فلسطین مسلمانوں کے ایمان اور عقیدے کا مسئلہ، ضیاء الدین انصاری
اشاعت کی تاریخ: 7th, April 2025 GMT
امیر جماعت اسلامی لاہور کا کہنا ہے غزہ میں اسرائیلی بمباری میں معصوم بچوں کی ہوا میں اڑتی لاشیں امت مسلمہ کے بزدل حکمرانوں کی گردنوں پر قرض ہیں، جن کا حساب انہیں بروز قیامت دینا پڑے گا، جنگ بندی کے بعد موجودہ حالات مزید سنگین ہو چکے ہیں پہلے سے زیادہ شدت کیساتھ وحشیانہ بمباری کی جاری ہے۔ اسلام ٹائمز۔ امیر جماعت اسلامی لاہور ضیاء الدین انصاری ایڈووکیٹ نے کہا ہے کہ فلسطین عرب و عجم کا نہیں مسلمانوں کے ایمان اور عقیدے کا مسئلہ ہے۔ فلسطینی مسلمانوں کی دادرسی اور مدد امت مسلمہ کی اجتماعی ذمہ داری ہے۔ غزہ کی تشویشناک صورتحال پر پاکستان زیادہ موثر آواز اٹھائے اور فعال کردار ادا کرے۔ اہل فلسطین کی پکار پر لبیک کہنا ہمارا دینی فریضہ ہے، جو حکمران بے حس اور طاغوت کے آلہ کار بن چکے ہیں، ان سے اقتدار چھین لینا ضروری ہے۔ اسرائیلی حملوں سے مسائل کا شکار فلسطینیوں کو ریلیف فراہم کرنے میں ناکامی سلامتی کونسل کی کارکرگی پر سوالیہ نشان ہے، فلسطین میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ ناقابل قبول ہے اور سلامتی کونسل کو اس سب کو روکنے کیلئے لازما اقدامات کرنے چاہئیں۔
انہوں نے کہاکہ اب تک مسلسل وحشیانہ بمباری سے 64 ہزار سے زائد فلسطینی مسلمانوں کو شہید اور ایک لاکھ سے زائد کو شدید زخمی کیا ہے، اس کے باوجود وہ غزہ کے شہریوں اور تحریک مزاحمت کے عزمِ مصمم کو ذرا برابر بھی متزلزل کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکا۔ ضیاءالدین انصاری ایڈووکیٹ نے مزید کہا کہ غزہ میں اسرائیلی بمباری میں معصوم بچوں کی ہوا میں اڑتی لاشیں امت مسلمہ کے بزدل حکمرانوں کی گردنوں پر قرض ہیں، جن کا حساب انہیں بروز قیامت دینا پڑے گا، جنگ بندی کے بعد موجودہ حالات مزید سنگین ہو چکے ہیں پہلے سے زیادہ شدت کیساتھ وحشیانہ بمباری کی جاری ہے اور اسرائیل نے جنوبی غزہ میں مقیم ہزاروں فلسطینیوں کو جبری بے دخلی کے احکامات بھی جاری کر دیے جو پشت پناہی کا نتیجہ ہے۔
ذریعہ: Islam Times
پڑھیں:
غزہ: ملبے تلے لاپتہ افراد کی باوقار تجہیزوتکفین کی دلدوز کوشش
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ UN اردو۔ 25 اپریل 2025ء) غزہ میں کھدائی کرنے اور ملبہ ہٹانے والی مشینری کو بمباری میں نقصان پہنچنے سے تباہ شدہ عمارتوں تلے دبے لوگوں کی زندگی بچانے کی موہوم امیدیں دم توڑنے لگی ہیں۔
گزشتہ روز اسرائیل کی بمباری سے ایسے متعدد بلڈوزر اور کھدائی مشینیں تباہ ہو گئی ہیں جنہیں ملبے سے زندہ و مردہ لوگوں کو نکالنے کے لیے استعمال کیا جا رہا تھا۔
