Express News:
2025-11-10@14:28:55 GMT

پارا چنار کے عوام اور عید

اشاعت کی تاریخ: 27th, March 2025 GMT

کیا ریاست کے پاس پارا چنارکے عوام کے مصائب کا کوئی حل نہیں ہے؟ افغانستان کی سرحد سے متصل اس شہر اور اطراف کے دیہاتوں کے لوگ چھ ماہ سے حصار میں ہیں۔ پارا چنار کے کل مکین جن کی تعداد 7لاکھ 85 ہزار کے قریب ہے، اس دفعہ عید الفطر کی خوشیاں منانے سے محروم رہ جائیں گے۔

پارا چنار کی 2 لاکھ 75 ہزار کے قریب عورتیں جن میں بچے بھی شامل ہیں عید کے موقع پر خوف کے ماحول میں گھروں میں مقید رہیں گے۔ یہ عورتیں ملک کے دیگر علاقوں اور بیرون ممالک میں مقیم اپنے بچوں، بھائیوں اور والدین سے ملاقات کو محض خواب ہی تصورکریں گی۔ پارا چنار کو پشاور سے ملانے والی سڑک مہینوں سے بند ہے۔

پارا چنار کے شہریوں کے لیے ایک راستہ افغانستان جانے اور وہاں وہ بے چارے وہ اپنی جانوں کو دہشت گردوں کے سپرد کردیتے ہیں۔ افغانستان میں طالبان حکومت کہیں نظر نہیں آتی۔ مسلح جنونی گروہوں کی سرحدی پٹی کے ساتھ اجارہ داری ہے۔ یہ جنونی گروہ اور ان کے مسلح جنگجو پارا چنار سے آنے والے افراد کو قتل کرنے کو ثواب کا کام سمجھتے ہیں، یوں اب پارا چنار کے لوگوں کے لیے عملی طور پر یہ راستہ اختیارکرنا ممکن نہیں رہا ہے۔

گزشتہ سال کے وسط میں مسلح گروہوں نے پارا چنار جانے والے راستوں کی ناکہ بندی کردی تھی جس کے بعد پارا چنار میں ضروری اشیاء، ادویات، پٹرول اور ڈیزل کی شدید قلت ہوگئی تھی۔ پارا چنار کے سول اسپتال میں شدید سردی کے موسم میں ادویات کی نایابی کی بناء پر بچوں کی اموات ہوئی تھیں۔ کینسر اور دل کے امراض میں مبتلا مریضوں کی حالت غیر ہوچکی تھی، جب پارا چنار کے حصارکا معاملہ قومی اور بین الاقوامی میڈیا کی خبروں کی شہ سرخیوں میں شامل ہوا اور سوشل میڈیا پر مسلسل بچوں کے مرنے کی خبریں وائرل ہونے لگیں تو خیبر پختون خوا کی حکومت کو کچھ خیال آیا اور پشاور سے یہ اعلامیہ جاری ہوا کہ پولیس کے دستوں کی نگرانی میں بسوں اور ٹرکوں کے قافلوں کو پارا چنار جانے اور آنے کی اجازت ہوگی، مگر 21 نومبر 2024پارا چنار کے مکینوں کے لیے سیاہ دن تھا۔

پارا چنار کے نزدیک جگن کے مقام پر 200 مسافر گاڑیوں کے قافلے پر مسلح افراد نے منظم انداز میں آٹو میٹک رائفلوں سے اندھا دھند فائرنگ کی۔ اس حملے میں 5 بچوں اور 8خواتین سمیت 50 سے زائد لوگ قتل کردیے گئے۔ پھر دوبارہ نومبرکے اس سانحے پر ذرایع ابلاغ پر بہت واویلا ہوا تو وفاقی حکومت نے صوبائی حکومت کے ساتھ مل کر ایک امن جرگہ منعقد کرنے کا فیصلہ کیا۔ وزیر اعلیٰ امین گنڈاپور جو ہمیشہ اسلام آباد فتح کرنے کی مہم چلاتے رہے ہیں، وہ حالات کا جائزہ لینے کے لیے پارا چنار نہیں گئے بلکہ پارا چنار سے متصل کوہاٹ کا دورہ کیا۔

