اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ UN اردو۔ 18 مارچ 2025ء) اقوام متحدہ کے ادارہ خوراک و زراعت (ایف اے او) نے خبردار کیا ہے کہ انتہائی متعدی برڈ فلو وائرس (ایوین انفلوئنزا) کا پھیلاؤ غیرمعمولی حد تک بڑھ گیا ہے جس کے نتیجے میں لاکھوں پرندے ہلاک ہو رہے ہیں اور یہ مرض ممالیہ میں بھی تیزی سے پھیل رہا ہے۔

ادارے کے ڈپٹی ڈائریکٹر جنرل گوڈرفرے میگوینزی نے روم میں رکن ممالک کے نمائندوں کو بریفنگ دیتے ہوئے کہا ہے کہ حیاتیاتی تحفظ اور اس بیماری کی نگرانی و روک تھام کی کوششوں کو مضبوط بنانے کے لیے ہنگامی اقدامات کی ضرورت ہے۔

Tweet URL

ان کا کہنا ہے کہ اس بحران سے عالمگیر غذائی تحفظ اور خوراک کی ترسیل کے نظام پر سنگین اثرات مرتب ہو رہے ہیں جن کے باعث غذائیت کے علاوہ دیہی علاقوں میں روزگار، آمدنی اور معیشتوں کا نقصان ہو رہا ہے جبکہ صارفین کے لیے خوراک کی قیمتیں بڑھتی جا رہی ہیں۔

(جاری ہے)

امریکہ میں لاکھوں پرندوں کی ہلاکت

دنیا بھر میں کروڑوں لوگ گوشت اور انڈوں کے لیے پولٹری پر انحصار کرتے ہیں۔ ان حالات میں صرف وائرس پر قابو پانا ہی بنیادی مسئلہ نہیں بلکہ خوراک کی پیداوار کے نظام کو تحفظ دینا بھی ضروری ہے۔

اس مسئلے کے معاشی اثرات بھی دنیا بھر میں محسوس کیے جا رہے ہیں۔ مثال کے طور پر، امریکہ میں گزشتہ مہینے انڈوں کی قیمتیں ریکارڈ بلندی پر پہنچ گئی تھیں جبکہ انڈے دینے والی مرغیوں میں برڈ فلو پھیل جانے کے باعث 166 ملین سے زیادہ پرندوں کو ہلاک کرنا پڑا۔

اطلاعات کے مطابق، امریکہ میں رواں اس اس بیماری کے نتیجے میں 30 ملین سے زیادہ پرندے ہلاک ہو چکے ہیں۔

سرحدوں سے ماورا خطرہ

گزشتہ چار سال میں یہ مرض بہت سے نئے علاقوں میں پھیلا ہے جس سے گھریلو پرندوں کا بڑے پیمانے پر نقصان ہوا، خوراک کی فراہمی کے نظام متاثر ہوئے اور پولٹری کی قیمتوں میں اضافہ ہو گیا۔ 2021 کے بعد برڈ فلو سے پرندوں کی کم از کم 300 نئی اقسام بھی متاثر ہو چکی ہیں جس سے حیاتیاتی تنوع کو سنگین خطرات لاحق ہیں۔

'ایف اے او' کی ڈپٹی ڈائریکٹر جنرل بیتھ بیکڈول نے برڈ فلو کی روک تھام کے لیے عالمگیر اور مربوط اقدامات کی ضرورت کو واضح کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ خطرہ سرحدوں سے ماورا ہے جس پر کوئی ملک اکیلے قابو نہیں پا سکتا۔

اس بحران سے نمٹنے کے لیے 'ایف اے او' اور مویشیوں کی صحت کے عالمی ادارے (ڈبلیو او اے ایچ) نے دس سالہ عالمگیر حکمت عملی شروع کی ہے۔

ڈائریکٹر جنرل کا کہنا ہے کہ مشترکہ کوششوں کی بدولت اس بیماری کے اثرات کو محدود رکھتے ہوئے مقامی و عالمی سطح پر جانوروں اور انسانوں کی صحت کو تحفظ دیا جا سکتا ہے۔'ایف اے او' کا عزم

'ایف اے او' رکن ممالک کو اس وائرس پر قابو پانے میں مدد دینے کے لیے بیماری کے پھیلاؤ کی نگرانی، معلومات کے تبادلے اور تکنیکی رہنمائی مہیا کرنے کے لیے پرعزم ہے۔ ڈائریکٹر جنرل نے اس معاملے میں نجی شعبے کی شمولیت بالخصوص ویکسین کی تیاری، مرض کی تشخیص اور جانوروں کی صحت کے لیے اعلیٰ معیار کی طبی خدمات فراہم کرنے کی اہمیت پر زور دیا ہے۔

بریفنگ کے موقع پر وباؤں کی روک تھام سے متعلق فنڈ کے تحت برڈ فلو پر قابو پانے کے لیے مالی وسائل فراہم کرنے کے لیے بھی کہا گیا۔

.

