بابراعظم نے ویرات کوہلی کو پیچھے چھوڑ دیا، ایک روزہ کرکٹ میں تیز ترین 6 ہزار رنز مکمل
اشاعت کی تاریخ: 14th, February 2025 GMT
پاکستانی بلے باز بابر اعظم ایک روزہ کرکٹ میں مشترکہ طور پر تیز ترین 6 ہزار رنز بنانے والے کھلاڑی بن گئے ہیں۔ انہوں نے 123 اننگز میں 6 ہزار رنز بنا کر ہاشم آملہ کا ریکارڈ برابر کیا ہے۔
نیشنل اسٹیڈیم کراچی میں سہ ملکی سیریز کے فائنل میچ میں نیوزی لینڈ کے خلاف بیٹنگ کرتے ہوئے 10واں رن لیتے ہی انہوں نے یہ سنگِ میل عبور کیا۔ تاہم وہ 29 رنز بنانے کے بعد پویلین لوٹ گئے۔ بابراعظم یہ کارنامہ انجام دینے والے تیز ترین ایشین بھی ہیں کیونکہ بھارت کے ویرات کوہلی نے 136 اننگز میں 6 ہزار رنز مکمل کیے تھے۔ یہی نہیں بابر اعظم 6 ہزار رنز بنانے والے 11ویں پاکستانی بلے باز بھی ہیں۔
مزید پڑھیں: آئی سی سی نے ون ڈے پلیئرز کی نئی رینکنگ جاری کردی، بابر اعظم کی بادشاہت برقرار
بابر اعظم سے قبل انضمام الحق، محمد یوسف، سعید انور، شاہد آفریدی، شعیب ملک، جاوید میانداد، یونس خان، سلیم ملک، اعجاز احمد اور محمد حفیظ بھی ایک روزہ میچوں میں 6 ہزار ون ڈے رنز بنا چکے ہیں۔ آئیے جانتے ہیں کہ تیز ترین 6 ہزار رنز بنانے والے ٹاپ ٹین کھلاڑی کون کون ہیں:
6️⃣0️⃣0️⃣0️⃣ ODI runs completed! @babarazam258 is the joint-fastest to the milestone ✅????#3Nations1Trophy | #PAKvNZ pic.
— Pakistan Cricket (@TheRealPCB) February 14, 2025
سوراو گنگولی: 147 اننگز میں 6 ہزار رنزسابق بھارتی کپتان کو 6 ہزار رنز مکمل کرنے میں قریباً 9 سال لگے۔ انہوں نے یہ سنگ میل 2000 کی چیمپیئنز ٹرافی کے دوران شارجہ میں عبور کیا۔ جب گنگولی نے 66 رنز کے ساتھ بھارت کے لیے سب سے زیادہ اسکور کیا اور زمبابوے کے خلاف فتح حاصل کی۔
کوئٹن ڈی کوک: 142 اننگز میں 6 ہزار رنزڈی کوک اب ون ڈے کرکٹ نہیں کھیلتے، لیکن جنوبی افریقی وکٹ کیپر بیٹر اپنے وقت میں پروٹیز کے ساتھ بین الاقوامی کھیل کے درمیانی فارمیٹ میں کافی کامیاب تھے۔ انہوں نے 2023 میں بلویمفونٹین میں آسٹریلیا کے خلاف شکست خوردہ میچ کے دوران 6 ہزار رنز مکمل کیے تھے۔
جو روٹ: 141 اننگز میں 6 ہزار رنزروٹ 7 ہزار ون ڈے رنز تک پہنچنے کے قریب ہیں، لیکن وہ 6 ہزار رنز تک تیز ترین پہنچنے والوں میں بھی شامل ہیں۔ انہیں یہ کامیابی 2021 میں چیسٹر لی اسٹریٹ میں سری لنکا کے خلاف میچ جیتنے والی 79 رنز کی ناقابل شکست اننگز کے دوران حاصل ہوئی تھی۔
ویون رچرڈز: 141 اننگز میں 6 ہزار رنزویون رچرڈز اس فہرست میں واحد بیٹر ہیں جو سابق دور سے تعلق رکھتے ہیں۔ رچرڈز جدید دور کے بیٹرز اور اعدادوشمار میں بھی اپنا مقام برقرار رکھے ہوئے ہیں۔ ویسٹ انڈیز کے سپر اسٹار نے 1989 میں برسبین میں آسٹریلیا کے خلاف 6 ہزار رنز مکمل کیے تھے، تاہم وہ 18 رنز پر رن آؤٹ ہو گئے تھے۔
شبھمن دھون: 140 اننگز میں 6 ہزار رنزدھون بھی ڈی کوک کی طرح ون ڈے کرکٹ کھیلنا چھوڑ چکے ہیں، لیکن اس سے قبل انہوں نے بین الاقوامی کھیل پر بڑا اثر ڈالا۔ وہ ایک دہائی سے زائد عرصے تک بھارت کے اوپری آرڈر میں اہم کھلاڑی رہے ہیں۔ ان کے 6 ہزار رنز 2021 میں کولمبو میں سری لنکا کے خلاف مکمل ہوئے، جب انہوں نے 86 رنز ناقابل شکست بنائے تھے۔