بہرحال قبائلی جرگہ کے کئی اجلاس منعقد ہوئے، ایک 14 نکات پر مشتمل معاہدہ ہوا۔ اس معاہدے میں جنگجوؤں سے اسلحے کی واپسی اور دونوں گروہوں کے تعمیرکردہ مورچوں کو ختم کرنا شامل تھا۔ ضلع انتظامیہ نے بار بار یہ خبریں شایع اور نشرکرائیں کہ ان حفاظتی مورچوں کے خاتمے کا عمل جاری ہے۔ اس معاہدے میں ایک شق ہتھیاروں کو حکومت کے حوالے کرنے سے متعلق ہے مگر پارا چنار کے شہری کہتے ہیں کہ سرحد پار سے روز حملے ہوتے ہیں، آج تک سرحد کو محفوظ نہیں بنایا جا سکا۔ اس صورتحال میں ہتھیاروں سے محروم ہونے کا مطلب خودکشی کرنا ہے، مگر پارا چنار جانے کا راستہ نہیں کھل پایا۔

اس دوران متحارب گروہوں نے کئی بے گناہ شہریوں کو قتل کیا۔ ان میں وہ دو بدقسمت بھی شامل تھے جو مخالف گروہ میں موجود اپنے قریبی دوستوں کی یقین دہانی پر خطرناک راستہ سے گزرنے کی کوشش کر رہے تھے مگر ان کے لواحقین کو ان افراد کی مسخ شدہ لاشیں مل پائیں۔ پارا چنار کے ڈپٹی کمشنر پر حملہ ہوا مگر اﷲ تعالیٰ نے ان کی جان بچائی مگر صورتحال روز بروز خراب ہوتی جا رہی ہے۔

پارا چنار کے ایک قبائلی رہنما کے مطابق پاراچنارکی 365 کلومیٹر سرحد افغانستان سے ملتی ہے تو وہاں تجارتی سرگرمیاں ہوتی ہیں، لوگوں کی آمدورفت ہوتی ہے، اشیاء ایک دوسرے علاقے میں فروخت ہوتی ہیں تو دونوں اطراف کے لوگوں کا فائدہ ہوتا ہے اور علاقے میں خوشحالی آتی ہے لیکن یہی ہمارے بدنصیبی کہ یہاں ماحول جنگ و جدل کا سبب بنا۔ پاراچنار اورکرم میں آبادی کی اکثریت کا تعلق بنگش قبائل سے ہے مگر بنگش قبائل مختلف فرقوں میں بٹے ہوئے ہیں۔

ایک قبائلی رہنما نے اس علاقے میں جھگڑوں کی بنیادی وجہ بیان کرتے ہوئے کہا کہ اصل مسئلہ زمینی تنازعہ ہے جو بدقسمتی سے برسوں سے حل نہیں ہو رہا اور ساتھ ہی ضلع کرم کی جو جغرافیائی اہمیت ہے وہ بھی اپنی جگہ ہے۔ مقامی ٹی ٹی پی خوارج بھی درمیان میں آتے ہیں اور فرقہ وارانہ روپ ڈھال لیتے ہیں۔ بعض غیر جانبدار مبصرین کہتے ہیں کہ پارا چنار کے علاقے میں فرقہ وارانہ فسادات انگریز دور سے ہورہے ہیں۔ 1923 میں لکھنؤ میں فرقہ وارانہ فساد ہوا تھا۔

