Express News:
2025-04-25@11:43:35 GMT

اسرائیل کو مزید ظلم سے باز رکھا جائے

اشاعت کی تاریخ: 21st, March 2025 GMT

اسرائیل کی فورسز نے غزہ کو دوبارہ دو حصوں شمالی اور جنوبی غزہ میں تقسیم کردیا ہے اور فلسطینوں کی نقل و حمل محدود کردی گئی ہے۔ اسرائیل کی جانب سے حالیہ دنوں میں شروع کیے جانے والے تازہ حملوں میں فلسطینی شہدا کی تعداد ساڑھے چار سو تک پہنچ گئی ہے۔ اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو نے خبردار کیا ہے کہ غزہ میں نئے فضائی حملے صرف ابتدا ہیں، جنگ بندی کے لیے بات چیت صرف شعلوں کے درمیان ہی ہوگی۔

  غزہ میں اسرائیل کی جارحیت جاری ہے۔ اسرائیل کا ظلم اب جواز اور عدم جوازکی بحث سے آگے نکل چلا۔ ظلم کا جواز تو خیر ہر صورت میں بے معنی بات ہے۔ آج معاملہ حماس کا نہیں، ان مظلوموں کا ہے جنھیں ان کے گھروں میں مارا جا رہا ہے۔ ان بچوں کا ہے جو جنگ کے ہجے بھی نہیں جانتے۔ ان اسپتالوں کا ہے جن پر بم برسائے جا رہے ہیں۔

ان بستیوں کا ہے جنھیں تاراج کیا جا رہا ہے۔ ان بے گناہوں کا ہے جنھیں گھر سے بے گھر کیا جا رہا ہے۔ اس کے لیے جواز اور عدم جواز کی بحث بے معنی ہے۔

 بلاشبہ جب اسرائیل کی بے جا حمایت اور مدد جاری ہو، تو اسے من مانی کی عادت پڑ جانا فطری بات ہے۔ اسرائیل نے جنگ بندی خود توڑی، مرضی سے جنگ بندی قبول کی تھی، اسے خود ہی توڑ دیا ہے۔ اسرائیل نے امریکا کی مدد سے ایسی جنگ لڑی ہے جس میں امریکا، برطانیہ، فرانس، جرمنی اور تقریباً سارا یورپ اس کی پشت پر رہا ہے، اس لیے اسرائیلی قائدین کا دہن بگڑنے پر حیرت نہیں ہے۔ اسرائیل کے وجود میں لانے سے لے کر اب تک اس کے سرپرستوں نے جس ناجائزکاری کو ایک اصول کے طور پر اپنا رکھا ہے۔

اس ناجائز کاری کا سب سے زیادہ نقصان فلسطینیوں اور عرب دنیا کو ہوا ہے۔ فلسطینی مغربی کنارے کے ہوں یا یروشلم اور غزہ کے، اسرائیل نے جب بھی کند چھری سے ذبح کرنا چاہا، اس کے سرپرستوں نے اسرائیل کی سہولت کاری کا خوب اہتمام کیا۔ تا آنکہ غزہ میں اسرائیل کی سات اکتوبر 2023 سے شروع ہونے والی جنگ کی نوبت آ گئی۔

اسرائیل کی ہر جائز و ناجائز خواہش و کوشش اور سازش و کاوش کے ساتھ یہ سرپرست کھڑے ہی نہیں پوری طرح متحرک و سرگرم نظر آئے۔ ساڑھے پندرہ ماہ تک اسرائیلی فوج نے غزہ میں خوفناک تباہی مچائی اور تقریباً پورا غزہ ملبے کا ڈھیر بنا دیا۔ 50 ہزار تک فلسطینیوں کو قتل کر دیا۔ فلسطینی بچوں اور عورتوں کا قتل عام سب سے زیادہ کیا، لیکن جنگ بندی کے مرحلے تک پہنچنے کے بعد، جنگ بندی معاہدے کو توڑ کر دوبارہ وحشیانہ بمباری کی کارروائیوں اور ناجائز ارادوں میں اسرائیل و امریکا قدم بہ قدم اور ساتھ ساتھ ہیں۔

