Express News:
2025-11-03@18:13:07 GMT

انا کا مسئلہ نہ بنائیں

اشاعت کی تاریخ: 8th, April 2025 GMT

کہتے ہیں کہ بچپن سے جو بات دل میں بیٹھ جائے وہ تاعمر برقرار رہتی ہے، اس لیے ہمیں کوشش کرنی چاہیے کہ اوائل عمری ہی سے بچوں کے اچھے برے کے معیار کو بلند رکھیں۔ اکثر بچوں کے درمیان کسی نہ کسی بات پر جھگڑا یا تنازع بھی پیدا ہوجاتا ہے۔

کبھی مسابقت اور ایک دوسرے سے آگے نکلنے کا جذبہ مسائل بنا دیتا ہے۔ ایسے میں بچوں کو والدین اور اساتذہ کی خصوصی توجہ کی ضرورت ہوتی ہے۔ آج کل کے بچوں میں عدم برداشت کا رویہ بھی بڑھ گیا ہے، وہ جب ایک دوسرے کی باتوں سے اتفاق نہیں کرتے، تو سخت ردعمل کا مظاہرہ کرتے ہیں، پھر وہ جیسے جیسے بڑے ہوتے ہیں، ان میں عقل اور شعور میں اضافے کے ساتھ  زبانی تلخی میں بھی اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے۔

  بچوں میں دوسروں پر بازی لے جانے اور ان کے برابر ہونے کے جذبے کی اہم وجہ عام طورپر جسمانی طورپر ایک دوسرے سے طاقت وَر ہونا یا پھر جذباتی پن زیادہ ہونا ہے، جس کی وجہ سے وہ اپنے ساتھیوں کو نیچا دکھانے کی بھرپور کوشش کرتے ہیں۔ بعض بچے ہر موقع پر خود کو ان سے برتر ثابت کرنے کے لیے کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے، اس سلسلے میں عام طور پر وہ زبانی انداز بھی اپناتے ہیں اور جسمانی طورپر بھی متحرک ہوتے ہیں۔ وہ ہر ممکن کوشش کرتے ہیں کہ انھیں توجہ ملے، بچوں کا یہ زبانی اور جسمانی انداز بعض اوقات جارحانہ بھی ہوتا ہے۔ ایسے میں دونوں کی مصالحت کے لیے کسی بڑے کی موجودگی انتہائی ضروری ہے، جو سمجھا بجھا کر دونوں کو مطمئن کرے اور کوشش کرے کہ دوبارہ ایسا نہ ہو۔

بعضے وقت بچے اپنے تنازعات خود ہی حل کر لیتے ہیں اور بڑے کی مداخلت کی ضرورت بھی نہیں پڑتی۔ ایسا اس صورت میں ہوتا ہے کہ جب ایک  دوسرے سے نبرد آزما دو بچوں  کے ساتھ دیگر سمجھ دار بچے بھی موجود ہوں، جو اشتعال میں آئے بغیر غیر جانب داری سے دونوں کے درمیان بیچ بچاؤ کرائیں۔ البتہ بعض اوقات بچوں کی لڑائی والدین تک پہنچتی ہے تو وہ بات ختم کرانے کے بہ جائے بڑے خود لڑ پڑتے ہیں اور الزام تراشیوں کا نیا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے کہ وہ اپنے بچے کی بے جا حمایت لے رہے ہیں۔

ایسا کرنا نہ صرف دو خاندانوں میں تلخی کا باعث بنتا ہے، بلکہ اس کا براہ راست بچوں پر بھی بہت منفی اثر پڑتا ہے۔ ایسے والدین کو سوچنا چاہیے کہ بچے تو بچے ہیں ان میں لڑائی ناسمجھی کی بنا پر ہوتی ہیں، لہٰذا اسے انا کا مسئلہ بنانا نہایت غیر مناسب عمل ہے۔ والدین کو سمجھ داری سے کام لیتے ہوئے بچوں کے درمیان انصاف کرنا چاہیے، تاکہ حق دار بچے کو حق ملے اور بچوں میں انصاف کرنے کا جذبہ پیدا ہو۔ اکثر یہ لڑائیاں رشتے داروں کے درمیان بھی اختلافات کی اونچی فصیل کھڑی کردیتی ہیں، پھر بات بچوں کی لڑائی سے نکل کر بڑوں کے تنازعات بن کر خاندان میں بیٹھ جاتی ہے۔

