کووڈ اور سیلاب کی تباہ کاریوں میںسافکو کی خدمات نمایاں ہیں،محسن احمد
اشاعت کی تاریخ: 18th, February 2025 GMT
حیدرآباد(اسٹاف رپورٹر)سافکو ہیڈ آفس میں پاکستان کا مائیکرو فنانس منظرنامہ ابھرتے ہوئے مواقع اور بڑھتے ہوئے چیلنجز کے عنوان سے ایک سیشن کا انعقاد کیا گیا، جس میں پاکستان مائیکرو فنانس نیٹ ورک کے چیف ایگزیکٹو آفیسر سید محسن احمد اور ہیڈ آف آپریشنز علی بشارت نے سافکو عملے کے سوالات کے جوابات دیے اور انہیں پاکستان کے مالیاتی شعبے کی موجودہ صورتحال اور مستقبل کے چیلنجز کے بارے میں آگاہ کیا۔ پی ایم این کے سربراہ سید محسن احمد نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ سافکو ہیڈ آفس کے دورے سے ملک میں مالیاتی خدمات کے شعبے کو درپیش چیلنجز اور نئے رجحانات پر نتیجہ خیز گفتگو کرنے کا موقع ملا۔ سافکو کی خدمات اور اس نے مالیاتی شعبے میں حاصل کی گئی حیثیت کو سراہتے ہوئے انہوں کہا کہ تمام رکاوٹوں اور مشکلات بشمول کووڈ اور سیلاب کی تباہ کاریوں، معاشی بحرانوں، افراط زر اور مہنگائی اضافے کے باوجود سافکو اس وقت جہاں موجود ہے یہ اس کی قیادت، وژن اور دانشمندی کا نتیجہ ہے جس کی وجہ سے سافکو کا شمار نہ صرف ملکی بلکہ عالمی مالیاتی اداروں میں ہوتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ سافکو نے 1986ء سے ایک این جی او کے طور پر آغاز کیا اور پھر ملک کی معیشت میں کردار ادا کرنے والی ایک اہم کمپنی ‘ایس ایم سی ایل’ قائم کی جو کہ پاکستان مائیکرو فنانس نیٹ ورک کے بانیوں میں سے ایک سلیمان جی ابڑو کی ایک بڑی کامیابی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایک این جی او سے مالیاتی کمپنی تک کے مشکل سفر کے بعد سافکو نے ملک میں ایک مثال قائم کی ہے اور ہر قسم کے حالات میں نہ صرف خود کو برقرار رکھا بلکہ خود کو ثابت بھی کیا ہے۔ مائیکرو فنانس سیکٹر کی مستقبل کی اہمیت پر بات کرتے ہوئے سید محسن احمد نے کہا کہ کمرشل بینکوں، سرمایہ کاروں اور حکومتوں کی توجہ چھوٹے کاروباروں کے لیے مالیاتی خدمات فراہم کرنے کی طرف بڑھ رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ مائیکرو فنانس سیکٹر چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروبار کرنے والوں کو مالی سہولیات اس طرح فراہم کرتا ہے تاکہ وہ اپنے پاؤں پر کھڑے ہوں اور ان کی زندگی میں خوشحالی آئے۔ سید محسن نے کہا کہ اس شعبے کے مسائل حل ہونا شروع ہو گئے ہیں، اور یہ شعبہ پہلے سے زیادہ ترقی کر رہا ہے۔ ورلڈ بینک بھی پاکستان کے مائیکرو فنانس سیکٹر کو فروغ دلانے کے لیے اقدامات کر رہا ہے، جس میں آفات سے متاثرہ علاقوں کے لوگوں کو اپنے پیروں پر کھڑا کرنے میں مدد کے لیے فنڈز مختص کرنا بھی شامل ہے۔ انہوں نے کہا کہ بطور ادارہ پی ایم این ہماری کوشش ہے کہ ایسی پالیسی لائیں اور ایسے فیصلے کیے جائیں جن سے نہ صرف اس شعبے کو فائدہ پہنچے بلکہ مالیاتی خدمات حاصل کرنے والوں کو بھی حقیقی معنوں میں فائدہ پہنچے اور مالیاتی ادارو کے توسط سے انسانیت کی خدمت ہو سکے۔ قبل ازیں منیجنگ ڈائریکٹر ایس ایم سی ایل سید سجاد علی شاہ نے مہمانوں کو خوش آمدید کہا جبکہ سافکو بزنس آپریشنز کے سربراہ بشیر احمد ابڑو نے پی ایم این کی قیادت کا شکریہ ادا کیا۔
.ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: انہوں نے کہا کہ مائیکرو فنانس
پڑھیں:
ٹرمپ نے گھٹنے ٹیک دیئے؟ چین پر عائد ٹیرف میں نمایاں کمی کا اعلان
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے چین سے درآمد کی جانے والی اشیاء پر عائد 145 فیصد ٹیرف کو "نمایاں طور پر کم" کرنے کا اعلان کیا ہے۔
عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق اپنی جارحانہ ٹیرف جنگ میں نمایاں کمی کا یہ اعلان ڈونلڈ ٹرمپ نے وائٹ ہاؤس میں ایک نیوز کانفرنس کے دوران کیا۔
تاہم ڈونلڈ ٹرمپ نے واضح کیا کہ چین پر عائد ٹیرف کو مکمل طور پر ختم نہیں کیا جائے گا۔
یہ بیان ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب امریکی وزیر خزانہ نے ان ٹیرف کو "ناقابلِ برداشت" قرار دیتے ہوئے دونوں ممالک کے درمیان تجارتی کشیدگی میں کمی کی پیش گوئی کی۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اگرچہ نرم رویہ اختیار کیا لیکن مکمل پسپائی سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ ہم چین کے ساتھ ٹھیک چل رہے ہیں، ٹیرف اتنے زیادہ نہیں ہوں گے۔
ڈونلڈ ٹرمپ نے چین کے ساتھ دو طرفہ تعلقات کو بہتر رکھنے کی خواہش بھی ظاہر کی اور چینی صدر شی جنپنگ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ہم ایک ساتھ خوشی سے رہیں گے اور مثالی طور پر کام بھی کریں گے۔
چینی میڈیا، خصوصاً "چائنا ڈیلی" نے ڈونلڈ ٹرمپ کی پالیسی میں اس تبدیلی کو عوامی دباؤ کے باعث اپنی گرتی ہوئی مقبولیت کو بحال کرنے کی کوشش قرار دیا۔
چین کے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ویبو پر ٹرمپ کے ان بیانات کو "ٹرمپ نے شکست تسلیم کرلی" جیسے ہیش ٹیگز کے ساتھ پیش کیا جا رہا ہے۔
یاد رہے کہ امریکا اس وقت تک چینی مصنوعات پر 145 فیصد ٹیرف عائد کرچکا ہے جس کے ردعمل میں چین نے بھی امریکی مصنوعات پر 125 فیصد محصولات لگائے ہیں۔
ان دونوں ممالک کی اس ٹیرف جنگ نے عالمی تجارت کو شدید متاثر کیا، مارکیٹس میں بے چینی پیدا ہوئی اور مہنگائی کے ساتھ سود کی شرح میں اضافے کا سبب بھی بنا۔