جو چہرہ ڈونلڈ ٹرمپ نے خود اپنا اور امریکا کا مشرق وسطیٰ کے لیے دکھانا چاہا ہے وہ ایک آتش بردار کا ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ جنھوں نے محض چند ہفتے قبل کہا تھا کہ وہ دنیا سے جنگوں کا خاتمہ کردیں گے۔ لیکن خود ہی اسرائیل کو آگ کا ایندھن فراہم کردیا ہے۔ غزہ کی پٹی تو پہلے ہی امریکی مدد سے ملبے اور راکھ کا ڈھیر بن چکی ہے۔

اس کے علاوہ لبنان، شام کو بھی خاکستر کرنے کی مہم آگے بڑھ چکی۔ یمن کی بربادی ہو چکنے کا بھی پورا خطہ گواہ ہے۔ عراق کو تباہی کے ہتھیاروں کے نام پر تباہ کیا جا چکا ہے۔ ایران کے لیے مناسب وقت کا انتظار ہے۔ افغانستان اور پاکستان کو باہم دست و گریبان کرنے میں مزید کسی کاوش کی ضرورت نہیں۔ تو باقی چند مملکتیں موجود ہیں جن کے ہاں اندوختے اور ایندھن کی خوب فراوانی ہے۔ ایسے میں امریکی جہنم کے دروازے مشرق وسطیٰ میں کھول دینے کا ایسا کھلا اعلان خوفزدگان کی خوفزدگی میں مزید اضافہ کیوں نہیں کرے گا۔ ڈونلڈ ٹرمپ کے غزہ کو ’مشرق وسطیٰ کا ریویرا‘ (واٹر فرنٹ پارک) بنانے کا خیال غیر متوقع نہیں تھا ۔

ایک امریکی صدر کی جانب سے پوری آبادی کو نسلی طور پر ختم کرنے یا یوں کہیے کہ جبری طور پر نکالنے کی حمایت کرنا شرمناک ہے۔ پھر اس کو کسی بیچ ریزورٹ سے جوڑنا، کیسی دیدہ دلیری ہے۔ یہ سچ ہے کہ لبنان کے پرانے خوش حال دنوں کی طرح غزہ میں ترقی کے امکانات تھے لیکن جنگ، شدت پسندی، اسرائیل اور حماس کی بدنیتی پر مبنی حکمرانی نے اس کو فلسطینی عوام کے فائدے کے لیے اسے ممکن نہیں ہونے دیا۔ فلسطینی جن کے گھروں کو بم باری کا نشانہ بنایا گیا، انھیں خوف ہے کہ ان پر ایک اور قیامت ٹوٹنے والی ہے۔

تازہ ترین مثال غزہ سے فلسطینیوں کو مصر اور اردن میں منتقل کرنے کے ٹرمپ منصوبے اور اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو کے جنگی جرائم کی بنیاد پر وارنٹ گرفتاری جاری کرنے والی بین الاقوامی فوجداری عدالت پر امریکا کی لگائی گئی انتقامی پابندیوں کی بھی ہے۔ ادھر حماس نے کہا ہے کہ اسرائیلی فوج شمالی غزہ کے بے گھر فلسطینیوں کو اپنے گھروں میں واپس جانے سے روک کر جنگ بندی معاہدے کی خلاف ورزی کررہی ہے۔

گزشتہ برس اکتوبر میں حماس اور اسرائیل کے درمیان کھلی جنگ ابھی ختم نہیں ہوپائی کہ اسرائیلی جارحیت کا شکار لبنان کے بعد اب یمن بھی ہوگیا ہے۔ صیہونیت تو فلسطین، لبنان، اردن،عراق، ایران، شام، مصر، ترکی اور مشرقی سعودی عرب کو ملا کر گریٹر اسرائیل کی دعویدار ہے ۔ 1947 میں اقوام متحدہ نے فلسطین کو دو الگ الگ ریاستوں میں تقسیم کرنے کی منظوری دی اور بیت المقدس کوایک بین الاقوامی شہر قراردیا گیا۔ لیکن یہودی دانشوروں نے کہا تھا کہ ’’فلسطین کی تقسیم غیرقانونی ہے۔ یروشلم ہمارا دارالحکومت تھا اور ہمیشہ رہے گا ۔‘‘

