پارا چنار کے عوام اور عید
اشاعت کی تاریخ: 27th, March 2025 GMT
کیا ریاست کے پاس پارا چنارکے عوام کے مصائب کا کوئی حل نہیں ہے؟ افغانستان کی سرحد سے متصل اس شہر اور اطراف کے دیہاتوں کے لوگ چھ ماہ سے حصار میں ہیں۔ پارا چنار کے کل مکین جن کی تعداد 7لاکھ 85 ہزار کے قریب ہے، اس دفعہ عید الفطر کی خوشیاں منانے سے محروم رہ جائیں گے۔
پارا چنار کی 2 لاکھ 75 ہزار کے قریب عورتیں جن میں بچے بھی شامل ہیں عید کے موقع پر خوف کے ماحول میں گھروں میں مقید رہیں گے۔ یہ عورتیں ملک کے دیگر علاقوں اور بیرون ممالک میں مقیم اپنے بچوں، بھائیوں اور والدین سے ملاقات کو محض خواب ہی تصورکریں گی۔ پارا چنار کو پشاور سے ملانے والی سڑک مہینوں سے بند ہے۔
پارا چنار کے شہریوں کے لیے ایک راستہ افغانستان جانے اور وہاں وہ بے چارے وہ اپنی جانوں کو دہشت گردوں کے سپرد کردیتے ہیں۔ افغانستان میں طالبان حکومت کہیں نظر نہیں آتی۔ مسلح جنونی گروہوں کی سرحدی پٹی کے ساتھ اجارہ داری ہے۔ یہ جنونی گروہ اور ان کے مسلح جنگجو پارا چنار سے آنے والے افراد کو قتل کرنے کو ثواب کا کام سمجھتے ہیں، یوں اب پارا چنار کے لوگوں کے لیے عملی طور پر یہ راستہ اختیارکرنا ممکن نہیں رہا ہے۔
گزشتہ سال کے وسط میں مسلح گروہوں نے پارا چنار جانے والے راستوں کی ناکہ بندی کردی تھی جس کے بعد پارا چنار میں ضروری اشیاء، ادویات، پٹرول اور ڈیزل کی شدید قلت ہوگئی تھی۔ پارا چنار کے سول اسپتال میں شدید سردی کے موسم میں ادویات کی نایابی کی بناء پر بچوں کی اموات ہوئی تھیں۔ کینسر اور دل کے امراض میں مبتلا مریضوں کی حالت غیر ہوچکی تھی، جب پارا چنار کے حصارکا معاملہ قومی اور بین الاقوامی میڈیا کی خبروں کی شہ سرخیوں میں شامل ہوا اور سوشل میڈیا پر مسلسل بچوں کے مرنے کی خبریں وائرل ہونے لگیں تو خیبر پختون خوا کی حکومت کو کچھ خیال آیا اور پشاور سے یہ اعلامیہ جاری ہوا کہ پولیس کے دستوں کی نگرانی میں بسوں اور ٹرکوں کے قافلوں کو پارا چنار جانے اور آنے کی اجازت ہوگی، مگر 21 نومبر 2024پارا چنار کے مکینوں کے لیے سیاہ دن تھا۔
