Daily Ausaf:
2025-11-03@11:50:47 GMT

ٹرمپ کا غزہ منصوبہ: نسلی تطہیر کے لیے گرین لائٹ؟

اشاعت کی تاریخ: 15th, February 2025 GMT

واضح رہے کہ فلسطینیوں کی جبری نقل مکانی کوئی نیا خیال نہیں ہے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی غزہ کی ’’طویل مدتی ملکیت‘‘ لینے،’’گندگی‘‘ کو’’پاک کرنے‘‘ اور اسے’’مشرق وسطیٰ کے رویرا‘‘ میں تبدیل کرنے کی تازہ ترین تجویز فلسطینیوں کو نسلی طور پر ان کی سرزمین سے بےدخل کرنے کی کوششوں کا تازہ ترین اعادہ ہے۔جو چیز ٹرمپ کے تبصروں کو خطرناک بناتی ہے وہ غزہ میں امریکی فوجی مداخلت کے بعد اس کے 2.

2 ملین باشندوں کو بے دخل کرنے کا فوری خطرہ نہیں ہے، اصل خطرہ کہیں اور ہے۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ اسرائیل فلسطینیوں کو غزہ یا مغربی کنارے سے باہر نکالنے کے لیے ٹرمپ کے الفاظ کو گرین سگنل سے تعبیر کر سکتا ہے۔ دوسرا یہ کہ امریکہ، صدر کی خواہشات کو پورا کرنے کی آڑ میں ایک اور اسرائیلی حملے کی خاموشی سے حمایت کر سکتا ہے۔ تیسرا، ٹرمپ کے ریمارکس سے پتہ چلتا ہے کہ فلسطین کے بارے میں ان کی خارجہ پالیسی ان کے پیشروئوں کی پالیسی سے مختلف نہیں ہے۔ کچھ ڈیموکریٹس نے ان عرب اور فلسطینی امریکیوں پر تنقید کا نشانہ بنایا جنہوں نےگزشتہ انتخابات میں ڈیموکریٹک صدارتی امیدوار کملا ہیرس کی حمایت کے بجائےٹرمپ کو ووٹ دیا ۔۔
تاہم، بائیڈن انتظامیہ کے دوران نسلی صفائی کا خیال پہلے ہی پیش کیا جا رہا تھاجب کہ اس وقت کے سیکریٹری آف اسٹیٹ اینٹونی بلنکن نے اس بات کا اعادہ کیا کہ “فلسطینی شہریوں پر غزہ چھوڑنے کے لیے دباؤ نہیں ڈالنا چاہیے،’’ بائیڈن نے اسرائیل کے لیے غیر مشروط فوجی مدد کے ذریعے نقل مکانی کے لیےحالات پیدا کیے تھے۔اس نے مشرق وسطیٰ کی جدید تاریخ کی سب سے تباہ کن جنگوں میں سے ایک کو بھڑکانے میں اسرائیل کی دامے درمے سخنے مدد کی ۔ جنگ کے کچھ ہی دنوں بعد 13 اکتوبر 2023 کو اردن کے شاہ عبداللہ دوم نے عمان میں بلنکن کو’’تمام فلسطینی علاقوں سے فلسطینیوں کو زبردستی بے گھر کرنے یا ان کی اندرونی نقل مکانی کا سبب بننے‘‘ کی کسی بھی اسرائیلی کوشش کے خلاف خبردار کیا۔ مؤخر الذکر نقل مکانی ایک حقیقت بن گئی کیونکہ شمالی غزہ کی زیادہ تر آبادی وسطی اور جنوبی غزہ میں پناہ گزینوں کے کیمپوں میں بھری ہوئی تھی، جہاں کے حالات 16 ماہ سے زیادہ عرصے سے غیر انسانی ہیں۔اسی وقت مغربی کنارے اور خاص طور پر اس کے شمالی علاقوں میں نقل مکانی کی ایک اور مہم جاری ہے، حالیہ ہفتوں میں اس میں تیزی آئی ہے۔ جنین اور دیگر علاقوں میں ہزاروں فلسطینی خاندان پہلے ہی بے گھر ہو چکے ہیں۔ اس کے باوجود بائیڈن انتظامیہ نے اسرائیل کو روکنے کے لئےدباؤ ڈالنےکی کوئی ضرورت محسوس نہیں کی۔
