Express News:
2025-11-03@10:43:36 GMT

غربت کی بڑھتی ہوئی شرح بحوالہ عالمی معاشی جنگ

اشاعت کی تاریخ: 19th, March 2025 GMT

امریکا نے چین اور اپنے پڑوسی ممالک کے لیے بھی سخت تجارتی فیصلے کر کے ایک بھونچال برپا کردیا ہے۔ ایسے میں چین نے بڑے ہی تحمل اور اچھی خاصی خوش گواری کی فضا پیدا کرتے ہوئے اس بات کو یقینی بنانے کی پیشن گوئی کردی ہے کہ اسے رواں برس اقتصادی ترقی کی شرح 5 فی صد رہنے کی توقع ہے۔

چین نے گھبراہٹ کا مظاہرہ کرنے کے بجائے اس اطمینان کا اظہارکر دیا ہے کہ اس کی شرح نمو حسب سابق 2024 کی طرح رہے گی۔ حالانکہ آئی ایم ایف نے پیش گوئی کی ہے کہ چین کی شرح ترقی 4.

6 فی صد رہنے کی توقع ہے لیکن چین شرح ترقی میں کمی نہیں بلکہ اس میں اضافے کا ہنر خوب جانتا ہے۔ البتہ ہندوستان کے لیے امریکا کی جانب سے اٹھائے گئے اقدامات کے اثرات وہاں کی غربت کی شرح میں کمی کے سفر کو کس طرح متاثر کر سکتی ہے؟ یہ دیکھنا ہوگا،کیونکہ گزشتہ کئی سالوں سے بھارت کے بارے میں رپورٹوں سے اشارہ مل رہا ہے کہ وہاں خاص طور پر دیہی علاقوں میں غربت میں کمی واقع ہوئی ہے۔

میرا خیال ہے کہ وہاں کسانوں کو ان کی فصل کی مناسب رقم مل رہی ہے اور پاکستانی کسان نقصان میں جا رہے ہیں لہٰذا پاکستان میں غربت کی شرح میں کئی سالوں سے اضافہ ہوا ہے۔  ورلڈ بینک کی رپورٹ کے مطابق 2023 کے مقابلے میں ایک سال میں مزید ایک کروڑ30 لاکھ افراد غربت کا شکار ہو گئے ہیں، لہٰذا حکومت ان تمام عوامل کا جائزہ لے اور یہ دیکھے کہ معیشت کی بہتری کی جانب سفرکو کس حد تک درست کرنے کی ضرورت ہوگی۔ رپورٹ ظاہر کررہی ہے کہ 2024 میں پاکستان میں غربت کی شرح 25.3 فی صد تک پہنچ گئی ہے جوکہ 2023 کے مقابلے میں 7 فی صد زیادہ ہے۔

غربت میں اضافے کی ایک اہم وجہ میرے خیال میں گزشتہ 2 سال میں بجلی کے فی یونٹ ٹیرف میں 25 روپے 76 پیسے کا اضافہ بن رہا ہے اور ان 2 سالوں میں بجلی صارفین پر 2 ہزار ارب روپے سے بھی زائد کا اضافی بوجھ ڈالا گیا اور اس سے سب سے زیادہ متاثر اب درمیانی طبقہ ہو رہا ہے اور ان کی بڑی تعداد اب بجلی نرخوں میں اضافے سے غربت کی جانب عازم سفر ہو چکی ہے۔ اب آپ دیکھیں 201 سے 300 یونٹ تک بجلی استعمال کرنے والوں کے لیے بجلی 34 روپے اور 400 یونٹ استعمال کرنے والوں کے لیے 39 روپے اس کے علاوہ اور کئی اقسام کے چارجز وغیرہ ملا کر اب وہ صارفین جوکہ پہلے 3 یا 4 ہزار بجلی کی مد میں ادا کرتے تھے اب وہ کہیں 20 ہزار،کہیں 25 یا 26 ہزار یا اس سے بھی زائد بلوں کے باعث مالی بوجھ تلے دب رہے ہیں۔

