امریکہ اپنی غنڈہ گردی کی روش ترک کرے ، چینی وزارت خارجہ
اشاعت کی تاریخ: 5th, March 2025 GMT
امریکہ اپنی غنڈہ گردی کی روش ترک کرے ، چینی وزارت خارجہ WhatsAppFacebookTwitter 0 5 March, 2025 سب نیوز
بیجنگ:چینی وزارت خارجہ کے ترجمان لین جیئن نے کہا ہےکہ اگر امریکہ واقعی فینٹانل کے مسئلے کو حل کرنا چاہتا ہے تو اسے برابری، احترام اور باہمی تعاون کی بنیاد پر اپنے خدشات کو حل کرنے کے لئے چین کے ساتھ مشاورت کرنی چاہئے۔
بد ھ کے روز تر جمان سے یو میہ پر یس کا نفرنس میں ایک صحافی نے امریکہ کی جانب سے فینٹانل کے معاملے کو بہانے کے طور پر استعمال کرتے ہوئے امریکہ کو چینی مصنوعات پر اضافی محصولات عائد کرنے سے متعلق پوچھا۔ترجمان نے کہا کہ چین نے اس حوا لے سے بارہا اپنی مخالفت کا اظہار کیا ہے اور جائز اور ضروری جوابی اقدامات اٹھائے ہیں۔انہوں نے زور دے کر کہا کہ اگر امریکہ کے کوئی اور ارادے ہیں اور وہ چین کے مفادات کو نقصان پہنچانے پر بضد رہتا ہے تو چین آخر تک اس کا مقابلہ کرے گا۔ چین نے امریکہ کو مشورہ دیا ہے کہ وہ اپنی غنڈہ گردی کی روش ترک کرے اور جلد از جلد مذاکرات اور تعاون کے صحیح راستے پر واپس آئے۔
.ذریعہ: Daily Sub News
پڑھیں:
لبنان میں امریکہ کی ناکامی
اسلام ٹائمز: مصنف نے نتیجہ اخذ کیا ہے کہ ایک سال کی تباہ کن اور یکطرفہ جنگ بندی کے بعد، لبنان اور صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی مشرق وسطیٰ کی وسیع حکمت عملی ایک اہم موڑ پر ہے۔ اگر وہ ایک "مفاہمت کار" اور "امن ساز" ہے، تو اسے مشرق وسطیٰ میں معاہدوں اور امن میں خلل ڈالنے والے اسرائیل کو روکنا چاہیئے اور تل ابیب پر واشنگٹن کے وسیع اثر و رسوخ کو استعمال کرتے ہوئے، اس جونیئر پارٹنر کو لگام ڈالنا چاہیئے، تاکہ اس کے پڑوسیوں پر مسلط عدم استحکام اور افراتفری کو ختم کیا جا سکے تحریر: حسن عباسی نسب
نیشنل انٹرسٹ نے لکھا ہے کہ لبنان میں امریکی پالیسی نہ صرف غیر موثر ہے بلکہ انتہائی نقصان دہ بھی ہے، کیونکہ واشنگٹن، استحکام پر مبنی کسی بھی حل کی مخالفت کرکے درحقیقت موجودہ غیر مستحکم صورتحال کو برقرار رکھنے میں مدد کر رہا ہے۔ یہ صورتحال بالآخر امریکی حکمت عملی کو مکمل ناکامی کی طرف لے جائے گی۔ IRNA کے مطابق، National Interest نے لکھا ہے کہ اسرائیل اور لبنانی حزب اللہ کے درمیان "جنگ بندی" کے ایک سال بعد، صیہونی حکومت ایک بار پھر مکمل جھڑپوں کی بحالی کی طرف بڑھ سکتی ہے۔ اس امریکی میڈیا سنٹر کے تجزیہ کار "الیگزینڈر لینگلوئس" کا خیال ہے کہ لبنان کی صورت حال ایک واضح مثال ہے، جو ظاہر کرتی ہے کہ اسرائیل اور واشنگٹن کی "طاقت کے ذریعے امن" کا نقطہ نظر قابل عمل نہیں ہے۔
مشرق وسطیٰ کے سیاسی ڈھانچے کے سنجیدہ جائزے کے بغیر بڑے اسٹریٹجک فوائد کو تبدیل نہیں کیا جا سکتا۔ امریکہ درحقیقت، غیر مشروط طور پر تل ابیب کی حمایت کرتے ہوئے ایک ایسی سمت میں آگے بڑھ رہا ہے، جو نہ تو مسئلے کی جڑ کو حل کرسکے گا اور نہ ہی لبنان کو تشدد کے ایک نئے دور میں اترنے سے روک سکے گا۔ اسرائیل اور حزب اللہ کے درمیان "جنگ بندی" کے آغاز کے ایک سال بعد، صورتحال ایسی ہے کہ اسرائیل کھلے عام مکمل جنگ دوبارہ شروع کرنے کی تیاری کر رہا ہے، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ واشنگٹن اپنے اسرائیلی ساتھی کو اپنے وعدوں پر عمل کرنے پر مجبور کرنے سے قاصر اور اس اقدام کو سنجیدگی سے انجام دینے کے لئے تیار نہیں ہے۔