پارا چنار کے نزدیک جگن کے مقام پر 200 مسافر گاڑیوں کے قافلے پر مسلح افراد نے منظم انداز میں آٹو میٹک رائفلوں سے اندھا دھند فائرنگ کی۔ اس حملے میں 5 بچوں اور 8خواتین سمیت 50 سے زائد لوگ قتل کردیے گئے۔ پھر دوبارہ نومبرکے اس سانحے پر ذرایع ابلاغ پر بہت واویلا ہوا تو وفاقی حکومت نے صوبائی حکومت کے ساتھ مل کر ایک امن جرگہ منعقد کرنے کا فیصلہ کیا۔ وزیر اعلیٰ امین گنڈاپور جو ہمیشہ اسلام آباد فتح کرنے کی مہم چلاتے رہے ہیں، وہ حالات کا جائزہ لینے کے لیے پارا چنار نہیں گئے بلکہ پارا چنار سے متصل کوہاٹ کا دورہ کیا۔
بہرحال قبائلی جرگہ کے کئی اجلاس منعقد ہوئے، ایک 14 نکات پر مشتمل معاہدہ ہوا۔ اس معاہدے میں جنگجوؤں سے اسلحے کی واپسی اور دونوں گروہوں کے تعمیرکردہ مورچوں کو ختم کرنا شامل تھا۔ ضلع انتظامیہ نے بار بار یہ خبریں شایع اور نشرکرائیں کہ ان حفاظتی مورچوں کے خاتمے کا عمل جاری ہے۔ اس معاہدے میں ایک شق ہتھیاروں کو حکومت کے حوالے کرنے سے متعلق ہے مگر پارا چنار کے شہری کہتے ہیں کہ سرحد پار سے روز حملے ہوتے ہیں، آج تک سرحد کو محفوظ نہیں بنایا جا سکا۔ اس صورتحال میں ہتھیاروں سے محروم ہونے کا مطلب خودکشی کرنا ہے، مگر پارا چنار جانے کا راستہ نہیں کھل پایا۔
اس دوران متحارب گروہوں نے کئی بے گناہ شہریوں کو قتل کیا۔ ان میں وہ دو بدقسمت بھی شامل تھے جو مخالف گروہ میں موجود اپنے قریبی دوستوں کی یقین دہانی پر خطرناک راستہ سے گزرنے کی کوشش کر رہے تھے مگر ان کے لواحقین کو ان افراد کی مسخ شدہ لاشیں مل پائیں۔ پارا چنار کے ڈپٹی کمشنر پر حملہ ہوا مگر اﷲ تعالیٰ نے ان کی جان بچائی مگر صورتحال روز بروز خراب ہوتی جا رہی ہے۔
پارا چنار کے ایک قبائلی رہنما کے مطابق پاراچنارکی 365 کلومیٹر سرحد افغانستان سے ملتی ہے تو وہاں تجارتی سرگرمیاں ہوتی ہیں، لوگوں کی آمدورفت ہوتی ہے، اشیاء ایک دوسرے علاقے میں فروخت ہوتی ہیں تو دونوں اطراف کے لوگوں کا فائدہ ہوتا ہے اور علاقے میں خوشحالی آتی ہے لیکن یہی ہمارے بدنصیبی کہ یہاں ماحول جنگ و جدل کا سبب بنا۔ پاراچنار اورکرم میں آبادی کی اکثریت کا تعلق بنگش قبائل سے ہے مگر بنگش قبائل مختلف فرقوں میں بٹے ہوئے ہیں۔
ایک قبائلی رہنما نے اس علاقے میں جھگڑوں کی بنیادی وجہ بیان کرتے ہوئے کہا کہ اصل مسئلہ زمینی تنازعہ ہے جو بدقسمتی سے برسوں سے حل نہیں ہو رہا اور ساتھ ہی ضلع کرم کی جو جغرافیائی اہمیت ہے وہ بھی اپنی جگہ ہے۔ مقامی ٹی ٹی پی خوارج بھی درمیان میں آتے ہیں اور فرقہ وارانہ روپ ڈھال لیتے ہیں۔ بعض غیر جانبدار مبصرین کہتے ہیں کہ پارا چنار کے علاقے میں فرقہ وارانہ فسادات انگریز دور سے ہورہے ہیں۔ 1923 میں لکھنؤ میں فرقہ وارانہ فساد ہوا تھا۔
