غربت کی بڑھتی ہوئی شرح بحوالہ عالمی معاشی جنگ
اشاعت کی تاریخ: 19th, March 2025 GMT
امریکا نے چین اور اپنے پڑوسی ممالک کے لیے بھی سخت تجارتی فیصلے کر کے ایک بھونچال برپا کردیا ہے۔ ایسے میں چین نے بڑے ہی تحمل اور اچھی خاصی خوش گواری کی فضا پیدا کرتے ہوئے اس بات کو یقینی بنانے کی پیشن گوئی کردی ہے کہ اسے رواں برس اقتصادی ترقی کی شرح 5 فی صد رہنے کی توقع ہے۔
چین نے گھبراہٹ کا مظاہرہ کرنے کے بجائے اس اطمینان کا اظہارکر دیا ہے کہ اس کی شرح نمو حسب سابق 2024 کی طرح رہے گی۔ حالانکہ آئی ایم ایف نے پیش گوئی کی ہے کہ چین کی شرح ترقی 4.
میرا خیال ہے کہ وہاں کسانوں کو ان کی فصل کی مناسب رقم مل رہی ہے اور پاکستانی کسان نقصان میں جا رہے ہیں لہٰذا پاکستان میں غربت کی شرح میں کئی سالوں سے اضافہ ہوا ہے۔ ورلڈ بینک کی رپورٹ کے مطابق 2023 کے مقابلے میں ایک سال میں مزید ایک کروڑ30 لاکھ افراد غربت کا شکار ہو گئے ہیں، لہٰذا حکومت ان تمام عوامل کا جائزہ لے اور یہ دیکھے کہ معیشت کی بہتری کی جانب سفرکو کس حد تک درست کرنے کی ضرورت ہوگی۔ رپورٹ ظاہر کررہی ہے کہ 2024 میں پاکستان میں غربت کی شرح 25.3 فی صد تک پہنچ گئی ہے جوکہ 2023 کے مقابلے میں 7 فی صد زیادہ ہے۔
غربت میں اضافے کی ایک اہم وجہ میرے خیال میں گزشتہ 2 سال میں بجلی کے فی یونٹ ٹیرف میں 25 روپے 76 پیسے کا اضافہ بن رہا ہے اور ان 2 سالوں میں بجلی صارفین پر 2 ہزار ارب روپے سے بھی زائد کا اضافی بوجھ ڈالا گیا اور اس سے سب سے زیادہ متاثر اب درمیانی طبقہ ہو رہا ہے اور ان کی بڑی تعداد اب بجلی نرخوں میں اضافے سے غربت کی جانب عازم سفر ہو چکی ہے۔ اب آپ دیکھیں 201 سے 300 یونٹ تک بجلی استعمال کرنے والوں کے لیے بجلی 34 روپے اور 400 یونٹ استعمال کرنے والوں کے لیے 39 روپے اس کے علاوہ اور کئی اقسام کے چارجز وغیرہ ملا کر اب وہ صارفین جوکہ پہلے 3 یا 4 ہزار بجلی کی مد میں ادا کرتے تھے اب وہ کہیں 20 ہزار،کہیں 25 یا 26 ہزار یا اس سے بھی زائد بلوں کے باعث مالی بوجھ تلے دب رہے ہیں۔
اس کے ساتھ مکان کرایوں میں اضافہ ہوا ہے کیونکہ جب مہنگائی بڑھتی ہے تو وہ لوگ جن کے ذرایع آمدن میں مکانوں کے کرایوں کی وصولی شامل ہے لہٰذا کرائے بڑھانے کو وہ ضروری سمجھتے ہیں۔ اس کے علاوہ کس طرح سے گزشتہ کئی سالوں سے ٹرانسپورٹ کرایوں میں من مانا اضافہ کر دیا جاتا ہے۔ ابھی عید الفطر کا موقع آنے والا ہے اب آپ دیکھیے گا کہ کس طرح سے کراچی سے بیرون کراچی جانے والی بسوں کے کرایوں میں اضافہ ہوتا ہے اور اسی طرح لاہور سے بیرون لاہور اور راولپنڈی کی بسوں کے اڈوں اور اسی طرح دیگر شہروں میں بسوں کے کرایوں میں کس طرح سے بھاری اضافہ ہوتا ہے۔ اس سلسلے میں تمام صوبائی حکومتوں کو اس طرح کی حکمت عملی عوام کے مفاد میں اور ٹرانسپورٹرز کی تنبیہ کے لیے بطور آگاہی مہم چلانے کی ضرورت ہے تاکہ ایک روپیہ بھی نہ کوئی زائد کرایہ دے اور نہ ہی زائد کرایہ لینے کی کوئی ہمت کرے۔ بس حکومتی رٹ مضبوط ہونی چاہیے۔
