یوکرین،نیٹواورامریکہ:بدلتی حکمت عملی
اشاعت کی تاریخ: 7th, March 2025 GMT
(گزشتہ سے پیوستہ)
سعودی عرب میں ہونے والی سفارتی ملاقاتوں کے دوران بعض ایسی باتیں سامنے آئیں جنہوں نے مغربی دنیا کوحیران کردیا۔ان میں سے ایک ریاض کے بندکمرے میں ہونے والی میٹنگ تھی،جس میں روس اورچین کے نمائندوں کے ساتھ یورپی ممالک کے سفارت کاربھی شریک تھے۔اس میٹنگ کے بین الاقوامی تعلقات پرگہرے اثرات ہوسکتے ہیں، خاص طورپرمشرق وسطی میں طاقت کے توازن کے حوالے سے ایک نئی مضبوط سوچ اس وقت ابھرکرسامنے آئی ہے جب ٹرمپ نے فلسطینیوں کوسعودی عرب اور اردن میں بسانے اورغزہ پرامریکی قبضے کابیان دیاہے ۔
امریکی صدرڈونلڈٹرمپ اوریوکرینی صدر ولودیمیرزیلنسکی کے درمیان حالیہ اوول آفس ملاقات میں کشیدگی دیکھنے میں آئی، جوسفارتی آداب کے حوالے سے غیرمعمولی سمجھی جا رہی ہے۔ ملاقات کے دوران دونوں رہنمائوں کے درمیان تلخ کلامی ہوئی، جس کے بعد مشترکہ پریس کانفرنس اور معدنیات کے معاہدے پر دستخط کی تقریب منسوخ کردی گئی۔
اوول آفس کی ملاقاتوں میں رسمی احترام اور یکجہتی کا اظہارکیاجاتاہے لیکن طاقت کے عدم توازن کونظراندازنہیں کیاجا سکتا۔ سفارتی ملاقاتوں میں آداب اورپروٹوکول کاخاص خیال رکھا جاتا ہے، خاص طورپرجب دوممالک کے سربراہان اکٹھے ہوں۔یوکرین اورامریکاکے درمیان یہ ملاقاتیں عام طورپرسفارتی آداب کاحددرجہ خیال رکھتے ہوئے کی جاتی ہیں جس میں سمبولزم اورمقام کا خیال بھی رکھاجاتاہے یعنی اوول آفس امریکی صدر کی طاقت اورخودمختاری کی علامت ہے۔ یہاں ملاقات کامطلب ہے کہ امریکا خاص طور پر روس کے ساتھ جاری تنازعے کے تناظرمیں یوکرین کواہم اتحادی سمجھتاہے۔
سفارتی زبان میں بظاہردونوں رہنمائوں کے بیانات میں یکجہتی، تعاون،اورجمہوریت کے تحفظ پرزوردیاجاتاہے۔مثال کے طورپر، امریکا یوکرین کوفوجی اورمعاشی امداد دینے کے عہد کا اعادہ کرتا۔ پروٹوکول کی پابندی کے پیشِ نظر تصاویر، پریس بریفنگز،اور مشترکہ بیانات میں دونوں رہنمائوں کی برابری اورباہمی احترام کو اجاگر کیاجاتا۔کچھ مبصرین کاخیال ہے کہ امریکا یوکرین کواپنے مفادات کیلئے استعمال کر رہا ہے، جس میں سفارتی آداب کااحترام کرتے ہوئے بھی طاقت کاعدم توازن واضح ہوتاہے۔مثال کے طورپر، یوکرین کی فوجی امدادکے بدلے میں امریکا کسی طرح کاسیاسی یامعاشی دبا ڈال سکتاہے لیکن اسے کھلے عام بیان نہیں کیاجاتا۔یوکرین اپنے وسائل کوترقی دے کرعالمی منڈیوں تک رسائی حاصل کرناچاہتا ہے،جس میں مغربی کمپنیوں کی شراکت داریاں شامل ہیں۔یہ معاہدے عام طورپر شفاف طریقے سے ہوتے ہیں۔
ٹرمپ کے بیان کے مطابق انہوں نے یوکرین سے اپنی دی ہوئی گرانٹ کی واپسی کا مطالبہ کرتے ہوئے یوکرین کی قیمتی دھات کا مطالبہ کیا ہے۔ یاد رہے کہ یوکرین معدنی ذخائر (جیسے لیتھیم، ٹائٹینیم، اور قدرتی گیس)کے لحاظ سے امیر ملک ہے۔ یاد رہے کہ روس کے کریمیا پر قبضے کے بعد امریکا نے جہاں ان اقدامات کی مذمت کی تھی بلکہ خود اعتراف کیا تھا کہ کسی ملک کے وسائل پر جبری قبضہ بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی ہے۔ اگر امریکا کسی غیر قانونی طریقے سے وسائل پر کنٹرول حاصل کرے، تو یہ جارحیت سمجھا جائے گا، لیکن فی الحال ایسے کوئی ثبوت نہیں ہیں۔ تاہم امریکا کے ’’سپرپاور‘‘ہونے کے باوجود، یوکرین کے وسائل پر قبضے کا کوئی ثبوت موجود نہیں۔ تاہم یوکرین کی تعمیرنومیں مغربی ممالک کے معاشی مفادات ضرورشامل ہیں،جوبین الاقوامی قوانین کے دائرے میں ہیں۔امریکااوریوکرین کے درمیان معدنیات کے معاہدے پر مذاکرات جاری تھے، جس کے تحت امریکا کو یوکرین کی نایاب معدنیات، تیل، گیس اور کلیدی بنیادی ڈھانچے تک رسائی حاصل ہوتی۔ امریکا اس معاہدے کو اپنی یوکرین کیلئے حمایت جاری رکھنے کیلئے اہم قرار دے رہا تھا۔
یوکرینی صدر زیلنسکی نے اس معاہدے پردستخط کرنے کی آمادگی ظاہرکی ہے اورانہیں یقین ہے کہ وہ صدر ٹرمپ کے ساتھ تعلقات بحال کر سکتے ہیں۔امریکاکی جانب سے یوکرین کی معدنیات پرممکنہ قبضے کی کوششیں بین الاقوامی قوانین اورسفارتی آداب کے تناظرمیں متنازع سمجھی جاسکتی ہیں۔اگریہ اقدامات یوکرین کی خودمختاری اور اس کے وسائل پر کنٹرول کومتاثرکرتے ہیں تو انہیں جارحیت کے زمرے میں شمار کیا جاسکتا ہے۔ بین الاقوامی قانون کے مطابق،کسی بھی ملک کی قدرتی وسائل پراس کا حقِ خودمختاری تسلیم شدہ ہے، اوربیرونی دبائو یااستحصال کوغیر قانونی تصور کیا جاتا ہے۔
جے ڈی وینس،جوٹرمپ کے قریبی ساتھیوں میں شمارہوتے ہیں،امریکی خارجہ پالیسی میں ایک نئی سمت دینے کی کوشش کر رہے ہیں۔ وہ روایتی اتحادیوں کے ساتھ تعلقات کوازسرِ نو ترتیب دینے کے حامی ہیں اورامریکاکوعالمی معاملات میں کم مداخلت کی پالیسی اپنانے پر زور دے رہے ہیں۔وینس کاکہناہے کہ امریکا کو یورپ کی بجائے ایشیاپرتوجہ دینی چاہئے جبکہ مغربی میڈیا انہیں پیوٹن کاغیرمسقیم حامی قراردے رہا ہے۔ وینس کایہ بھی کہناہے کہ امریکاکوتائیوان اورچین پرتوجہ دینی چاہیے۔
ابھی حال ہی میں وائٹ ہائوس میں زیلنسکی کی حاضری کے دوران ان کے لباس پرتنقیدکی گئی،کیونکہ وہ اس سے پہلے ایک ملاقات میں رسمی سوٹ کے بجائے فوجی لباس میں تھے اور اب امریکی میڈیانے وائٹ ہاس میں زیلنسکی کے غیررسمی لباس شرٹ پہن کرمیٹنگ پرتنقیدکو’’ٹرمپ کی ذاتی نفرت‘‘ سے جوڑاہے۔بعض مبصرین کے مطابق یہ واقعہ درحقیقت ٹرمپ اورزیلنسکی کے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی کی علامت تھا۔ٹرمپ کی قیادت میں امریکی پالیسی میں جوتبدیلیاں آئیں،ان کا براہِ راست اثریوکرین کے ساتھ تعلقات پربھی پڑاہے۔
(جاری ہے)
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: بین الاقوامی ہے کہ امریکا سفارتی آداب کے درمیان یوکرین کی
پڑھیں:
یوکرین جنگ: زیلنسکی امن معاہدے میں رخنہ ڈال رہے ہیں، ٹرمپ
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 24 اپریل 2025ء) امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بدھ کے روز کہا کہ انہیں یقین ہے کہ روس یوکرین میں جنگ کے خاتمے کے لیے ایک معاہدے پر راضی ہو گیا ہے۔ انہوں نے تاہم کہا کہ یوکرین کے صدر وولودیمیر زیلنسکی اس پیش رفت کی راہ میں رکاوٹ بن رہے ہیں جبکہ روسی رہنما ولادیمیر پوٹن کے ساتھ معاملہ کرنا زیادہ آسان تھا۔