اس فساد کی گرمی پارا چنار میں محسوس ہوئی تھی۔ سینئر صحافی خالد احمد نے جنرل ضیاء الحق کے دور میں فرقہ وارانہ فسادات پر تحقیق کی تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ جب 1977میں امریکا کی خفیہ ایجنسی سی آئی اے نے افغانستان میں عوامی انقلاب آنے کے بعد کامریڈ نور محمد تراکئی کی حکومت کے خلاف افغان مجاہدین کا پروجیکٹ شروع کیا تو جنرل ضیاء الحق کی حکومت بھی اس پروجیکٹ کا حصہ بن گئی اور ایک مخصوص فرقے سے تعلق رکھنے والی مذہبی جماعتیں بھی اس پروجیکٹ میں شامل ہوگئیں تو افغانستان کے مہاجرین کی پاکستانی قبائلی علاقے میں آزادی سے آنے جانے میں بڑی رکاوٹ پارا چنار کی آبادی کو قرار دیا گیا تھا، یوں ایک منصوبے کے تحت سب سے پہلے اس علاقے میں فرقہ وارانہ فساد برپا کیا گیا، پھر اس خطے کی جغرافیائی حیثیت تبدیل ہوگئی۔ سرحد کے اس پار سے آنے والے افغان مہاجرین نے اس علاقے کی Dynamics کو تبدیل کردیا، یوں اس علاقے میں زرعی زمینوں پر قبضہ اور دعوے سے نئے تضادات ابھرکر سامنے آئے، یوں 48 سال گزرگئے۔

 ان تضادات کو ختم کرنے کے لیے کوئی پالیسی نہیں بنائی گئی۔ بعض تجزیہ نگاروں کا یہ خیال ہے کہ ان تضادات کو مخصوص مفادات کے لیے استعمال کیا گیا جس کے نتیجے میں اس علاقے میں آباد تمام فرقوں میں شدت پسندی بڑھ گئی، مگر المیہ یہ ہے کہ ابھی تک خیبر پختون خوا کے وزیر اعلیٰ علی امین گنڈاپور اور وفاقی حکومت کے ذمے داروں نے پاراچنار آنے کی زحمت گوارہ نہیں کی۔ حکومتی عہدیداروں کے علاوہ سیاسی رہنماؤں کا بھی فرض ہے کہ وہ پاراچنار کا دورہ کریں، مگر جن صحافیوں نے پاراچنار جانے کی کوشش کی تھی وہ کہتے ہیں کہ انتظامیہ انھیں جانے کی اجازت نہیں دیتی۔ پاراچنار کے عمائدین کا کہنا ہے کہ اسلام آباد اور پشاور کی حکومتیں امن معاہدہ پر مکمل طور پر عملدرآمد کرائیں تو اس علاقے کے عوام کو سکون مل سکتا ہے۔ ریاست کو اس علاقے میں اپنی عملداری قائم کرنے کے لیے حقیقی اقدامات کرنے ہونگے۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: میں فرقہ وارانہ پارا چنار کے اس علاقے میں کی حکومت حکومت کے کے لیے

پڑھیں:

ای چالان یا لوٹ کا نیا طریقہ؟

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

251108-03-4

 

عبید مغل

دنیا کی تاریخ گواہ ہے کہ جب حکمران فلاحی ریاست کے بجائے اپنی عیاشیوں کی ریاست قائم کر لیں تو محلات کے چراغ عوام کے خون سے جلنے لگتے ہیں۔ قدیم روم کے ظالم بادشاہوں نے رعایا کے سروں پر ’’سر ٹیکس‘‘ مسلط کیا۔ فرعونوں نے نیل کے کسانوں سے ’’پانی کا ٹیکس‘‘ وصول کیا۔ یورپ کے عیاش بادشاہوں نے ’’کھڑکیوں‘‘ اور ’’چرچ‘‘ پر ٹیکس لگا کر روشنی اور عبادت دونوں کو قیمت کے ترازو میں تول دیا۔ کشمیر کے ڈوگرہ مہاراجوں نے تو ظلم کی حد کر دی۔ مسلمانوں پر چراغ، گائے، درخت، شادی اور حتیٰ کہ نماز پڑھنے پر بھی ٹیکس لگا دیا۔ تاریخ یہی بتاتی ہے کہ جب حکمرانوں کے ضمیر مر جائیں تو ٹیکس خدمت نہیں ظلم کا ہتھیار بن جاتا ہے۔ اب وہی تماشا صدیوں بعد سندھ میں دہرایا جا رہا ہے۔ فرق صرف ناموں کا ہے۔ کبھی انہیں مہاراجا کہا جاتا تھا اب یہ لوگ عوامی نمائندے کہلاتے ہیں۔ ظلم وہی ہے بس لباس نیا ہے۔ کراچی میں ٹریفک کی روانی بہتر بنانے کے لیے ای چالان متعارف کرانا یقینا لائق تحسین عمل ہے مگر اس کی آڑ میں کراچی کے شہریوں کی جیب پر ڈاکا ڈالنا انتہائی قابل مذمت ہے۔ ای چالان کے بھاری جرمانوں سے ظاہر ہوتا ہے مقصد اصلاح نہیں بلکہ لوٹ مار ہے اور سندھ حکومت اس کام کے لیے نت نئے طریقے ایجاد کرتی رہتی ہے۔ صاف نظر آرہا ہے کہ قانون کے لبادے میں سندھ حکومت شہریوں کے جیب کاٹ رہی ہے۔

