اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 19 اکتوبر 2025ء) بھارت کی وسطی ریاست مدھیہ پردیش میں 20 سے زیادہ بچوں کی حالیہ اموات نے بھارتیوں کو ہلا کر رکھ دیا ہے اور وہ غصے میں ہیں۔ وجہ یہ ہے کہ بھارت خود کو دواسازی کے شعبے میں ایک ہب کے طور پر دیکھتا ہے، تاہم دواؤں کی تیاری میں اسے حفاظتی پروٹوکول کے حوالے سے تکلیف دہ مسائل کا سامنا ہے۔

ہلاک ہونے والے بچوں کی عمریں پانچ سال سے کم تھیں۔ ان میں سے بیشتر کی موت پچھلے مہینے کے دوران اس وقت ہوئی جب انہیں کھانسی کا زہریلا وہ شربت تجویز کیا گیا، جس میں ڈائیتھیلین گلائکول (ڈی ای جی) کی مہلک سطح ہوتی ہے۔ یہ ایک ایسا صنعتی سالوینٹ اور اینٹی فریز کیمیکل ہے، جو گردے کو ناکارہ بنا دیتا ہے۔

یہ وہی مہلک مرکب ہے، جو بھارت میں پہلے بھی تیار ہونے والے دیگر کھانسی کے شربت سے منسلک ماضی کے سانحات سے منسلک ہے، جس کی وجہ سے 2023 میں ازبکستان میں 18 بچوں کی موت، 2022 میں گیمبیا میں تقریباً 70 بچوں اور 2019 اور 2020 میں جموں خطے میں 12 بچوں کی اموات ہوئیں۔

(جاری ہے)

فارماسیوٹیکل کے مالک کی گرفتاری

انڈیا کی سینٹرل ڈرگ اسٹینڈرڈ کنٹرول آرگنائزیشن (سی ڈی ایس سی او) ریاستی حکام اور دیگر ریگولیٹری اداروں نے تازہ ترین سانحے پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے متعدد ریاستوں میں مذکورہ شربت کی فروخت پر پابندی لگا دی۔ حکام نے بچوں کے کھانسی کے سیرپ کے حوالے سے ایڈوائزری جاری کی اور مینوفیکچرنگ کے عمل کی تحقیقات کا آغاز کر دیا ہے۔

سی ڈی ایس سی او کے اہلکار ڈی آر گہانے نے ایک بیان میں کہا، "ہم نے چھ ریاستوں میں 19 ڈرگ مینوفیکچرنگ یونٹس میں خطرے پر مبنی نکات کا معائنہ شروع کیا ہے تاکہ معیار کی خرابیوں کی نشاندہی کی جا سکے۔"

مدھیہ پردیش میں اس زہریلے کھانسی کے شربت کے پیچھے بھارتی کمپنی سریسان فارماسیوٹیکلز ہے، جس کے مالک کو گرفتار کر لیا گیا اور کمپنی بند کر دی گئی ہے۔

تاہم ماہرین خبردار کرتے ہیں کہ بھارتی دواسازی کی صنعتوں میں نامناسب ریاستی ضابطے، بدعنوانی اور ناقص تجرباتی عمل کے تحت دوا سازی کا کام اب بھی جاری ہے۔

مختلف معیارات

بھارت دنیا کا سب سے بڑا ویکسین فراہم کرنے والا ملک ہے، جو اپنے ہاں عالمی طلب کا نصف سے زیادہ پیداوار کرتا ہے۔ یہ عام ادویات کی تیاری میں بھی دنیا میں سرفہرست ہے، جو مارکیٹ کا کم از کم 20 فیصد سپلائی کرتا ہے، حالانکہ کچھ اندازوں کے مطابق یہ 40 فیصد تک ہے۔

تاہم ہر بھارتی ریاست کا اپنی فارما مینوفیکچرنگ کی نگرانی کرنے کا اپنا مختلف طریقہ کار ہے، جس سے کچھ فارما کمپنیوں کو اس خلا کا فائدہ اٹھانے اور جوابدہی سے بچنے کا موقع مل جاتا ہے۔

ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن (ڈبلیو ایچ او) کی سابق چیف سائنس دان سومیا سوامیناتھن نے خبردار کیا کہ بھارت کے ڈرگ ریگولیٹری فریم ورک میں فوری طور پر جامع اصلاحات کی ضرورت ہے۔

انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، "نگرانی اور کنٹرول کا معیار ایک ریاست سے دوسری ریاست میں نمایاں طور پر مختلف ہوتا ہے، اور اس عمل میں بدعنوانی بھی ایک سنگین تشویش ہے۔"

ان کا مزید کہنا تھا، "اس کے علاوہ، ریاستی ریگولیٹرز کے درمیان کمزور ہم آہنگی ملک بھر میں مؤثر حفاظتی نفاذ کو کمزور کر رہی ہے۔" سوامی ناتھن نے مدھیہ پردیش میں زہر کے اس واقعے کو ایک "تباہ کن سانحہ" قرار دیا۔

ادویات کا حصول بد عنوانی پر مشتمل اسکیم

بھارت کی سب سے بڑی دوا ساز کمپنیوں میں سے ایک، رین بیکسی میں بڑے پیمانے پر دھوکہ دہی کا پردہ فاش کرنے والے ایک مشہور وِسل بلوور، دنیش ٹھاکر بھی اسی طرح کے خدشات کا اظہار کرتے ہیں۔

ٹھاکر نے ڈی ڈبلیو کو بتایا: "ہاں، اس بات کے کافی ثبوت موجود ہیں کہ ریاستی سطح پر پبلک پروکیورمنٹ بدعنوانی سے بھری ہوئی ہے۔

ورنہ اس بات کی وضاحت کیسے ہو سکتی ہے کہ مدھیہ پردیش نے ان کمپنیوں سے ادویات کیوں خریدیں، جنہیں حکومت نے بلیک لسٹ کر رکھا ہے۔"

صحت عامہ کے کارکن نے بھارت کے کنٹرولر اور آڈیٹر جنرل کی ایک حالیہ رپورٹ کی طرف اشارہ کیا، جس میں بتایا گیا ہے کہ مدھیہ پردیش پبلک ہیلتھ سروسز کارپوریشن لمیٹڈ ان ادویات کی خریداری اور تقسیم جاری رکھے ہوئے ہے، جنہیں حکومت کی جانب سے انسانی استعمال کے لیے ممنوعہ قرار دیا گیا ہے اور جس سے صحت عامہ کو خطرہ ہے۔

ٹھاکر نے مزید کہا، "ریاستی سطح پر عوامی خریداری بنیادی طور پر ان مینوفیکچررز کے لیے سرپرستی کی اسکیم ہے، جو سیاسی مہمات کو فنڈ دیتے ہیں۔"

بہت سی دوائیں سرکاری معیار پر پوری نہیں اترتیں

طبی جرائد اور مطالعات کا اندازہ ہے کہ مارکیٹ میں دستیاب دواؤں میں سے 20 سے 25 فیصد کے درمیان مطلوبہ معیارات سے کم معیار کی ہوتی ہیں۔

مزید برآں، بھارت میں جعلی ادویات نے ایک وسیع و عریض سائے کی صنعت کو جنم دیا ہے، جس سے صحت عامہ کو شدید خطرات لاحق ہیں اور یہ ملک کے تیزی سے بڑھتے ہوئے فارما سیکٹر کو بھی غیر مستحکم کر رہی ہیں۔

فارما سیکیور کے مینیجنگ ڈائریکٹر اور سی ای او نکول پسریچا نے کہا کہ ملک کو باقاعدہ اور مستقل جانچ ، معائنے اور خلاف ورزی کرنے والوں کے خلاف سخت کارروائی کی ضرورت ہے۔