ٹرمپ نے وائٹ ہاؤس میں نامہ نگاروں کو بتایا، "میرے خیال میں ہمارا روس کے ساتھ معاہدہ ہو گیا ہے۔ لیکن ہمیں زیلنسکی کے ساتھ معاہدہ کرنا ہے۔"
'ایسٹر جنگ بندی' ختم، یوکرین امن کوششوں کا اب کیا ہو گا؟
امریکی صدر نے کہا، "میں نے سوچا تھا کہ زیلنسکی سے نمٹنا آسان ہو گا۔ لیکن یہ اب تک مشکل رہا ہے۔
(جاری ہے)
"
ٹرمپ نے مزید کہا، "لیکن، مجھے لگتا ہے کہ ہمارا دونوں کے ساتھ معاہدہ ہے۔
مجھے امید ہے کہ وہ ایسا کریں گے، کیونکہ میں بچانا چاہتا ہوں اور آپ جانتے ہیں، ہم نے بہت سارا پیسہ خرچ کیا، یہ سب کچھ انسانیت کے لیے ہے۔" کریمیا کا متنازع معاملہقبل ازیں بدھ کے روز، ٹرمپ نے اپنے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ٹرتھ سوشل پر ایک پوسٹ میں"جنگ کے اختتام کو مشکل بنانے" پر زیلنسکی کو اس وقت تنقید کا نشانہ بنایا جب یوکرین کے رہنما نے کریمیا کو روسی علاقہ تسلیم کرنے سے انکار کر دیا۔
روس عارضی جنگ بندی کا جھوٹا تاثر پیش کر رہا ہے، زیلنسکی
امریکی میڈیا رپورٹوں کے مطابق امریکی امن کی تجویز میں روس کے 2014 میں جزیرہ نما کریمیا کے الحاق کو تسلیم کرنا بھی شامل ہے۔
اوول آفس میں پریس بریفنگ کے دوران، ٹرمپ نے کریمیا کے بارے میں سوالات کو ٹال دیا۔ انہوں نے اس بات پر اصرار کیا کہ وہ صرف جنگ کو ختم کرنا چاہتے ہیں اور یوکرین اور روس کے درمیان ان کا کوئی "پسندیدہ" نہیں ہے۔
اس سے چند گھنٹے قبل وائٹ ہاؤس کی پریس سیکریٹری کیرولین لیویٹ نے کہا تھا کہ ٹرمپ "مایوس" ہیں اور ان کے "صبر کا پیمانہ کم ہو رہا ہے۔"
لیویٹ نے کہا، "وہ قتل کو بند ہوتا دیکھنا چاہتے ہیں، لیکن آپ کو جنگ کے دونوں فریقوں کی ضرورت ہے جو ایسا کرنے کے لیے تیار ہوں، لیکن بدقسمتی سے، صدر زیلنسکی غلط سمت میں بڑھ رہے ہیں۔
" کریمیا کے متعلق زیلنسکی نے کیا کہا؟یوکرین کے صدر وولودیمیر زیلنسکی نے کہا کہ ان کے خیال میں واشنگٹن ڈونلڈ ٹرمپ انتظامیہ کے اس پہلے وعدے کو کہ، امریکہ کریمیا کو روسی علاقہ تسلیم نہیں کرے گا، کو ترک نہیں کرے گا۔
زیلنسکی کا یہ بیان نائب صدر جے ڈی وینس کی جانب سے امن معاہدے کے لیے امریکی وژن پیش کرنے کے بعد سامنے آیا جس میں روس کو جزیرہ نما کریمیا سمیت یوکرین کے پہلے سے زیر قبضہ علاقوں کو برقرار رکھنے کی بات کہی گئی ہے۔
ایکس پر ایک پوسٹ میں زیلنسکی نے اپنے اس یقین کا اظہار کیا کہ وائٹ ہاؤس یوکرین کی علاقائی سالمیت کے لیے پرعزم رہے گا۔
یوکرین کے صدر نے لکھا، "یوکرین ہمیشہ اپنے آئین کے مطابق کام کرے گا اور ہمیں پورا یقین ہے کہ ہمارے شراکت دار خاص طور پر امریکہ اپنے مضبوط فیصلوں کے مطابق عمل کریں گے۔"
زیلنسکی نے اس وقت کے امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو کا 2018 کا بیان منسلک کیا۔ اس میں، پومپیو کا کہنا ہے: "امریکہ روس کی جانب سے کریمیا کے الحاق کی کوشش کو مسترد کرتا ہے اور یوکرین کی علاقائی سالمیت کی بحالی تک اس پالیسی کو برقرار رکھنے کا عہد کرتا ہے۔"
روس نے 2014 میں اسپیشل فورسز بھیج کر کریمیا پر قبضہ کر لیا تھا۔
ادارت: صلاح الدین زین