فلسطینیوں کی بے دخلی پر عربوں کے خدشات جنگ کے آغاز سے ہی حقیقی تھے۔ تقریباً ہر عرب لیڈر نے بار بار خطرے کی گھنٹی بجائی۔ مصری صدر عبدالفتاح السیسی نے متعدد مرتبہ اس جانب توجہ دلائی اور’’آبادی کی منتقلی‘‘ کی اسکیم میں اسرائیلی کوششوں اور ممکنہ طور پر امریکہ کے ملوث ہونے کے بارے میں خبردار کیا۔السیسی نے کہا کہ غزہ میں اب جو کچھ ہو رہا ہے وہ شہریوں کو پناہ لینے اور مصر کی طرف ہجرت کرنے پر مجبور کرنے کی کوشش ہے۔پندرہ ماہ بعد ٹرمپ کےدور میں مصر نے اعادہ کرتے ہوئے اس عزم کا اظہار کیا کہ مصر اس ’’ناانصافی کے عمل‘‘ میں حصہ نہیں لے گا۔4 فروری کو اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو کے ساتھ مشترکہ پریس کانفرنس کے دوران ٹرمپ کے بیان کےفوراً بعد ہی ایک سعودی بیان جاری ہوا۔ سعودی وزارت خارجہ نے غزہ پر ٹرمپ کی’’ملکیت‘‘ کو مسترد کرتے ہوئےریاض کے فلسطین پر عرب لیگ کے موقف کو دہرایا۔بیان میں واضح کیا گیا کہ ’’وزارت خارجہ اس بات کی توثیق کرتی ہے کہ فلسطینی ریاست کے قیام کے بارے میں سعودی عرب کا موقف مستحکم اور غیر متزلزل ہے‘‘ ۔ بیان میں مزید کہا گیا کہ مملکت ’’فلسطینی عوام کےجائز حقوق کی کسی بھی خلاف ورزی کو واضح طور پر مسترد ہونے کی توثیق کرتی ہے، خواہ اسرائیلیوں کے ذریعے ہو، فلسطینیوں کی آبادکاری کے ذریعےہو، فلسطینیوں کوان کی زمین سے بےدخل کرنے کی کوشش ہو‘‘۔ تاہم نئی امریکی انتظامیہ فلسطینی تاریخ سے غافل نظر آتی ہے۔ 1948 میں فلسطینیوں کی بڑے پیمانے پر نقل مکانی کے پیش نظرکوئی بھی عرب حکومت( فلسطینی قیادت کو چھوڑ دیں) ہمسایہ ریاستوں میں لاکھوں لوگوں کو نسلی طور پر پاک کرنے کی ایک اور اسرائیلی امریکی کوشش کی حمایت نہیں کرے گی۔مقامی آبادی کو بے دخل کرنے کی غیر اخلاقی حرکتوں سے ہٹ کر، تاریخ نے ثابت کیا ہے کہ اس طرح کے اقدامات خطے کو نسلوں تک غیر مستحکم کرتے ہیں۔ 1948 کا نکبہ، جس نے فلسطین کی نسلی صفائی دیکھی، عرب اسرائیل تنازعہ کو بھڑکا دیا، جس کے اثرات آج بھی جاری ہیں۔تاریخ ہمیں یہ بھی سکھاتی ہے کہ نکبہ کوئی الگ تھلگ واقعہ نہیں تھا۔ اسرائیل نے 1950 کی دہائی کے اوائل میں غزہ میں فلسطینی پناہ گزین کیمپوں پر اپنے شدید حملوں سے شروع ہوکر، اور اس کے بعد سے، نسلی تطہیر کی بارہا کوشش کی ہے۔
1967 کی جنگ جسے’’سیٹ بیک‘‘ کہا جاتا ہے، اندرونی اور بیرونی طور پر لاکھوں فلسطینیوں کی نسلی صفائی کا باعث بنی۔ اس کے بعد کے سالوں میں، 1970 کی دہائی میں مختلف امریکی اسرائیلی اقدامات نے فلسطینی آبادی کو صحرائے سینا میں منتقل کرنے کی کوشش کی۔ تاہم غزہ کے عوام کی استقامت اور اجتماعی مزاحمت کی وجہ سے یہ کوششیں ناکام ہوئیں۔ٹرمپ کی نام نہاد ‘انسان دوست نسلی صفائی کی تجویز تاریخ میں اسی طرح کی ایک اور ناکام کوشش کے طور پر لکھی جائے گی، خاص طور پر ثابت قدم فلسطینی عوام کے ساتھ عرب اور بین الاقوامی یکجہتی برسوں سے زیادہ مضبوط ہے۔اب اہم سوال یہ ہے کہ کیا عرب اور دنیا بھر میں فلسطین کے دوسرے حامی اس طرح کی مذموم تجاویز کو مسترد کرنے سے آگے بڑھیں گے اور فلسطینی وطن کی بحالی کے لیے پہل کریں گے؟ اس کے لیے انصاف پر مبنی بین الاقوامی مہم کی ضرورت ہے، جس کی جڑیں بین الاقوامی قانون میں ہوں اور خود فلسطینی عوام کی امنگوں کے مطابق ہوں۔

