آصف علی زرداری آج بھی متنازع صدر ہیں، ہمارے رہنما اور ورکرز اس وقت سیاسی قیدی ہیں، ملک سے 20 لاکھ نوجوان ملک سے باہر چلے گئے ہیں ،ملک سے 27 ارب ڈالر باہر چلے گئے ہیں

آصف زرداری اور بلاول بھٹو سندھ کا پانی بیچنے جا رہے ہیں،پیپلز پارٹی نے سندھ میں کرپشن کے ریکارڈ توڑ دیے ، یہ پیکا ایکٹ میں فارم 47 کی حکومت کے ساتھ کھڑے رہے ،اپوزیشن رہنماؤں کی پریس کانفرنس

قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر عمر ایوب نے صدر مملکت اور پیپلز پارٹی پر سخت تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ پیپلز پارٹی نے سندھ میں کرپشن کے ریکارڈ توڑ دیے ہیں، آصف زرداری ہو یا بلاول بھٹو دونوں سندھ کا پانی بیچنے جا رہے ہیں۔اپوزیشن لیڈر عمر ایوب نے چیئرمین پی ٹی آئی بیرسٹر گوہر اور دیگر پی ٹی آئی رہنماؤں نے میڈیا سینٹر میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ آصف علی زرداری خود کو صدر کہتے ہیں ، ہم اس انسٹالڈ حکومت کو نہیں مانتے ، آصف علی زرداری نے آج کوئی اچھی بات نہیں کی۔ان کا کہنا تھا کہ پیپلز پارٹی نے سندھ میں کرپشن کے ریکارڈ توڑ دیے ہیں، آصف زرداری ہو یا بلاول بھٹو دونوں سندھ کا پانی بیچنے جا رہے ہیں، یہ پیکا ایکٹ میں فارم 47 کی حکومت کے ساتھ کھڑے رہے ، پنجاب میں پکے کے ڈاکوؤں کے کا ایک گروہ ہے جس سرغنہ ڈاکٹر عثمان بنا ہوا ہے ، موجودہ حکومت اقتصادی طور پر ناکام ہوچکی ہے ۔عمر ایوب نے کہا کہ کرپشن انتہا پر ہے اور یہ خوشیاں منا رہے ہیں کہ مہنگائی کم ہوگئی ہے ، آئیں ہمارے ساتھ چلیں اور پتا کریں کہ مہنگائی کم ہوئی ہے یا بڑھی ہے ، دو سالوں میں ایس آئی ایف سی صفر بٹہ صفر رہی ہے ، آج تک ہمارے سوالات کے جوابات نہیں دیے ، آئی ٹی کا سیکٹر ختم کردیا، کوئی انویسٹمنٹ نہیں آرہی۔اپوزیشن لیڈر نے کہا کہ بلوچستان کے مختلف اضلاع میں سکیورٹی کا کوئی انتظام نہیں ہے ، غفلت کی وجہ سے اس وقت ہمارے فوجی جان کا نذرانہ پیش کررہے ہیں، بانی پی ٹی آئی نے ہمیشہ کہا کہ فوج ہماری ہے ، اس وقت بانی پی ٹی آئی اور بشریٰ بی بی کو بوگس کیسز میں گھسیٹا ہوا ہے ۔انہوں نے کہا کہ ہمارے رہنما اور ورکرز اس وقت سیاسی قیدی ہیں، ملک سے 20 لاکھ نوجوان ملک سے باہر چلے گئے ہیں ،ملک سے 27 ارب ڈالر باہر چلے گئے ہیں۔اس موقع پر چیئرمین پی ٹی آئی یرسٹر گوہر نے کہا کہ آج ہم نے بے نظیر کی تصویر کے پیچھے زرداری کی لیگیسی دیکھی ، آج کی تقریر میں آصف علی زرداری ثابت نہیں کرسکے کہ جمہوریت ہے ، زرداری صاحب اپوزیشن کے چیمبر سے گزر کر نہیں گئے ، آصف علی زرداری آج بھی متنازع صدر ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ ہمارا احتجاج جیسے آج تھا ہمیشہ ایسے جاری رہے گا، ہمیشہ فیصلے ایوان سے باہر ہوتے رہے ہیں ، ایوان کو فوقیت نہیں دی گئی، ایوان مکمل نہیں ہے جس کا ہم اعادہ کرچکے ہیں۔پریس کانفرنس میں گفتگو کرتے ہوئے سینیٹ میں اپوزیشن لیڈر سینیٹر شبلی فراز نے کہا کہ اس ایوان میں جتنے بھی قوانین پاس ہوئے اس کی کوئی اخلاقی اور قانونی حیثیت نہیں ہے ، سینیٹ میں ایک صوبے کی نمائندگی ہی نہیں ہے ۔ان کا کہنا تھا کہ ایک صوبے کی نمائندگی کے بغیر الیکشن کیسے کروا لیے جاتے ہیں اور بل پاس کیسے ہورہے ہیں۔

