عمومی طور پر پاکستان میں کسی بھی سابق یا موجودہ وزیراعظم کی جانب سے آرمی چیف، چیف جسٹس آف پاکستان یا اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کو خط لکھنے کی کوئی روایت موجود نہیں رہی ہے۔ لیکن سابق وزیراعظم عمران خان نے آرمی چیف کو براہ راست تین خطوط اور چیف جسٹس آف پاکستان اور چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ کو ایک ایک خط لکھ کر ایک نئی روایت ڈالی ہے۔ ملکی اور بین الاقوامی سطح پر ان خطوط کے سیاسی چرچے عام ہیں۔ اگرچہ یہ خطوط آرمی چیف کو مخاطب کر کے لکھے گئے ہیں لیکن یہ ایک اوپن لیٹر بھی ہیں اور اس کو پوری دنیا میں کوئی بھی پڑھ سکتا ہے اور اس وقت ڈیجیٹل میڈیا میں یہ خطوط مختلف لوگوں کے اندر زیر بحث ہیں۔ ان خطوط میں عمران خان نے فوج اور عوام کے درمیان بڑھتی ہوئی خلیج اور تحفظات پر شدید تشویش کا اظہار کیا ہے اور ان کے بقول یہ قومی سلامتی اور داخلی خود مختاری کے لیے ایک بڑا چیلنج ہے۔ اسی طرح دہشت گردی کے خلاف جنگ میں فوجی اور دیگر سیکورٹی اہلکاروں کی شہادتوں پر بھی انہوں نے کافی تشویش کا اظہار کیا ہے۔ لیکن ساتھ ساتھ انہوں نے فوج کے سیاسی کردار پر شدید تنقید کی ہے اور کہا ہے کہ فوج کے سیاسی کردار کی وجہ سے عوام اور فوج میں خلیج پیدا ہوتی ہے۔ ان دو برسوں میں جو کچھ پی ٹی آئی کے ساتھ ہوا ہے اس پر انہوں نے کافی تشویش کا اظہار کیا ہے اور براہ راست اس کا الزام اسٹیبلشمنٹ اور عدلیہ پر لگایا ہے۔ اگرچہ آرمی چیف نے اس بات کی تردید کی ہے کہ انہیں کوئی خط ملا ہے ان کے بقول اوّل تو کوئی خط نہیں ملا اور اگر کوئی خط ملا بھی تو وہ اس کو پڑھیں گے نہیں بلکہ خط وزیراعظم کو بھیج دیں گے۔ ان کے بقول اس طرح کے خطوط ایک میڈیا آپٹکس ہوتے ہیں اور ان کا مقصد توجہ حاصل کرنا ہوتا ہے۔ فوج کی سربراہ نے جو جواب دیا وہ اپنی جگہ درست ہے اور شاید انہیں یہی کچھ کہنا چاہیے تھا جو انہوں نے کہا ہے۔ لیکن یہ ممکن نہیں ہے کہ یہ خط انہوں نے پڑھا نہیں ہوگا۔ کیونکہ ایسا خط جسے پوری دنیا میں پڑھا اور سنا گیا ہے وہ یہاں آرمی چیف کی نظر سے نہ گزرا ہو ممکن نہیں۔ اس خط میں عمران خان نے پاکستان کی داخلی سیاست کے دو بڑے اداروں اسٹیبلشمنٹ اور عدلیہ کے درمیان موجود مسائل اور بگاڑکی نشاندہی کی ہے۔ ان کے بقول پاکستان میں جمہوریت کا مضبوط نہ ہونا اور ایک مضبوط سیاسی نظام اور شفاف انتخابی نظام نہ ہونے کی بنیادی وجہ عدلیہ اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان باہمی گٹھ جوڑ ہے۔ ایک طرف عمران خان نے فوج کے ساتھ اپنے تعلقات کی بحالی کی بات کی ہے یا اسے مضبوط بنانے پر زور دیا ہے تو دوسری طرف اسٹیبلشمنٹ اور عدلیہ پر کڑی تنقید ظاہر کرتی ہے کہ ان کے بہت سے معاملات ان اداروں سے درست نہیں ہیں۔ پس پردہ عمران خان اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان جو بات چیت چل رہی تھی مفاہمت کے تناظر میں لگتا ہے اس میں بھی کوئی خاص کامیابی نہیں ہوئی۔ کچھ لوگوں کے بقول عمران خان نے ان خطوط کے ذریعے عملاً اسٹیبلشمنٹ پر ایک بڑا دباؤ ڈالنے کی کوشش کی ہے۔ حکومت تو اس لحاظ سے خوش ہے کہ آرمی چیف نے ان خطوط پر کوئی زیادہ مثبت بات نہیں کی اور ویسے بھی حکومت کی کوشش ہے کہ عمران خان اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان کسی قسم کی کوئی مفاہمت پیدا نہ ہو۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ عمران خان نے ان خطوط کے ذریعے قومی سطح پر ایک نیا سیاسی بیانیہ بنانے کی کوشش کی ہے اور یہ سیاسی بیانیہ اسٹیبلشمنٹ مخالف سیاست ہوگی۔ اسی بنیاد پر پی ٹی آئی کے لوگ اس طرف اشارہ کر رہے ہیں کہ عید کے بعد ایک بڑے گرینڈ اتحاد کی صورت میں ملک گیر سیاسی تحریک چلائی جائے گی۔ اس تحریک میں ممکنہ طور پر پی ٹی آئی کے ساتھ جماعت اسلامی جے یو آئی اور محمود خان اچکزئی کی جماعتیں شامل ہوں گی۔ مولانا فضل الرحمن نے بھی قومی اسمبلی میں ایک بہت زوردار تقریر کی ہے اور اس تقریر میں ان کا انداز کافی جارہا نہ تھا جو کہ یقینی طور پر حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کے لیے قابل قبول نہیں ہوگا۔ اگرچہ حکومت اور اسٹیبلشمنٹ ان خطوط پر بظاہر پراعتماد نظر آتی ہے اور سمجھتی ہے کہ داخلی سیاست میں ان کے لیے کوئی خطرہ نہیں ہے۔ لیکن عالمی سطح پر ان خطوط کی بڑی اہمیت ہے کیونکہ جس انداز سے عالمی میڈیا میں اور عالمی تھنک ٹینکس میں یہ خطوط پڑھے گئے ہیں اس سے پاکستان کی حکومت اور اسٹیبلشمنٹ میں دباؤ بڑھ سکتا ہے۔ عمران خان نے ان خطوط میں جو کچھ لکھا ہے یہ کوئی نئی بات نہیں ہے۔ ایک مضبوط اسٹیبلشمنٹ اور نظریہ ضرورت کی عدلیہ نے ملک کے سیاسی نظام کو کمزور کیا ہے اور آج بھی ملک میں موجود جمہوری نظام اسٹیبلشمنٹ کے سہارے کی بنیاد پر کھڑا ہے۔ اسی طرح پاکستان میں انتخابات کی کہانی کبھی بھی منصفانہ اور شفاف نہیں رہی ہے۔ ہم نے ہر انتخابات میں اپنی مرضی کے نتائج حاصل کرنے کے لیے الیکشن کمیشن سمیت دیگر اداروں کو استعمال کیا ہے اور یہی وجہ ہے کہ یہاں ہر انتخابات متنازع رہے ہیں۔ اسی طرح عمران خان نے عدلیہ کو بھی جو خطوط لکھے ہیں ان میں عدلیہ کے کردار کے بارے میں بھی بہت سے سوالات اٹھائے ہیں۔ ان کے بقول ایک آزاد اور منصفانہ عدلیہ کی عدم موجودگی انصاف کے نظام میں بہت بڑی رکاوٹ ہے۔ پچھلے دو برسوں میں جو کچھ پی ٹی آئی کے ساتھ ہوا اس پر عدلیہ کی خاموشی پر بھی سوالات اٹھائے گئے ہیں۔ کچھ لوگوں کے بقول عمران خان کو اس طرح براہ راست آرمی چیف کو خط نہیں لکھنا چاہیے تھا اور ان کا یہ عمل فوج کو سیاسی نظام میں مداخلت کی دعوت دے رہا ہے۔ یہ بات کافی حد تک درست ہے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ اس ملک میں فیصلے کی اصل طاقت بھی انہی اداروں کے پاس ہے۔ یقینی طور پر عمران خان کے ان خطوط سے پی ٹی آئی اسٹیبلشمنٹ کے درمیان فاصلے بڑھیں گے۔ پی ٹی آئی میں جو لوگ اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ تعلقات بہتر بنا کر آگے بڑھنے کے حامی تھے انہوں نے بھی عمران خان کے ان خطوط کو مناسب نہیں سمجھا اور ان کو لگتا ہے کہ اس سے ان کے اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان تعلقات متاثر ہوں گے۔ لیکن عمران خان کوئی ایسا سمجھوتا کرنے کے لیے تیار نظر نہیں آرہے جس میں اسٹیبلشمنٹ کا پلڑا بھاری ہو۔ یہی وجہ ہے کہ ان خطوط سے عمران خان نے اپنی مزاحمت کا پہلو بھی دکھایا ہے اور بہت سے معاملات میں اسٹیبلشمنٹ کو چیلنج بھی کیا ہے۔ یہ ایک نئی سیاسی لڑائی ہے جو قومی سیاست پر غالب ہو رہی ہے۔ اسٹیبلشمنٹ اس نظام کو یا سیاسی بندوبست کو اگلے دو سے تین برس چلانا چاہتی ہے جو عمران خان کو کسی بھی صورت میں قابل قبول نہیں ہے۔ عمران خان کا فوری انتخابات کا معاملہ بھی اسٹیبلشمنٹ کے لیے قابل قبول نظر نہیں آتا اور نہ ہی نو مئی یا آٹھ فروری کے انتخابات پر کوئی عدالتی کمیشن بنانے پہ حکومت سنجیدہ نظر آتی ہے۔ اس لیے یہ ایک ڈیڈ لاک کی صورتحال ہے اور اس ڈیڈ لاک میں خطوط کی یہ سیاست نئی محاذ آئی اور ٹکراؤ کے ماحول کو پیدا کرے گی۔ سوال یہ ہے کہ کیا پی ٹی آئی کوئی بڑی مزاحمت پیدا کر سکے گی؟ اور کیا وہ دیگر سیاسی جماعتوں کے ساتھ مل کر ایک گرینڈ الائنس کی صورت میں کوئی بڑا سیاسی معرکہ مار سکے گی۔ مولانا فضل الرحمن اس موقع سے فائدہ اٹھا کر اس الائنس کی سربراہی حاصل کرنا چاہتے ہیں مگر مولانا کے کردار پر پی ٹی آئی میں جہاں حمایت ہے وہیں ان کی مخالفت بھی کی جا رہی ہے۔ خطوط کی سیاست بھی اسی صورت میں سامنے آتی ہے جب قومی سیاست میں مفاہمت اور مکالمے کی گنجائش کم رہ جاتی ہے۔ جو بات چیت مکالمے کی صورت میں ہونی چاہیے وہ اگر خطوط کے اندر ہوگی تو وہ قومی بداعتمادی کے ماحول کو پیدا کرتی ہے۔
.ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان اسٹیبلشمنٹ اور ان کے بقول کیا ہے اور پی ٹی آئی کے سیاسی چیف جسٹس انہوں نے آرمی چیف خطوط کے نہیں ہے کے ساتھ کی صورت کوئی خط رہی ہے اور اس کے لیے اور ان
پڑھیں:
بانی پی ٹی آئی سیاسی داؤ پیچ میں صفر بٹا صفر ہیں، حفیظ اللہ نیازی