آج کے اسرائیل میں ایک زیادہ حقیقت پسندانہ سوچ یہ ہے کہ اس میں اسرائیل کی سرحدوں سے باہر کے وہ علاقے مغربی کنارے کے علاقے، غزہ اور گولان کی پہاڑیاں بھی شامل ہیں جن پر اس نے طویل عرصے سے قبضہ کر رکھا ہے۔

یقینا اسرائیلی فطرت اور تاریخ پر نظر رکھنے والے اسے گریٹر اسرائیل کی منزل کی طرف بغیر لڑے بڑی پیش قدمی اور فتح مندی کا مظہر ہی سمجھیں گے۔ جیسا کہ ’’گریٹر اسرائیل‘‘ کا شام کے اندر سفر گولان کی پہاڑیوں سے آگے بڑھ رہا ہے۔ جس ’’نارملائزیشن‘‘ کا لبادہ اسرائیل اب نئے سرے سے اوڑھ رہا ہے اس کی کوکھ سے خطے میں حد سے زیادہ ’’ ابنارملیسی‘‘ جنم لے گی۔ جو اس معاملے میں بے خبری یا تجاہل کا شکار ہیں، ان کے لیے بھی یہ کافی ہے کہ غزہ جنگ بندی کے پہلے مرحلے کے نفاذ کے ساتھ ہی اسرائیل نے امریکی صدر ٹرمپ کی قیادت میں گنگا الٹی بہانا شروع کر دی ہے کہ غزہ کے فلسطینی غزہ کو چھوڑ جائیں۔ کیا یہ اطلاق 1948 میں یورپ و امریکا سے لا کرفلسطینی سرزمین پر بسائے جانے والے یہودیوں پر نہیں ہوتا۔

اس بڑھی ہوئی یہودی آبادی نے خطے میں سکون و چین اور امن و استحکام کا کوئی لمحہ نہیں آنے دیا۔ اس لیے یورپ و امریکا یہودی آبادکاری کے اس تحفے کو فلسطین اور مشرق وسطیٰ سے واپس لے جائیں یا کم از کم شرمندہ ہوں، لیکن کہنا یہ شروع کر دیا گیا ہے کہ فلسطینی غزہ بھی چھوڑ کر مصر، اردن یا سعودی عرب چلے جائیں۔

یہ اب کوئی مذہبی مقدمہ نہیں رہا۔ یہ فلسطینیوں کی نسل کشی کا مقدمہ ہے۔ یہ مسلمانوں کے لیے زیادہ باعثِ اذیت ہے تو اس کا وجہ یہ ہے کہ فلسطینیوں کی اکثریت مسلمان ہے۔ اس فکری یکسوئی کے بعد ایک مشکل سوال سامنے آ کھڑا ہوتا ہے کہ اس ظلم کو کیسے روکا جائے؟ صورتحال اقوام عالم کے سامنے ہے۔ امریکا اعلانیہ اسرائیل کے ساتھ کھڑا ہے۔

مغربی یورپ بھی اسرائیل کا حامی ہے جب کہ روس ، بھارت اور چین بھی مفادات کے تابع ہیں۔ گویا ایک طرف تنہا فلسطینی ہیں اور دوسری طرف امریکا ہے ۔ دوسری طرف کوئی ریاست فلسطینیوں کے لیے ایک حد سے آگے نکل کر کوئی اقدام پر آمادہ نہیں۔

وہ بس اسرائیل کی جارحیت کی مذمت کر رہے ہیں، یا فلسطینیوں کو مرہم پٹی کا سامان بھیج رہے ہیں۔سیدھی بات ہے کہ وہ اسرائیل اور امریکا کے ساتھ لڑنا نہیں چاہتے۔ایسے حالات میں فلسطینیوں کے پاس بظاہر کوئی راستہ نہیں ہے ۔ غزہ ہاتھ سے نکلتا نظر آتاہے ، آج اگر عرب ممالک اور مسلم دنیا ، دیگر اقوام کے ساتھ مل کر غزہ فلسطنیوں کو دلوا دیں تو یہی بڑی کامیابی ہے۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: فلسطینیوں کو میں اسرائیل اسرائیل نے اسرائیل کی کا ہے جن کے ساتھ کہ غزہ کے لیے رہا ہے