نومبر 2024ء کے معاہدے کے مطابق دونوں فریقوں کو جنوبی لبنان سے دستبردار ہو کر باہمی حملے بند کرنا تھے، لیکن اسرائیل پانچ اہم سرحدی مقامات پر قبضہ برقرار رکھ کر نیز جنوبی لبنان اور حتیٰ کہ بیروت کے اطراف کے علاقوں پر روزانہ حملے جاری رکھ کر اس معاہدے کو غیر موثر بنا رہا ہے۔ اگرچہ لبنانی فوج نے بتدریج جنوب میں اپنی افواج کو تعینات کرنے کی کوشش کی ہے، لیکن مسلسل اسرائیلی کارروائیوں اور حملوں نے نہ صرف اس عمل کو درہم برہم کیا ہے بلکہ لبنانی فوجیوں کی ایک قابل ذکر تعداد کی ہلاکت کا باعث بھی بنی ہے اور یہاں تک کہ اقوام متحدہ کی امن فوج (UNIFIL) بھی ان حملوں سے محفوظ نہیں رہی۔ ایسے حالات میں کشیدگی کو روکنے کے لیے اسرائیل پر دباؤ ڈالنے کے بجائے امریکہ نے عملی طور پر اس کے ساتھ کھڑے ہو کر اس کشیدہ پالیسی کو جاری رکھنے کے لیے ضروری موقع فراہم کیا ہے۔
نیشنل انٹریسٹ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ لبنانی حکومت کے لیے امریکی پالیسی نے دوہرا مخمصہ پیدا کر دیا ہے۔ ایک طرف مغرب اور اسرائیل کی طرف سے حزب اللہ کے ساتھ محاذ آرائی کو تیز کرنے کے لیے دباؤ اور دوسری طرف اندرونی دباؤ اور حزب اللہ اور اس کے اتحادیوں کی جانب سے تخفیف اسلحہ کے معاملے پر مغرب کے ساتھ کسی بھی قریبی تعاون کی مخالفت ہے۔ امریکہ نے شام میں بھی اسی ناکام ماڈل کی پیروی کی ہے اور اسرائیل کی غاصبانہ پالیسی اور مسلسل حملوں کی حمایت کرکے حالات کو طویل مدتی تعطل کی طرف لے جایا گیا ہے۔ اسرائیل کے ساتھ مل کر شام میں اپنی فوجی موجودگی کو بڑھانے کی واشنگٹن کی کوششیں یہ ظاہر کرتی ہیں کہ امریکہ اپنے علاقائی پارٹنر کے رویئے کو معتدل کرنے کے بجائے اپنی بالادستی کو مضبوط کرنے کی طرف بڑھ رہا ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ "نئے مشرق وسطیٰ" میں یہ منصوبہ ماضی کی تکرار کے سوا کچھ نہیں ہے۔ قبضے اور فوجی تشدد کی بنیاد پر ایک غیر مستحکم صورتحال کو برقرار رکھنے سے مشرق وسطیٰ کا دیرینہ "امن" حاصل نہیں ہوگا۔ ماضی میں ایسے طریقوں کو دہرانا آج کی تباہیوں کا باعث بنا ہے۔ مصنف نے نتیجہ اخذ کیا ہے کہ ایک سال کی تباہ کن اور یکطرفہ جنگ بندی کے بعد، لبنان اور صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی مشرق وسطیٰ کی وسیع حکمت عملی ایک اہم موڑ پر ہے۔ اگر وہ ایک "مفاہمت کار" اور "امن ساز" ہے، تو اسے مشرق وسطیٰ میں معاہدوں اور امن میں خلل ڈالنے والے اسرائیل کو روکنا چاہیئے اور تل ابیب پر واشنگٹن کے وسیع اثر و رسوخ کو استعمال کرتے ہوئے، اس جونیئر پارٹنر کو لگام ڈالنا چاہیئے، تاکہ اس کے پڑوسیوں پر مسلط عدم استحکام اور افراتفری کو ختم کیا جا سکے۔