ڈیوڈ وارنر: 139 اننگز میں 6 ہزار رنزوارنر کے پاس ون ڈے کرکٹ میں 6,000 رنز تک پہنچنے والے سب سے تیز بائیں ہاتھ والے بیٹر کا ریکارڈ ہے۔ ان سے اوپر تمام بیٹرز دائیں ہاتھ والے ہیں۔ اس آسٹریلوی عظیم کھلاڑی نے یہ کارنامہ 2021 میں انگلینڈ کے خلاف سیریز کے بہترین کھلاڑی کی کارکردگی کے دوران حاصل کیا۔
کین ولیمسن: 139 اننگز میں 6 ہزار رنزولیمسن نے حال ہی میں ان کھلاڑیوں کی مشہور فہرست میں شامل ہو کر سب سے تیز 7 ہزار ون ڈے رنز مکمل کیے۔ وہ 6 ہزار رنز تک پہنچنے میں بھی اس فہرست میں اوپر ہیں۔ انہوں نے 6 ہزار رنز 2019 میں لارڈز میں آسٹریلیا کے خلاف بنائے تھے۔
ویرات کوہلی: 136 اننگز میں 6 ہزار رنزبھارتی اسٹار ویرات کوہلی سب سے تیز 6 ہزار ون ڈے رنز تک پہنچنے والے کھلاڑی تھے، تاہم ہاشم آملہ نے ایک سال بعد یہ ریکارڈ اپنے نام کرلیا تھا۔ کوہلی کو یہ کارنامہ انجام دینے میں 8 سال سے تھوڑا زیادہ وقت لگا، اور یہ ریکارڈ 2014 میں حیدرآباد میں سری لنکا کے خلاف بنا۔
ہاشم آملہ: 123 اننگز میں 6 ہزار رنزجنوبی افریقہ کے اسٹار بلے باز ہاشم آملہ کے پاس ون ڈے کرکٹ میں سب سے تیز 6 ہزار رنز تک پہنچنے کا ریکارڈ ہے۔ انہوں نے یہ کارنامہ 2015 میں بھارت کے خلاف ممبئی میں انجام دیا، جہاں انہوں نے ایک اننگز میں صرف 23 رنز بنائے جبکہ اسی اننگز میں 3 دیگر پروٹیز بلے بازوں نے سینچریاں اسکور کی تھیں۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
6 ہزار رنز بابر اعظم ڈیوڈ وارنر ہاشم آملہ ورات کوہلیذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: ڈیوڈ وارنر ہاشم ا ملہ ورات کوہلی ہزار ون ڈے رنز رنز مکمل کیے ویرات کوہلی یہ کارنامہ ہاشم آملہ تیز ترین بھارت کے انہوں نے کرکٹ میں کے خلاف
پڑھیں:
ایک سال میں بیرون ملک جانے والے پاکستانیوں کی تعداد میں حیران کن اضافہ
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
اسلام آباد: گزشتہ ایک سال کے دوران بیرون ملک جانے والے پاکستانیوں کی تعداد میں حیران کن اضافہ ریکارڈ ہوا ہے۔
پاکستان میں معاشی دباؤ، بڑھتی مہنگائی اور مقامی سطح پر روزگار کی کمی ایک عرصے سے عوام کو مجبور کر رہی ہے کہ وہ اپنے بہتر مستقبل کی تلاش میں بیرون ملک کا رخ کریں۔ حالیہ اقتصادی سروے رپورٹ نے اس رجحان کی ایک چونکا دینے والی تصویر پیش کی ہے، جس کے مطابق صرف رواں مالی سال میں لاکھوں پاکستانیوں نے روزگار کی تلاش میں اپنا ملک چھوڑ کر غیرملکی سرزمین پر قدم رکھا ہے۔
یہ رپورٹ نہ صرف اعداد و شمار کا ایک مجموعہ ہے بلکہ اس میں وہ تلخ حقیقت بھی جھلکتی ہے جس کا سامنا پاکستانی نوجوان روزانہ کی بنیاد پر کر رہے ہیں۔ رواں سال میں مجموعی طور پر جو پاکستانی ملازمت کے لیے بیرون ملک گئے، ان کی تعداد 7 لاکھ سے تجاوز کر گئی ہے۔ ان میں سے ہر ایک شخص ایک خواب، ایک امید اور ایک جدوجہد لے کر سرحد پار گیا ہے۔
رپورٹ کے مطابق سب سے زیادہ افراد صوبہ پنجاب سے بیرون ملک روانہ ہوئے، جہاں معاشی حالات اور آبادی کے دباؤ نے اس رجحان کو اور تیز کر دیا ہے۔ پنجاب سے مجموعی طور پر 4 لاکھ 4 ہزار 345 افراد نے دیگر ممالک میں روزگار کی تلاش میں ہجرت کی۔ یہ اعداد و شمار ظاہر کرتے ہیں کہ صوبہ بھر میں روزگار کے مواقع نہ ہونے کے برابر رہ گئے ہیں یا جو موجود ہیں وہ خاطر خواہ تنخواہ یا معیار زندگی فراہم نہیں کرتے۔
