کانگریس ترجمان نے جلدی آؤٹ ہونے پر روہت شرما کو موٹا قرار دے دیا
اشاعت کی تاریخ: 3rd, March 2025 GMT
کانگریس ترجمان نے جلدی آؤٹ ہونے پر روہت شرما کو موٹا قرار دے دیا۔
نیوزی لینڈ کیخلاف میچ میں روہت شرما 15 رنز پر آؤٹ ہوگئے تھے جس پر کانگریس ترجمان شمع محمد نے بھارتی کپتان کو ’موٹا‘ قرار دے دیا۔
شمع محمد نے اپنی پوسٹ میں لکھا کہ"روہت شرما ایک کھلاڑی کے لیے موٹے ہیں، اُنہیں وزن کم کرنے کی ضرورت ہے"۔
شمع محمد کا یہ بھی کہنا تھا کہ روہت شرما کے بارے میں "ورلڈ کلاس" کا جملہ غیر حقیقت پسندانہ ہے اور انکا سابق کپتانوں گنگولی، سچن، دھونی، کپل دیو اور شاستری کے ساتھ موازنہ نہیں کرنا چاہیے۔
کانگریس ترجمان کے اس بیان پر بھارت میں ہنگامہ کھڑا ہوگیا اور بی جے پی نے موقع غنیمت جان کر کانگریس کے خلاف محاذ کھول دیا۔
روہت شرما کے مداحوں نے بھی سخت ردعمل دیا اور ان کی قیادت میں بھارتی ٹیم کی شاندار کارکردگی کے اعداد و شمار پیش کیے۔
بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) نے اس بیان کو کانگریس کی "ایمرجنسی ذہنیت" قرار دیتے ہوئے سخت تنقید کی۔
حکمران جماعت کے ترجمان پردیپ بھنڈاری نے طنزیہ انداز میں کہا کہ "کیا اب راہل گاندھی سیاست میں ناکامی کے بعد کرکٹ کھیلنے کی تیاری کر رہے ہیں؟"
شمع محمد نے وضاحت دیتے ہوئے کہا کہ ان کا تبصرہ "عمومی نوعیت" کا تھا اور وہ یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ جمہوریت میں اظہار رائے کی آزادی کیوں محدود ہے۔
دوسری جانب کانگریس نے بھی شمع محمد کے بیان سے لاتعلقی کا اعلان کرتے ہوئے انہیں سوشل میڈیا سے متنازع پوسٹس ڈیلیٹ کرنے اور آئندہ احتیاط برتنے کی ہدایت کردی۔
پارٹی کے سینئر رہنما پون کھیڑا نے کہا کہ کانگریس اپنے قومی ہیروز کو قدر کی نگاہ سے دیکھتی ہے اور ایسے کسی بھی بیان کی حمایت نہیں کرتی۔"
پارٹی قیادت کے حکم پر شمع محمد نے اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹ سے متنازعہ پوسٹ کے علاوہ وہ تمام پوسٹس بھی ڈیلیٹ کر دیں جن میں وہ اپنی رائے کا دفاع کر رہی تھیں مگر دلچسپ بات یہ ہے کہ انہوں نے اب تک معافی نہیں مانگی۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: کانگریس ترجمان روہت شرما
پڑھیں:
پاکستان کو جنگ نہیں بلکہ بات چیت کے ذریعے تعلقات بہتر بنانے چاہییں، پروفیسر محمد ابراہیم
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
کراچی: جماعتِ اسلامی پاکستان کے نائب امیر پروفیسر محمد ابراہیم نے کہا ہے کہ افغانستان میں طالبان حکومت کے قیام سے جماعت اسلامی کو خودبخود تقویت نہیں ملے گی، اگر جماعت اسلامی اپنے بیانیے کو طالبان حکومت کے ساتھ ہم آہنگ کرے تو اس سے فکری اور نظریاتی سطح پر ضرور فائدہ حاصل ہو سکتا ہے۔
