امریکی محکمہ خارجہ ٹیسلا سے 40کروڑ ڈالرکی بلٹ پروف گاڑیاں خریدے گا
اشاعت کی تاریخ: 14th, February 2025 GMT
واشنگٹن (انٹرنیشنل ڈیسک) امریکی میڈیا نے انکشاف کیا ہے کہ امریکی محکمہ خارجہ میںٹیسلا سے 40کروڑ ڈالرکی بلٹ پروف گاڑیاں خریدنے کا معاہدہ زیر غور ہے۔ خبر رساں ادارے ڈراپ سائٹ نے سرکاری دستاویزات جاری کرتے ہوئے کہ ٹرمپ کے صدر بننے کے بعد ٹیسلا یقینی طور پر سب سے بڑا معاہدہ کرنے میں کامیاب ہوجائے گی۔ اس سے قبل ایلون مسک نے یقین دہانی کرائی تھی کہ وہ حکومتی فنڈز کے استعمال میں مکمل غیر جانبداری برقرار رکھیں گے اور مفادات کے ٹکراؤ کا کوئی مسئلہ نہیں ہوگا۔
.ذریعہ: Jasarat News
پڑھیں:
حکومت کی عبوری گندم پالیسی تیار، نجی شعبہ 6.25 ملین ٹن گندم خریدے گا
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
اسلام آباد: حکومتِ پاکستان نے رواں سال کے لیے گندم خریداری کا جامع منصوبہ تیار کرتے ہوئے عبوری گندم پالیسی کے ڈرافٹ کو حتمی شکل دے دی ہے، جس کے تحت وفاقی اور صوبائی حکومتیں نجی شعبے کے ذریعے مجموعی طور پر 6.25 ملین میٹرک ٹن گندم خریدیں گی۔
میڈیا رپورٹس کےمطابق گندم کی عبوری پالیسی کی سفارشات آئندہ ہفتوں میں وفاقی کابینہ کے اجلاس میں پیش کی جائیں گی، پالیسی کے تحت وفاق کی جانب سے 1.5 ملین ٹن، پنجاب 2.5 ملین ٹن، سندھ ایک ملین ٹن، خیبر پختونخوا 7.5 لاکھ ٹن جبکہ بلوچستان 5 لاکھ ٹن گندم خریدے گا۔
ذرائع وزارتِ فوڈ سیکیورٹی کے مطابق اس بار وفاقی اور صوبائی حکومتیں کاشتکاروں سے براہِ راست خریداری نہیں کریں گی، بلکہ نجی شعبے کے ذریعے گندم کی خریداری کا عمل مکمل کیا جائے گا۔ اس اقدام کا مقصد مارکیٹ کے نظام کو مؤثر بنانا اور حکومتی مالی بوجھ کو کم کرنا ہے، حکومت نے گندم کی انڈیکیٹو (اشاریاتی) قیمت خرید 3 ہزار 500 روپے فی من مقرر کی ہے۔
ذرائع وزارتِ فوڈ سیکیورٹی کے مطابق اگر بین الاقوامی مارکیٹ میں گندم کی قیمت میں اضافہ ہوتا ہے تو پاکستان میں بھی خریداری قیمت میں مناسب حد تک اضافہ کیا جائے گا تاکہ مارکیٹ توازن برقرار رہے۔
ذرائع کے مطابق عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) کی شرائط کے تحت اس بار گندم کی امدادی قیمت مقرر نہیں کی گئی، جبکہ صوبوں کے درمیان گندم کی نقل و حرکت پر کوئی پابندی عائد نہیں ہوگی۔
اقتصادی ماہرین کا کہنا ہے کہ نجی شعبے کے ذریعے گندم خریداری کا فیصلہ ایک نیا تجربہ ہوگا جو اگر شفافیت سے انجام پایا تو مقامی کاشتکاروں اور حکومت دونوں کے لیے فائدہ مند ثابت ہوسکتا ہے۔