجھا تھا کہ انسان اور جن کبھی خدا کے بارے میں جھوٹ نہیں بول سکتے۔“ اور یہ کہ ”انسانوں میں سے کچھ لوگ جنوں میں سے کچھ لوگوں کی پناہ مانگا کرتے تھے، اس طرح انہوں نے جنوں کا غرور اور زیادہ بڑھا دیا“۔ اور یہ کہ ”انسانوں نے بھی وہی گمان کیا جیسا تمہارا گمان تھا کہ اللہ کسی کو رسول بنا کر نہ بھیجے گا۔“ اور یہ کہ ”ہم نے آسمان کو ٹٹولا تو دیکھا کہ وہ پہریداروں سے اٹا پڑا ہے اور شہابیوں کی بارش ہو رہی ہے۔“ اور یہ کہ ”پہلے ہم سن گن لینے کے لیے آسمان میں بیٹھنے کی جگہ پا لیتے تھے، مگر اب جو چوری چھپے سننے کی کوشش کرتا ہے وہ اپنے لیے گھات میں ایک شہاب ثاقب لگا ہوا پاتا ہے۔“ اور یہ کہ ”ہماری سمجھ میں نہ آتا تھا کہ آیا زمین والوں کے ساتھ کوئی بُرا معاملہ کرنے کا ارادہ کیا گیا ہے یا ان کا رب انہیں راہ راست دکھانا چاہتا ہے۔“ اور یہ کہ ”ہم میں سے کچھ لوگ صالح ہیں اور کچھ اس سے فروتر ہیں، ہم مختلف طریقوں میں بٹے ہوئے ہیں۔“ اور یہ کہ ”ہم سمجھتے تھے کہ نہ زمین میں ہم اللہ کو عاجز کر سکتے ہیں اور نہ بھاگ کر اُسے ہرا سکتے ہیں۔“ اور یہ کہ ”ہم نے جب ہدایت کی تعلیم سنی تو ہم اس پر ایمان لے آئے۔ اب جو کوئی بھی اپنے رب پر ایمان لے آئے گا اسے کسی حق تلفی یا ظلم کا خوف نہ ہو گا۔“ اور یہ کہ ”ہم میں سے کچھ مسلم (اللہ کے اطاعت گزار) ہیں اور کچھ حق سے منحرف۔ تو جنہوں نے اسلام (اطاعت کا راستہ) اختیار کر لیا انہوں نے نجات کی راہ ڈھونڈ لی، اور جو حق سے منحرف ہیں وہ جہنم کا ایندھن بننے والے ہیں۔“(مفہوم)
گویا جناب آقا کریم کی محفل میں جن حاضر ہوئے جس کی اللہ نے وحی کے ذریعے آقا کریم کو خبر دی اور ان میں سے جو جن ایمان لائے ان کا ذکر ہے۔ میرا غامدی صاحب سے سوال ہے کہ ”رب العالمین“ رب کے عربی لغت میں معانی ہیں۔ مالک اور آقا، پالنے اور پرورش کرنے والا۔ خبر گیری اور نگہبانی کرنے والا، مدبر، فرمانروا، حاکم اور منتظم گویا ان سب معنوں میں کائنات کا رب ہے۔ اب آقا کریم کو سورة انبیاءمیں رحمت اللعالیمن کا لقب دیا گیا ہے۔ ”اور ہم نے آپ(ﷺ) کو تمام جہانوں کیلئے رحمت بنا کر بھیجا۔ (مفہوم)“۔