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: فلسطینیوں کو فلسطینیوں کی کرنے کی کوشش نسلی صفائی نقل مکانی ٹرمپ کے ایک اور اور اس کے لیے

پڑھیں:

دفاعی صنعت میں انقلاب، بنگلہ دیش کا ڈیفنس اکنامک زون قائم کرنے کا منصوبہ

بنگلہ دیش نے خطے میں دفاعی سازوسامان تیار کرنے والی نئی طاقت بننے کی سمت اہم پیش رفت شروع کر دی ہے۔

حکومت نے ایک خصوصی ڈیفنس اکنامک زون کے قیام کا منصوبہ بنایا ہے، جس میں ڈرونز، سائبر سسٹمز، ہتھیار اور گولہ بارود نہ صرف ملکی ضرورت کے لیے بلکہ برآمدات کے لیے بھی تیار کیے جائیں گے۔

یہ بھی پڑھیں: بنگلہ دیش ایئر فورس کا چین کے اشتراک سے ڈرون پلانٹ قائم کرنے کا اعلان

حکام کے مطابق، یہ اقدام خود انحصار دفاعی صنعتی ڈھانچے کی تعمیر کے وسیع منصوبے کا حصہ ہے، حکومت کا تخمینہ ہے کہ تقریباً 1.36 ارب امریکی ڈالر کی سرمایہ کاری پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ، غیر ملکی سرمایہ کاری اور مشترکہ منصوبوں کے ذریعے حاصل کی جائے گی۔

???? | Breaking Analysis | #BDMilitary
???????? Bangladesh moves from consumer to producer. Dhaka’s latest policy push—anchored in the establishment of a dedicated Defence Economic Zone (DEZ)—signals a decisive stride toward self-reliance in military manufacturing and export orientation.… pic.twitter.com/WdHgoUvJ33

— BDMilitary (@BDMILITARY) November 3, 2025

چیف ایڈوائزر محمد یونس نے پہلے ہی ایسی پالیسی اقدامات کی منظوری دے دی ہے جن کے ذریعے ٹیکنالوجی ٹرانسفر اور بین الاقوامی تعاون کو فروغ دیا جائے گا، بنگلہ دیش آرمی کو قومی دفاعی صنعت پالیسی کے مسودے کی تیاری کا کام سونپا گیا ہے۔