اس کے ساتھ مکان کرایوں میں اضافہ ہوا ہے کیونکہ جب مہنگائی بڑھتی ہے تو وہ لوگ جن کے ذرایع آمدن میں مکانوں کے کرایوں کی وصولی شامل ہے لہٰذا کرائے بڑھانے کو وہ ضروری سمجھتے ہیں۔ اس کے علاوہ کس طرح سے گزشتہ کئی سالوں سے ٹرانسپورٹ کرایوں میں من مانا اضافہ کر دیا جاتا ہے۔ ابھی عید الفطر کا موقع آنے والا ہے اب آپ دیکھیے گا کہ کس طرح سے کراچی سے بیرون کراچی جانے والی بسوں کے کرایوں میں اضافہ ہوتا ہے اور اسی طرح لاہور سے بیرون لاہور اور راولپنڈی کی بسوں کے اڈوں اور اسی طرح دیگر شہروں میں بسوں کے کرایوں میں کس طرح سے بھاری اضافہ ہوتا ہے۔ اس سلسلے میں تمام صوبائی حکومتوں کو اس طرح کی حکمت عملی عوام کے مفاد میں اور ٹرانسپورٹرز کی تنبیہ کے لیے بطور آگاہی مہم چلانے کی ضرورت ہے تاکہ ایک روپیہ بھی نہ کوئی زائد کرایہ دے اور نہ ہی زائد کرایہ لینے کی کوئی ہمت کرے۔ بس حکومتی رٹ مضبوط ہونی چاہیے۔

اس کے علاوہ شہروں میں چلنے والے ٹرانسپورٹرز جس طرح سے اچانک کرایوں میں اضافہ کر دیتے ہیں اور رکشہ مالکان، ٹیکسی مالکان، ٹرک ڈرائیورز، ڈمپر والے، ٹرالر والے کرایہ بڑھا دیتے ہیں پاکستان میں پوچھ گچھ کا کوئی نظام نہیں ہے۔ حکومت غربت کی شرح میں جب کمی لا سکتی ہے جب ان مافیاز کو کنٹرول کرلے جوکہ عوام کی جیب خالی کر کے ان کو غربت کی طرف دھکیل رہے ہیں۔ جس کے باعث اب عوام کی وہ اکثریت جو نہ کبھی کسی سے راشن لینے کا سوچ سکتی تھی اب دھوپ میں روزے سے کھڑے رہ کر دھکم دھکا کے ماحول میں آٹا، چاول، چینی لینے پر مجبور ہوگئی ہے۔

ابھی چند روز قبل کا واقعہ ہے جب اتحاد ٹاؤن کراچی میں روزے کی حالت میں راشن لینے آئی ہوئی خواتین کی بڑی تعداد جمع تھی کہ بھگدڑ مچ گئی تھی۔ اسی طرح ملک کے طول و عرض میں مخیر حضرات کے بنگلوں، کوٹھیوں، حویلیوں کے باہر خصوصاً ماہ رمضان میں ایسے مناظر دیکھے جا سکتے ہیں کہ کہیں بیسیوں،کہیں سیکڑوں افراد راشن لینے کے لیے طویل دورانیے تک کھڑے رہتے ہیں اورکہیں پر تو چند ایک کو راشن دے کر باقی کو خالی ہاتھ واپس بھیج دیا جاتا ہے۔

مخیر حضرات کو اپنے طور پر یہ اقدام اٹھانا چاہیے کہ وہ زیادہ سے زیادہ ضرورت مندوں کا خیال کریں اور دن میں دھوپ سے بچنے کے لیے یا تو سایہ دار جگہ کا انتظام کریں یا پھر بعد از افطار یہ سلسلہ شروع کیا جائے۔ بہتر یہ ہے کہ پہلے سے افراد کے نام لکھ لیے جائیں اور ان کو خاموشی سے ان کے گھروں میں راشن پہنچا دیا جائے یا پھر ان کو بلا کر راشن دے دیں تاکہ قطار میں کھڑے ہوئے کسی بھی شخص کو خالی ہاتھ واپس نہ جانا پڑے۔ اس سلسلے میں حقیقی ضرورت مند اور شوقیہ یا پھر مفت کا مال جمع کرنے والوں کی بھی تخصیص کرنا ضروری ہے۔

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: غربت کی شرح کرایوں میں ہے اور

پڑھیں:

ترقی کی چکا چوند کے پیچھے کا منظر

اللہ بھلا کرے ہمارے ناخداؤں کا، صبح شام ہمیں یقین دلائے رکھتے ہیں کہ ملک ترقی کر رہا ہے، گھبرانا نہیں۔ بلکہ ثبوت کے طور پر کئی دعوے اور مختلف معاشی اشاریے پیش کیے جاتے ہیں کہ لو دیکھ لو، جنگل کا جنگل ہرا ہے لیکن کیا کیجیے۔ 

زمینی حقائق سے واسطہ پڑتا ہے تو بندۂ مزدور کے اوقات اسی طرح تلخ اور سوہان روح ملتے ہیں۔ ہم عوام کی یہ دہائی کون سنتا ہے لیکن جب ان اعداد وشمار کو مختلف ترتیب سے کوئی عالمی ادارہ مرتب کر کے عوام کی دہائی اور تاثر کی تائید کرے تو اس پر اعتبار کرنا بنتا ہے۔