پڑھیں:

لازم ہے کہ فلسطین آزاد ہو گا

یہودی ایک انتہا پسند، شرپسند، تخریب کار اور دہشت گرد قوم ہے، جن کے ساتھ ہماری جنگ روز اول سے روز آخر تک رہے گی۔ امن و سکون کے ساتھ زندگی گزارنا یہودیت کی سرشت میں نہیں۔ قرآن کریم کی آیات اس پر شاہد ہیں کہ یہودیوں نے اپنی قوم اور نسل سے آنے والے انبیائے کرامؑ کو بھی سکون سے جینے نہیں دیا، ان کی نافرمانیاں کیں، مذاق اڑایا حتیٰ کہ بہت سے انبیاء کو شہید کیا۔ یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ یہودیت بربریت کا دوسرا نام ہے اور یہودی بربریت کے قصے تاریخ کے ابواب میں محفوظ ہیں، مگر آج یہودیوں کی بربریت کے ساتھ ان کے سہولت کار امت کے غداروں کے پوسٹ مارٹم کا ارادہ ہے۔

یہود، نصریٰ کی آشیرباد سے ارض مقدس پر انسانی حقوق کی پامالیوں میں ہر حد پار کرچکے ہیں، جس کی مثال تاریخ انسانی میں نہیں ملتی۔ رمضان المبارک میں جنگ بندی کے باوجود پاگل یہودی بربریت سے باز نہیں آئے۔ عید کے دن بھی مظلوم فلسطینیوں کو خون میں نہلایا گیا۔ مساجد محفوظ ہیں نہ گھر۔ گھر ملبے کے ڈھیر اور مساجد شہید ہوچکی ہیں۔

اسپتال، اسکول، پناہ گزین کیمپ حتیٰ کہ قبرستان بھی یہودی بربریت سے محفوظ نہیں رہے۔ غزہ کو اہل غزہ سے خالی کروانا گریٹر اسرائیل کے قیام کے خاکے میں رنگ بھرنے کی ابتداء ہے۔ یہودیت کے اس ناپاک و غلیظ منصوبے کی راہ میں صرف حماس کے مجاہدین سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن کر پوری ایمانی غیرت کے ساتھ کھڑے ہیں، حالانکہ گریٹر اسرائیل منصوبہ تو پورے مڈل ایسٹ کے نقشے کے ساتھ دنیا کے نظام کو بھی تہس نہس کر دے گا۔ اگر ایسا ہوا تو عرب ریاستیں گریٹر اسرائیل کی اس ناپاک دلدل میں غرق ہو جائیں گی، لیکن صرف اہل فلسطین ڈٹ کر کھڑے ہیں اور اب تک 55 ہزارسے زائد فلسطینی یہودی بربریت کی بھینٹ چڑھ کر اللہ کی عدالت میں اپنا مقدمہ لے کر مسلم امہ کی بے حسی کا نوحہ سنا رہے ہیں۔

آج کے لبرلز برملا اور مسلمان حکمران اپنے طرز عمل سے یہ پیغام دینے کی کوشش کر رہے ہیں کہ جنگوں سے ملک تباہ ہو جاتے ہیں اور بظاہر ان کی سوچ صحیح بھی لگتی ہے لیکن اگر زمینی حقائق پر غور کریں تو گزشتہ دو صدیوں سے امریکا مسلسل جنگوں میں مصروف ہے اور ان کے ناجائز بغل بچہ اسرائیل اپنے قیام سے لے کر آج تک مسلسل حالت جنگ میں ہے مگر وہ تو تباہ نہیں مضبوط ہو رہے ہیں جب کہ جنگ سے بھاگنے والے عرب ممالک دن بدن کمزور ہو رہے ہیں۔ اس کے علاوہ گزشتہ صدی میں سب سے طویل اور خوفناک جنگیں جاپان جرمنی اور کوریا نے لڑیں لیکن پھر بھی یہی ممالک ترقی میں سب سے آگے نکل گئے۔ تاریخ پر نظر ڈالیں تو مسلمان کئی صدیوں تک مسلسل جہاد (جنگوں) میں مصروف رہے اور اس دوران تمام عالمی طاقتیں ان کے سامنے سرنگوں اور مسلمان سب سے ترقی یافتہ اور طاقتور رہے۔