پاسریچا نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، "کیا موجودہ سزائیں رکاوٹ کے لیے کافی ہیں؟ اس کا جائزہ لیا جانا چاہیے۔ ہمیں مریضوں اور صارفین میں ہوشیار رہنے کے لیے مزید بیداری پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔ میرا خیال ہے کہ ہمیں بہتر سراغ لگانے اور معلومات کی ترسیل کے لیے ٹیکنالوجی اور حل سے فائدہ اٹھانے کی ضرورت ہے۔"

پسریچا کہتے ہیں کہ "مینوفیکچررز سے کہا جا رہا ہے کہ وہ دواؤں کے لیبلز پر اضافی معلومات کو شامل کریں اور اسے ظاہر بھی کریں۔

تو ہمارے پاس پہلے سے ہی لیبلز پر لاگو کیو آر کوڈز کا فائدہ اٹھا کر مکمل مرئیت دستیاب کیوں نہیں ہو سکتی؟"

وہ کہتے ہیں کہ ان کی کمپنی دواؤں کے پیکجز پر منفرد کوڈز لاگو کرتی ہے، جسے صارفین اپنے فون کا استعمال کر کے اس بات کی تصدیق کر سکتے ہیں کہ دوا مستند ہے یا نہیں۔

مختلف صنعتوں اور حکومتی اندازوں کے مطابق بھارت کی دواسازی کی مارکیٹ تقریباً 50 بلین ڈالر کی ہے، اور دنیا کا سب سے زیادہ آبادی والا ملک حجم کے لحاظ سے دواسازی کے تین بڑے پروڈیوسر میں شامل ہے۔

ایک طبی پیشہ ور اور صحت سے متعلق رابطہ کار راجیو جے دیوان نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ بھارت کو اس کی وسیع عام دوائیوں کی صنعت کی وجہ سے اکثر "دنیا کی فارمیسی" کہا جاتا ہے جو بہت سے ممالک کو سستی ادویات فراہم کرتا ہے۔ تاہم انہوں نے مزید کہا کہ یہی چیز تو مزید ذمہ داری کا تقاضہ بھی کرتی ہے۔

ان کا کہنا ہے، "جبکہ بہت سی بھارتی فارماسیوٹیکل کمپنیاں مینوفیکچرنگ کے اچھے طریقوں پر عمل پیرا ہیں اور انتہائی سختی سے ریگولیٹڈ مارکیٹوں کو ایکسپورٹ کرتی ہیں، کئی چھوٹی کمپنیاں نامناسب ریگولیٹری نگرانی کے ساتھ کام کر رہی ہیں۔"

(مرلی کرشنن نئی دہلی)

ادارت: کشورمصطفیٰ

.

ذریعہ: UrduPoint

کلیدی لفظ: تلاش کیجئے مدھیہ پردیش کی ضرورت ہے کھانسی کے کہ بھارت بچوں کی کے لیے ہیں کہ

پڑھیں:

بچوں کے اقبال

پروفیسر خیال آفاقی کی کتاب ’’ بچوں کے اقبال ‘‘ نہ صرف اقبال شناسی کا ایک دل کش باب ہے بلکہ بچوں کی تعلیمی و اخلاقی تربیت کے حوالے سے ایک سنجیدہ اور پُر اثرکاوش بھی ہے۔

کتاب کا مقصد نئی نسل کو علامہ اقبال کی حیات، فکر اور اخلاقی تعلیمات سے اس انداز میں روشناس کرانا ہے کہ وہ اُن کے افکار کو نہ صرف سمجھ سکیں بلکہ اُن پر عمل بھی کرسکیں۔

 مصنف نے بچوں کے فہم کے مطابق علامہ اقبال کی چند مشہور نظموں مثلاً مکڑا اور مکھی، بچہ اور بلبل، پرندے کی فریاد، وغیرہ کو نہایت سادہ، دل چسپ اور سبق آموز انداز میں بیان کرنے کی کوشش کی ہے۔

ہر نظم کے بعد خیال آفاقی بچوں کو اس نظم کا اخلاقی سبق اور زندگی کا پیغام عام فہم الفاظ میں سمجھاتے ہیں۔ اس طرح کتاب نہ صرف ادبی لذت فراہم کرتی ہے بلکہ تربیتی حیثیت بھی رکھتی ہے۔