اب اگر رب العالمین تمام عالمین کا رب ہے تو ظاہر اس میں تمام سیارے، زمین، آسمان، سمندر، فضائیں پوری کی پوری کائنات جس کو انسان دیکھ بھی نہیں سکا نہ اس کا علم احاطہ کر سکا، کا رب ہے اس میں صرف پہاڑ، زمین تو نہیں آتے بلکہ اس کائنات میں بسنے پلنے سانس لینے والی اور موجود تمام مخلوقات کا رب ہے۔ اب آقا کریم کو تمام عالمین کے لیے رحمت بنا کر بھیجا گیا۔ ظاہر ہے رحمت بغیر رسالت اور نبوت کے ممکن نہیں۔ یہ انبیاءکرام میں آقا کریم کا خاصا ہے کہ وہ تمام عالمین کے لیے رحمت بن کر آئے اور قیامت تک رہیں گے۔ تو میرا غامدی صاحب سے سوال ہے کہ رب کے لیے عالمین اور آقا کریم کی رحمت کے لیے عالمین میں کیا کوئی فرق ہے اور مخلوقات میں جن شمار نہیں ہیں، جن کے لیے ابھی آقا رحمت بن کر آئے اور اپنے ہی پروگرام میں غامدی صاحب فرماتے ہیں کہ اللہ کا پیغام تمام عالمین کے لیے ہوتا ہے اس میں انبیاءکرام کا ذکر کیا اور ان پر ایمان لانے والوں کا بھی کیا جو حقیقی ہے تو کیا جب آقا کریم کے ذریعے جو اللہ کا پیغام مکمل ہوا اس میں سے جن باہر ہیں اور رحمت اللعالمین کی تعریف عالمین کے حوالے سے مختلف ہے؟ میرے خیال سے اللہ رب العالمین ہے تو اللہ ہی نے فرمایا کہ خاتم النبیین رحمت اللعالمین ہیں اور اس عالمین کی تعریف میں کوئی تبدیلی نہیں لہٰذا رسول اللہ آقا کریم تمام عالمین کے بشمول جنات کے بھی رسول اور نبی ہیں۔ (جاری ہے)
ذریعہ: Nai Baat
کلیدی لفظ: تمام عالمین کے میں سے کچھ اور یہ کہ پر ایمان سکتے ہیں کا رب ہے سے سوال ہوتا ہے ہیں اور ہے اور کے لیے
پڑھیں:
دعاؤں کی قبولیت کا مجرب نسخہ
آواز
ایم سرور صدیقی
درویش کے چہرے پر بلا کا نور تھا۔ ایسے لگ رہا تھا جیسے کوئی فرشتہ آسمان سے اُتر آیا ہو۔ اس کی گفتگو دل میں اترتی محسوس ہونے لگی ۔وہ بڑی متانت سے بولے جارہاتھا ،اگرمانگنے کا سلیقہ آتا ہو تودعا کے لئے ہاتھ اٹھنے سے پہلے ہی قبولیت کی مہر لگ جاتی ہے۔ دراصل آج تک ہمیں مانگنے کا سہی سلیقہ ہی نہیں آیا، ہم نے آنسو بہانا سیکھ لیاہے، وظائف سیکھ لئے ، ہم نے لمبی چوڑی دعائیں سیکھ لیں، ہم نے نسبت کا سہارا بھی لے لیا، الٹی سیدھی خواہشات کے حصول کے لئے شعبدہ بازوںکے پاس جانا وطیرہ بنالیا ۔اکثرلالچ یا دکھاوے کے لئے اللہ کی راہ میں بھی بانٹتے ہیں چلو اس سے کسی کی ضرورت تو پوری ہوجاتی ہوگی لیکن اللہ کی راہ میں دینے کے لئے خلوص انتہائی ضروری ہے ۔