اے مسلمان حکمرانوں اور سپہ سالاروں کیا ہوگیا آپ لوگوں کو؟ جہاد فی سبیل اللہ کا حکم تو قرآن پاک میں سیکڑوں دفعہ آیا ہے، جہاد ہمارے ایمان کا حصہ اور حکم ربانی ہے، مگر جب سے مسلمانوں کو جنگوں سے ڈرنا اور بزدلی کا سبق پڑھایا گیا ہے مسلمان غربت کا شکار اور ترقی میں پیچھے رہ کر ذلیل وخوار ہوگئے ہیں۔

ماضی میں جب بربریت کے علمبرداروں نے الاقصیٰ پر قبضہ کیا تو شیخ زین الاسلام الھراوی ثانیؒ جیسے عالم دین مدرسے میں پڑھنے پڑھانے کے عمل کو موقوف کرکے خلیفہ وقت کے ضمیر کو جھنجھوڑنے نکلے اور خلیفہ وقت کے خطبہ جمعہ کے دوران کھڑے ہو کر خلیفہ وقت کے سامنے بہتی آنکھوں اور درد سے کی گئی تقریر نے خلیفہ وقت کے دل کی دنیا بدل ڈالی اور صلاح الدین ایوبی کے ہاتھوں بیت المقدس کی فتح ہوئی۔

آج عرب و عجم کے ہزاروں علماء شیخ زین الاسلام الھراوی ثانیؒ بن کر مسلمان حکمرانوں کو پکار رہے ہیں اور سلطان صلاح الدین ایوبی ثانی کی تلاش میں ہیں۔ گزشتہ دنوں اسلام آباد میں مفتی اعظم پاکستان شیخ الاسلام مفتی تقی عثمانی اور مفتی منیب الرحمٰن نے بھی اسرائیل کے خلاف جہاد کی فرضیت کا فتویٰ دیا۔ مگر افسوس کہ اس فتوے کے بعد سوشل میڈیا پر ان کی کردار کُشی اور بہتان تراشی کا سلسلہ شروع ہو گیا ہے۔ پاکستان میں یہودی ہیں نہ ہم فلسطین کے پڑوسی ہیں اس کے باوجود ہمارے ملک میں اسرائیل کے جتنے ہمدرد اور سہولت کار سامنے آئے، الامان الحفیظ۔ تاریخ گواہ ہے کہ جہاد کے لفظ سے کفار سے زیادہ منافقین کو تکلیف ہوئی ہے۔

اسرائیل کے ساتھ ہمدردی کا تو کوئی مسلمان سوچ بھی نہیں سکتا۔ پاکستان کے مسلمان تو بحیثیت قوم دستوری اور آئینی طور پر اسرائیل سے نفرت کرتے ہیں جو ایمان کے ساتھ پاکستانیت کی نشانی ہے۔ پچھلے ڈیڑھ سال میں غزہ میں اسرائیلی بربریت اور مسلمان حکمرانوں کی بے حسی اپنی انتہا کو پہنچ گئی ہے۔ پاکستان میں مذہبی سیاسی جماعتوں کو چھوڑ کر تقریباً تمام بڑی سیاسی جماعتیں اسرائیل کے خلاف احتجاج تو دور کی بات کوئی اپنے کارکنوں کو جاندار مذمتی بیانیہ بھی نہیں دے سکے نتیجتاً اسرائیل کے لیے ان جماعتوں میں موجود لبرلز کے دلوں میں پہلے سے موجود نرم گوشہ اسرائیل کو تسلیم کرانے کے دلائل میں بدل رہا ہے۔

اسپیکر ایاز صادق نے غزہ پر بمباری روکنے کے لیے رکن قومی اسمبلی شازیہ مری کو قرار داد پیش کرنے کی اجازت دی تو اصولًا، عقلاً اور شرعاً یہ متفقہ طور پر منظور ہونا چاہیے تھی لیکن سابق اسپیکر اسد قیصر کی جانب سے اس قرارداد کو بلڈوز کرنے کی حرکت نے سب کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا، انھوں کہا کہ "اگر اس ایوان میں عمران خان کے حق میں قرار داد پیش نہیں ہوگی تو فلسطینیوں کے حق میں بھی قرار داد پیش نہیں ہوگی۔" پاکستانیوں یہ ہے پی ٹی آئی کا وہ چہرہ جس کے بارے میں مولانا فضل الرحمٰن نے قوم کو خبردار اور ڈاکٹر اسرار احمدؒ و حکیم سعیدؒ نے پیش گوئیاں کی تھیں۔