اس فساد کی گرمی پارا چنار میں محسوس ہوئی تھی۔ سینئر صحافی خالد احمد نے جنرل ضیاء الحق کے دور میں فرقہ وارانہ فسادات پر تحقیق کی تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ جب 1977میں امریکا کی خفیہ ایجنسی سی آئی اے نے افغانستان میں عوامی انقلاب آنے کے بعد کامریڈ نور محمد تراکئی کی حکومت کے خلاف افغان مجاہدین کا پروجیکٹ شروع کیا تو جنرل ضیاء الحق کی حکومت بھی اس پروجیکٹ کا حصہ بن گئی اور ایک مخصوص فرقے سے تعلق رکھنے والی مذہبی جماعتیں بھی اس پروجیکٹ میں شامل ہوگئیں تو افغانستان کے مہاجرین کی پاکستانی قبائلی علاقے میں آزادی سے آنے جانے میں بڑی رکاوٹ پارا چنار کی آبادی کو قرار دیا گیا تھا، یوں ایک منصوبے کے تحت سب سے پہلے اس علاقے میں فرقہ وارانہ فساد برپا کیا گیا، پھر اس خطے کی جغرافیائی حیثیت تبدیل ہوگئی۔ سرحد کے اس پار سے آنے والے افغان مہاجرین نے اس علاقے کی Dynamics کو تبدیل کردیا، یوں اس علاقے میں زرعی زمینوں پر قبضہ اور دعوے سے نئے تضادات ابھرکر سامنے آئے، یوں 48 سال گزرگئے۔
ان تضادات کو ختم کرنے کے لیے کوئی پالیسی نہیں بنائی گئی۔ بعض تجزیہ نگاروں کا یہ خیال ہے کہ ان تضادات کو مخصوص مفادات کے لیے استعمال کیا گیا جس کے نتیجے میں اس علاقے میں آباد تمام فرقوں میں شدت پسندی بڑھ گئی، مگر المیہ یہ ہے کہ ابھی تک خیبر پختون خوا کے وزیر اعلیٰ علی امین گنڈاپور اور وفاقی حکومت کے ذمے داروں نے پاراچنار آنے کی زحمت گوارہ نہیں کی۔ حکومتی عہدیداروں کے علاوہ سیاسی رہنماؤں کا بھی فرض ہے کہ وہ پاراچنار کا دورہ کریں، مگر جن صحافیوں نے پاراچنار جانے کی کوشش کی تھی وہ کہتے ہیں کہ انتظامیہ انھیں جانے کی اجازت نہیں دیتی۔ پاراچنار کے عمائدین کا کہنا ہے کہ اسلام آباد اور پشاور کی حکومتیں امن معاہدہ پر مکمل طور پر عملدرآمد کرائیں تو اس علاقے کے عوام کو سکون مل سکتا ہے۔ ریاست کو اس علاقے میں اپنی عملداری قائم کرنے کے لیے حقیقی اقدامات کرنے ہونگے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: میں فرقہ وارانہ پارا چنار کے اس علاقے میں کی حکومت حکومت کے کے لیے
پڑھیں:
حکمران سیلاب کی تباہ کاریوں سے سبق سیکھیں!
