سیکرٹری جنرل پی اے ٹی کا کہنا ہے کہ ”میڈ ان پاکستان“ تحریک چلائی جائے، کاروباری طبقہ کو اعتماد میں لیا جائے،ان ملکوں کی معیشت بچے گی جن کا امپورٹڈ اشیا پر انحصار کم سے کم ہو گا،سب سے بڑھ کر یہ کہ لاء اینڈ آرڈر کو بہتر بنایاجائے اور معدنیات کے خزانوں کو جدید طریقہ کے مطابق بروئے کار لایا جائے۔ اسلام ٹائمز۔ پاکستان عوامی تحریک کے سیکرٹری جنرل خرم نواز گنڈاپور نے کہا ہے دنیا ”ٹیرف وار“ کے منفرد قضیہ میں گتھم گتھا ہو رہی ہے۔ پاکستان کا محنتی کسان ملک کو ٹیرف وار سے بچا سکتا ہے۔ یہ جنگ دنیا کے ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ملکوں کو اپنی لپیٹ میں لے رہی ہے۔ اس جنگ سے ان ملکوں کی معیشت بچے گی جن کا امپورٹڈ اشیا پر انحصار کم سے کم ہو گا لہٰذا معیشت کو پاؤں پر کھڑا کرنے کا یہ بہترین وقت ہے۔ اپنی خوراک، اپنی دوائیوں اور ایجادات پر انحصار کیا جائے۔ ”میڈ ان پاکستان“ کی تحریک چلائی جائے۔ مینو فیکچرنگ کے شعبہ کو مضبوط کیا جائے۔ غیر ملکی سرمایہ کاروں کے لیے ماحول سازگار بنایا جائے۔ توانائی کو سستا، ٹیکسیشن کے نظام کو منصفانہ بنانے کے ساتھ ساتھ کرپٹ انتظامی ڈھانچہ کے اندر اصلاحات لائی جائیں۔

انہوں ںے کہا کہ سب سے بڑھ کر یہ کہ لاء اینڈ آرڈر کو بہتر بنایاجائے اور معدنیات کے خزانوں کو جدید طریقہ کے مطابق بروئے کار لایا جائے۔ اللہ رب العزت نے پاکستان کو سمندر، سرسبز میدانوں، پہاڑوں، معدنیات کے خزانوں اور محنتی افرادی قوت سے نوازا ہے، بہتر مینجمنٹ اور جدید ٹیکنالوجی کے استعمال سے پاکستان دنیا کی ناگزیر ضرورت بن سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ سردست پاکستان کی معیشت کو سنبھالا دینے کیلئے زراعت پر توجہ دی جائے۔ نئے آبی ذخائر تعمیر کیے جائیں، واٹر مینجمنٹ کی جائے، جدید زرعی ٹیکنالوجی پر انحصار بڑھایا جائے۔ اس کیساتھ ساتھ کاروباری طبقہ کو اعتماد میں لیا جائے توانائی کے تمام ذرائع کو سستا اور گورننس کو بہتر بنایا جائے۔

.

ذریعہ: Islam Times

پڑھیں:

پاکستان کو جنگ نہیں بلکہ بات چیت کے ذریعے تعلقات بہتر بنانے چاہییں، پروفیسر محمد ابراہیم

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

کراچی: جماعتِ اسلامی پاکستان کے نائب امیر پروفیسر محمد ابراہیم نے کہا ہے کہ افغانستان میں طالبان حکومت کے قیام سے جماعت اسلامی کو خودبخود تقویت نہیں ملے گی،  اگر جماعت اسلامی اپنے بیانیے کو طالبان حکومت کے ساتھ ہم آہنگ کرے تو اس سے فکری اور نظریاتی سطح پر ضرور فائدہ حاصل ہو سکتا ہے۔

جسارت کے اجتماعِ عام کے موقع پر شائع ہونے والے مجلے کے لیے اے اے سید کو دیے گئے خصوصی انٹرویو میں پروفیسر محمد ابراہیم نے کہا کہ طالبان کا پہلا دورِ حکومت 1996ء سے 2001ء اور دوسرا دور 2021ء سے اب تک جاری ہے،  پہلے دور میں طالبان کی جماعتِ اسلامی کے ساتھ سخت مخالفت تھی لیکن اب ان کے رویّے میں نمایاں تبدیلی آئی ہے، پہلے وہ بہت تنگ نظر تھے مگر اب وہ افغانستان کو جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں ۔

