Express News:
2025-04-25@11:41:51 GMT

انا کا مسئلہ نہ بنائیں

اشاعت کی تاریخ: 8th, April 2025 GMT

کہتے ہیں کہ بچپن سے جو بات دل میں بیٹھ جائے وہ تاعمر برقرار رہتی ہے، اس لیے ہمیں کوشش کرنی چاہیے کہ اوائل عمری ہی سے بچوں کے اچھے برے کے معیار کو بلند رکھیں۔ اکثر بچوں کے درمیان کسی نہ کسی بات پر جھگڑا یا تنازع بھی پیدا ہوجاتا ہے۔

کبھی مسابقت اور ایک دوسرے سے آگے نکلنے کا جذبہ مسائل بنا دیتا ہے۔ ایسے میں بچوں کو والدین اور اساتذہ کی خصوصی توجہ کی ضرورت ہوتی ہے۔ آج کل کے بچوں میں عدم برداشت کا رویہ بھی بڑھ گیا ہے، وہ جب ایک دوسرے کی باتوں سے اتفاق نہیں کرتے، تو سخت ردعمل کا مظاہرہ کرتے ہیں، پھر وہ جیسے جیسے بڑے ہوتے ہیں، ان میں عقل اور شعور میں اضافے کے ساتھ  زبانی تلخی میں بھی اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے۔

  بچوں میں دوسروں پر بازی لے جانے اور ان کے برابر ہونے کے جذبے کی اہم وجہ عام طورپر جسمانی طورپر ایک دوسرے سے طاقت وَر ہونا یا پھر جذباتی پن زیادہ ہونا ہے، جس کی وجہ سے وہ اپنے ساتھیوں کو نیچا دکھانے کی بھرپور کوشش کرتے ہیں۔ بعض بچے ہر موقع پر خود کو ان سے برتر ثابت کرنے کے لیے کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے، اس سلسلے میں عام طور پر وہ زبانی انداز بھی اپناتے ہیں اور جسمانی طورپر بھی متحرک ہوتے ہیں۔ وہ ہر ممکن کوشش کرتے ہیں کہ انھیں توجہ ملے، بچوں کا یہ زبانی اور جسمانی انداز بعض اوقات جارحانہ بھی ہوتا ہے۔ ایسے میں دونوں کی مصالحت کے لیے کسی بڑے کی موجودگی انتہائی ضروری ہے، جو سمجھا بجھا کر دونوں کو مطمئن کرے اور کوشش کرے کہ دوبارہ ایسا نہ ہو۔

بعضے وقت بچے اپنے تنازعات خود ہی حل کر لیتے ہیں اور بڑے کی مداخلت کی ضرورت بھی نہیں پڑتی۔ ایسا اس صورت میں ہوتا ہے کہ جب ایک  دوسرے سے نبرد آزما دو بچوں  کے ساتھ دیگر سمجھ دار بچے بھی موجود ہوں، جو اشتعال میں آئے بغیر غیر جانب داری سے دونوں کے درمیان بیچ بچاؤ کرائیں۔ البتہ بعض اوقات بچوں کی لڑائی والدین تک پہنچتی ہے تو وہ بات ختم کرانے کے بہ جائے بڑے خود لڑ پڑتے ہیں اور الزام تراشیوں کا نیا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے کہ وہ اپنے بچے کی بے جا حمایت لے رہے ہیں۔

ایسا کرنا نہ صرف دو خاندانوں میں تلخی کا باعث بنتا ہے، بلکہ اس کا براہ راست بچوں پر بھی بہت منفی اثر پڑتا ہے۔ ایسے والدین کو سوچنا چاہیے کہ بچے تو بچے ہیں ان میں لڑائی ناسمجھی کی بنا پر ہوتی ہیں، لہٰذا اسے انا کا مسئلہ بنانا نہایت غیر مناسب عمل ہے۔ والدین کو سمجھ داری سے کام لیتے ہوئے بچوں کے درمیان انصاف کرنا چاہیے، تاکہ حق دار بچے کو حق ملے اور بچوں میں انصاف کرنے کا جذبہ پیدا ہو۔ اکثر یہ لڑائیاں رشتے داروں کے درمیان بھی اختلافات کی اونچی فصیل کھڑی کردیتی ہیں، پھر بات بچوں کی لڑائی سے نکل کر بڑوں کے تنازعات بن کر خاندان میں بیٹھ جاتی ہے۔

بعض اوقات بچے بڑوں کے پیش کردہ حل کو بھی انصاف نہیں سمجھتے ان کا خیال ہوتاہے کہ ان کے ساتھ زیادتی کی گئی ہے، اس طرح کی صورت حال اکثر والدین کو اپنے ہی بچوں کے معاملے میں بھی پیش آجاتی ہے جب بہن بھائیوں میں کھیلتے ہوئے یا کوئی کام کرتے ہوئے کوئی اختلاف پیدا ہو جائے اور بات ان کے والدین تک پہنچ جائے تو وہ بچوں کے اختلاف کو دور کرنے کے لیے حل پیش کرتے ہیں لیکن بعض اوقات جب ایک بچہ یہ سمجھتاہے کہ اس کے ساتھ انصاف نہیں کیاگیا۔ اس قسم کی صورت حال کو بہت سمجھ داری سے سنبھالنا چاہیے۔