اسرائیل کے غزہ میں مظالم نے امت مسلمہ میں واضح لکیر کھینچ دی ہے جس کے ایک طرف فلسطین کے حامی اور دوسری طرف یہود پرست ہوں گے۔ یہ لوگ کہتے ہیں کہ "پاکستان تو فلسطین سے ہزاروں کلومیٹر دور ہے ہم کیسے اسرائیلی بربریت کے لیے ان کا ساتھ دے سکتے ہیں؟" انھیں کون سمجھائے کہ فلسطین ہزاروں کلومیٹر دور مگر مسجد الاقصیٰ تو ہمارے دل کی دھڑکنوں اور خون کے رگوں میں ہے تو پھر مسجد الاقصیٰ کے سربکف محافظوں کو کون ہمارے دلوں سے دور کرسکتا ہے؟ قصہ مختصر علماء کرام نے اپنی ذمے داری پوری کردی، اب امت حکمرانوں کی طرف دیکھ رہی ہے، ہم بھی ان حکمرانوں کی طرف دیکھ رہے ہیں۔

 ان حکمرانوں کی طرف جن کے حکم سے پی ایس ایل میں فلسطین کا پرچم لہرانے کی اجازت نہیں، ان حکمرانوں کی طرف جن کے حکم سے اسرائیل مخالف ریلیوں پر لاٹھی چارج اور شرکاء کو گرفتار کیا جاتا ہے، ان حکمرانوں کی طرف جن کا امریکن جیوش کانگریس نے اسرائیل سے متعلق ایک قرار داد میں اہم تبدیلیوں کا خیرمقدم کیا اور اسرائیل کے خلاف او آئی سی کے موقف کو نرم بنانے پر شکریہ ادا کیا، ان رویوں کو دیکھتے ہوئے تو لگتا ہوگا کہ ہم احمقوں کی جنت میں رہ رہے ہیں کہ یہ اسرائیل کے پنجوں سے معصوم فلسطینیوں کو بچائیں گے مگر ہم مایوس نہیں، انشاء اللہ احادیث مبارکہ میں دی گئی بشارت نبوی کے مطابق وہ وقت ضرور آئے گا جب بیت المقدس آزاد ہو جائے گا۔ اس وقت امت کے غدار یہود پرست گھر کے رہیں گے نہ گھاٹ کے۔

متعلقہ مضامین

  • بھارت حملے میں ملوث عناصر کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے، امریکا
  • اسرائیل کے وسطی علاقوں میں جنگلاتی آگ بھڑک اٹھی، یروشلم اور تل ابیب ہائی الرٹ
  • جب تک مشترکہ مفادات کونسل میں باہمی رضامندی سے فیصلہ نہیں ہوتا مزید نہر نہیں بنائی جائے گی، وزیراعظم
  • باہمی رضا مندی کے بغیر مزید کوئی نہر نہیں بنائی جائے گی، وزیر اعظم شہباز شریف
  • مری کو مزید پانی نہیں دیا جائے گا، خیبرپختونخوا یہ فیصلہ کیوں کررہا ہے؟
  • بڑی خبر! مزید یوٹیلیٹی اسٹورز بند کرنے کا فیصلہ ، کن ملازمین کو فارغ کیا جائے گا؟
  • ٹرمپ ٹیرف کے خلاف امریکا کی 12 ریاستوں نے عدالت کا دروازہ کھٹکھٹا دیا
  • 26 اپریل کی ہڑتال امریکا، اسرائیل، بھارت کیخلاف ہے: حافظ نعیم الرحمٰن
  • لازم ہے کہ فلسطین آزاد ہو گا
  • مشترکہ مفادات کونسل کا اجلاس جلد بلاکر نہروں کا مسئلہ حل کیا جائے، پیپلز پارٹی