انہوں نے انکشاف کیا کہ امیرالمؤمنین ملا ہبت اللہ اور ان کے قریبی حلقے میں اب بھی ماضی کی کچھ سختیاں موجود ہیں، جس کی مثال انہوں نے انٹرنیٹ کی دو روزہ بندش کو قرار دیا، ستمبر کے آخر میں طالبان حکومت نے انٹرنیٹ اس بنیاد پر بند کیا کہ اس سے بے حیائی پھیل رہی ہےمگر دو دن بعد خود ہی فیصلہ واپس لے لیا، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ اصلاح کی سمت بڑھ رہے ہیں۔

پروفیسر محمد ابراہیم نے کہا کہ موجودہ طالبان حکومت ایک بڑی تبدیلی کی علامت ہے، اور جماعت اسلامی کو اس سے فکری و نظریاتی سطح پر فائدہ پہنچ سکتا ہے، گزشتہ  دہائی میں دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی نے گہرے منفی اثرات چھوڑے ہیں،

آج بھی دونوں طرف سے ایک دوسرے کے خلاف شدید پروپیگنڈا جاری ہے، اور ہمارے کچھ وفاقی وزراء اپنے بیانات سے حالات مزید خراب کر رہے ہیں ۔

انہوں نے وفاقی وزیر دفاع خواجہ آصف اور وزیر اطلاعات عطا تارڑ کے بیانات کو غیر ذمہ دارانہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ ان کی زبان کسی باشعور انسان کی نہیں لگتی،  وزیرِ دفاع کا یہ کہنا کہ اگر مذاکرات ناکام ہوئے تو جنگ ہوگی بے وقوفی کی انتہا ہے،  خواجہ آصف ماضی میں یہ بھی کہہ چکے ہیں کہ  افغانستان ہمارا دشمن ہے  اور محمود غزنوی کو  لٹیرا  قرار دے چکے ہیں جو تاریخ سے ناواقفیت کی علامت ہے۔

پروفیسر محمد ابراہیم نے مطالبہ کیا کہ حکومت وزیر دفاع کو فوری طور پر تبدیل کرے اور استنبول مذاکرات کے لیے کسی سمجھدار اور بردبار شخصیت کو مقرر کرے، پاکستان اور افغانستان کے درمیان کشیدگی کم کرنے کے لیے لازم ہے کہ پشتون وزراء کو مذاکرات میں شامل کیا جائے جو افغانوں کی نفسیات اور روایات کو سمجھتے ہیں۔

انہوں نے وزیر اطلاعات عطا تارڑ کے بیان پر بھی ردِعمل دیتے ہوئے کہا کہ  یہ کہنا کہ  ہم ان پر تورا بورا قائم کر دیں گے انتہائی ناسمجھی ہے،  تورا بورا امریکی ظلم کی علامت تھا، اور طالبان آج اسی کے بعد دوبارہ اقتدار میں ہیں۔ ایسی باتیں بہادری نہیں، بلکہ نادانی ہیں۔

پروفیسر محمد ابراہیم نے زور دیا کہ پاکستان کو جنگ نہیں بلکہ احترام، بات چیت اور باہمی اعتماد کے ذریعے افغانستان سے تعلقات بہتر بنانے ہوں گے کیونکہ یہی خطے کے امن و استحکام کی واحد ضمانت ہے۔

ویب ڈیسک وہاج فاروقی

متعلقہ مضامین

  • ترقی کا سفر نہ روکا جاتا تو ہم دنیا کی ساتویں بڑی معیشت ہوتے: احسن اقبال
  • حماس کیجانب سے 3 اسرائیلی قیدیوں کی لاشیں واپس کرنے پر خوشی ہوئی، ڈونلڈ ٹرمپ
  • معیشت بہتر ہوتے ہی ٹیکس شرح‘ بجلی گیس کی قیمت کم کریں گے: احسن اقبال
  • روشن معیشت رعایتی بجلی پیکج کا اعلان قابل تحسین ہے،حیدرآباد چیمبر
  • کرپشن سے پاک پاکستان ہی ملک و قوم کی تقدیر بدل سکتا ہے، کاشف شیخ
  • پیپلز پارٹی، ن لیگ اور پی ٹی آئی کا خاتمہ ہو تو ملک سنبھل سکتا ہے، سراج الحق
  • پاکستانی ویزا 24 گھنٹوں میں مل جاتا ہے، براہ راست فلائٹ کا مسئلہ ہے: بنگلا دیشی ہائی کمشنر
  • افغانستان ثالثی کے بہتر نتائج کی امید، مودی جوتے کھا کر چپ: خواجہ آصف
  • پاکستان کو جنگ نہیں بلکہ بات چیت کے ذریعے تعلقات بہتر بنانے چاہییں، پروفیسر محمد ابراہیم
  • پختونخوا میں جو امن قائم کیا وہ ہاتھ سے پھسلتا جارہا ہے، سابق وزیراعلیٰ گنڈاپور