اقوام متحدہ کے ترجمان سٹیفن ڈوجیرک نے غزہ کے مقامی حکام کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا ہے کہ بلڈوزر تباہ ہونے سے کوڑا کرکٹ اٹھانے کا کام بھی معطل ہو گیا ہے۔
ہزاروں افراد ملبے تلے دفناطلاعات کے مطابق غزہ پر 7 اکتوبر 2023 سے اب تک ہونے والی بمباری سے تباہ ہونے والی عمارتوں کے ملبے تلے کم از کم 11 ہزار لوگ دب گئے تھے جن میں سے بیشتر کے بارے میں خیال ہے کہ ان کی موت واقع ہو چکی ہے۔
(جاری ہے)
غزہ کے عاطف نصر جنگ سے پہلے عمارتیں تعمیر کرنے اور سڑکوں کی مرمت کا کام کیا کرتے تھے اور اب ملبے سے لاشیں نکالتے ہیں۔ بلڈوزر تباہ ہونے سے اب ان کے لیے اپنا کام کرنا ممکن نہیں رہا۔
داہدو خاندان کے بیٹے عمر ایک سال پہلے اسرائیل کی بمباری میں ہلاک ہو گئے تھے جن کی لاش سات منزلہ رہائشی عمارت کے ملبے سے اب دریافت ہوئی ہے۔ ان کے بھائی معاد نے بتایا کہ گزشتہ جنگ بندی کے عرصہ میں انہوں نے عمر کی لاش نکالنے کی کوشش کی تھی لیکن عمارت بہت بڑی ہونے اور بھاری مشینری کی عدم دستیابی کی وجہ سے انہیں ناکامی ہوئی۔
انہوں نے لاش نکالنے کے لیے بلڈوزر اور کھدائی مشینیوں سے مدد لینے کی کوشش کی لیکن اسرائیل کی بمباری میں یہ مشینیں تباہ ہو چکی ہیں۔
آخری رسوماتجنوبی غزہ کے علاقے خان یونس میں مقیم داجانی خاندان اپنے تباہ شدہ گھر کے ملبے پر قیام پذیر ہے جس کے نیچے ان کے تین بچوں کی لاشیں بھی دفن ہیں۔ ان کے والد علی بتاتے ہیں کہ جب بمباری شروع ہوئی تو وہ اپنے خاندان کے چند لوگوں کے ساتھ ساحل سمندر کی طرف چلے گئے۔
واپسی پر ان کا گھر تباہ ہو چکا تھا اور ان کے بچے ملبے تلے دب گئے تھے۔ان کا کہنا ہے کہ وہ باامر مجبوری اس جگہ پر رہ رہے ہیں لیکن یہ کوئی زندگی نہیں اور ان کے لیے حالات ناقابل برداشت ہیں۔ انہیں نہ تو صاف پانی میسر ہے اور نہ ہی خوراک۔ وہ بس یہی چاہتے ہیں کہ ان کے بچوں کی لاشیں مل جائیں تاکہ وہ انہیں دفن کر سکیں۔ چند روز قبل انہوں نے قریبی علاقے میں کدالوں سے کھدائی کرنے والوں کو ملبہ ہٹانے کے لیے کہا تھا جنہوں نے اپنی سی کوشش کی لیکن اب یہ کام بھی رک گیا ہے۔
پچاس ملین ٹن ملبہاقوام متحدہ کا اندازہ ہے کہ جنگ میں غزہ کی تقریباً 90 فیصد رہائشی عمارتیں تباہ ہو گئی ہیں یا انہیں نقصان پہنچا ہے۔ ان عمارتوں کی تباہی سے 50 ملین ٹن ملبہ جمع ہو چکا ہے جسے موجودہ حالات میں صاف کرنے کے لیے کئی دہائیاں درکار ہوں گی۔
امدادی اداروں نے خبردار کیا ہے کہ ملبہ ہٹانے میں تاخیر کے نتیجے میں ناصرف غزہ بھر کے لوگوں کے دکھوں اور تکالیف میں اضافہ ہو رہا ہے بلکہ یہ صورتحال صحت عامہ اور ماحول کے لیے بھی تباہ کن ہے۔