راولپنڈی میں مرغی کا گوشت 900 روپے کلو تک پہنچ گیا
اشاعت کی تاریخ: 6th, April 2025 GMT
راولپنڈی:
رمضان المبارک کے بعد بھی مہنگائی کم نہ ہو سکی، ملک بھر میں گوشت اور مرغی کی قیمتیں آسمان سے باتیں کرنے لگیں۔
راولپنڈی میں برائلر چکن کا گوشت 880 روپے سے 900 روپے فی کلو میں مل رہا ہے۔ بڑے گوشت کا سرکاری نرخ 800 روپے فی کلو مقرر ہے مگر اوپن مارکیٹ میں یہ گوشت 1400 سے 1500 روپے فی کلو میں فروخت ہو رہا ہے۔
چھوٹے گوشت کا سرکاری نرخ 1600 روپے فی کلو ہے تاہم یہ اوپن مارکیٹ میں 2200 سے 2300 روپے فی کلو فروخت ہو رہا ہے۔
راولپنڈی میں برائلر زندہ چکن کا سرکاری نرخ 412 روپے فی کلو مقرر کیا گیا ہے لیکن اوپن مارکیٹ میں یہ زندہ چکن 540 سے 580 روپے فی کلو میں فروخت ہو رہا ہے۔ پنجاب حکومت نے برائلر مرغی کے گوشت کے بجائے صرف زندہ چکن کے نرخ مقرر کیے ہیں۔
کراچی میں بھی گوشت کی من مانی قیمتوں پر فروخت جاری ہے۔ بکرے کا گوشت 2000 روپے فی کلو سرکاری نرخ کے بجائے 2500 سے 2800 روپے فی کلو میں دستیاب ہے۔
بچھیا کا بغیر ہڈی گوشت 1150 روپے کی بجائے 1600 روپے فی کلو میں فروخت ہو رہا ہے، جبکہ بچھیا کا ہڈی والا گوشت 1000 روپے کے بجائے 1400 روپے فی کلو میں دستیاب ہے۔
کراچی میں مرغی کا گوشت بھی سرکاری نرخوں سے مہنگا فروخت ہو رہا ہے۔ 650 روپے فی کلو کا مرغی کا گوشت اب 750 روپے فی کلو میں مل رہا ہے۔
پشاور میں بھی گوشت، قیمہ، دالیں، پھل، سبزیاں ودیگر اشیاء خورونوش کی قیمتیں آسمان کو چھونے لگیں۔ بڑا گوشت 1200 روپے، مٹن 2200 روپے، دودھ 240 روپے اور دہی 250 روپے فی کلو فروخت ہو رہا ہے۔ مرغی کی فی کلو قیمت 550 روپے اور پھل و سبزی کی قیمتیں بھی کم نہ ہو سکیں۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: فروخت ہو رہا ہے روپے فی کلو میں سرکاری نرخ کا گوشت
پڑھیں:
کراچی کی مخدوش عمارتیں مکینوں سے خالی کروا کے بلڈرز کو فروخت کی جاسکتی ہیں، ایم کیو ایم
ایم کیو ایم پاکستان نے کہا ہے کہ ڈسٹرکٹ ویسٹ میں مخدوش قرار دے کر خالی کرائی گئی 41 عمارتیں بلڈرز کو فروخت کی جائیں گی، سندھ حکومت بے دخل کیے گئے مکینوں کو بے نظیر انکم سپورٹ سے دو سال کا کرایہ اور رہائش کا جامع منصوبہ بنائے۔
ایکسپریس نیوز کے مطابق متحدہ قومی موومنٹ پاکستان کے مرکز بہادرآباد پر پریس کانفرنس کا انعقاد کیا گیا جس میں حق پرست رکن قومی اسمبلی ڈاکٹر ارشد عبداللہ وہرا، ڈپٹی پارلیمانی لیڈر طحہ احمد، رکن صوبائی اسمبلی دلاور خان و دیگر اراکینِ قومی و صوبائی اسمبلی نے شرکت کی۔