سالہا سال سے سن، پڑھ اور دیکھ رہے ہیں کہ ترقی کی دوڑ میں ایشیاء تیزی سے آگے بڑھ رہا ہے۔ جی ڈی پی گروتھ، پیداوار، برآمدات اور ارب پتیوں کی تعداد میں دھڑادھڑ اضافہ ہو رہا ہے۔

ایسے میں معاشی بدحالی کا دھڑکا تو اصولاً نہیں ہونا چاہیے لیکن معروف عالمی ریسرچ ادارے آکسفیم کی ایشیائی ممالک کی ترقی کی بابت تازہ رپورٹ کے مطابق ترقی ہو تو رہی لیکن اس کے ثمرات کا غالب حصہ چند ہاتھوں تک محدود ہے جب کہ عوام کے حصے میں ٹریکل ڈاؤن ایفیکٹ کا لالی پاپ ہی رہتا ہے۔ یقین نہ آئے تو رپورٹ کے چیدہ نکات سنئے اور سر دھنیے…

رپورٹ کا عنوان ہے ’’An Unequal Future‘‘ یعنی ’’غیر مساوی مستقبل‘‘۔ رپورٹ کا خلاصہ یہ کہ اگر ترقی کی یہ رادھا نو من تیل کے ساتھ اسی طرح ناچتی رہی تو پورے ایشیاء میں انصاف، مساوات اور خوشحالی کا خواب بس خواب ہی رہے گا۔

آکسفیم کے مطابق، ایشیاء کے بیشتر ممالک میں دولت اور آمدنی کی تقسیم خطرناک حد تک غیر مساوی ہے۔ بظاہر ترقی کی شرح بلند ہے مگر سماجی انصاف، پائیدار روزگار اور روزمرہ کی پبلک سرورسز کی فراہمی کمزور تر ہو رہی ہے۔

یہ رپورٹ تین بڑے بحرانوں کو ایک دوسرے سے جوڑتی ہے۔ آمدنی و دولت کی ناہمواری، موسمیاتی تباہ کاری اور ڈیجیٹل خلاء (Digital Divide)۔

رپورٹ کے مطابق ایشیاء کے بڑے ممالک میں امیر ترین 10 فیصد افراد قومی آمدنی کے 60 سے 77 فیصد حصہ کے مالک ہیں۔

بھارت میں ایک فیصد اشرافیہ ملک کی کل دولت کا 40 فیصد جب کہ چین میں 31 فیصد کنٹرول کرتی ہے۔ یہ خوفناک تضاد اس حقیقت کا اظہار ہے کہ معاشی ترقی کے اعداد و شمار اور رنگ برنگے اشاریے عوامی فلاح اور متناسب سماجی ترقی کے مترادف نہیں۔ ترقی کے باوجود 18.9 فیصد آبادی اب بھی روزانہ 3.65 ڈالر سے کم پر گزارا کرتی ہے اور 50 کروڑ سے زائد لوگ غربت یا اس کے دہانے پر ہیں۔

ٹیکس کا نظام بھی بالعموم غیرمنصفانہ ہے۔ ایشیاء میں اوسطاً ٹیکس ٹو جی ڈی پی تناسب 19 فیصد ہے جو ترقی یافتہ ممالک (OECD اوسط 34 فیصد) سے کہیں کم ہے۔ نتیجتاً حکومتوں کے پاس تعلیم، صحت اور سماجی تحفظ کے لیے وسائل ناکافی رہتے ہیں۔اے آئی، انٹرنیٹ اور موبائلز فونز کے انقلاب کے باوجود ڈیجیٹل ناہمواری بھی بڑھ رہی ہے۔ شہری علاقوں میں 83 فیصد لوگ آن لائن ہیں جب کہ دیہی علاقوں میں یہ شرح 49 فیصد ہے۔صنفی پیمانے سے جانچیں تو خواتین کی ڈیجیٹل شمولیت مردوں کے مقابلے میں نمایاں طور پر کم ہے۔

ماحولیاتی اعتبار سے بھی عدم مساوات نمایاں ہے۔ جن طبقات کا آلودگی میں حصہ سب سے کم ہے، وہی سب سے زیادہ متاثر ہو رہے ہیں۔ جنوبی ایشیاء میں امیر ترین 0.1 فیصد افراد ایک عام شہری کے مقابلے میں 70 گنا زیادہ کاربن خارج کرتے ہیں جب کہ غریب ترین 50 فیصد طبقہ ماحولیاتی نقصانات کا سب سے بڑا شکار ہے۔ پاکستان ان ممالک میں شامل ہے جہاں معاشی نمو کے باوجود معاشی ناہمواری اور سماجی عدم مساوات تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ اگرچہ غربت میں گاہے وقتی کمی دیکھی گئی مگر عملاً امیر اور غریب کے درمیان فاصلہ وسیع تر ہو رہا ہے۔ پاکستان میں امیر ترین 10 فیصد افراد قومی آمدنی کا تقریباً 62 فیصد حاصل کرتے ہیں جب کہ نچلے 50 فیصد عوام کے حصے میں صرف 10 فیصد آمدنی آتی ہے۔ یہ معاشی و سماجی ناہمواری وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم اور اشرافیہ کے ہاتھوں میں طاقت کے ارتکاز کو ظاہر کرتی ہے۔