.

ذریعہ: Juraat

پڑھیں:

اِک واری فیر

اِک واری فیر WhatsAppFacebookTwitter 0 19 October, 2025 سب نیوز

تحریر: محمد محسن اقبال


تاریخ جب اپنے آپ کو دہراتی ہے تو ایک دردناک تسلسل کے ساتھ دہراتی ہے۔ حال ہی میں شرم الشیخ میں اسرائیل اور فلسطین کے درمیان ہونے والا امن معاہدہ بظاہر ایک سفارتی کامیابی کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے، مگر یہ معاہدہ سوالات زیادہ پیدا کرتا ہے اور جوابات کم دیتا ہے۔ دنیا کے کئی رہنماؤں، بشمول امریکی صدر کی شرکت نے اس اجلاس کو بظاہر ایک عالمی وقار عطا کیا، لیکن اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو کی غیر موجودگی نے اس تقریب کے اصل مقصد یعنی اتحاد کے مظاہرے پر گہرا سایہ ڈال دیا۔ بین الاقوامی سفارت کاری میں اشارے اکثر الفاظ سے زیادہ طاقتور ہوتے ہیں، اور ایسی میز پر خالی کرسی ہزار دستخطوں سے زیادہ بولتی ہے۔


اس معاہدے کے اثرات کو سمجھنے کے لیے ماضی کے دریچوں سے گزرنا پڑتا ہے۔ اسرائیل اور فلسطین کے درمیان تنازعہ تاریخ میں بے شمار امن معاہدوں سے مزین ہے—کیمپ ڈیوڈ، اوسلو، وائے ریور، انیپولس—جن سب میں امید کی زبان استعمال کی گئی مگر انجام ہمیشہ بداعتمادی، تشدد اور سیاسی مفادات کے طوفان میں ہوا۔ ہر معاہدہ تالیوں اور توقعات کے شور میں شروع ہوا، مگر جلد ہی خون اور مایوسی میں ڈوب گیا۔ اس لحاظ سے شرم الشیخ کا امن معاہدہ کوئی نیا باب نہیں، بلکہ ٹوٹی ہوئی وعدوں کی ایک طویل نظم کا ایک اور بند ہے۔


اصل سوال یہ ہے کہ ایسے معاہدوں کی حیثیت آخر کیا ہے؟ امن معاہدہ صرف دستخطوں کا مجموعہ نہیں بلکہ اعتماد کا عہد ہوتا ہے۔ اگر اس میں خلوص، احترام اور نیت کی پختگی شامل نہ ہو تو وہ کاغذ اور سیاہی سے زیادہ کچھ نہیں رہتا۔ جب تک کسی معاہدے کے نفاذ کے لیے واضح ضمانتیں اور مؤثر نظام موجود نہ ہو، دشمنی کے بوجھ تلے دبے فریقوں کے درمیان امن کی کوئی ضمانت ممکن نہیں ہوتی۔ اگر کوئی فریق خلاف ورزی کرے تو جواب دہ کون ہوگا؟ بین الاقوامی برادری اجلاس بلائے گی، بیانات جاری کرے گی، مگر دنیا جانتی ہے کہ قراردادیں کسی قوم کی خواہش یا خوف کو قابو میں نہیں رکھ سکتیں۔