کراچی کی سڑکیں ایسی کہ گاڑی نہیں صبر کا سسپنشن بھی ٹوٹ جاتا ہے اور کمر کی ہڈی بھی اپنی جگہ سے ہل جاتی ہے۔ یاد رہے کہ جن ممالک میں ای جرمانے نافذ ہیں وہاں اگر فٹ پاتھ میں ایک انچ کا گڑھا ہو اور اس کی وجہ سے کوئی شخص گر جائے تو حکومت کو متاثرہ شہری کو بھاری جرمانہ ادا کرنا پڑتا ہے مگر سندھ میں الٹا حساب ہے۔ یہاں حکومت گڑھے بناتی ہے عوام کو بھگتنا پڑتا ہے اور پھر جرمانہ بھی انہی سے وصول کیا جاتا ہے۔

مہذب ممالک میں جہاں ٹریفک کیمرے نصب ہوں وہاں جگہ جگہ وارننگ سائن لگے ہوتے ہیں تاکہ لوگ قانون کا احترام بھی کریں اور جرمانوں سے بھی بچ سکیں۔ اْن معاشروں میں جرمانوں سے زیادہ عوام کے اندر شعور بیدار کرنے کی کوشش کی جاتی ہے اور چالان سے قبل ڈرائیور کو موقع دیا جاتا ہے کہ وہ جرمانے اور پوائنٹس سے بچنے کے لیے روڈ سیفٹی کا تربیتی کورس کرے۔ پھر ایسے ملکوں میں فلاحی ریاستوں میں ٹیکس کے بدلے سہولت ملتی ہے۔ صاف سڑکیں، پبلک ٹرانسپورٹ، صاف پانی، مفت علاج، تعلیم، صفائی، تحفظ لیکن سندھ میں ٹیکس کے بدلے بدبو، گڑھے، کرپشن، سفارش اور رشوت ملتی ہے چونکہ یہ فلاحی نہیں فریب کی ریاست ہے۔

سوال یہ ہے کہ اربوں روپے کے یہ ٹیکس کہاں جا رہے ہیں۔ عوام کا پیسہ ترقی پر نہیں تصویری مہمات اور عیاشیوں پر خرچ ہو رہا ہے۔ یوں لگتا ہے کہ سندھ حکومت نے مہاراجا گلاب سنگھ کی روح کو جدید لباس پہنا دیا ہے۔ وہی لوٹ مار وہی استحصال مگر انداز نیا۔ تاریخ کا اصول یہی ہے کہ جب حکمران عیاشی کے عادی ہوں تو ٹیکس عوام کے خون سے وصول ہوتا ہے۔ کراچی میں نافذ کردہ ای چالان دراصل ای ظلم ہے جو بھٹو زادوں کے محلات روشن رکھنے کے لیے عوام کے گھروں کے چراغ بجھا رہا ہے۔