جسارت کے اجتماعِ عام کے موقع پر شائع ہونے والے مجلے کے لیے اے اے سید کو دیے گئے خصوصی انٹرویو میں پروفیسر محمد ابراہیم نے کہا کہ طالبان کا پہلا دورِ حکومت 1996ء سے 2001ء اور دوسرا دور 2021ء سے اب تک جاری ہے، پہلے دور میں طالبان کی جماعتِ اسلامی کے ساتھ سخت مخالفت تھی لیکن اب ان کے رویّے میں نمایاں تبدیلی آئی ہے، پہلے وہ بہت تنگ نظر تھے مگر اب وہ افغانستان کو جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں ۔
انہوں نے انکشاف کیا کہ امیرالمؤمنین ملا ہبت اللہ اور ان کے قریبی حلقے میں اب بھی ماضی کی کچھ سختیاں موجود ہیں، جس کی مثال انہوں نے انٹرنیٹ کی دو روزہ بندش کو قرار دیا، ستمبر کے آخر میں طالبان حکومت نے انٹرنیٹ اس بنیاد پر بند کیا کہ اس سے بے حیائی پھیل رہی ہےمگر دو دن بعد خود ہی فیصلہ واپس لے لیا، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ اصلاح کی سمت بڑھ رہے ہیں۔
پروفیسر محمد ابراہیم نے کہا کہ موجودہ طالبان حکومت ایک بڑی تبدیلی کی علامت ہے، اور جماعت اسلامی کو اس سے فکری و نظریاتی سطح پر فائدہ پہنچ سکتا ہے، گزشتہ دہائی میں دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی نے گہرے منفی اثرات چھوڑے ہیں،
آج بھی دونوں طرف سے ایک دوسرے کے خلاف شدید پروپیگنڈا جاری ہے، اور ہمارے کچھ وفاقی وزراء اپنے بیانات سے حالات مزید خراب کر رہے ہیں ۔
انہوں نے وفاقی وزیر دفاع خواجہ آصف اور وزیر اطلاعات عطا تارڑ کے بیانات کو غیر ذمہ دارانہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ ان کی زبان کسی باشعور انسان کی نہیں لگتی، وزیرِ دفاع کا یہ کہنا کہ اگر مذاکرات ناکام ہوئے تو جنگ ہوگی بے وقوفی کی انتہا ہے، خواجہ آصف ماضی میں یہ بھی کہہ چکے ہیں کہ افغانستان ہمارا دشمن ہے اور محمود غزنوی کو لٹیرا قرار دے چکے ہیں جو تاریخ سے ناواقفیت کی علامت ہے۔
پروفیسر محمد ابراہیم نے مطالبہ کیا کہ حکومت وزیر دفاع کو فوری طور پر تبدیل کرے اور استنبول مذاکرات کے لیے کسی سمجھدار اور بردبار شخصیت کو مقرر کرے، پاکستان اور افغانستان کے درمیان کشیدگی کم کرنے کے لیے لازم ہے کہ پشتون وزراء کو مذاکرات میں شامل کیا جائے جو افغانوں کی نفسیات اور روایات کو سمجھتے ہیں۔
انہوں نے وزیر اطلاعات عطا تارڑ کے بیان پر بھی ردِعمل دیتے ہوئے کہا کہ یہ کہنا کہ ہم ان پر تورا بورا قائم کر دیں گے انتہائی ناسمجھی ہے، تورا بورا امریکی ظلم کی علامت تھا، اور طالبان آج اسی کے بعد دوبارہ اقتدار میں ہیں۔ ایسی باتیں بہادری نہیں، بلکہ نادانی ہیں۔
پروفیسر محمد ابراہیم نے زور دیا کہ پاکستان کو جنگ نہیں بلکہ احترام، بات چیت اور باہمی اعتماد کے ذریعے افغانستان سے تعلقات بہتر بنانے ہوں گے کیونکہ یہی خطے کے امن و استحکام کی واحد ضمانت ہے۔