دنیا تباہی کی راہ پر گامزن ہے
اشاعت کی تاریخ: 15th, February 2025 GMT
نائن الیون کے بعد جو امریکی پالیسی کھل کر سامنے آئی ہے۔ اس میں باہمی مذاکرات کے طریقے کو یکسر تبدیل کر دیا گیا ہے، یعنی ’’حملہ ہونے سے پہلے حملہ کردو‘‘ کی پالیسی کو فروغ دیا، جس کا سب سے بڑا فائدہ وہ ممالک اٹھاتے رہے ہیں اور اٹھا رہے ہیں جو اسلحے کے بیوپاری ہیں۔
ایسے حالات میں یہ توقع رکھنا کہ دنیا امن کی طرف گامزن ہے، عبث ہے۔ سچ یہ ہے کہ دنیا تباہی کی طرف گامزن ہے۔ دنیا کے بڑے اسلحے کے بیوپاری ممالک ان ممالک پر اپنی توجہ مرکوزکیے ہوئے ہیں جہاں خانہ جنگی جاری ہے۔ جہاں لسانی، مذہبی اور فرقہ ورانہ بنیادوں پر جنگیں لڑی جا رہی ہیں، جہاں امن ہوتا ہے وہاں یہ طاقتیں مل کر ایسے حالات پیدا کروا دیتی ہیں کہ وہاں ان کے اسلحے کی مارکیٹ بن سکے۔
دور جانے کی ضرورت نہیں۔ نائن الیون کے بعد کے حالات کا تجزیہ کیا جائے تو یہ بات کھل کر سامنے آتی ہے کہ افغانستان میں طالبان کے خاتمے کے نام پر امریکی سرپرستی میں اڑتیس اتحادی ممالک نے جو جنگ شروع کی، جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ افغانستان کھنڈر بن گیا۔ لاکھوں انسان بے گھر کردیے گئے۔ افغانستان کو پتھرکے زمانے میں پہنچا دیا گیا۔
اپنے مفادات حاصل کرنے کے لیے عالمی طاقتوں نے نت نئے بت تراشے اور فتنے ابھارے۔ کھربوں ڈالرز اس لاحاصل جنگ کی آگ میں جھونک دیے گئے۔ آخر میں تھک ہارکر مفاد پرست ایک ایک کر کے افغان جنگ سے علیحدہ ہوتے گئے، اس طرح امریکا تنہا رہ گیا تو وہ طالبان سے مذاکرات کرنے پر مجبور ہوگئے اور رسوا ہوکر افغانستان سے بھاگ گئے۔
لیکن جاتے جاتے بڑی تعداد میں اپنے جدید ہتھیار افغانستان میں چھوڑگئے، جو افغان طالبان کے ہاتھ لگ گئے پھرکسی نہ کسی طرح سے یہ امریکی جدید ہتھیار افغانستان کے اندر موجود دہشت گردوں کے زیر استعمال آگئے، جن کا نشانہ پاکستان بنا ہوا ہے۔آئے روز افغانستان کے اندر سے پاکستان میں دہشت گردی کی جا رہی ہے۔
امریکا خود تو بھاگ گیا مگر پاکستان کو پھنسا گیا۔ آئے روز پاکستان کے شہری جاں بحق ہو رہے ہیں، ان کی املاک تباہ ہو رہی ہیں۔ ہمارے فوجی جوان شہادت نوش کر رہے ہیں اور دہشت گرد خود بھی جہنم رسید ہورہے ہیں۔ اور امن نہ جانے کہاں کھو گیا ہے؟ مگر اسلحہ خوب فروخت ہوگیا۔
افغان جنگ کے دوران ہی امریکا اور اس کے اتحادی ممالک نے دنیا کو یہ باورکرانا شروع کردیا تھا کہ عراق کے پاس ایٹمی ہتھیار ہیں جن کا خاتمہ کر کے دنیا کو محفوظ کیا جائے گا۔ عراق سے ایٹمی ہتھیار تو نہیں ملے لیکن امریکی ضد برقرار رہی۔