لاہور:سابق وزیر خارجہ خورشید محمود قصوری نے کہا کہ سویلینز پر جو حملہ ہے اس کا کوئی جواز نہیں ہے، میں شہریوں کہ مرنے پر ہمدردی کا اظہار کرتا ہوں لیکن اس کو دیکھنا یہ پڑے گا کہ پاکستان میں شہریوں پر حملے ہو رہے ہیں تو کیا اسی طرح انڈین فارن آفس نے مذمت کی ہے؟، پاکستان کی وزارت خارجہ نے تو مذمت کی ہے تو ایک فرق ہے۔
ایکسپریس نیوز کے پروگرام اسٹیٹ کرافٹ میں گفتگو کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ بلوچستان میں جب ٹرین سے اتارے گئے تھے لوگ، ان کے شناختی کارڈ دیکھ کر ان کو مارا گیا تھا تو دنیا سے تعزیت کے پیغامات آئے، میرا خیال تھا کہ بھارت سے بھی آئیں گے مجھے یا د نہیں آپ کو یاد ہے تو مجھے یاد کرا دیں،
تجزیہ کار حفیظ اللہ نیازی نے کہا کہ کئی لحاظ سے بڑا سادہ اور کئی لحاظ سے بڑا پیچیدہ موضوع ہے پہلی بات تو یہ ہے کہ عمران خان صاحب جو ہیں ان کی مقبولیت جو ہے اس کی بنیاد کیا ہے، اس کی بنیاد یہ تو نہیں ہے کہ جس پر ہم سارے کم و بیش متفق ہیں کہ عمران خان سیاسی طور پر پاکستان کے انتہائی مقبول رہنما ہیں تو کیا انھوں نے کشمری فتح کیا تھا؟،کشمیر تو انھوں نے اپنے ہاتھ سے دے دیا تھا 5 اگست 2019 کو، عمران خان کے پاس سمجھ بوجھ کی کمی نہیں، اللہ تعالیٰ نے بہت صلاحیتیں دی ہیں لیکن سیاسی داؤ پیچ، سیاسی حکمت عملی میں وہ صفر بٹا صفر ہیں۔
تجزیہ کار محسن بیگ مرزا نے کہا کہ بیسیکلی آپ نے جو کرائم کیا ایکٹ کیا وہ سب کے سامنے ہے اس میں یہ کہناکہ پروف لائیں وڈیو لائیں تو نیچرلی جب کیس چلیں گے تو پروف بھی آجائیں گے اور جو ایویڈنس ہے وہ بھی مل جائے گی لیکن بیسک چیز یہ ہے کہ اگر آپ سے کوئی غلطی ہوئی ہے اس لیول پر جو اپنے آپ کو یہ سمجھتے ہیں کہ آپ پاکستان کے بڑے ہی پاپولر لیڈر ہیں تو آپ کو ایڈمٹ کرنا چاہیے کہ آپ نے اداروں کیخلاف ایسا ماحول یونیورسٹیوں اور کالجوں میں جا کر بنایا نوجوان نسل کو اتنا ورغلایا کہ شاید کوئی دشمن بھی یہ کام نہ کر سکے تو اس پر آپ کو ریلائز کرنا چاہیے یہ ملک آپ کو ملا پونے چار سال، آپ اس کو نہیں چلا سکے۔
تجزیہ کار نصر اللہ ملک نے کہا کہ میں پہلے دن سے سمجھتا ہوں میری یہ رائے ہے کہ پاکستان تحریک انصاف اور اسٹیبلشمنٹ کے براہ راست مذاکرات کا آغاز کبھی نہیں ہوا، کبھی کبھی کچھ باتیں سامنے آ جاتی ہیں علی امین گنڈاپور پیغام لیکر گئے اعظم سواتی پیغام لیکر گئے اس میں حقیقت ایسی نہیں ہے خواہشات کا اظہار ضرور ہوتا رہا ہے، پیغامات بھجوائے جاتے رہے ہیں ابھی بھی جو ڈیلیگیشن ملا، اس نے جا کر جو بات چیت کی، یہی کہا کہ عمران خان صاحب کے ساتھ مذاکرات ہونے چاہییں پھر جو پیغامات بجھوائے گئے عمران خان صاحب نے بھی پیغامات بجھوائے ہیں۔