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
250918-03-5
مجاہد چنا
جب آپ فطرتی ماحول ، قدرت کے فیصلوں اور پانی کے قدرتی راستوں میں رکاوٹیں کھڑی کریں گے تو اس کا خمیازہ بھی آپ کو بھگتنا پڑے گا۔ موجودہ دریائی سیلاب جو کے پی اور پنجاب میں تباہی مچا رہے ہیں وہ بھی اسی کا نتیجہ ہیں۔ بادل پھٹنے کے نتیجے میں پہاڑوں سے آنے والے پنجاب میں راوی سمیت دریا ئی پانی کی گذرگاہوں پر زبردستی قبضے اور سوسائٹیز، مکانات، بنگلے، فارم ہاؤسز وغیرہ سمیت بڑی بڑی آبادیاں قائم کردینے کے باعث بڑے پیمانے پر تباہی ہوئی ہے۔ لاکھوں خاندان بے گھر ہو چکے ہیں اور جان و مال کے لحاظ سے بڑے نقصانات کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ کے پی میں پیر بابا بونیر میں تباہی کی وجہ پانی کو روکنے والے درختوں کی کٹائی اور دوسری وجہ اس پانی کے راستے پر بستیوں کا قیام بھی بتایا جاتا ہے۔ یہی صورتحال ملک کے سب سے بڑے شہر اور سندھ کے دارالحکومت کراچی میں بھی ہوئی ہے۔ شاہراہ فیصل سے سعدی ٹاؤن تک پانی میں ڈوبنے اور شاہراہ بھٹو کے کچھ حصوں کے کٹاؤ کی بھی یہی وجہ بتائی جا رہی ہے۔ ملیر ندی کے پیٹ میں شاہراہ بھٹو بنانے اور پھر دھیرے دھیرے پوری زمین پر قبضہ کرنے کی سازش کئی دہائیوں کے بعد تیز بہنے والے پانی نے بالآخر ناکام بنا دی۔ ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ سانپ گذرنے کے بعد لکیر پیٹے رہتے ہیں۔ چند سالوں کے وقفے کے بعد ہمارے ملک میں سیلاب، زلزلے اور قدرتی آفات آتی ہیں، لیکن ہر بار یہ صرف وقتی طور پر متحرک ہوتی ہیں اور حکومت اور ادارے سو جاتے ہیں۔ پنجاب میں آنے والے سیلاب کی وجہ بھارت کی آبی دہشت گردی کہی جا سکتی ہے لیکن یہ بھی ایک کڑوا سچ ہے کہ پوری دنیا، میڈیا اور ہمارا محکمہ موسمیات دریائی اور شہری سیلابوں کی پیش گوئیاں کرتے رہے لیکن جو تباہی اور افراتفری ہوئی ہے اس سے لگتا ہے کہ ہماری حکومت صرف اشتہارات اور کرپشن کرنے کی منصوبہ بندی میں مصروف تھی۔ جب سرسے پانی چڑھا تو ہنگامی سرگرمیاں شروع کیں ، وہ بھی محض نمائشی! پنجاب حکومت کی سنجیدگی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ جب لوگ ڈوب رہے تھے تو وزیراعلیٰ محترمہ مریم بی بی سرکاری خرچ پر بڑی وفدکے ساتھ چین کے دورے پر گئی تھیں۔ پنجاب میں حکومتی امدادی سرگرمیوں کی متعدد ویڈیوز بھی سوشل میڈیا پر شیئر کی گئی ہیں جس سے اس کی اصلیت کھل کر سامنے آئی ہے۔ ایک ویڈیو میں پولیس اہلکار صرف تھیلے پر ہاتھ رکھ کر متاثرین کو خالی ہاتھ بھیج رہے ہیں، دوسری میں ایک خاندان کو راشن کا تھیلا دیا جا رہا ہے جس میں آٹے میں نمک کے برابر سامان ہے، جب کہ متاثرین نے متاثرہ علاقوں کا دورہ کرنے والے معروف ٹی وی اینکر حامد میر کو بتایا کہ سرکاری ادارے 1122 کی امدادی کشتیاں لوگوں کو محفوظ مقام پر لے جانے کے لیے تیس سے پینتیس ہزار روپے فی شخص کرایہ وصول کر رہی ہیں۔ یہ افسوسناک مناظر میڈیا میں آئے اور حامد میر نے بھی اپنے پروگرام کیپٹل ٹاک میں دکھائے، کہاں ہے حکومت اور انصاف فراہم کرنے والے ادارے؟
وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی احسن اقبال نے نارووال میں متاثرہ علاقوں کے دورے کے موقع پر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اس سیلاب نے ہمیں 30 سال پیچھے کر دیا ہے اور 500 ارب روپے کا نقصان ہوا ہے۔ سیلاب نے ہماری تیس سال کی محنت برباد کر دی ہے۔ سیلاب نے سڑکیں، پل اور گاؤں تباہ کر دیے ہیں۔ اندازہ لگائیے کہ 2010 اور 2022 کے سیلاب میں سندھ کے عوام کس تکلیف دہ صورتحال سے گزرے ہوں گے۔ اور ان دو سیلابوں نے سندھ کی ترقی کو کتنے سال پیچھے کر دیا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ موجودہ سیلاب نے پنجاب میں خریف کی فصل کو بہت نقصان پہنچایا ہے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق پنجاب کے 24 اضلاع میں ہزاروں مربع کلومیٹر اراضی زیر آب آچکی ہے اور یہ سلسلہ اب بھی بڑھ رہا ہے۔ بالخصوص جنوبی پنجاب میں دہان کی 60 فیصد اورکپاس کی 35 فیصد فصل تباہ ہونے کا دعویٰ کیا جارہا ہے۔ اس میں باسمتی چاول کی فصل کا 20 فیصد بھی شامل ہے۔کسان بورڈ پاکستان کے اختر فاروق میو نے دعویٰ کیا ہے کہ کسانوں کو کپاس، چاول، تل، مکئی اور چارہ جات کی تباہی کی وجہ سے 536 ارب روپے کے نقصان کا سامنا ہے۔ انہوں نے خبردار کیا کہ کئی شہروں میں سبزیوں اور دیگر جلد خراب ہونے والی اجناس کی قلت پیدا ہوگئی ہے جو آئندہ خوراک کے بحران میں بدل سکتی ہے۔
پنجاب کے بعد سندھ میں آنے والے سیلابی پانی نے سکھر، کشمور، خیرپور، دادو اور دیگر اضلاع میں تباہی مچانا شروع کر دی ہے۔ کچی آبادیوں کے سینکڑوں دیہات زیر آب آگئے ہیں اور لوگ بے گھر ہوگئے ہیں۔ پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو نے اس بات پرگہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ وفاقی حکومت نے اب تک بین الاقوامی امداد کی اپیل کیوں نہیں کی! اگر سندھ حکومت بندوں کی مرمت سمیت بروقت حفاظتی اقدامات کرتی تو یہ صورتحال پیدا نہ ہوتی۔ پیپلز پارٹی کا سیلاب متاثرین کے لیے 21 لاکھ گھر بنانے کے دعوے کو بھی تسلی بخش نہیں کہا جا سکتا۔ کراچی سے کشمور تک سندھ کا حال بھی آپ کے سامنے ہے۔ جماعت اسلامی کے امیر حافظ نعیم الرحمن پہلے قومی رہنما ہیں جنہوں نے سیالکوٹ، گجرات، لاہور اور دیگر سیلاب سے متاثرہ علاقوں کا دورہ کرکے الخدمت فاؤنڈیشن کی امدادی سرگرمیوں کا جائزہ لیا اور متاثرین کی تسلی کی۔ میڈیا اورمتاثرین سے بات چیت کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ حکومت سیلاب کی تباہ کاریوں کو قدرتی آفت قرار دے کر اپنی ذمہ داری سے نہیں بچ سکتی۔ یہ تباہی ظالموں کے ظلم کا نتیجہ ہے۔ سیلاب کی تباہی ہمارے حکمرانوں کی بے حسی اور نااہلی کے ساتھ ساتھ بھارت کی آبی دہشت گردی کا نتیجہ ہے۔ 40 سال تک پنجاب پر حکومت کرنے کے بعد مریم بی بی حیران ہیں کہ گجرات میں سیوریج کا نظام نہیں ہے۔ اسی طرح 40 سال سے سندھ پر حکومت کرنے والی پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو کا کہنا ہے کہ پانی میرے گھر تک ٹینکرز کے ذریعے آتا ہے! یہ لوگ عوام کے مسائل کیسے حل کر یں گے؟؟ انہوںنے سیلاب کی صورتحال کے پیش نظر شدید مہنگائی، غذائی قلت اور زرعی بحران پیدا ہونے کے خدشات کا اظہار کرتے ہوئے حکومت سے مطالبہ بھی کیا ہے کہ اشیائے خورونوش ، کھاد، بیج اور زرعی ادویات پر سبسڈی کا اعلان کیا جائے۔
گزشتہ 78 سالوں سے ملک میں اقتدار کے مزے لینے والا حکمران ٹولہ چاہے وہ سول ہو یا فوجی یا بیوروکریسی، اپنے کاروبار یا اپنے بچوں کی تعلیم کے لیے توطویل المدتی منصوبے بناتا ہے، لیکن جس ملک نے انھیں عزت، شہرت اور دولت دی، اس ملک اور قوم کی بہتری کے لیے سوچنے اور منصوبہ بندی کرنے کی کوئی پرواہ نہیں۔ اگر حکومت کرپشن سے پاک منصوبہ بندی پر عمل درآمد کرتے ہوئے سیلاب سے پہلے چوکس رہتی، بندوں کی صحیح مرمت اور تجاوزات کا خاتمہ ہوتا تو عوام کو یہ مشکل دن نہ دیکھنا پڑتے۔حقیقت یہ ہے کہ ملک اس وقت بارشوں اور سیلاب کی وجہ سے نہیں بلکہ حکمران طبقے کی نااہلی اور نااہلی کی وجہ سے ڈوبا ہوا ہے جس سے نجات حاصل کرنے کی ضرورت ہے۔ اس لیے حکمرانوں کو سیلاب وبارش سے ہونے والی جانی ومالی تباہی سے کوئی سبق حاصل کرنا چاہیئے۔ متاثرین کی دوبارہ آبادکاری ، زرعی اور ماحولیاتی ہنگامی حالات کے کھوکھلے اعلانات کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا، اس کے لیے روڈ میپ اور فریم ورک کا اعلان کرنے کی ضرورت ہے۔ سندھ کے 2010-2022 کے سیلاب متاثرین اب بھی پریشانی کا شکار ہیں۔ سندھ میں تعلیمی ایمرجنسی کے اعلان کے باوجود 80 لاکھ بچے اسکول نہیں جاتے۔ کچھ سکول عمارتوں سے محروم ہیں جبکہ کچھ بنیادی سہولیات سے محروم ہیں۔ اس لیے بار بار کے اعلانات سے ہٹ کر متاثرین کی امداد وبحالی اور سندھ کی تعمیر وترقی کے لیے کچھ عملی کام کرنا ہوں گے۔
ابھی بھی زیادہ دیر نہیں ہوئی ہے۔ سب سے پہلے تو اس مشکل وقت میں تمام سیاسی جماعتوں کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کر کے مسائل کے حل کے بارے میں مشترکہ حکمت عملی بنانی چاہیے۔ سیاسی اور جماعتی وابستگیوں سے بالاتر ہو کر شہروں میں سیوریج کے نالوں پر تجاوزات، دریا کے قدرتی راستوں پر بنائے گئے طاقتور لوگوں کے بنگلوں، فارم ہاؤسز اور سوسائٹیز کو ختم کیا جائے۔ جہاں یہ ممکن نہ ہو وہاں فوری طور پر متبادل حل تیار کیا جائے۔ دریائی پشتوں کی مرمت اور سیم نالوں کی صفائی کے لیے جاری کی گئی رقم اور کام کا جائزہ لیا جائے۔ دریا اور بارشوں کے سیلاب سمیت قدرتی آفات کی صورت میں خدمات فراہم کرنے والے اداروں کو فعال اور مضبوط کیا جائے۔ حکومت الخدمت فاؤنڈیشن سمیت فلاحی خدمات کے اداروں کے ساتھ ہم آہنگی پیدا کرے اور انہیں متاثرہ علاقوں میں تقسیم کرے تاکہ تمام متاثرین کو ریلیف اور بحالی کی سہولت فراہم کی جاسکے۔