طاقتور ممالک کی موجودگی یقیناً معاہدے کو سفارتی جواز بخشتی ہے، مگر اخلاقی جواز صرف انصاف اور سچائی سے حاصل ہوتا ہے۔ کوئی بھی معاہدہ پائیدار نہیں ہو سکتا اگر ایک فریق ظلم، جبر یا اشتعال انگیزی جاری رکھے۔ اسرائیل اور فلسطین کے درمیان طاقت کا عدم توازن ہمیشہ امن کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ رہا ہے۔ طاقتور فریق مذاکرات کو اپنی مرضی سے موڑتا ہے، جبکہ کمزور فریق ضرورت کے تحت بات چیت کرتا ہے۔ ایسی صورتحال میں امن شراکت نہیں بلکہ رعایت بن جاتا ہے۔ جب تک نیتوں میں برابری اور دکھوں کی باہمی پہچان نہ ہو، امن محض ایک سراب رہتا ہے۔


نیتن یاہو کی غیر حاضری کئی سوالات کو جنم دیتی ہے۔ کیا یہ سیاسی حکمتِ عملی تھی تاکہ اندرونی مخالفت سے بچا جا سکے، یا یہ اسرائیل کی اس ہچکچاہٹ کی علامت ہے جو ہمیشہ حقیقی مصالحت کے راستے میں حائل رہی ہے؟ اصل امن صرف دستخط کرنے سے نہیں بلکہ طاقت کے کچھ اختیارات ترک کرنے سے، قبضے کے ڈھانچے کو توڑنے سے، اور انسانیت کا ہاتھ بڑھانے سے حاصل ہوتا ہے، چاہے بیاعتمادی باقی کیوں نہ ہو۔


تاریخ ہمیں سکھاتی ہے کہ انصاف کے بغیر امن محض وقفہ ہوتا ہے، انجام نہیں۔ فلسطینی مسئلہ صرف سرحدوں کا نہیں، بلکہ وقار، ریاستی حیثیت اور بقا کا مسئلہ ہے۔ کوئی بھی معاہدہ جو ان بنیادی نکات کو نظر انداز کرے، دراصل ایک ایسی جنگ بندی ہے جس کی مدت پہلے ہی طے شدہ ہے۔ اسی طرح اگر ایک فریق کو مکمل آزادی حاصل رہے اور دوسرا پابندیوں میں جکڑا رہے تو ایسا امن زیادہ دیر قائم نہیں رہ سکتا۔ ماضی کا سبق واضح ہے؛ جب امن مسلط کیا جاتا ہے، پروان نہیں چڑھتا، تو وہ اندر سے بگڑ جاتا ہے۔


فلسفیانہ اعتبار سے امن کوئی واقعہ نہیں بلکہ تبدیلی کا ایک عمل ہے۔ یہ محض سیاسی دستخط نہیں بلکہ اخلاقی بیداری کا تقاضا کرتا ہے۔ قوموں کو فتح و شکست کے تصور سے اوپر اٹھ کر بقائے باہمی کو اپنانا ہوگا۔ اگر شرم الشیخ کا امن معاہدہ واقعی کوئی معنی رکھتا ہے تو وہ تب ہی ممکن ہے جب وہ دلوں کو بھی بدلے، صرف پالیسیوں کو نہیں۔ غزہ اور تل ابیب کے بچے اپنے والدین کی تلخی نہیں بلکہ دوستی کی امید وراثت میں پائیں۔ مگر ایسی تبدیلی کسی قانون سے نہیں لائی جا سکتی؛ یہ عدل، ہمدردی اور ماضی کی غلطیوں کے اعتراف سے پروان چڑھتی ہے۔
علمی لحاظ سے اسے غیر متوازن مذاکرات اور نفاذ کے نظریے کے تناظر میں سمجھا جا سکتا ہے۔ جب کوئی مضبوط ضمانتی فریق یا قابلِ عمل ثالثی نظام موجود نہ ہو، تو معاہدوں کی پابندی کی تحریک وقت کے ساتھ کمزور ہو جاتی ہے۔ اگر معاہدہ دانتوں سے خالی ہے تو خلاف ورزی پر کاٹ نہیں سکتا۔ تاریخ بتاتی ہے کہ جب اسرائیل آبادیاں بڑھاتا ہے یا فوجی کارروائیاں کرتا ہے، تو عالمی طاقتیں محض”گہری تشویش”کا اظہار کرتی ہیں۔ اسی طرح جب فلسطین کے اندر انتہا پسند عناصر جوابی کارروائی کرتے ہیں تو وہ بھی اسی امن کو نقصان پہنچاتے ہیں جس کی ان کے عوام آرزو رکھتے ہیں۔ یوں ناکامی صرف سیاسی نہیں بلکہ اخلاقی بھی ہے۔ دنیا کی خاموشی، چنیدہ غصہ اور وقتی توجہ سب نے مل کر جوابدہی کے تصور کو کمزور کیا ہے۔


