نیٹ میٹرنگ پالیسی میں ترامیم کے بعد سولر پینل کی قیمت میں کتنی کمی ہوئی؟
اشاعت کی تاریخ: 25th, March 2025 GMT
پاکستان میں گزشتہ کچھ عرصے سے وقتاً فوقتاً سولر پینلز کی قیمتوں میں بڑی کمی دیکھی گئی جبکہ ماہرین کی جانب سے کہا گیا کہ پاکستان میں سولر مارکیٹ کریش کر گئی ہے۔ سولر پینلز کی قیمتوں میں کمی کے بعد سولر پینل لگوا لینے کے حوالے سے عوام کی دلچسپی بھی دیکھی گئی۔
حال ہی میں سولر پینل کی قیمتوں میں ایک بار پھر کمی ہوئی ہے اور کہا جا رہا ہے کہ اب کی بار سولر پینل کی قیمتوں میں کمی کی وجہ حکومت کی نیٹ میٹرنگ کے حوالے سے نئی پالیسی ہے۔
یاد رہے کہ حکومت کی جانب سے حال ہی میں نئے سولر صارفین سے بجلی کا فی یونٹ 27 روپے میں خریدنے کے بجائے 10 روپے میں خریدنے کے حوالے سے پالیسی متعارف کروائی گئی ہے۔
کچھ سولر پینل کے کاروبار سے منسلک افراد کا کہنا ہے کہ حکومت کی نیٹ میٹرنگ پالیسی میں ترامیم کے بعد مقامی سولر مارکیٹس میں قیمتوں میں تبدیلی ہوئی اور سولر پینل کی قیمتوں میں کمی ہونا شروع ہو گئی ہے۔ آئیے جانتے ہیں کہ آخر سولر پینل کی قیمتوں میں کمی کی وجہ کیا ہے اور سولر پینلز کی قیمتوں میں کتنی کمی ہوئی ہے۔
مزید پڑھیں: جو صارفین سولر نیٹ میٹرنگ پر نہیں وہ اس کا بوجھ کیوں اٹھائیں؟ وزیر توانائی اویس لغاری
اس حوالے سے بات کرتے ہوئے انجینئیر محمد حمزہ رفیع کا کہنا تھا کہ سولر پینل کی قیمتوں میں کمی ہوئی ہے اور اس کمی کی وجہ حکومت کی نیٹ میٹرنگ پالیسی میں ترمیم ہے۔ اس پالیسی کے بعد ڈیمانڈ میں کمی واقع ہوئی ہے۔ جبکہ پاکستان میں سپلائی کافی زیادہ ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ سولر پینلز کی قیمتوں میں 5 روپے فی واٹ کے حساب سے کمی ہوئی ہے اور عید کے بعد سولر پینلز کی قیمت میں مزید 2 سے 3 روپے فی واٹ کمی کی توقع کی جا رہی ہے۔ حکومت کی نیٹ میٹرنے پالیسی نے سولر صارفین کو بہت زیادہ متاثر کیا ہے۔ جو صارفین نیٹ میٹرنگ سے ریلیف حاصل کر رہے تھے ان سمیت نئے سولر صارفین کی حوصلہ شکنی ہوئی ہے۔ جس نے سولر پینلز کی مارکیٹ کو نقصان پہنچایا ہے۔
چیئرمین پاکستان سولر ایسوسی ایشن وقاص ایچ موسیٰ نے وی نیوز کو بتایا کہ سولر پینلز کی قیمتوں میں کچھ کمی ہوئی ہے۔ لیکن وہ کمی بہت ہی معمولی ہے قریباً 1 سے 2 روپے فی واٹ ہے، لیکن یہ سیزنل ہوتی ہے کیونکہ 1 سے 2 روپے اوپر نیچے ہوتی رہتی ہے۔ ابھی چونکہ پاکستان میں رمضان چل رہا ہے اور رمضان میں سولر کا کام ٹھنڈا ہی ہوتا ہے، جس کی وجہ سے قیمتوں میں کمی آ جاتی ہے۔ امید کی جا رہی ہے کہ رمضان کے بعد یہ قیمت دوبارہ اوپر چلی جائے گی، بہت زیادہ قیمت اوپر جانے کی توقع تو نہیں ہے۔ بس معمولی اضافہ ہوگا۔ اس کی ایک خاص وجہ چائنا میں سولر پینل کی قیمتوں میں کمی بھی ہے۔
مزید پڑھیں: اسٹیٹ بینک کی مانیٹری پالیسی کا اعلان، شرح سود 12 فیصد پر برقرار
انہوں نے مزید بتایا کہ حکومت نیٹ میٹرنگ پالیسی پر کہتی ہے کہ اس پالیسی سے کوئی فرق نہیں ہوگا کیونکہ اس پالیسی سے کچھ مخصوص سولر صارفین متاثر ہوں گے اور وہ تمام امیر طبقہ ہے۔ لیکن دوسری جانب سولر کی قیمتں گرنے کا کریڈٹ بھی خود لے رہی ہے، کہ یہ ہماری وجہ سے گر رہی ہیں۔ جبکہ وہ پہلے ہی سولر مارکیٹ کو خراب کر چکے ہیں اور اس کا کریڈٹ حکومت کو بالکل بھی نہیں جاتا۔
ڈائریکٹر ری انرجی شرجیل احمد سلہری کا کہنا تھا کہ سولر پینل کی قیمتوں میں قریباً 7 سے 8 فیصد تک کی کمی ہوئی ہے اور اس کی وجہ سولر پینلز کی بہت بڑی تعداد میں امپورٹ ہے اور دوسرا چائینیز نیو ایئر کی آنے والی چھٹیاں بھی ایک وجہ ہیں۔