بعد ازاں کہا گیا کہ عراق سے صدام حسین کی حکومت کے خاتمے کے بعد خطے میں امن قائم ہوجائے گا۔ عراقیوں کو آزادی اور جمہوریت میسر آئے گی۔ پھر عراق پر حملہ کردیا گیا۔ عراق کے صدر صدام حسین کو اقتدار سے معزول کیا گیا۔ صدام چھپ گئے مگر انھیں تلاش کرکے گرفتار کر لیا گیا اور امریکی سائے میں قائم عدالت کے کٹہرے میں بطور ملزم کھڑا کردیا گیا۔
صدام حسین پر جھوٹے الزامات کو سچ ثابت کرنے کی ایڑی چوٹی کا زور لگایا گیا اور بالآخر صدام حسین کو ناکردہ جرم کی پاداش میں پھانسی دیدی گئی اور امریکا نے کہا کہ عراق میں آزادی اور جمہوریت بحال کردی گئی ہے، لیکن پھر بھی عراق میں امن قائم نہ ہوسکا۔ حالات خانہ جنگی میں بدل گئے۔ بے حساب انسانوں کو ہلاک کر کے بھی عراق میں امن نایاب رہا بلکہ جو امن صدام حسین حکومت میں تھا، اسے بھی ختم کر کے مزید خانہ جنگی کے حالات پیدا کیے گئے۔
اسی دوران ایران کی باری کے لیے حالات بگاڑنے کے اسباب تراشنا شروع کر دیے گئے۔ ایران کی طرف سے ایٹمی تنصیبات کے دروازے بین الاقوامی ایجنسی آئی اے ای اے کے لیے کھولنے کے باوجود ایران اب تک امریکی اور اس کے اتحادی ممالک کے زیر عتاب ہے۔ ایران پر عالمی سطح پر معاشی و اقتصادی اور دیگر پابندیاں عائد کی ہوئی ہیں، لیکن ایران تمام مشکلات کا ڈٹ کر مقابلہ کر رہا ہے۔
اسی دوران شام اور شمالی کوریا بھی عالمی سامراج کے پروسسز سے گزر رہے تھے، بعد میں شام میں بھی خانہ جنگی کی صورتحال پیدا کی گئی اور پھر اس پر جنگ مسلط کی گئی۔ شام میں بھی ہزاروں انسان ہلاک ہوگئے۔ شام کو بھی کھنڈر میں تبدیل کردیا گیا لیکن یہ جنگ جاری رہی۔
گزشتہ سال سن دو ہزار چوبیس کے آخری ہفتوں کے دوران مسلح گروپوں نے انقلاب برپا کردیا۔ جبری حکومت کا خاتمہ کردیا گیا۔ ملک کی باگ ڈور انھوں نے سنھبال لی، لیکن اسرائیل بیچ میں گھس گیا، اس نے شامی سرحدوں پر حملے شروع کردیے، اس طرح شام میں بھی امن کا خواب شرمندہ تعبیر کا منتظر ہے۔ دوسری طرف شمالی کوریا، امریکا اور اس کے اتحادی ممالک کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر ایٹمی طاقت کے حصول میں مصروف ہے۔
پاکستان و بھارت کے درمیان باہمی تعلقات معمول پر نہیں ہیں، وقتی طور پر ان کے درمیان ایٹمی جنگ کو ٹال دیا گیا ہے مگر مسئلہ کشمیرکی وجہ سے جنوبی ایشیا ایٹمی جنگ کے دہانے پر ہے۔ مقبوضہ جموں وکشمیر میں کئی دہائیوں سے بھارتی فوج کی دہشت گردی عروج پر ہے۔ جہاں انسانیت سسک رہی ہے، ایسے میں انسانی حقوق کے چمپئین ممالک اور ادارے خاموش تماشائی کا کردار ادا کر رہے ہیں۔ مسئلہ کشمیر پر بھارت، امریکا اور اسرائیل گٹھ جوڑ دنیا پر عیاں ہے اور پاکستان مظلوم کشمیریوں کے ساتھ کھڑا ہے۔
سعودی عرب بھی عالمی دہشت گردی کے نشانے پر رہا اور اپنی تاریخ میں پہلی دفعہ امن و امان کے مسئلے سے دوچار رہا۔