بعض اوقات بچے بڑوں کے پیش کردہ حل کو بھی انصاف نہیں سمجھتے ان کا خیال ہوتاہے کہ ان کے ساتھ زیادتی کی گئی ہے، اس طرح کی صورت حال اکثر والدین کو اپنے ہی بچوں کے معاملے میں بھی پیش آجاتی ہے جب بہن بھائیوں میں کھیلتے ہوئے یا کوئی کام کرتے ہوئے کوئی اختلاف پیدا ہو جائے اور بات ان کے والدین تک پہنچ جائے تو وہ بچوں کے اختلاف کو دور کرنے کے لیے حل پیش کرتے ہیں لیکن بعض اوقات جب ایک بچہ یہ سمجھتاہے کہ اس کے ساتھ انصاف نہیں کیاگیا۔ اس قسم کی صورت حال کو بہت سمجھ داری سے سنبھالنا چاہیے۔

نوجوان بچے اکثر ایسی شکایات کرتے ہیں۔ انھیں مطمئن کرنا بھی ضروری ہے، تاکہ انہیں والدین کی غیر جانب داری پر شبہات نہ رہیں۔اس ضمن میں انھیں زیادہ گہرائی سے ان کا قصور اور اس پر فیصلے کی بابت سمجھانا چاہیے کہ ان کی کیا ذمہ داری ہے۔ نیز یہ فیصلہ کس طرح صحیح ہے اور اس پر اس بچے کے اعتراضات کا کیا جواب ہے وغیرہ۔

اسکول میں بھی بچوں کے درمیان اختلافات ہو جاتے ہیں، وہاں اساتذہ کا کردار بہت اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔

اساتذہ کو بچوں کی خواہشات کا بخوبی علم ہونا چاہیے کہ بچوں کے درمیان اگر اختلاف ہوگیا ہے، تو کیا بچے کسی تنازع کا حل تلاش کرنے کی خواہش کررہے ہیں؟ اساتذہ کو چاہیے کہ وہ بچوں کے درمیان اختلافات کا منصفانہ حل تلاش کریں، ساتھ ہی انھیں معاملہ اپنے درمیان ہی حل کرنے کی ترغیب دیں، تاکہ ان کے اندر معاملہ فہمی اور فیصلہ کرنے کی اہلیت پیدا ہو۔

اساتذہ یا والدین کو تنازعات میں مداخلت کرنے سے قبل دونوں طرف کی باتوں کا علم میں لانا بھی بہت ضروری ہوتا ہے کہ وہ کس نوعیت کا تنازع ہے، تاکہ اس کا کوئی ممکنہ حل تلاش کیا جا سکے۔  اکثر ایسا ہوتا ہے کہ دونوں طرف کی تکرار اس قدر بڑھی ہوتی ہے کہ معاملہ بیان کرتے ہوئے ہی دونوں متضاد باتیں کرتے ہیں اور ایک دوسرے پر غلط بیانی کا الزام لگایا جاتا ہے۔ ایسے میں اور بھی زیادہ احتیاط کی ضرورت ہوتی ہے کہ حقیقت حال کا پتا چلا کر فیصلہ کیا جائے۔

بچوں کے تنازعات دراصل ان کے سیکھنے اور آگے بڑھنے کے عمل سے تعلق رکھتے ہیں، یہ تنازعت خوش اسلوبی سے نمٹنا ان کی شخصیت پر بہت مثبت اثرات مرتب کرتے ہیں اور ان کے سیکھنے کے عمل کو مہمیز لگتا ہے۔ اس لیے یہ بڑوں کی ذمے داری ہے کہ وہ اس طرح کی صورت حال میں بچوں کی بھرپور راہ نمائی کریں تاکہ تنازعات طویل نہ ہونے پائیں۔ بچے جب مصالحت کے لیے بڑوں پر انحصار کرتے ہیں تو بڑوں کو بھی چاہیے کہ وہ ان کے مسائل پر بھرپور توجہ دے کر معاملہ نمٹائیں، کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ بچوں سے زیادہ بچپنہ دکھائیں اور بچوں کی نادانی کو اپنی انا کا مسئلہ بنا لیں۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: بچوں کے درمیان بعض اوقات والدین کو ایک دوسرے چاہیے کہ کرتے ہیں کے ساتھ ہوتا ہے بچوں کی ہیں اور پیدا ہو کے لیے