ذریعہ: UrduPoint

کلیدی لفظ: تلاش کیجئے ڈائریکٹر جنرل ایف اے او خوراک کی برڈ فلو کے لیے

پڑھیں:

شفیق غوری…مزدورحقوق کے علمبردار

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

شفیق غوری ایک مخلص اور محنتی ٹریڈ یونینسٹ تھے جنہوں نے اپنی پوری پیشہ ورانہ زندگی مزدوروں کی خدمت اور ٹریڈ یونین تحریک کے لیے وقف کر دی تھی۔ مزدوروں کے حقوق کے لیے ان کے جذبے نے انہیں اس میدان میں ایک ناگزیر شخصیت بنا دیا تھا۔
غوری صاحب ملک میں لیبر قوانین اور ٹریڈ یونین کے حقوق کے صف اول کے ماہرین میں سے ایک کے طور پر مشہور تھے۔ اس کی گہری معلومات ان کی قابلیت کی صرف ایک مثال تھی۔ وہ نہ صرف ایک غیر معمولی مذاکرات کار تھے، جو کارکنوں کے لیے سازگار شرائط ملازمت پر بات کرنے کی صلاحیت رکھتے تھے، بلکہ وہ مختلف اہم فورمز پر کارکنوں اور ٹریڈ یونینوں کی نمائندگی کرنے کے ماہر بھی تھے۔ لیبر قانون سازی اور سہ فریقی اداروں (جس میں حکومت، آجر اور کارکن شامل ہیں) کے بارے میں ان کی معلومات بہت گہری تھیں، جس کی وجہ سے وہ مزدوروں کی ہر سطح پر وکالت میں انتہائی موثر تھے۔ انہوں نے محنت کے محکموں اور متعلقہ سرکاری اداروں کی کارروائیوں اور پالیسیوں پر ہمیشہ گہری اور چوکنا نظر رکھی، جوابدہی اور کارکنوں کے تحفظ کے قوانین کی پابندی کو یقینی بنایا۔ محنت کش طبقے کو ایک طاقتور، باخبر آواز بلند کرنے والے کی حیثیت سے وہ ہمیشہ یاد رکھے جائیں گے۔
شفیق غوری صاحب کے ساتھ تعلق تو بہت پرانا تھا مگر ان کے ساتھ مل کر کام اس وقت شروع ہوا جب ہم دونوں نے ویپکوپ کے عہدیداروں کے طور پر خدمات انجام دیں، یہ پلیٹ فارم صنعتوں اور ان کے کارکنوں دونوں کی بہتری کے لیے بنایا گیا تھا۔ ابتدائی طور پر میں نے تجربہ کار رہنما ایس پی لودھی کے ساتھ مل کر 2001 اور 2003 کے درمیان انڈسٹریل ریلیشنز ایکٹ کا دوبارہ مسودہ تیار کرنے کا اہم کام انجام دیا۔

ایس پی لودھی صاحب کے انتقال کے بعد، میں نے اپنی توجہ شفیق غوری کے ساتھ مل کر کام کرنے پر مرکوز کر دی تاکہ مزدوروں سے متعلق متعدد قانون سازی کی تجاویز تیار کی جا سکیں۔ ہمارا سب سے گہرا تعاون ایک اہم چار رکنی کمیٹی میں ہوا، جہاں غوری صاحب اور میں نے مزدوروں کی نمائندگی کی، جبکہ یو آر عثمانی اور اے ایچ حیدری آجروں کی نمائندگی کرتے تھے۔ اس کمیٹی نے کئی سال بہت متحرک ہو کر کام کیا۔
اس عرصے کے دوران، میں نے غوری صاحب کے لیے بے پناہ عزت محسوس کی، انہیں ایک ایسے شخص کے طور پر پایا جس میں محنت کے قوانین، ان کی پیچیدہ تشریح اور ان کے مضمرات کا وسیع عملی تجربہ تھا۔ اگرچہ ہماری کوششیں ہمیشہ محنت کش طبقے کے حقوق کے لیے لابنگ اور مضبوطی سے آگے بڑھانے پر مرکوز تھیں، لیکن میں نے محسوس کیا کہ غوری صاحب جب محنت کشوں کے بنیادی اصولوں کی بات کرتے ہیں تو وہ غیر معمولی طور پر سخت اور غیر سمجھوتہ کرنے والے تھے۔ انہوں نے مسلسل مضبوط، حقائق پر مبنی دلائل اور ٹھوس مثالوں کے ساتھ میدان میں حصہ لیا، اس بات کو یقینی بنایا کہ محنت کش طبقے کی آواز کو بغیر کسی سمجھوتے کے سنا جائے۔ ان کی لگن تحریک کے لیے ایک زبردست اثاثہ تھی۔
اس سچے، مخلص اور دیانتدار ٹریڈ یونینسٹ کا انتقال تمام کارکنوں اور ان کی تنظیموں کے لیے ایک بہت بڑا نقصان ہے۔ انہوں نے اپنی پوری زندگی تحریک کے لیے وقف کر دی، بے مثال دیانت اور ایمانداری کے ساتھ خدمت کی۔ ایک پرعزم وکیل اور مزدوروں کے حقوق کے محافظ کے طور پر شفیق غوری کی میراث محنت کش طبقے کو ہمیشہ یاد رکھی جائے گی۔

قمر الحسن گلزار

متعلقہ مضامین

  • کراچی:سائٹ ٹائون میں مزید 14 بچوں کے ایچ آئی وی سے متاثر ہونے کا انکشاف
  • فاسٹ فیشن کے ماحولیاتی اثرات
  • شفیق غوری…مزدورحقوق کے علمبردار
  • بُک شیلف
  • پاکستان اور افغانستان، امن ہی بقا کی ضمانت ہے
  • چُھٹکی
  • مڈعیدن ، ڈی سی کا ڈینگی وائرس سے بچائو کے حوالے سے اجلاس
  • جہلم ویلی، امتحانی نتائج میں فیل ہونے پر طالب علم کی خودکشی
  • افغانستان کا معاملہ پیچیدہ، پاکستان نے بہت نقصان اٹھایا ہے، اسپیکر پنجاب اسمبلی ملک احمد خان
  • اسرائیلی پابندیوں سے فلسطینیوں کو خوراک و پانی کی شدید کمی کا سامنا ہے، انروا