درویش نے دور کہیں خلائوںمیں گھورتے ہوئے کہا چلو یہ بھی سب اچھا ہے، درست ہے بلکہ بہت عمدہ ہے۔میں بالکل بھی اِن سب ادائوں کی نفی نہیں کر رہا ہوں ۔تمام اچھی باتوں پرسر تسلیم خم کرتا ہوں لیکن یہ سب کچھ کرنے کے باوجود بھی تیرے دل میں کہیں کہیں بیتابی اور خیالوں میں الجھے ہوئے خیال باقی رہ جاتے ہیں تو میاں پھر اپنی ادائوںپر غور کی ضرورت ہے کیونکہ بات نہیں بن رہی۔ دل کو سو فیصد راحت اور سکون نہیں توثابت ہوا ہمیں اب تلک حقیقی معنوں میں مانگنے کا سلیقہ ہی نہیں آیا۔ ہم نے بظاہرخودکو پاک صاف کر لیا، کپڑا اچھا پہن لیا، چہرہ خوبصورت بنا لیا، خوشبو عمدہ لگا لی، حتی کہ سجدے بھی لمبے لمبے کر لئے ، نمازیں بھی پوری ادا کر لیں اور بالآخر حج بھی کرلیا اب حاجی صاحب کے القاب سے پھولے نہیں سماتے ۔ درویش نے ایک گہری سانس لے کر سامعین پر نظر دوڑائی پھرگویا ہوئے میاں پھر کہتا ہوں سب قبول ہے اور اچھا دستورِ زندگی کے یہی تقاضے ہیں مگر ذرا غورکیا ہے کبھی تو نے اپنے اندر بھی جھانکا ہے ۔یقینا دل گواہی دے گا۔ اپنے لئے اتنا سب کچھ کرنے کی ضرورت بھی تھی یا اِس سے کم میں بھی بات بن سکتی تھی پھر جو تو نے کیا اس میں خالص اللہ کی رضا کے لیے کتنا تھا؟ کبھی مڑ کر پیچھے بھی تو دیکھ لے، مگر تو کیوں دیکھے گا پیچھے ، تیرا تو پیٹ بھرا ہوا ہے تجھے کسی کے پیٹ پر بندھے پتھر بھلا کیسے نظر آنے والا ہے۔پیٹ پر پتھر تو آقا ۖ نے بھی باندھے تھے اور جو جو کام اللہ کے حبیب ۖ نے ایک بار کر دیا ہے، خدا کی قسم وہ مٹنے والا نہیں ، اللہ کے حبیب ۖ کی ہرہر ادا مسلمانوںکو مجبوب ہونی چاہیے ۔پیٹ پر پتھرباندھنا بھی تو سنت ہے اور اب آپ کہیں گے ہر سنت پر آج کے دور میں کیونکر عمل ہو سکتاہے ۔ یہ کہتے ہوئے درویش زارو قطار رونے لگا۔ سامعین حیران پریشان اسے تک رہے تھے ،پھر درویش نے اپنا دامن اٹھایا اس کے پیٹ پردو پتھر بندھے ہوئے تھے ۔اس نے آنسوئوں سے بھیگی داڑھی پر دونوںہاتھ پھیرے، حدِ نظر پھیلے حاضرین کو مخاطب کرتے ہوئے کہا با خدا آج رزق کی فراوانی ہے ۔اللہ ہمیں دنیاجہاںکی ہر نعمت عطافرماتاہے مگرپھربھی ناشکری ہماری نس نس میں زہرکی طرح پھیل گئی ہے ۔سوچتاہوں وہ کیا عالم ہوگا جب اللہ کے حبیب ۖ نے اپنے جسم ِ اطہر پر دو دو پتھر باندھے تھے میں ان کی سنت زندہ کرنے کے لئے کبھی کبھار پیٹ پر پتھرباندھتا ہوں دو دن کا فاقہ تو دو پتھر۔۔ رکھنے کو تو روزے بھی رکھے جاسکتے ہیں لیکن پھر کیسے احساس ہوتا کہ رحمت ِ عالم ۖ فاقے سے تھے مگر آج اس فلسفہ کو کون دیکھے، کون سمجھے ؟ حالانکہ آج کے دور میں فاقوں سے اتنے لوگ نہیں مرتے جتنے بدہضمی سے مرجاتے ہیں ، وہ نظر کوئی کہاں سے لائے ، چونکہ بھرے پیٹ ایسا ماجرا تو نظر آنے والا نہیں ہے، جب وہ نظر ہوگی جب وہ مانگنے کا سلیقہ ہوگا ، مانگنے کے سلیقے کا صحیح مطلب یہ ہے کہ جس جس کا جو جو حق چاہتے نا چاہتے آپ کے پاس کیسے بھی آ گیا ہے تو واپس لوٹا دو، قرضوں کو فی الفور ادا کیاکرو، پڑوسی کو عزت دو ، اس کا اکرام کرو، بھائی کو بھائی مان لو، بہن کو اور بیٹی کو اس کا حق فوراً دے دو۔ یہی تمہارے حق میں بہترہے ، اللہ کی مقرر کردہ حدود کے قریب بھی مت بھٹکو ورنہ تمہاراشمارحد سے تجاوزکرنے والوں میں ہو گا اور تمہیں پتہ بھی نہیں چلے گا اس کا ایک مطلب یہ بھی ہے کہ زنا، قتل، شراب، چوری،حق تلفی،بدزبانی اور دیگر جتنے بھی بے حیائی والے کام ہیں ان سے توبہ کرلو کیا تمہیں یادنہیں اِن سب باطل کاموں کی ابتدا جھوٹ ہے بلکہ مذاق میں بولا گیا جھوٹ بھی گناہ ہے، خیر باتوں سے بات نکلتی نکلتی کبھی کس رخ کو جاتی ہے کبھی کس رخ کو مجھے خود بھی نہیں پتہ، مگر بات شروع کرنے سے پہلے یہی نیت کی تھی کہ اللہ مجھے وہ بات کہنے کی توفیق دے جو اس کے بندوں کے حق میں بہتر ہو، میں آج تمہیں ایک راز کی بات بتائوں اللہ تبارک تعالیٰ سے مانگنے کا صحیح اور سو فیصد طریقہ یہ ہے کہ اپنے والدین کو راضی کر لو پھر ان کے وسیلہ سے اللہ سے مانگو۔ یقینا یہ دعا ردنہیں ہوسکتی ۔والدین جیسے راضی ہوتے ہیں ان کو راضی کر لو ۔وہ تمہاری تھوڑی سی توجہ سے خوش ہوجائیں گے ۔ان کے پاس تو بیٹھا کرو جیسے بچپن میں وہ تمہیں خوش کیا کرتے تھے ،آج ان کو خوش کرنے کیلئے کبھی کبھار ان کی پسندکی کوئی چیز لے آیا کرو ۔ اس کے بدلے میں تیرے والدین اتنی دعائیں دیں گے کہ اللہ پاک تمہاری ہر دعا شرف ِ قبولیت بخشے گا۔ کبھی غورکرو آج ہم دنیا کے مشغلوں میں اس قدرگم ہو گئے ہیں ہم اپنے آپ کو ہی کھو بیٹھے ہیں کبھی خود کو بھی تلاش کر اسی میں عافیت ہے۔ تیرا با پ جنت کا دروازہ ہے اور جنت تیری ماں کے قدموں میں پڑی ہے اور تو مورکھ در در کی ٹھوکریں کھاتا پھرتا ہے اور لوگوں سے جنت کا پتہ پو چھتا پھرے یہ انصاف تو نہیں ہے ۔والدین راضی ہونگے تو اللہ راضی ہوگا ، اللہ راضی ہوگا تو جگ راضی ہوگا،اور سنو اللہ کی مخلوق کو معاف کرنا زندگی کا شعاربنالو ۔معاف کرنا اللہ کی شان ہے ۔اس عادت کے طفیل اللہ تمہاری غلطیوں،کوتاہیوں اور گناہوںکو معاف کرے گا۔ یقین جانو دعائوںکی قبولیت کا یہ ایک مجرب نسخہ ہے۔ دعاہے ا للہ ہمیں اپنے والدین کو ہمیشہ راضی رکھنے کی توفیق عطاکرے اور اپنی اور اپنے حبیب ۖ کی محبت عطا فرما ئے ۔آمین