سینیٹر کوری بُوکر نے کہا کہ آپ سمجھتے ہیں کہ ہمیں سول رائٹس اس لیے ملے کہ تھرمنڈ نے فلور پر 24 گھنٹے تقریر کی، آپ سمجھتے ہیں کہ ہمیں سول رائٹس اس لیے ملے کہ تھرمنڈ نے کہا میں نے روشنی دیکھ لی، نہیں، ہمیں سول رائٹس اس لیے ملے کہ لوگوں نے مارچ کیا، پسینہ بہایا، ہمیں شہری حقوق اس لیے بھی ملے، کیونکہ جان لوئز نے اس کےلیے اپنے خون کا نذرانہ دیا۔ اسلام ٹائمز۔ امریکا کے سینیٹر کوری بُوکر کی سینیٹ میں 19 گھنٹے سے تقریر جاری ہے۔ ڈیموکریٹک پارٹی کے نیو جرسی سے تعلق رکھنے والے 56 سالہ سینیٹر کوری بوکر کا کہنا ہے کہ جب تک جسمانی طور پر قابل رہا، بولتا رہوں گا۔ سینیٹر کوری بُوکر نے اپنی تقریر کے دوران ٹرمپ انتظامیہ پر کڑی تنقید کی، انہوں نے امریکی وقت کے مطابق پیر کی شام 7 بجے تقریر شروع کی تھی۔ وہ ٹرمپ انتظامیہ کی پالیسیوں کو ایک ایک کرکے نشانہ بنا رہے ہیں، سینیٹر کوری بُوکر اپنی اس میراتھون تقریر کے دوران سینیٹرز کے سوالات کے جوابات بھی دے رہے ہیں۔ انہوں نے کہا میری تقریر کو 19 گھنٹے ہوچکے ہیں، یہ ہماری قوم کے لیے عام حالات نہیں، امریکی عوام اور امریکی جمہوریت کو سنگین اور فوری خطرات لاحق ہیں۔ امریکی سینیٹر نے مزید کہا کہ جمہوریت کے تحفظ کے لیے ہم سب کو اقدامات کرنا ہوں گے، آپ سمجھتے ہیں کہ اسٹرام تھرمنڈ کی وجہ سے ہمیں سول رائٹس ایک روز میں ملے۔

سینیٹر کوری بُوکر نے کہا کہ آپ سمجھتے ہیں کہ ہمیں سول رائٹس اس لیے ملے کہ تھرمنڈ نے فلور پر 24 گھنٹے تقریر کی، آپ سمجھتے ہیں کہ ہمیں سول رائٹس اس لیے ملے کہ تھرمنڈ نے کہا میں نے روشنی دیکھ لی، نہیں، ہمیں سول رائٹس اس لیے ملے کہ لوگوں نے مارچ کیا، پسینہ بہایا، ہمیں شہری حقوق اس لیے بھی ملے، کیونکہ جان لوئز نے اس کےلیے اپنے خون کا نذرانہ دیا۔ میڈیا رپورٹ کے مطابق سینیٹر کوری بوکر دوسری بار سینیٹ میں خدمات انجام دے رہے ہیں، وہ 2020ء میں ڈیموکریٹک صدارتی امیدوار نامزد ہونے میں ناکام رہے تھے۔ سینیٹر کوری بُوکر کی طویل تقریر نے انہیں ایک بار پھر صدارتی امیدوار بننے کے لیے نمایاں کر دیا، وہ ریاست نیو جرسی کے سب سے بڑے شہر نیوارک کے 2006ء سے 2013ء تک میئر رہ چکے ہیں۔ واضح رہے کہ اس سے قبل 2013ء میں سینیٹر ٹڈ کروز نے افورڈ ایبل کیئر ایکٹ کیخلاف 21 گھنٹے 19 منٹ تقریر کی تھی۔

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: سینیٹر کوری ب وکر نے کہا

پڑھیں:

ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف سے سفری پابندیاں، امریکا میں منعقدہ فیفا اور اولمپکس کیسے متاثر ہوں گے؟

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے دوسرے دور حکومت میں 2026 میں فیفا ورلڈ کپ اور 2028 میں لاس اینجلس اولمپکس کے انعقاد پر گہری دلچسپی اور جوش و خروش کا اظہار کیا ہے۔ تاہم ان کی حکومت کی جانب سے ایران، افغانستان اور لیبیا سمیت 12 ممالک کے شہریوں پر سفری پابندی اور مزید 7 ممالک کے شہریوں پر سختیوں نے ان بین الاقوامی کھیلوں کے مقابلوں میں لوگوں کی شرکت اور حاضری سے متعلق خدشات کو جنم دیا ہے۔