کہتے ہیں کہ سولر پینل کی اس وقت ریٹیل قریباً 34 سے 35 روپے فی واٹ ہو چکی ہے اور جو کہا جا رہا ہے کہ حکومت کی نیٹ میٹرنگ پالیسی کی وجہ سے سولر پینلز کے ریٹ گرے ہیں تو ایسا ہرگز نہیں ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
بجلی صارفین شرجیل احمد سلہری کلو واٹ نیٹ میٹرنگ پالیسی.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: بجلی صارفین شرجیل احمد سلہری کلو واٹ نیٹ میٹرنگ پالیسی سولر پینل کی قیمتوں میں کمی سولر پینلز کی قیمتوں میں حکومت کی نیٹ میٹرنگ سولر پینلز کی قیمت نیٹ میٹرنگ پالیسی سولر پینل کی قیمت کمی ہوئی ہے اور کہ سولر پینل سولر صارفین پاکستان میں کہ حکومت میں سولر حوالے سے کا کہنا کمی کی کی وجہ کے بعد
پڑھیں:
قائداعظم یونیورسٹی کی ملکیتی زمین کتنی، سی ڈی اے نے بالآخر تصدیق کردی
قائد اعظم یونیورسٹی کی انتظامیہ وفاقی ترقیاتی ادارے سی ڈی اے سے تحریری طور پر ملکیتی رقبے کی تفصیلات حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئی۔
یہ بھی پڑھیں: سرور خواجہ قائد اعظم یونیورسٹی کے بزنس ایڈمنسٹریشن میں پریکٹس کے ممتاز پروفیسر مقرر
اسلام آباد کے انتظام کے ذمہ دار ادارے سی ڈی اے نے نوٹیفکیشن کے ذریعے یونیورسٹی کی زیر ملکیت زمین 1700 اعشاریہ 8 ایکڑ تسلیم کرلی ہے۔
کیو ایس رینکنگ کے مطابق اعلیٰ تعلیمی شعبے میں پاکستان کی صف اول کی جامعہ کی زمین کے حوالے سے معاملات طویل عرصے سے متنازع رہے ہیں۔
یونیورسٹی کی زمین ملکیتی زمین کے حوالے سے گزشتہ سالوں میں دونوں اداروں کے درمیان متعدد بات رابطہ کاری ہوئی جو ناکام ہوئی۔
اس حوالے سے وائس چانسلر ڈاکٹر نیاز اختر نے وی نیوز کو بتایا ہے کہ یہ ہم سب کے لیے خوشی کی خبر ہے کہ سی ڈی اے نے یونیورسٹی کا اصلی زمینی ملکیتی رقبہ تسلیم کر لیا ہے۔
ڈاکٹر نیاز اختر نے کہا کہ ہم نے اس کے لیے مسلسل کوششیں کیں اور یونیورسٹی کو اس حوالے سے تنازعات کا سامنا کرنا پڑ مگر بالآخر ہمیں کامیابی ملی۔
وائس چانسلر کے مطابق قائد اعظم یونیورسٹی پاکستان کی نمبر ون جامعہ ہے جس کا تعلیمی نظام مسلسل پھیل رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس سال بھی ہم نے متعدد پروگرامز نئے شروع کیے ہیں جس کے لیے انفراسٹرکچر درکار ہوتا ہے۔
ڈاکٹر نیاز نے کہا کہ ہم آج نہیں بلکہ آج سے کئی سال آگے کی ضروریات دیکھ رہے ہیں اس لیے وسیع زمین کی دستیابی یقینی بنانا ضروری تھا۔
مزید پڑھیے: عید سے چند روز قبل قائداعظم یونیورسٹی میں ’ہولی‘ کیوں منائی گئی؟
ان کا کہنا تھا کہ ہماری کوشش ہے کہ سی ڈی اے یونیورسٹی کے زیر قبضہ زمین کی ’ڈی مارکیشن‘ کر کے ہمیں اس حوالے سے بھی آگاہ کرے۔
انہوں نے کہا کہ یہ چیز ریکارڈ پر ہونی چاہیے کہ یونیورسٹی کے پاس اس زمین کا کتنا قبضہ موجود ہے جو سی ڈی اے نے نوٹیفکیشن کے ذریعے یونیورسٹی کی ملکیت تسلیم کی ہے۔
مزید پڑھیں: سی ڈی اے کا غیر قانونی تعمیرات اور پلاٹس پر ایکشن، اب تک کہاں کہاں کارروائی ہوچکی ہے؟
ڈاکٹر نیاز نے تسلیم کیا کہ یونیورسٹی کی زمین پر اب بھی قبضہ موجود ہے مگر جامعہ براہ راست اس مسئلے میں شامل نہیں ہونا چاہتی اور اس کی کوشش ہے کہ متعلقہ ادارے اس حوالے سے اقدامات کریں اور کل ملکیتی زمین پر قبضہ ممکن بنانے میں کردار ادا کریں۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
سی ڈی اے قائداعظم یونیورسٹی قائداعظم یونیورسٹی اور سی ڈی اے قائداعظم یونیورسٹی کی ملکیتی زمین وائس چانسلر قائد اعظم یونیورسٹی ڈاکٹر نیاز اختر