ٹیکس کا ڈھانچہ اس خلیج کو مزید گہرا کرتا ہے۔ پاکستان کا ٹیکس ٹو جی ڈی پی تناسب محض 9.5 تا 10 فیصد ہے جو خطے میں سب سے کم ہے۔ یہ مایوس کن شرح پبلک سروسز کے لیے مالی گنجائش کو مزید محدود کر دیتی ہے۔ رپورٹ کے مطابق پاکستان میں زیادہ تر محصولات بالواسطہ ٹیکسوں (پٹرول، بجلی، اشیائے ضروریہ) سے حاصل کیے جاتے ہیں، جس کا بوجھ بالآخر غریب اور متوسط طبقے پر آتا ہے۔

تعلیم اور صحت پر سرکاری خرچ بھی اسی عدم توازن کا تسلسل ہے۔ پاکستان اپنی قومی آمدنی کا صرف 2.2 فیصد تعلیم اور 1.5 فیصد صحت پر خرچ کرتا ہے۔ یہ شرح بنگلہ دیش (تعلیم 2.6÷، صحت 2.4÷) اور نیپال (تعلیم 3.4÷، صحت 2.9÷) سے کم ہے جب کہ جنوبی کوریا جیسے ممالک تعلیم پر 4.8÷ اور صحت پر 5.1÷ خرچ کرتے ہیں۔

ماحولیاتی لحاظ سے پاکستان دنیا کے ان دس ممالک میں شامل ہے جو کلائمیٹ چینج سے سب سے زیادہ متاثر ہو رہے ہیں۔ گزشتہ دہائی میں ماحولیاتی آفات کے باعث 3 کروڑ سے زائد افراد متاثر ہوئے اور 30 ارب ڈالر سے زیادہ کا معاشی نقصان ہوا۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کا عالمی آلودگی میں حصہ نہ ہونے کے برابر ہے۔غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزارنے والوں کی تعداد اگرچہ کچھ کم ہوئی، تاہم رپورٹ کے مطابق 22 فیصد آبادی اب بھی روزانہ 3.65 ڈالر سے کم پر زندہ ہے اور 50 فیصد سے زیادہ لوگ ایسے ہیں جو معمولی معاشی جھٹکے سے غربت میں جا سکتے ہیں۔

یہ تمام اعداد وشمار چیخ چیخ کر دہائی دے رہے ہیں کہ معاشی ترقی کے افسانوں میں ہم نے مساوات اور ہیومن ڈویلپمنٹ کو پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ پاکستان کے لیے اصل چیلنج صرف معاشی نمو ہی نہیں بلکہ اس نمو کی منصفانہ تقسیم بھی ہے۔ اگروسائل، مواقع اور انصاف کی سمت درست نہ کی گئی تو دولت کے محلوں کے سائے میں غربت کی بستیاں مزید پھیلتی جائیں گی۔ فیصلہ سازوں کوتو شاید سوچنے کی مجبوری نہیں لیکن سماج کو ضرورسوچنے کی ضرورت ہے کہ ہم کیسی ترقی چاہتے ہیں: اشرافیہ کے ایک محدود طبقے کے لیے یا سب کے لیے؟

متعلقہ مضامین

  • ملک میں معاشی استحکام آگیا ہے: محمد اورنگزیب
  • پائیدار ترقی کے لیے ڈھانچہ جاتی اصلاحات ناگزیر ہیں، حکومتی معاشی ٹیم کی مشترکہ پریس کانفرنس
  • عالمی ریٹنگ ایجنسیوں نے پاکستان کے معاشی استحکام کا اعتراف کیا ہے؛ وزیر خزانہ
  • عالمی مارکیٹ میں سونا مہنگا ہوگیا، مقامی سطح پر بھی قیمتوں میں مزید اضافہ
  • پاکستان: سمندر کی گہرائیوں میں چھپا خزانہ
  • راولپنڈی میں موسم کی تبدیلی کے باوجود ڈینگی کے کیسز میں اضافہ
  • بڑھتی آبادی، انتظامی ضروریات کے باعث نئے صوبے وقت کی اہم ضرورت ہیں، عبدالعلیم خان
  • ایشیاء میں بڑھتا معاشی بحران
  • ترقی کی چکا چوند کے پیچھے کا منظر
  • مودی سرکار میں ارکان پارلیمان ارب پتی بن گئے، بھارتی عوام  انتہائی غربت سے بے حال