ڈاکٹر ارشد وہرا نے کہا کہ آپ سب کے علم میں ہے کہ بغدادی لیاری میں بلڈنگ گرنے کا واقعہ ہوا،اس واقعہ میں 27 افراد جانبحق ہوئے یہ حادثہ جہاں ہوا وہاں عمارتیں قیام پاکستان بننے سے پہلے کی ہیں۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ اس حادثے کے بعد ڈسٹرکٹ ویسٹ کی 41 بلڈنگیں خالی کروائی گئی ہیں، لوگوں کو زبردستی دھکے دے کر نکالا گیا ہے، تو کیا اس سے پہلے حکومت سوئی ہوئی تھی؟
انہوں نے کہا کہ حکومت نے اولڈ سٹی ایریا کی عمارتوں اور لوگوں کو صحیح طریقے سے ہینڈل نہیں کیا،ایم کیو ایم پاکستان نے لوگوں کو ہمیشہ سپورٹ کیا،ان متاثرین کی آبادکاری کے لئے جامع پلان ہوناچاہیے، حکومت ان لوگوں کے لئے متبادل رہائش کا انتظام کرے۔
ارشد وہرہ نے کہا کہ خدشہ ہے کہ پیپلز پارٹی کے لوگ عمارتیں خالی کرا کر بلڈرز مافیا کو زمینیں بیچ دیں گے، سندھ حکومت کے کارندے ایل ڈی اے اور ایم ڈی اے میں کروڑوں روپے کی زمینیں کھا گئے تو پھر یہ عمارتیں کیا ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ایم کیو ایم پاکستان متاثرین کے ساتھ کھڑی ہے، متاثرین اپنا ریکارڈ ہمارے پاس جمع کرائیں، انکے حقوق کا مقدمہ ایم کیو ایم لڑے گی، ان لوگوں کی آبادکاری پر حکومت کو کام کرنا چاہیےْ
ڈاکٹر ارشد وہرہ نے سندھ حکومت کو ہدف تنقید بناتے ہوئے کہا کہ کراچی والوں کو انہوں نے غلام سمجھ کر رکھا ہوا ہے، بینظر انکم سپورٹ پروگرام میں 716 ارب روپے رکھے گئے جبکہ اتنا بجٹ کسی اور محکمے یا منصوبے کیلیے مختص نہیں ہوا، ہم حکومتِ سندھ سے مطالبہ کرتے ہیں کہ متاثرین کو 2 سال کا کرایہ اور متبادل رہائش فراہم کرے۔
انہوں نے مطالبہ کیا کہ سندھ حکومت کی تشکیل کردہ کمیٹی میں عوامی نمائندوں کو شامل کرنا ہو گا، یہ 5 ہزار خاندان ہیں اگر یہ سی ایم ہاؤس کے باہر جمع ہوئے تو لاکھوں افراد ہوں گے، پھر یہ لوگ کہاں جائیں گے؟اگر یہ زمین خالی کرا کر بلڈر مافیا کو دی تو یہ عمل ناقابل قبول ہوگا۔
دوسری جانب سندھ حکومت کی ترجمان سعدیہ جاوید نے ایم کیو ایم کی پریس کانفرنس کو مسترد کرتے ہوئے بے نظیر انکم سپورٹ پر تنقید کو بلاجواز قرار دیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ایم کیو ایم کا بےنظیر انکم سپورٹ پروگرام کے خلاف بیان بغض پیپلز پارٹی ہے جبکہ یہ منصوبہ اور پروگرام عالمی سطح پر تسلیم شدہ ہے۔
انہوں نے کہا کہ باتوں سے سنہرے خواب دکھانا ایم کیو ایم کا وطیرہ ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ اس پروگرام سے ایک کروڑ کے قریب غریب خاندان سہہ ماہی وظیفہ حاصل کرتے ہیں جبکہ سندھ میں 36 لاکھ سے زائد بچوں کو تعلیمی وظیفہ بھی دیا جاتا ہے۔