یہ بھی پڑھیے: اردن اور ازبکستان نے پہلی بار فیفا ورلڈ کپ کے لیے کوالیفائی کرلیا

اگرچہ اس سفری پابندی کے تحت سخت داخلہ شرائط عائد کی گئی ہیں، لیکن کھلاڑیوں، کوچز، معاون عملے اور ان کے قریبی رشتہ داروں کے لیے ورلڈ کپ اور اولمپکس جیسے ایونٹس میں شرکت کے لیے استثنیٰ حاصل ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ اگر مذکورہ ممالک کی ٹیمیں کوالیفائی کر لیں، تو انہیں ایونٹس میں شرکت کی اجازت ملنے کا امکان ہے۔ ایران، کیوبا، اور ہیٹی جیسی ٹیمیں اب بھی ورلڈ کپ میں شرکت کی دوڑ میں شامل ہیں، جب کہ اولمپکس میں تقریباً 200 ممالک شرکت کر سکتے ہیں۔

تاہم ان متاثرہ ممالک کے شائقین کے لیے صورت حال غیر یقینی ہے کیونکہ ان کے لیے کوئی واضح استثنیٰ موجود نہیں۔ ان پابندیوں سے پہلے بھی ایران جیسے ممالک کے شائقین کو ویزا حاصل کرنے میں مشکلات پیش آتی رہی ہیں۔ اگرچہ اکثر ایسے شائقین جو عالمی ایونٹس میں سفر کرتے ہیں، وہ مالی طور پر مستحکم ہوتے ہیں، کسی دوسرے ملک کی شہریت رکھتے ہیں یا تارکین وطن میں سے ہوتے ہیں، جس سے انہیں رسائی میں آسانی ہو سکتی ہے۔ اولمپکس میں عموماً مہنگی ٹورزم ہوتی ہے، اس لیے ان 19 متاثرہ ممالک سے آنے والے شائقین کی تعداد کم رہنے کی توقع ہے۔

یہ بھی پڑھیے: 125 سال بعد اولمپکس میں کرکٹ کی واپسی، کیا پاکستان بھی شرکت کرےگا؟

امریکی حکام فیفا اور بین الاقوامی اولمپک کمیٹی کے ساتھ مل کر ان ایونٹس کے کامیاب انعقاد کے لیے کام کر رہے ہیں۔ فیفا کے صدر جیانی انفینٹینو اور صدر ٹرمپ کے درمیان قریبی تعلقات نے باہمی مشاورت کو آسان بنایا ہے، جب کہ لاس اینجلس اولمپکس کمیٹی کے چیئرمین کیسی واسر مین نے ویزا اور سیکیورٹی کے حوالے سے وفاقی حکومت کی کوششوں کو سراہا ہے۔ امریکی محکمہ خارجہ نے ایک خصوصی ٹیم بھی تشکیل دی ہے جو اولمپکس کے شرکا کے لیے ویزا معاملات کو فوری طور پر نمٹانے میں مدد دے رہی ہے۔

ماضی کے میزبان ممالک جیسے روس اور قطر نے شائقین کو ٹکٹ کو ویزا کے طور پر استعمال کرنے کی سہولت دی، تاہم ان ممالک نے تمام آنے والوں کے پسِ منظر کی جانچ بھی کی۔ حکومتیں مخصوص افراد کے داخلے سے انکار بھی کر چکی ہیں، جیسا کہ 2012 لندن اولمپکس میں بیلاروس کے صدر کو ویزا دینے سے انکار کیا گیا تھا۔

امریکی حکومت اور بین الاقوامی کھیلوں کے اداروں کے درمیان جاری تعاون کے باعث حکام پُر امید ہیں کہ ان سفری پابندیوں کے باوجود دونوں ایونٹس کامیابی سے منعقد ہوں گے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

امریکا اولمپکس سفری پابندی فیفا

متعلقہ مضامین

  • چینی وزارت  دفاع کا تائیوان کی ڈی پی پی انتظامیہ کے لئے انتباہ
  • صدر ٹرمپ پر نفرت کا الزام لگانے والا امریکا صحافی معطل
  • خواجہ سعد رفیق کی چیئرمین سینیٹ اور اسپیکر قومی اسمبلی کی تنخواہوں میں اضافے پر تنقید
  • ٹرمپ انتظامیہ کا امیگریشن چھاپوں کے بعد لاس اینجلس میں نیشنل گارڈز تعینات کرنے کا اعلان
  • امریکا، تارکین کیخلاف انتظامیہ کا کریک ڈاؤن، شدید جھڑپیں
  • امریکا، غیر قانونی تارکین وطن کیخلاف انتظامیہ کا کریک ڈاؤن، شدید جھڑپیں
  • چین امریکا تجارتی مذاکرات پیر کو لندن میں ہوں گے
  • ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف سے سفری پابندیاں، امریکا میں منعقدہ فیفا اور اولمپکس کیسے متاثر ہوں گے؟
  • ایک افریقی سیاسی راک اسٹار کی تقریر (حصہ دوم)
  • بلاول بھٹو زرداری کی امریکی چیئرمین سینیٹ سلیکٹ کمیٹی برائے انٹیلی جنس سینیٹر ٹام کاٹن سے ملاقات،پاک بھارت کشیدگی کے دوران صدرٹرمپ کے کردار کی تعریف