نوجوان بچے اکثر ایسی شکایات کرتے ہیں۔ انھیں مطمئن کرنا بھی ضروری ہے، تاکہ انہیں والدین کی غیر جانب داری پر شبہات نہ رہیں۔اس ضمن میں انھیں زیادہ گہرائی سے ان کا قصور اور اس پر فیصلے کی بابت سمجھانا چاہیے کہ ان کی کیا ذمہ داری ہے۔ نیز یہ فیصلہ کس طرح صحیح ہے اور اس پر اس بچے کے اعتراضات کا کیا جواب ہے وغیرہ۔

اسکول میں بھی بچوں کے درمیان اختلافات ہو جاتے ہیں، وہاں اساتذہ کا کردار بہت اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔

اساتذہ کو بچوں کی خواہشات کا بخوبی علم ہونا چاہیے کہ بچوں کے درمیان اگر اختلاف ہوگیا ہے، تو کیا بچے کسی تنازع کا حل تلاش کرنے کی خواہش کررہے ہیں؟ اساتذہ کو چاہیے کہ وہ بچوں کے درمیان اختلافات کا منصفانہ حل تلاش کریں، ساتھ ہی انھیں معاملہ اپنے درمیان ہی حل کرنے کی ترغیب دیں، تاکہ ان کے اندر معاملہ فہمی اور فیصلہ کرنے کی اہلیت پیدا ہو۔

اساتذہ یا والدین کو تنازعات میں مداخلت کرنے سے قبل دونوں طرف کی باتوں کا علم میں لانا بھی بہت ضروری ہوتا ہے کہ وہ کس نوعیت کا تنازع ہے، تاکہ اس کا کوئی ممکنہ حل تلاش کیا جا سکے۔  اکثر ایسا ہوتا ہے کہ دونوں طرف کی تکرار اس قدر بڑھی ہوتی ہے کہ معاملہ بیان کرتے ہوئے ہی دونوں متضاد باتیں کرتے ہیں اور ایک دوسرے پر غلط بیانی کا الزام لگایا جاتا ہے۔ ایسے میں اور بھی زیادہ احتیاط کی ضرورت ہوتی ہے کہ حقیقت حال کا پتا چلا کر فیصلہ کیا جائے۔

بچوں کے تنازعات دراصل ان کے سیکھنے اور آگے بڑھنے کے عمل سے تعلق رکھتے ہیں، یہ تنازعت خوش اسلوبی سے نمٹنا ان کی شخصیت پر بہت مثبت اثرات مرتب کرتے ہیں اور ان کے سیکھنے کے عمل کو مہمیز لگتا ہے۔ اس لیے یہ بڑوں کی ذمے داری ہے کہ وہ اس طرح کی صورت حال میں بچوں کی بھرپور راہ نمائی کریں تاکہ تنازعات طویل نہ ہونے پائیں۔ بچے جب مصالحت کے لیے بڑوں پر انحصار کرتے ہیں تو بڑوں کو بھی چاہیے کہ وہ ان کے مسائل پر بھرپور توجہ دے کر معاملہ نمٹائیں، کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ بچوں سے زیادہ بچپنہ دکھائیں اور بچوں کی نادانی کو اپنی انا کا مسئلہ بنا لیں۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: بچوں کے درمیان بعض اوقات والدین کو ایک دوسرے چاہیے کہ کرتے ہیں کے ساتھ ہوتا ہے بچوں کی ہیں اور پیدا ہو کے لیے

پڑھیں:

پہلگام حملے کی مذمت کرنے پر مشی خان پاکستانی اداکاروں پر کیوں برس پڑیں؟

اداکارہ و ٹی وی میزبان مشی خان نے پہلگام حملے کی مذمت کرنے والے پاکستانی اداکاروں پر شدید تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ انسان میں عزتِ نفس ہونی چاہیے انڈیا ہمارے خلاف بول رہا ہے اور آپ خوشامد میں لگے ہیں۔

مشی خان نے فوٹو اینڈ ویڈیو شیئرنگ ایپ انسٹاگرام پر ایک ویڈیو پوسٹ کی جس میں ان کا کہنا تھا کہ کہیں بھی جان و مال کا نقصان قابلِ مذمت ہے اور وہاں کے لوگوں کے درد میں ان کا ساتھ دینا چاہیے لیکن پاکستان میں اتنا کچھ ہو جاتا ہے تب تو ہمارے اسٹارز بولتے نہیں ہیں۔

انہوں نے کہا کہ پہلگام میں حادثہ ہوا تو فواد خان، ہانیہ عامر اور دیگر فنکار بول رہے ہیں تو کیا آپ کو صرف وہاں کا درد ہی محسوس ہو رہا ہے، کیا آپ لوگوں میں کوئی خوداری نہیں ہے کہ وہاں کے لوگ پاکستان اور پاکستانیوں کو لعن طعن کر رہے ہیں۔

 

View this post on Instagram

 

