حکومت علماء کو تحفظ دینے میں ناکام ہو گئی، مفتی ولی الرحمن
اشاعت کی تاریخ: 18th, March 2025 GMT
جے یو آئی گلگت بلتستان کے امیر نے ایک بیان میں کہا کہ ملک عدم استحکام کا شکار ہو چکا ہے، ہر طرف بے یقینی کی سی صورتحال ہے، مذہبی طبقے کو منظم سازش کے تحت نشانہ بنانا کسی صورت قابل برداشت نہیں۔ اسلام ٹائمز۔ امیر جمعیت علماء اسلام گلگت بلتستان مفتی ولی الرحمان نے کہا ہے کہ پاکستان کے اندر ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت علماء حق کو ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنایا جا رہا ہے، جمعیت علماء اسلام گلگت بلتستان ایسی بزدلانہ کارروائیوں اور دہشت گردی کی شدید الفاظ میں مذمت کرتی ہے۔ ایک بیان میں مفتی ولی الرحمان نے کہا کہ حکومت علماء کو تحفظ دینے میں ناکام نظر آرہی ہے اور مختلف صوبوں کے اندر جید علماء دین کی سیکورٹی بھی واپس لے لی گئی ہے جو کہ تشویش ناک ہے۔ ریاست ملک میں امن و امان کے قیام کیلئے شرپسندوں کے خلاف کریک ڈاؤن کرے اور امن کی بحالی اور علماء کے تحفظ کیلئے اقدامات کرے۔ ان کا کہنا تھا کہ گلگت بلتستان سے لیکر صوبہ خیبر پختونخواہ، پنجاب، بلوچستان اور سندھ میں جید علماء کرام کو سیکیورٹی فراہم کی جائے اور دہشت گردی کی روک تھام کیلئے اپنے فرائض کی ادائیگی کو یقینی بنائے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ملک عدم استحکام کا شکار ہو چکا ہے، ہر طرف بے یقینی کی سی صورتحال ہے، مذہبی طبقے کو منظم سازش کے تحت نشانہ بنانا کسی صورت قابل برداشت نہیں، حکومت اپنا رٹ بحال کرے ورنہ جمعیت علماء اسلام علماء پر ہونے والے قاتلانہ حملوں کے خلاف سڑکوں پر نکلنے پر مجبور ہو گی۔
.ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: گلگت بلتستان
پڑھیں:
تحقیقاتی ادارے کارڈیک ہسپتال گلگت میں ہونی والی کرپشن پر خاموش کیوں ہیں؟ نعیم الدین
نجمن امامیہ گلگت بلتستان کے مرکزی نائب صدر نعیم الدین سلیمان نے ایک بیان میں کہا اہم ریاستی ادارے، اینٹی کرپشن اور FIA جیسے اداروں کو کارڈیک ہسپتال گلگت میں ہونے والی کرپشن کی تحقیقات پر مکمل خاموشی سوالیہ نشان ہے اور اسی ادارے میں میرٹ کے خلاف یکطرفہ طور پر ملازمین کی تقرری اقربا پروری میں سابقہ سیکریٹری صحت اور سابق وزیر صحت ملوث ہیں۔ اسلام ٹائمز۔ انجمن امامیہ گلگت بلتستان کے مرکزی نائب صدر نعیم الدین سلیمان نے ایک بیان میں کہا ہے کہ انسانی سماج میں حکومت اور اپوزیشن کا تصور ایک حقیقت ہے لیکن اس کے باوجود حکومت کی ذمہ داریاں بڑھ جاتی ہیں، اس لئے کہ وہ اقتدار میں ہوتی ہے، ایسے میں اپوزیشن اور عوام کو تنقید کا موقع نہ دینا حکومت کی کامیاب حکمت عملی سمجھی جاتی ہے۔ گلگت بلتستان میں منرلز کے معاملہ پر حکومت سے گلہ شکوہ ہونا فطری امر ہے اور حکومت کو ایسے مواقع میں صبر و تحمل کا مظاہرہ کرنا چاہئے۔ لیکن پاکستان منرل انویسٹمنٹ فورم کے بعد صوبائی حکومت کی جانب سے واضح موقف سامنے نہ آنے کے نتیجہ میں عوام کی بے چینی بڑھ گئی، جس کا ازالہ کرنا بھی حکومت کے فرائض میں شامل تھا، جس کی کمی اب بھی محسوس کی جا رہی ہے اور آغا سید راحت حسین الحسینی جو کہ پورے گلگت بلتستان کے عوامی نمائندہ اور قائد ہیں نے جمعہ خطبے میں بھرپور عوامی ترجمانی کی۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ صوبائی حکومت کی جماعتی اور انفرادی حیثیت کے اپوزیشن سے تعلق رکھنے والے سیاسی و سماجی شخصیات اس کا بھر پور فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ حکومتی مشنری بالخصوص میڈیا ایڈوائزر کی جانب سے بے چینی کے ازالہ کے بجائے مزید خلفشار پیدا کرنے کے بیان سے بے چینی جنگل کے آگ کی طرح پھیل گئی جس کے بعد ایک صوبائی معاون خصوصی کی جانب سے مذکورہ ایڈوائزر کے خلفشار کا بیان واپس لینے کے اعلان کو سمجھداری سے تعبیر کیا جاتا ہے اور مرکزی انجمن امامیہ کے جانب سے عوام الناس اور سوشل میڈیا صارفین کو ہدایت کی جاتی ہے کہ اس بیان بازی کا سلسلہ کو روک دیا جائے۔ اہم ریاستی ادارے، اینٹی کرپشن اور FIA جیسے اداروں کو کارڈیک ہسپتال گلگت میں ہونے والی کرپشن کی تحقیقات پر مکمل خاموشی سوالیہ نشان ہے اور اسی ادارے میں میرٹ کے خلاف یکطرفہ طور پر ملازمین کی تقرری اقربا پروری میں سابقہ سیکریٹری صحت اور سابق وزیر صحت ملوث ہیں۔
اسی طرح کئی انکوائریاں سرد خانے کی نذر کی گئی ہیں۔ یہ وہ سوالیہ نشانات ہیں جن کا اظہار تو سیاسی مصلحت کاروں کی طرف سے خاموشی اور علماء کرام کی طرف سے نشاندہی پر آگ بگولہ ہونا ہے۔ تاہم اس کا جواب یہ مشیران اور وزاء سمیت پوری ریاست کو دینا پڑے گا۔ اگر آغا صاحب کی طرف لگایا گیا الزام درست نہیں تو اوپر بیان کئے گئے کریشن کی انکوائریاں کیوں پنڈنگ میں رکھی گئی ہیں۔ اس میں براہ راست سیکریٹری صحت اور سابقہ وزیر صحت کے ملوث ہونے کے شبہات کا جنم لینا اور اس پر حکومتی اور انتظامی خاموشی ان کے ملوث ہونے کی واضح دلیل ہے۔