غیر ملکی دلچسپی اور برآمدی عزائم

میڈیا رپورٹس کے مطابق، کئی غیر ملکی حکومتوں اور کمپنیوں نے بنگلہ دیش کے ابھرتے ہوئے دفاعی شعبے میں سرمایہ کاری میں دلچسپی ظاہر کی ہے، اگرچہ مخصوص ممالک کے نام ظاہر نہیں کیے گئے، لیکن حکام نے تصدیق کی کہ بات چیت ’دوستانہ ممالک‘ کے ساتھ جاری ہے۔

بنگلہ دیش اکنامک زون اتھارٹی اور بنگلہ دیش انویسٹمنٹ ڈیولپمنٹ اتھارٹی  کے چیئرمین اشک محمود بن ہارون نے کہا کہ زون کی جگہ کا تعین ابھی باقی ہے۔ ’ہم پالیسی فریم ورک تیار کر رہے ہیں اور شراکت داروں سے رابطے میں ہیں۔ ہمارا مقصد دفاعی شعبے کو برآمدی بنیاد پر استوار کرنا ہے۔‘

ملکی ضرورت اور عالمی منڈی

اس وقت بنگلہ دیش کی دفاعی ضروریات کا تخمینہ 8,000 کروڑ ٹکا لگایا گیا ہے، جس میں مسلح افواج، بارڈر گارڈ، کوسٹ گارڈ، پولیس اور دیگر نیم فوجی اداروں کی ضروریات شامل ہیں۔

حکام کا خیال ہے کہ مقامی صنعت اس طلب کو پورا کر سکتی ہے اور آگے چل کر عالمی منڈی میں بھی داخل ہو سکتی ہے۔

مزید پڑھیں: بنگلہ دیش کا بھارت کے ساتھ سرحد پر سیکیورٹی مضبوط بنانے کے لیے نئی بٹالینز تشکیل دینے کا فیصلہ

تاہم، ماہرین کا کہنا ہے کہ صرف ملکی طلب پر انحصار کافی نہیں ہوگا، صدر بنگلہ دیش انسٹی ٹیوٹ آف پیس اینڈ سیکیورٹی اسٹڈیز اے این ایم منیر الزمان کے مطابق صنعت کو پائیدار بنانے کے لیے ہمیں برآمدی منڈیوں تک رسائی حاصل کرنا ہوگی۔

’عالمی دفاعی منڈی میں مقابلہ سخت ہے، اور کامیابی کے لیے ٹیکنالوجی شراکت داری اور غیر ملکی سرمایہ کاری ناگزیر ہے۔‘

نجی شعبے کی شمولیت ناگزیر

فائنانس سیکرٹری ایم ڈی خیرالزمان نے کہا کہ ترقی یافتہ ممالک کی طرح نجی شعبے کا کردار بنگلہ دیش کے لیے بھی اہم ہے۔

انہوں نے لاک ہیڈ مارٹن اور میک ڈونل ڈگلس جیسی کمپنیوں کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ سرمایہ کاری کو کئی مالیاتی سالوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔

جبکہ وزارتِ خزانہ زمین کے حصول کے لیے غیر استعمال شدہ سرکاری فیکٹریوں کو بروئے کار لانے پر غور کر رہی ہے۔

علاقائی موازنہ اور چیلنجز

حکام نے تسلیم کیا کہ بنگلہ دیش ابھی پاکستان اور بھارت جیسے ہمسایہ ممالک سے پیچھے ہے، پاکستان نے گزشتہ 4 سالوں میں ہر سال تقریباً 450 ملین ڈالر دفاعی پیداوار میں لگائے۔

جبکہ بھارت کی سالانہ سرمایہ کاری 2.7 ارب ڈالر سے تجاوز کر گئی ہے، اس کے مقابلے میں بنگلہ دیش کی دفاعی صنعت ابھی ابتدائی مرحلے میں ہے۔