کراچی کی سڑکوں پر چلنا اب کسی ایڈونچر پارک میں جھولے لینے کے مترادف ہے۔ انہی گڑھوں میں سے ایک میں گر کر پیپلز پارٹی کے اداکار مصطفی قریشی بھی شدید زخمی ہوئے۔ پھر ایک ہی ملک میں مختلف ٹریفک قوانین بھی حیرت کا باعث ہیں۔ بات رشوت کی ہو یا جرمانوں کی سندھ ہمیشہ آگے رہتا ہے۔

پنجاب میں سڑکوں کی مرمت پر اربوں روپے کے منصوبے جاری ہیں جبکہ کراچی میں ایسے منصوبے تاخیر کے باعث شہریوں کے لیے وبال جان ہیں۔ پنجاب میں سگنل چمک رہے ہیں لینیں بحال ہو رہی ہیں اور کراچی میں سڑک اور نالا ایک ہی دھارا بن چکے ہیں۔ بارش ہو تو سڑک اور سیوریج کا فرق مٹ جاتا ہے اور ڈرائیور سوچتا رہ جاتا ہے کہ یہ روڈ ہے یا دریا۔ پنجاب میں حالات منظم منصوبہ بندی کے تحت بہتری کی طرف بڑھ رہے ہیں جبکہ سندھ میں عوام اب بھی بھٹو کے مزار کے گرد امید کے چراغ جلا رہے ہیں۔ فرق یہ ہے کہ لاہور میں ترقی کی بارش ہوتی ہے اور سندھ میں بارش آتے ہی بھٹو یہی فلسفہ دہراتے ہیں کہ جب زیادہ بارش ہوتی ہے تو زیادہ پانی آتا ہے۔ پھر کراچی کا المیہ یہ بھی ہے کہ سوائے جماعت اسلامی کے کوئی بھی جماعت شہریوں پر ہونے والے ظلم کے خلاف آواز بلند نہیں کرتی۔ چلیں مان لیا کہ ایم کیو ایم کے رہنماؤں کے منہ میں سرکار نے وزارتوں کی ہڈی ڈال کر ان کے منہ بند کر دیے ہیں مگر سب سے زیادہ ووٹ لینے کی دعویدار پی ٹی آئی کہاں ہے؟ کیا ان کی سیاست کا مقصد عمران خان کی رہائی کے علاوہ کچھ نہیں؟ کیا انہیں کراچی کے شہریوں کی مشکلات سے کوئی سروکار نہیں؟ پھر ستم بالائے ستم یہ کہ پیپلز پارٹی کے رہنما ڈھٹائی سے یہ کہتے نظر آتے ہیں کہ ہم لاہور میں بھی کراچی جیسی ترقی لائیں گے۔ یہ دھمکی سنتے ہی لاہوری زندہ بھٹو سے پناہ مانگنے لگتے ہیں۔

عبید مغل

متعلقہ مضامین

  • حکومتِ سندھ کی جانب سے ای چالان اور مزدور
  • ایم ڈبلیو ایم رہنماء علامہ ولایت حسین جعفری سے تحریک تحفظ آئین سے متعلق خصوصی گفتگو
  • حکومت کی بدترین نااہلی کی وجہ سے عوام لوڈشیڈنگ کا عذاب بھگت رہے ہیں، حفیظ الرحمن
  • افغان طالبان عبوری حکومت میں پاکستان مخالف لابی سرگرم ہے: دفتر خارجہ
  • کراچی کی قسمت کاُ فیصلہ امیر نہیں غریب کریں گے، گورنر سندھ
  • خیبر پختونخوا حکومت کا 3 ایم پی او، 16 ایم پی او اور دفعہ 144 میں تبدیلی کا فیصلہ
  • خیبرپختونخوا حکومت کا 3 ایم پی او، 16 ایم پی او اور دفعہ 144 میں تبدیلی کا فیصلہ
  • ای چالان یا لوٹ کا نیا طریقہ؟
  • امت اسلامیہ کو متحد ہو کر صیہونی حکومت و استکبار کے مقابلے میں ڈٹ جانا چاہئے، ڈاکٹر قالیباف
  • افغان عبوری حکومت نے علاقائی وعدے پورے نہیں کیے، پاکستان اپنے مؤوف پر قائم ہے، عطاتارڑ