اس کے علاوہ شہروں میں چلنے والے ٹرانسپورٹرز جس طرح سے اچانک کرایوں میں اضافہ کر دیتے ہیں اور رکشہ مالکان، ٹیکسی مالکان، ٹرک ڈرائیورز، ڈمپر والے، ٹرالر والے کرایہ بڑھا دیتے ہیں پاکستان میں پوچھ گچھ کا کوئی نظام نہیں ہے۔ حکومت غربت کی شرح میں جب کمی لا سکتی ہے جب ان مافیاز کو کنٹرول کرلے جوکہ عوام کی جیب خالی کر کے ان کو غربت کی طرف دھکیل رہے ہیں۔ جس کے باعث اب عوام کی وہ اکثریت جو نہ کبھی کسی سے راشن لینے کا سوچ سکتی تھی اب دھوپ میں روزے سے کھڑے رہ کر دھکم دھکا کے ماحول میں آٹا، چاول، چینی لینے پر مجبور ہوگئی ہے۔
ابھی چند روز قبل کا واقعہ ہے جب اتحاد ٹاؤن کراچی میں روزے کی حالت میں راشن لینے آئی ہوئی خواتین کی بڑی تعداد جمع تھی کہ بھگدڑ مچ گئی تھی۔ اسی طرح ملک کے طول و عرض میں مخیر حضرات کے بنگلوں، کوٹھیوں، حویلیوں کے باہر خصوصاً ماہ رمضان میں ایسے مناظر دیکھے جا سکتے ہیں کہ کہیں بیسیوں،کہیں سیکڑوں افراد راشن لینے کے لیے طویل دورانیے تک کھڑے رہتے ہیں اورکہیں پر تو چند ایک کو راشن دے کر باقی کو خالی ہاتھ واپس بھیج دیا جاتا ہے۔
مخیر حضرات کو اپنے طور پر یہ اقدام اٹھانا چاہیے کہ وہ زیادہ سے زیادہ ضرورت مندوں کا خیال کریں اور دن میں دھوپ سے بچنے کے لیے یا تو سایہ دار جگہ کا انتظام کریں یا پھر بعد از افطار یہ سلسلہ شروع کیا جائے۔ بہتر یہ ہے کہ پہلے سے افراد کے نام لکھ لیے جائیں اور ان کو خاموشی سے ان کے گھروں میں راشن پہنچا دیا جائے یا پھر ان کو بلا کر راشن دے دیں تاکہ قطار میں کھڑے ہوئے کسی بھی شخص کو خالی ہاتھ واپس نہ جانا پڑے۔ اس سلسلے میں حقیقی ضرورت مند اور شوقیہ یا پھر مفت کا مال جمع کرنے والوں کی بھی تخصیص کرنا ضروری ہے۔
ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: غربت کی شرح کرایوں میں ہے اور
پڑھیں:
وزیر خزانہ کی عالمی بنک کے جنوبی ایشیا کے نائب صدر مارٹن رائزر سے ملاقات، سرمایہ کاری میں اضافہ کرنے پر اتفاق
وزیر خزانہ سینیٹر محمد اورنگزیب نے عالمی بنک کے جنوبی ایشیا کے نائب صدر مارٹن رائزر سے ملاقات کی ہے۔ ملاقات میں روزگار کے مواقع بڑھانے کے لیے نجی شعبے کی سرمایہ کاری میں اضافہ کرنے پر اتفاق کیا گیا۔ واشنگٹن میں عالمی بینک گروپ آئی ایم ایف کے موسم بہار کے اجلاس کے موقع پر ہوئی۔ وزیر خزانہ نے کنٹری پارٹنرشپ فریم ورک پر جلد عملدرآمد اور مخصوص شعبوں میں مکمل کیے جانے والے منصوبے جلد طے کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔وزیر خزانہ نے منصوبوں کی تکمیل میں رکاوٹیں دور کرنے اور کام کی رفتار تیز کرنے کے لیے ایک مؤثر نظام بنانے کی ضرورت پر بھی زور دیا۔ وفاقی وزیرِ خزانہ سینیٹر محمد اورنگزیب نے ڈوئچے بینک کے وفد سے بھی ملاقات کی، جس کی قیادت مریم وازانی، منیجنگ ڈائریکٹر برائے مشرق وسطیٰ و شمالی افریقہ کر رہی تھیں۔ وزیرِ خزانہ نے پاکستان کی مالیاتی منڈیوں میں واپسی میں دلچسپی کا اظہار کیا جس میں پانڈا بانڈز اور ESG بانڈز کے اجرا کی خواہش شامل ہے۔