حکومت چاہتی ہے کہ معاملات پر اتفاق رائے ہو، رانا احسان
اشاعت کی تاریخ: 19th, March 2025 GMT
لاہور:
مسلم لیگ (ن) کے رہنما رانا احسان افضل کا کہنا ہے کہ گورنمنٹ چاہتی ہے کہ ان معاملات پر اتفاق رائے ہو اور تبھی حکومت نے یہ سوچا کہ پارلیمنٹ کی جو نیشنل سیکیورٹی کمیٹی ہے اس کا اجلاس آج اسی بنیاد پربلایا گیا کہ پارلیمنٹ کے اندر موجود جتنی بھی پارٹیز کی ریپریزنٹیشن ہے وہ ایک فورم پر آئیں۔
ایکسپریس نیوز کے پروگرام اسٹیٹ کرافٹ میں گفتگو کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ لیکن بدقسمتی سے پی ٹی آئی کی بات کریں تو انھوں نے اس کو بھی ایک موقع جانا وہ جو اپنی پیٹی پالیٹکس ہے اور جو معاملات ہیں جو پرسنل انٹرسٹ کے معاملات ہیں ان کو آگے رکھیں۔
رہنما پی ٹی آئی فردوس شمیم نقوی نے کہا ہم نے بڑا کلیئرلی واضح طور پہ یہ اعلان کیا کہ ہم حصہ لیں گے، ہم نے اسپیکر کو ایک ریکویسٹ بھیجی کہ ہمیں ہمارے لیڈر سے مشاورت کا موقع دیا جائے، صبح سات بجے دروازے کھل جاتے ہیں جب اسٹیبلشمنٹ چاہتی ہے، ہماری پارٹی کا لیڈر ملک کا سب سے مقبول ترین لیڈر ہے۔
رہنما بی این پی مینگل ثنا اللہ بلوچ نے کہا کہ جتنے ہمارے پارلیمنٹرینز کا آج محمود خان اچکزئی صاحب نے تحریک تحفظ آئین پاکستان جس کا ہم حصہ بھی ہیں پی ٹی آئی بھی ہے انھوں نے بھی آج کے اس اجلاس کا جو بائیکاٹ کیا ہے چند اہم وجوہات بیان کی ہیں۔
اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ اس اسمبلی کی جو جائزیت ہے جس کو لیجیٹیمیسی کہا جاتا ہے اس پر بہت بڑا سوالیہ نشان ہے، جس طرح کے انتخابات ہوئے وہ نہ صرف پاکستان میں بلکہ پوری دنیا میں لوگ اس اسمبلی کی ہیت، اس کے اسٹرکچر پر کافی سوالات اٹھاتے ہیں۔
.ذریعہ: Express News
پڑھیں:
کیا قومی اسمبلی مالی سال سے ہٹ کر ٹیکس سے متعلق بل پاس کر سکتی ہے: سپریم کورٹ
اسلام آباد (خصوصی رپورٹر) سپریم کورٹ کے جج جسٹس جمال خان مندوخیل نے سپر ٹیکس سے متعلق درخواستوں پر سماعت کے دوران ریمارکس دیے ہیں کہ ہر ادارہ آئین کا پابند ہے، پارلیمنٹ ہو یا سپریم کورٹ ہر ادارہ آئین کے تحت پابند ہوتا ہے۔سپریم کورٹ کے آئینی بینچ میں سپر ٹیکس سے متعلق درخواستوں پر سماعت ہوئی، جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں پانچ رکنی آئینی بینچ نے سماعت کی۔وکیل ایف بی آر حافظ احسان نے مؤقف اپنایا کہ سیکشن 14 میں کوئی تبدیلی نہیں ہوئی، صرف اس کا مقصد تبدیل ہوا ہے، 63 اے پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ سمیت کئی کیسز ہیں جہاں سپریم کورٹ نے پارلیمنٹ کی قانون سازی کی اہلیت کو تسلیم کیا ہے۔جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ کیا قومی اسمبلی مالی سال سے ہٹ کر ٹیکس سے متعلق بل پاس کر سکتی ہے، کیا آئین میں پارلیمنٹ کو یہ مخصوص پاور دی گئی ہے۔حافظ احسان کھوکھر نے دلیل دی کہ عدالت کے سامنے جو کیس ہے اس میں قانون سازی کی اہلیت کا کوئی سوال نہیں ہے، جسٹس منصور علی شاہ کا ایک فیصلہ اس بارے میں موجود ہے۔جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ وہ صورتحال علیحدہ تھی، یہ صورت حال علیحدہ ہے۔حافظ احسان نے مؤقف اپنایا کہ ٹیکس پیرز نے ٹیکس ریٹرنز فائل نہیں کیے اور فائدے کا سوال کر رہے ہیں، یہ ایک اکیلے ٹیکس پیرز کا مسئلہ نہیں ہے، یہ آئینی معاملہ ہے، ٹیکس لگانے کے مقصد کے حوالے سے تو یہ عدالت کا دائرہ اختیار نہیں ہے، عدالتی فیصلے کا جائزہ لینا عدالت کا کام ہے۔انہوں نے اپنے دلائل میں کہا کہ اسلام آباد ہائیکورٹ کا فیصلہ قانونی طور پر پائیدار نہیں ہے، اسلام آباد ہائیکورٹ کا فیصلہ ایک متضاد فیصلہ ہے۔جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ ہر ادارہ آئین کا پابند ہے، پارلیمنٹ ہو یا سپریم کورٹ ہر ادارہ آئین کے تحت پابند ہوتا ہے، حافظ احسان نے مؤقف اپنایا کہ اگر سپریم کورٹ کا کوئی فیصلہ موجود ہے تو ہائیکورٹ اس پر عملدرآمد کرنے کی پابند ہے۔اس کے ساتھ ہی ایف بی آر کے وکلا حافظ احسان، شاہنواز میمن اور اشتر اوصاف کے دلائل مکمل ہوگئے، درخواست گزار کے وکیل راشد انور کل دلائل کا آغاز کریں گے۔سماعت کے اختتام پر ایڈیشنل اٹارنی جزل اور کمپینز کے وکیل مخدوم علی خان روسٹرم پر آگئے، ایڈیشنل اٹارنی جزل نے کہا کہ اٹارنی جزل دلائل نہیں دیں گے، تحریری معروضات جمع کروائیں گے۔مخدوم علی خان نے کہا کہ جب تک تحریری معروضات جمع نہیں ہوں گی، میں دلائل کیسے دوں گا، ایڈیشنل اٹارنی جزل نے کہا کہ اٹارنی جزل دو دن تک تحریری معروضات جمع کروا دیں گے۔کیس کی مزید سماعت آج تک ملتوی کردی گئی۔