کتاب کا بنیادی موضوع فکرِ اقبال کا بچوں کے ذہن و کردارکی تعمیر میں کردار ہے۔ پروفیسر خیال آفاقی اس بات پر زور دیتے ہیں کہ علامہ اقبال نے اپنی نظموں کے ذریعے بچوں میں خود اعتمادی، ایمان، عزم، حوصلہ، اخلاق اور عقلِ سلیم کو اجاگر کرنے کی کوشش کی ہے۔

کتاب کا ایک مرکزی پیغام یہ ہے کہ لالچ، مکاری، جھوٹ اور دھوکے سے بچنا چاہیے اور سچائی، بہادری، علم اور دیانت داری اپنانا چاہیے۔

مصنف نے اقبال کے اشعارکو کہانیوں کے پیرائے میں ڈھال کر بچوں کو عملی زندگی کی سچائیاں سمجھانے کی کوشش کی ہے۔

’’بچوں کے اقبال‘‘ کی ساخت روایتی نصابی کتابوں سے مختلف مگر سلیس اور پرکشش ہے۔ کتاب کو اس طرح ترتیب دیا گیا ہے کہ ابتدا میں اقبال کی مختصر سوانح عمری دی گئی ہے تاکہ بچے اُن کی شخصیت کو پہچان سکیں۔

اس کے بعد اقبال کی منتخب نظموں کو پیش کیا گیا ہے اور ہر نظم کے بعد خیال آفاقی اُس نظم کا مفہوم بیان کرتے ہوئے اخلاقی سبق اور عملی زندگی سے تعلق کو واضح کرتے ہیں۔

ہیئت کے اعتبار سے کتاب کہانی اور نصیحت کا حسین امتزاج ہے۔ بچوں کے دلچسپ ذوق کو مدنظر رکھتے ہوئے مصنف نے شعری مواد کو قصوں اورکہانیوں کی صورت میں بیان کیا ہے تاکہ وہ پڑھنے والے کے ذہن پر دیرپا اثر چھوڑے۔

پروفیسر آفاقی کی نثر میں بچوں کے ادب کے تمام فنی عناصر شامل ہیں جن میں سادگی اور روانی سر فہرست ہیں۔ زبان نہایت سادہ، سہل اور با محاورہ ہے تاکہ کم عمر قاری مفہوم کو آسانی سے سمجھ سکے۔

کتاب کی دوسری خونی کہانی سنانے کا نیا اسلوب ہے۔ نظموں کی تشریح میں مصنف نے قصے کا انداز اختیارکیا ہے جو بچوں کو تجسس اور دلچسپی میں مبتلا رکھتا ہے۔

تیسری خوبی تمثیل اور مکالمہ ہے۔ ’’ مکڑا اور مکھی‘‘ جیسی نظموں کی تشریح میں مکالماتی انداز بچوں کو براہِ راست منظر میں لے آتا ہے۔ ہر نظم یا کہانی کے اختتام پر ایک اخلاقی سبق بیان کیا گیا ہے جو کتاب کی تربیتی روح کو واضح کرتا ہے۔

پروفیسر خیال آفاقی نے اقبال کی علامتی شاعری کو بچوں کی فہم کے مطابق کھولنے میں فنی مہارت دکھائی ہے، یوں یہ کتاب محض تشریح ہی نہیں بلکہ ادب اطفال کے جدید بیانیہ اسلوب کی نمایندہ بھی ہے۔

اقبال کی بچوں کے لیے لکھی گئی نظموں نے ادب میں اعلیٰ مقام حاصل کیا ‘ یہ نظمیں بہت پسند کی گئیں‘ یہ صرف نظمیں ہی نہیں بلکہ ان میں زندگی کا پیغام اور مقصد بھی چھپا ہوا ہے۔

پروفیسر خیال آفاقی اردو ادب میں ایک متنوع تخلیق کار کے طور پر جانے جاتے ہیں۔ اُن کے علمی و ادبی کارناموں میں سیرت نگاری، نعتیہ و حمدیہ شاعری، افسانہ نگاری، ناول نگاری اور اقبالیات پر تحقیقی کام شامل ہیں۔