پالیسی خامیاں اور قانونی رکاوٹیں

اگرچہ غیر ملکی دلچسپی میں اضافہ ہو رہا ہے، لیکن حکام نے اعتراف کیا کہ قوانین اور خریداری پالیسیوں کی موجودہ صورت نجی شعبے کی شمولیت میں رکاوٹ ہے۔

وزارتِ صنعت کے ایک اعلیٰ افسر کے مطابق، غیر ملکی سرمایہ کار قانونی ضمانتیں چاہتے ہیں جو فی الحال دستیاب نہیں۔

مزید پڑھیں: بنگلہ دیش ملبوسات کی نئی عالمی منزل، چینی سرمایہ کاری میں اضافہ

ستمبر کے اجلاس میں شرکا نے نئے قوانین، سرمایہ کاری کے تحفظ اور ایک مستقل رابطہ ادارہ قائم کرنے کی سفارش کی، اس کے علاوہ، ترکی اور پاکستان کے ماڈلز سے استفادہ کرنے کی تجویز بھی دی گئی۔

کامرس سیکریٹری محبوب الرحمن نے کہا کہ اگر منصوبہ بروقت شروع کر دیا گیا تو بنگلہ دیش بھی پاکستان کی سرمایہ کاری کی سطح تک پہنچ سکتا ہے، ان کا کہنا تھا کہ نیا زون گیزپور کے بنگلہ دیش آرڈننس فیکٹری کی طرز پر قائم کیا جا سکتا ہے۔

طویل المدتی وژن

اگرچہ ماہرین کے مطابق ایک مکمل دفاعی ایکو سسٹم قائم کرنے میں 25 سے 30 سال لگ سکتے ہیں، لیکن بنگلہ دیشی قیادت پُرعزم ہے۔

پالیسی اصلاحات، نجی شعبے کی شمولیت، اور بین الاقوامی تعاون کے امتزاج سے بنگلہ دیش مستقبل میں علاقائی اسلحہ برآمد کنندہ ملک کے طور پر ابھر سکتا ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

انسٹی ٹیوٹ آف پیس اینڈ سیکیورٹی اسٹڈیز ایکو سسٹم بنگلہ دیش بنگلہ دیش آرڈننس فیکٹری دفاعی پیداوار دفاعی سازوسامان سرمایہ کار کامرس سیکریٹری لاک ہیڈ مارٹن میک ڈونل ڈگلس

متعلقہ مضامین

  • وزیراعلیٰ نے تعاون کا یقین دلایا، گرین لائن فیز2 پر کام جلد شروع ہوگا، احسن اقبال
  • پاکستان، چین اور روس خفیہ ایٹمی تجربات کر رہے ہیں، ٹرمپ کا دعویٰ
  • دفاعی صنعت میں انقلاب، بنگلہ دیش کا ڈیفنس اکنامک زون قائم کرنے کا منصوبہ
  • ’وہ کرتے ہیں مگر بتاتے نہیں‘ ٹرمپ نے پاکستان کو ایٹمی تجربات کرنے والے ممالک میں شامل قرار دیدیا
  • حماس کیجانب سے 3 اسرائیلی قیدیوں کی لاشیں واپس کرنے پر خوشی ہوئی، ڈونلڈ ٹرمپ
  • کس پہ اعتبار کیا؟
  • غزہ میں اسرائیل فضائی حملے کے دوران نوجوان فلسطینی باکسر شہید
  • لاہور میں زیر زمین پانی کی سطح بلند کرنے کا منصوبہ 
  • اسرائیل نے 30 فلسطینیوں کی لاشیں واپس کردیں، غزہ پر بمباری سے مزید شہادتیں
  • ٹرمپ کا وفاقی انتخابات سے متعلق حکم نامے کا اہم حصہ کالعدم قرار