اخلاقی لحاظ سے امن دونوں طرف سے قربانی کا مطالبہ کرتا ہے۔ اسرائیل کو اپنی حفاظتی دیواروں سے آگے دیکھنا ہوگا، اور فلسطین کو مایوسی سے اوپر اٹھنا ہوگا۔ دنیا کو بھی انصاف کو صرف تقریروں سے نہیں بلکہ عملی اقدامات سے ثابت کرنا ہوگا۔ اگر بین الاقوامی برادری واقعی امن کی ضامن بننا چاہتی ہے تو اسے خلاف ورزیوں پر خاموش نہیں رہنا چاہیے۔ ضمانتیں الفاظ میں نہیں، حقیقت میں نظر آنی چاہئیں۔


اور یوں جب ایک اور معاہدے پر سیاہی خشک ہو چکی ہے، دنیا ایک بار پھر دیکھ رہی ہے—نصف امید میں، نصف شک میں۔ شرم الشیخ، جو کبھی سکون اور سفارت کا استعارہ تھا، شاید ایک بار پھر امید سے مایوسی کی طرف بڑھتے ہوئے منظر کا گواہ بنے۔ مگر شاید اسی تکرار میں بیداری کی ایک کرن پوشیدہ ہو—کہ امن دیا نہیں جا سکتا، اسے سچائی، انصاف اور انسانی حرمت کے احترام سے حاصل کرنا پڑتا ہے۔


اگر اس معاہدے کے معماروں نے واقعی تاریخ سے سبق سیکھ لیا ہے، تو شاید اس بار امن قائم رہے—نہ اس لیے کہ اسے شان و شوکت سے دستخط کیا گیا، بلکہ اس لیے کہ اسے خلوصِ نیت سے نافذ کیا گیا۔ ورنہ یہ بھی ٹوٹے وعدوں کے انبار میں شامل ہو جائے گا، اور ایک بار پھر یاد دلائے گا کہ امن کی جستجو میں الفاظ تو بہت ہیں، مگر جرات بہت کم۔

روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔

WhatsAppFacebookTwitter پچھلی خبرپاکستان ہماری ریڈ لائن ہے، اس کی طرف کسی کو میلی آنکھ سے دیکھنے نہیں دیں گے، نواز شریف دشمن بھی باوقار ہونا چاہیے پاکستان کا دل اسلام آباد شہید زندہ ہیں، قوم جاگتی رہے ننھی آوازیں، بڑے سوال: بچیوں کا دن، سماج کا امتحان موبائل ۔ علم کا دوست اور جدید دنیا یومِ یکجہتی و قربانی: 8 اکتوبر 2005 – ایک عظیم آزمائش اور عظیم اتحاد کی داستان TikTokTikTokMail-1MailTwitterTwitterFacebookFacebookYouTubeYouTubeInstagramInstagram

Copyright © 2025, All Rights Reserved

رابطہ کریں ہماری ٹیم

متعلقہ مضامین