اُن کی دیگر تصانیف مثلاً شاعرِ اسلام، نشانِ اقبال، آذانِ اقبال، احد احد، عودِ سخن، یا سیدی صلی اللہ علیہ وسلم، سورج کی چھاؤں، وغیرہ اُن کی فکری گہرائی اور مذہبی وابستگی کی عکاس ہیں۔

’’بچوں کے اقبال‘‘ اُن کی اقبالیاتِ اطفال کے ضمن میں ایک قابلِ قدر اضافہ ہے۔ اس کتاب میں اقبال کی نظم ’’ مکڑا اور مکھی‘‘ کی تشریح خاص طور پر قابلِ ذکر ہے۔

خیال آفاقی نے مکڑے کی مکارانہ باتوں کے پس منظر میں آج کے سماجی دھوکے بازوں، جھوٹی اسکیموں اور لالچ کی فضا کو بڑی خوبی سے بیان کیا ہے۔ اُن کا مقصد محض نظم کی تشریح نہیں بلکہ معاصر معاشرتی مسائل کو اخلاقی اور اقبالی نقطہ نظر سے اجاگرکرنا ہے۔

 مصنف کے نزدیک اقبال کی نظموں میں بچوں کے لیے نصیحت، بصیرت اور شعور کی تربیت کے ایسے پہلو موجود ہیں، جو ہر زمانے کے لیے قابلِ تقلید ہیں۔

وہ بچوں کو صرف نظم یاد کرانے کے قائل نہیں بلکہ اُن کے پیغام کو سمجھنے اور زندگی میں لاگو کرنے کی تلقین کرتے ہیں۔ یہی پہلو اس کتاب کو عام تشریحی کتب سے ممتاز بناتا ہے۔ خیال آفاقی کے نزدیک اقبال کا پیغام بچوں کے دلوں میں اعتماد، خودی، اور خدمتِ خلق کے جذبات پیدا کرنے کا ذریعہ ہے۔

’’بچوں کے اقبال‘‘ اردو ادبِ اطفال میں ایک خوشگوار اضافہ ہے۔ یہ کتاب محض ایک ادبی یا نصابی تحریر ہی نہیں بلکہ فکرِ اقبال کے احیاء اور اخلاقی تربیت کا ایک ذریعہ بھی ہے۔

پروفیسر خیال آفاقی نے سادہ زبان، مختصر واقعات، اور سبق آموز تجزیے کے ذریعے بچوں کے ذہنوں میں اقبال کی محبت اور نظریہ پاکستان کے شعور کو زندہ کرنے کی کامیاب کوشش کی ہے۔

کتاب کی اشاعت پر میں مصنف کو مبارک باد پیش کرتا ہوں۔ راحیل پبلیکیشنز کی یہ اشاعت اپنے تعلیمی و اخلاقی مقصد کے باعث نہ صرف اسکولوں بلکہ والدین کے لیے بھی قابلِ مطالعہ ہے۔

متعلقہ مضامین

  • بین الاقوامی سرمایہ کاری اور سی پیک؛ ترقی یا قرض کا جال؟
  • سب سے اہم رشتہ
  • بچوں کے اقبال
  • لانس نائیک محمد محفوظ شہید نشان حیدر کا81واں یوم پیدائش 25اکتوبر کو منایا جائے گا
  •  ترکیہ میں فضائی آلودگی سے ایک سال میں 62 ہزار اموات
  • افغانستان بھارت کی پراکسی بن چکا، پاکستان مزید برداشت نہیں کرے گا: خواجہ آصف
  • پرانی ادویات :  ضائع کرنے کامحفوظ طریقہ جانیں
  • آسٹریلیا کو مزید دھچکا، ایک اور اہم کھلاڑی بھارت کیخلاف ون ڈے سیریز سے باہر
  • اے سی سی اے نے اے آئی کے اخلاقی چیلنجز پر رپورٹ جاری کردی