نائجیریا، انڈونیشیا، چیچینیا، تھائی لینڈ، مصر، بوسینیا اور دیگر ممالک کا امن تباہ کرنے کے بعد باقی جہاں امن ہے وہاں کے حالات بھی بگاڑنے کے اسباب پیدا کیے جا رہے ہیں۔ اس تناظر میں کیسے کہا جاسکتا ہے کہ دنیا امن کی راہ پرگامزن ہے؟
سچ یہ ہے کہ دنیا کا امن دانستہ طور پر تباہ کیا جاتا رہا ہے اور تباہ کیا جا رہا ہے۔ تبدیلی سرکارکے نام پر پاکستان کے ساتھ جوکھیل کھیلا گیا وہ آہستہ آہستہ دنیا پر عیاں ہوتا جا رہا ہے۔ نو مئی کا واقعہ اس سازش کی کڑیوں میں سے ایک کڑی تھی جو بروقت ناکام بنا دیا گیا بصورت دیگر خدا ناخواستہ پاکستان ناقابل تلافی نقصان سے دوچار ہوجاتا مگر دشمن اب بھی خاموش نہیں ہے وہ پاکستان کی سیاست میں دراندازی کرتے دکھائی دیتے ہیں۔
بلوچستان میں لگائی جانے والی آگ بھی اسی سازش کی ایک کڑی ہے۔ پاکستان کو دہشت گردی کے ذریعے کمزور کر کے فتح کرنے کی کوششیں کی جارہی ہیں، لیکن ان تمام رکاوٹوں کو دورکرتے ہوئے پاکستان عنقریب بلندیوں پر نظر آئے گا اور دشمن منہ تکتے رہ جائیں گے۔ جس سرزمین کی مٹی میں شہیدوں کا سرخ خون شامل ہو، اس سرزمین کو فتح کرنا کسی کا خواب ہوگا، مگر حقیقت میں ایسا نہیں ہوسکتا
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: اتحادی ممالک خانہ جنگی کردیا گیا کہ دنیا دیا گیا رہے ہیں کے بعد رہا ہے اور اس کیا جا
پڑھیں:
پاک افغان جنگ بندی جاری رکھنے پر اتفاق
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
251101-03-2
پاکستان اور افغانستان کے مابین جنگ بندی کے تسلسل پر اتفاق ہو گیا ہے جس کے تحت نگرانی اور تصدیق کا باقاعدہ نظام قائم کیا جائے گا اور خلاف ورزی کرنے والے فریق کو سزا اور ٹھیرایا جائے گا۔ پاکستان اور افغانستان دونوں اسلامی اور ہمسایہ ممالک ہیں، اسلام میں ہمسایوں کے بہت زیادہ حقوق بیان کیے گئے ہیں، قرآن حکیم اور رسول اکرم نے مسلمانوں کو اپنے ہمسایوں کے دکھ درد میں شریک ہونے اور ان کے لیے کسی بھی صورت پریشانی اور تکلیف کا باعث نہ بننے کی ہدایات دی ہیں۔ اسی طرح مسلمانوں کو بھی ایک دوسرے کا بھائی قرار دیا گیا ہے مگر اسے بدقسمتی کے علاوہ اور کیا نام دیا جائے کہ پاکستان میں آئے روز کی دہشت گردی کے مسئلہ پر دونوںملکوں کے مابین کشیدگی آخر باقاعدہ جنگ تک جا پہنچی حالانکہ مسلمانوں کے لیے قرآن حکیم کی سورۂ انفال کی آیت 46 میں باہم لڑائی اور جھگڑوں سے ہر صورت دور رہیں کیونکہ یہ پوری امت مسلمہ کے لیے کمزوری کا سبب ہو گا، اللہ تعالیٰ کی طرف سے مسلمانوں کو واضح حکم دیا گیا ہے کہ: ’’اور اللہ اور اس کے رسولؐ کی اطاعت کرو اور آپس میں نہ جھگڑو ورنہ تمہارے اندر کمزوری پیدا ہو جائے گی اور تمہاری ہوا اکھڑ جائے گی۔ صبر سے کام لو، یقینا اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے‘‘۔ اللہ تعالیٰ کے اس دو ٹوک حکم کے باوجود اگر مسلمان آپس میں برسر پیکار ہو ہی جائیں تب بھی خالق کائنات نے سورۂ الحجرات کی آیت 9 میں ہدایت فرمائی ہے کہ:۔ ’’اور اگر اہل ایمان میں سے دو گروہ آپس میں لڑ جائیں تو ان کے درمیان صلح کرا دیا کرو۔ پھر اگر ان میں سے ایک گروہ دوسرے گروہ سے زیادتی کرے تو زیادتی کرنے والے سے لڑو یہاں تک کہ وہ اللہ تعالیٰ کے حکم کی طرف پلٹ آئے۔ پھر اگر وہ پلٹ آئے تو ان کے درمیان عدل کے ساتھ صلح کرا دو اور انصاف کرو کہ اللہ تعالیٰ انصاف کرنے والوں کو پسند کرتا ہے‘‘۔ مقام شکر ہے کہ اسی حکم قرآنی پر عمل پیرا ہوتے ہوئے ترکیہ اور قطر نے پاکستان اور افغانستان کو مذاکرات کی میز پربٹھایا۔ دونوں میں 18 اور 19 اکتوبر کے مذاکرات کے نتیجے میں جنگ بندی عمل میں آگئی۔ جسے ’دوحا معاہدہ‘ کا نام دیا گیا جنگ بندی کی شرائط اور وعدوں پر عمل درآمد کو ٹھوس شکل دینے کے لیے فریقین میں ترکیہ کی میزبانی میں 25 اکتوبر سے استنبول میں مذاکرات کا دوسرا مرحلہ شروع ہوا۔ چار روز تک مذاکرات کا عمل جاری رہا مگر فریقین کسی نتیجے پر نہ پہنچ سکے اور بدھ کے روز پاکستان کے وزیر اطلاعات و نشریات نے مذاکرات کی ناکامی کا باضابطہ اعلان کر دیا تاہم ثالث ممالک ترکیہ اور قطر نے فریقین کو بات چیت جاری رکھنے پر آمادہ کیا اور جمعرات تیس اکتوبر کو مذاکرات سے متعلق ایک مشترکہ اعلامیہ جاری کیا گیا جس میں بتایا گیا ہے کہ 25 سے 30 اکتوبر تک جاری رہنے والے مذاکرات کا مقصد دوحا مذاکرات میں طے پانے والی جنگ بندی کو مضبوط بنانا تھا۔ مذاکرات کا مقصد پاکستان کی طرف سے ایک ہی بنیادی مطالبے پر پیش رفت حاصل کرنا تھا کہ افغان سرزمین کو پاکستان کے خلاف دہشت گردی کے لیے استعمال ہونے سے مؤثر طور پر روکا جائے اور بھارت کے حمایت یافتہ دہشت گرد گروہوں، خصوصاً فتنہ الخوارج (ٹی ٹی پی) اور فتنہ الہندوستان (بی ایل اے) کے خلاف فیصلہ کن اقدامات کیے جائیں، یہ مذاکرات کئی موقعوں پر تعطل کا شکار ہوتے دکھائی دیے۔ خاص طور پر ایک روز قبل صورتحال یہ تھی کہ بات چیت کسی حتمی نتیجے تک نہیں پہنچ پائی تھی اور پاکستانی وفد واپسی کی تیاری کر چکا تھا، تاہم میزبان ممالک ترکیہ اور قطر کی درخواست اور افغان طالبان وفد کی طرف سے پہنچائی گئی التماس کے بعد پاکستان نے ایک بار پھر امن کو ایک موقع دینے کے لیے مذاکراتی عمل کو جاری رکھنے پر رضا مندی ظاہر کی۔ اعلامیہ کے مطابق گزشتہ روز ہونے والے مذاکرات میں تمام فریقین نے جنگ بندی کے تسلسل پر اتفاق کیا ہے، جنگ بندی کے نفاذ کی مزید تفصیلات اور طریقہ کار 6 نومبر 2025ء کو استنبول میں اعلیٰ سطح کے اجلاس میں طے کیے جائیں گے، جنگ بندی پر رضا مندی اس بات سے مشروط ہے کہ افغانستان کی سرزمین سے پاکستان کے خلاف دہشت گردی نہ ہو، اس کا مطلب یہ ہے کہ افغان طالبان فتنہ الخوارج اور فتنہ الہندوستان جیسے دہشت گرد گروہوں کے خلاف واضح، قابل تصدیق اور موثر کارروائی کریںگے۔ اعلامیہ کے مطابق تمام فریقین اس بات پر متفق ہوئے ہیں کہ جنگ بندی کی نگرانی اور تصدیق کے لیے ایک باقاعدہ نظام قائم کیا جائے گا، جو امن کی خلاف ورزی کی صورت میں خلاف ورزی کرنے والے فریق کو سزا وار ٹھیرائے گا۔ اعلامیہ میں مزید کہا گیا کہ بطور ثالث، ترکیہ اور قطر دونوں فریقوں کی فعال شرکت کی قدر کرتے ہیں اور دائمی امن اور استحکام کے لیے تعاون جاری رکھنے کے لیے تیار ہیں۔
پاکستان اور افغانستان کے مابین جنگ بندی کروانے اور اس کے تسلسل پر فریقین کو متفق کرنے میں ثالث اور میزبان ممالک کا کردار یقینا قابل ستائش ہے اگرچہ بعض دیگر مسلمان ممالک بھی اس تنازع کو طے کرانے اور جنگ کو پھیلنے سے روکنے میں پس پردہ خاصے متحرک رہے اور برسر جنگ برادر ملکوں پاکستان اور افغانستان کو باہم مل بیٹھ کر مسائل کے حل پر آمادہ کرنے میں موثر اور فعال کردار ادا کیا تاہم ترکی اور قطر کے مذاکراتی وفود نے مذاکرات کو نتیجہ خیز بنانے کے لیے ان تھک اور شب و روز محنت کی ہے جس کا اعتراف کیا جانا ضروری بھی ہے اور مذاکرات کے اختتام پر جاری کیے گئے مشترکہ اعلامیہ میں فراخدلی سے یہ اعتراف کیا بھی گیا ہے توقع رکھنا چاہیے کہ ان کی محنت کے نتیجے میں حاصل ہونے والی کامیابی کو ضائع نہیں ہونے دیا جائے گا اور امت مسلمہ اور دونوں مسلم ممالک کے بدخواہوں کو خوش ہونے کا موقع دینے کے بجائے جنگ بندی کو مزید مستحکم بنایا جائے گا تاکہ دونوں ملکوں کے برادر عوام امن اور دوستی کی فضا میں ترقی و خوش حالی کی جانب سفر جاری رکھ سکیں اور ماضی کی طرح اس سفر میں دونوں برادر اسلامی اور ہمسایہ ممالک ایک دوسرے کا سہارا بنتے ہوئے اندرونی استحکام حاصل کرنے میں بھی کامیاب ہوں۔ اس مقصد کے لیے ضروری ہے کہ دونوں ممالک اپنے انتہا پسندانہ سوچ رکھنے والے عناصر کو معاملات بگاڑنے کا موقع نہ دیں۔ پاکستان ہمیشہ سے عالمی سطح پر امن کا علم بردار رہا ہے خصوصاً اپنے ہمسایہ ممالک سے اچھے تعلقات اس کی ترجیحات میں شامل رہے ہیں، مگر بدقسمتی سے حالات اس نہج پر پہنچ گئے کہ افغانستان سے کشیدگی اس قدر شدت اختیار کر گئی کہ دونوں ملک آمادہ جنگ ہو گئے امید ہے کہ اب دوبارہ حالات کو اس رخ پر جانے سے ہر صورت روکا جائے گا جس کا نتیجہ تباہی کی شکل میں سامنے آتا ہے۔