A post shared by Mishi Khan MK (@mishikhanofficial2)

مشی خان نے تنقید کرتے ہوئے کہا کہ اپنی کسی پوسٹ میں فلسطین تو آپ کو کبھی یاد نہیں رہا، پاکستان میں اتنے گھناؤنے واقعات ہوئے اس پر کبھی نہیں بولے لیکن وہاں کا درد آپ لوگ محسوس کر رہے ہیں جبکہ وہ لوگ آپ کو برا بھلا کہہ رہے ہیں۔

اداکارہ نے کہا کہ انسان میں عزتِ نفس بھی ہوتی ہے لیکن ہمارے ہاں اس چیز کی کمی ہے۔ جو کچھ بھی ہو جائے اپنے لیے اور اپنے ملک کے لیے اسٹینڈ لینا چاہیے۔ ان کا کہنا تھا کہ پیار محبت تب ہوتا ہے جب یہ دو طرفہ معاملہ ہو، ہر وقت دوسروں کی خوشامد کرنا کہاں کی انسانیت ہے۔

یہ بھی پڑھیں: فلم بائیکاٹ کا خطرہ، پہلگام حملے پر فواد خان کا ردعمل بھی سامنے آگیا

 ان کا مزید کہنا تھا کہ آپ لوگوں کو شرم آنے چاہیے کہ بھارت کے اینکرز ہمیں کھلے عام گالیاں دے رہے ہیں اور برا بھلا کہہ رہے ہیں اور آپ لوگ چپ بیٹھے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ بھارت کے ساتھ کرکٹ کو بند ہونا چاہیے اور ہمیں کہنا چاہیے کہ ہم آپ کے ساتھ نہیں کھیلیں گے، ہمیں پہلے ایسی چیزوں کے لیے منع کرنا چاہیے وہ کیوں پہل کرتے ہیں ہم کیوں نہیں کر سکتے ایٹمی پاور تو ہم بھی ہیں لیکن ہم میں عزتِ نفس کی کمی ہے۔ خود کی عزت کرنا سیکھیں اور اپنے لیے کھڑے ہونا سیکھیں۔

مشی خان کی پوسٹ پر صارفین ان سے اتفاق کرتے نظر آ رہے ہیں وہ بالکل ٹھیک کہہ رہی ہیں۔ کسی نے کہا کہ ان کو انڈیا ہی چھوڑ آنا چاہیے جبکہ کئی صارفین کا کہنا تھا کہ ان اداکاروں کے انڈیا میں کام چاہیے اس لیے ان کے حق میں بیان دیتے نظر آتے ہیں۔

 واضح رہے کہ پہلگام حملے کے بعد پاکستانی فنکاروں نے اس کی شدید مذمت کی تھی جس میں فواد خان، ہانیہ عامر، فرحان سعید اور ماورا حسین شامل ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: ’فواد خان کی فلم ریلیز نہیں ہونی چاہیے‘، پہلگام حملے کے بعد بھارت میں پاکستانی فنکار کے خلاف احتجاج

مشی خان ایک معروف پاکستانی ٹیلی ویژن اداکارہ اور میزبان ہیں، ان کے قابل ذکر ٹیلی ویژن پروجیکٹس میں عروسہ، عجائب گھر، بوٹا فرام ٹوبہ ٹیک سنگھ، سات پردوں میں اور دیگر شامل ہیں۔ وہ گزشتہ کئی سالوں سے کے ٹو ٹی وی پر مارننگ شو کی میزبانی کر رہی ہیں اور اکثر حالات حاضرہ، تنازعات اور شوبز کے تازہ ترین واقعات پر اپنی رائے کا اظہار کرتی رہتی ہیں۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

پہلگام حملہ فرحان سعید فواد خان ماورا حسین مشی خان ہانیہ عامر

متعلقہ مضامین

  • اولاد کی تعلیم و تربیت
  • ںہروں کا مسئلہ حل، دھرنے ختم کیے جائیں، وزیر اعلیٰ سندھ
  • کراچی: کمسن بچہ ماں اور سوتیلے باپ کے تشدد سے جاں بحق
  • جے این یو طلباء یونین انتخابات کی صدارتی بحث میں پہلگام، وقف قانون اور غزہ کا مسئلہ اٹھایا گیا
  • کشمیر حملے کے بعد بھارت نےحکومت پاکستان کے ایکس اکاؤنٹ تک رسائی پر پابندی لگا دی
  • پہلگام حملے کی مذمت کرنے پر مشی خان پاکستانی اداکاروں پر کیوں برس پڑیں؟
  • جب تک صوبے مضبوط نہیں بنائیں گے ملک ترقی نہیں کر سکتا: ارباب عثمان
  • والدین اپنے بچوں کو حفاظتی ٹیکے لازمی لگوائیں: مریم نواز
  • دیوار سے لگائیں گے تو دما دم مست قلندر ہو گا، شیری رحمان
  • روٹی کی قیمت 30 روپے مقرر ،سرکاری نرخنامہ کے مطابق روٹی کی فروخت کو یقینی بنائیں ، ڈپٹی کمشنر کوئٹہ