پڑھیں:

سوڈان میں قیامت خیز جنگ, والدین کے سامنے سینکڑوں بچے قتل، ہزاروں افراد محصور

خرطوم: سوڈان کے شہر الفاشر سے فرار ہونے والے عینی شاہدین نے انکشاف کیا ہے کہ نیم فوجی تنظیم ریپڈ سپورٹ فورسز (RSF) کے جنگجوؤں نے شہر پر قبضے کے دوران بچوں کو والدین کے سامنے قتل کیا، خاندانوں کو الگ کر دیا، اور شہریوں کو محفوظ علاقوں میں جانے سے روک دیا۔

بین الاقوامی خبر رساں اداروں کے مطابق الفاشر میں اجتماعی قتل عام، جنسی تشدد، لوٹ مار اور اغوا کے واقعات بدستور جاری ہیں۔ اقوامِ متحدہ نے بتایا کہ اب تک 65 ہزار سے زائد افراد شہر سے نکل چکے ہیں، لیکن دسیوں ہزار اب بھی محصور ہیں۔

جرمن سفارتکار جوہان ویڈیفل نے موجودہ صورتحال کو "قیامت خیز" قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ دنیا کا سب سے بڑا انسانی بحران بنتا جا رہا ہے۔

عینی شاہدین کے مطابق جنگجوؤں نے عمر، نسل اور جنس کی بنیاد پر شہریوں کو الگ کیا، کئی افراد کو تاوان کے بدلے حراست میں رکھا گیا۔ رپورٹس کے مطابق صرف پچھلے چند دنوں میں سینکڑوں شہری مارے گئے، جب کہ بعض اندازوں کے مطابق 2 ہزار سے زائد ہلاکتیں ہوئی ہیں۔

سیٹلائٹ تصاویر سے ظاہر ہوا ہے کہ الفاشر میں درجنوں مقامات پر اجتماعی قبریں اور لاشیں دیکھی گئی ہیں۔ ییل یونیورسٹی کے تحقیقاتی ادارے کے مطابق یہ قتل عام اب بھی جاری ہے۔

سوڈان میں جاری یہ خانہ جنگی اب ملک کو مشرقی اور مغربی حصوں میں تقسیم کر چکی ہے۔ اقوامِ متحدہ کے مطابق جنگ کے نتیجے میں ایک کروڑ 20 لاکھ سے زائد افراد بے گھر اور دسیوں ہزار ہلاک ہو چکے ہیں، جبکہ خوراک اور ادویات کی شدید قلت نے انسانی المیہ پیدا کر دیا ہے۔

متعلقہ مضامین

  • فلسطین کے مسئلہ پر پاکستان اور ترکیہ مل کر کام جاری رکھیں گے
  • اسحاق ڈار کی ترک ہم منصب سے ملاقات، مسئلہ فلسطین سمیت مختلف امورپر تبادلہ خیال
  • اتنی تعلیم کا کیا فائدہ جب ہم گھریلو ملازمین کی عزت نہ کریں: اسماء عباس
  • سوڈان میں والدین کے سامنے سیکڑوں بچے قتل،ہزاروں افراد محصور
  • سوڈان میں قیامت خیز جنگ, والدین کے سامنے بچے قتل
  • پاکستانی ویزا 24 گھنٹوں میں مل جاتا ہے، براہ راست فلائٹ کا مسئلہ ہے: بنگلا دیشی ہائی کمشنر
  • سوڈان میں قیامت خیز جنگ, والدین کے سامنے سینکڑوں بچے قتل، ہزاروں افراد محصور
  • آج والدین اپنے بچوں کو مار نہیں سکتے: عدنان صدیقی
  • کشمیر کا مسئلہ پیپلز پارٹی کے دل کے قریب ہے، شازیہ مری
  • گورنر خیبرپختونخوا سے وزیراعلیٰ سہیل آفریدی کی ملاقات،‘متحد ہو کر صوبے کو پرامن بنائیں گے’