دوسرے نمبر پر خیبر پختونخوا رہا، جہاں سے ایک لاکھ 87 ہزار افراد نے غیرملکی ملازمتوں کے لیے رجوع کیا۔ صوبے میں اگرچہ ترسیلات زر کا ایک مضبوط کلچر موجود ہے، تاہم اتنی بڑی تعداد میں نقل مکانی اس بات کی علامت ہے کہ مقامی سطح پر معاشی بہتری کے دعوے زمینی حقائق سے ہم آہنگ نہیں ہو سکے۔
تیسرے نمبر پر سندھ سے 60 ہزار 424 افراد بیرون ملک گئے، جو کہ خاص طور پر شہری علاقوں میں بے روزگاری کے بڑھتے ہوئے رجحان کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ سندھ کے بیشتر افراد مشرق وسطیٰ کے ممالک، بالخصوص سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور قطر کی جانب گئے جہاں تعمیرات، ڈرائیونگ، سیکورٹی اور دیگر خدمات کی شعبہ جات میں روزگار کے مواقع دستیاب تھے۔
رپورٹ میں ملک کے دیگر علاقوں کی صورتحال بھی سامنے لائی گئی ہے، جو کم توجہ کے باوجود قابلِ غور ہے۔ سابقہ فاٹا، اب ضم شدہ قبائلی اضلاع سے 29 ہزار 937 افراد نے ملک چھوڑا۔ ان علاقوں میں تعلیمی اور پیشہ ورانہ مواقع کی کمی پہلے ہی عوام کو بیرونی دنیا کی طرف متوجہ کرتی رہی ہے، اور موجودہ اعداد و شمار اس کی تصدیق کرتے ہیں۔
آزاد کشمیر سے 29 ہزار 591 افراد نے روزگار کے لیے ہجرت کی، جس میں زیادہ تر لوگ برطانیہ، یورپ اور مشرق وسطیٰ کے ممالک کی طرف گئے۔ یہ تعداد خاص طور پر اس لیے اہم ہے کیونکہ آزاد کشمیر میں پہلے سے ہی بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی ایک بڑی آبادی موجود ہے، جس کا اثر نوجوانوں کی سوچ پر بھی پڑتا ہے۔
اسلام آباد جو کہ ملک کا دارالحکومت اور نسبتاً خوشحال شہر تصور کیا جاتا ہے، وہاں سے بھی 8 ہزار 621 افراد نے بیرون ملک ملازمت کو ترجیح دی۔ اس بات سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ روزگار کی کمی صرف پسماندہ علاقوں تک محدود نہیں رہی بلکہ بڑے شہروں تک پھیل چکی ہے۔
بلوچستان سے صرف 5 ہزار 668 افراد نے بیرون ملک ہجرت کی، جو نسبتاً کم تعداد ضرور ہے لیکن اسے بلوچستان کی آبادی اور رسائی کی کمی کو مدنظر رکھتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔ وہاں بنیادی سہولیات، تعلیم اور پیشہ ورانہ تربیت کے محدود وسائل عوام کو عالمی مارکیٹ کے لیے مکمل تیار نہیں کر پاتے۔
اسی طرح شمالی علاقہ جات، جیسے گلگت بلتستان وغیرہ سے صرف 1692 افراد نے بیرون ملک روزگار کے لیے سفر کیا۔ یہ تعداد کم ضرور ہے لیکن ان علاقوں میں روزگار کے مواقع کی قلت اور انفرا اسٹرکچر کی عدم موجودگی مستقبل میں اس رجحان کو بڑھا سکتی ہے۔
اقتصادی سروے کی یہ رپورٹ محض ایک عددی تجزیہ نہیں دیتی، بلکہ اس سے یہ سوال بھی جنم لیتا ہے کہ آخر ہماری ریاست، حکومتیں اور ادارے کب اس مسئلے کو سنجیدگی سے لیں گے؟ کیا بیرون ملک جانے والے ہر پاکستانی کا خواب، عزت کی روٹی کمانا، ہمیں ایک قومی پالیسی بنانے پر مجبور نہیں کرتا؟ کیا ہمیں ملک میں ایسے حالات فراہم نہیں کرنے چاہییں کہ ہماری افرادی قوت ملک میں ہی استعمال ہو؟
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ترسیلات زر ہماری معیشت کے لیے اہم ضرور ہیں، لیکن مسلسل بڑھتی ہجرت اس بات کا ثبوت ہے کہ ہم اپنی نوجوان نسل کو وہ مواقع فراہم کرنے میں ناکام ہو رہے ہیں جن کی وہ حق دار ہے۔ اگر اس رجحان کو روکنا ہے تو ہمیں تعلیم، ہنر مندی، روزگار کی فراہمی اور کاروباری مواقع کے شعبوں میں فوری اور دیرپا اقدامات کرنے ہوں گے۔