ارشد چائے والے کی شہریت پرسوالات اٹھ گئے، ڈی پورٹ کئے جانے کا خدشہ WhatsAppFacebookTwitter 0 9 April, 2025 سب نیوز

لاہور (سب نیوز)ڈھابے پر چائے بناتے ہوئے ایک تصویر وائرل ہوجانے کے بعد راتوں رات انٹرنیٹ سینسیشن بن جانے والے ارشد خان عرف ارشد چائے والا بڑی مشکل میں پھنس گئے، ڈی پورٹ کئے جانے کا خدشہ ہے۔
مردان سے تعلق رکھنے والے 2016 میں اس وقت اچانک شہرت کی بلندیوں پر جا پہنچے تھے جب ایک خاتون فوٹوگرافر نے ان کی چائے بناتے ہوئے تصویر انسٹاگرام پر پوسٹ کی تھی۔میڈیا رپورٹس کے مطابق ملک میں افغان شہریوں کے خلاف جاری کریک ڈاون کے تناظر میں ارشد کا بھی شناختی کارڈ بلاک کردیا گیا ہے اور ان سے 1978 سے قبل رہائش کے ثبوت طلب کیے گئے ہیں جس پر انہوں نے عدالت سے رجوع کرلیا۔
جسٹس جواد حسن نے نادرا سمیت دیگر فریقین کو نوٹس جاری کرتے ہوئے 17 اپریل کو جواب طلب کر لیا۔لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس جواد حسن نے ارشد خان چائے والا کی درخواست پر سماعت کی، فیصلہ میں کہا گیا کہ ارشد خان نے نادرا سمیت دیگر فریقین کی جانب سے شناختی کارڈ اور پاسپورٹ کی منسوخی کو چیلنج کیا۔فیصلے میں کہا گیا کہ وکیل درخواست گزار کے مطابق، ایک ٹی وی چینل کی افوا کے باعث ارشد خان کے مستقبل کو دا وپر لگا دیا گیا ہے۔
سرکاری وکیل نے درخواست کے قابل سماعت ہونے پر اعتراضات اٹھائے، ارشد خان نے پاکستانی شہری ہونے کی کوئی دستاویز پیش نہیں کی، ارشد خان کا شناختی کارڈ اور پاسپورٹ بلاک کرنا درست عمل ہے۔عدالتی فیصلے میں کہا گیا کہ درخواست گزار کے وکیل کے مطابق ارشد خان پاکستانی شہری ہے، ارشد خان کے خاندان کی پاکستانی شہریت کی ایک پوری تاریخ ہے، ارشد خان سے 1978 سے پہلے کا ریزیڈنسی پروف مانگنا بدنیتی پر مبنی ہے۔وکیل کے مطابق پاکستانی سٹیزن شپ ایکٹ 1951 کے مطابق پاسپورٹ ہر شہری کا بنیادی حق ہے۔
فیصلہ کے مطابق عدالت فریقین کو 17 اپریل کے لیے نوٹس جاری کرتے ہوئے جواب طلب کرتی ہے، سرکاری وکیل اس بات کو یقینی بنائیں کہ متعلقہ ادارے رپورٹس جمع کروائیں۔عدالت نے نادرا سمیت دیگر فریقین کو نوٹس جاری کرتے ہوئے 17 اپریل کو جواب طلب کر لیا۔واضح رہے ارشد چائے والا نے عدالت میں دائر درخواست میں موقف اختیار کیا ہے کہ نادرا نے شناختی کارڈ اور پاسپورٹ بلاک کردیا ، ان سے 1978 سے قبل کے رہائشی شواہد مانگے جارہے ہیں جس پر عدالت نے متعلقہ حکام کو ریکارڈ سمیت17اپریل کو طلب کرلیا۔

.

ذریعہ: Daily Sub News

کلیدی لفظ: ارشد چائے

پڑھیں:

پنجاب اسمبلی میں پیش کیا جانے والا وراثتی بل کیا ہے؟

پاکستان میں خواتین کو وراثت میں ان کے جائز شرعی اور قانونی حق سے محروم رکھنا بہت بڑا سماجی مسئلہ ہے اور ایسے ہزاروں مقدمات ملک بھر کی عدالتوں میں زیر سماعت ہیں جہاں پر خواتین وراثت میں اپنے جائز حصے کے حصول کے لیے عدالتوں کے چکر کھانے پر مجبور ہیں۔

2021 میں جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 3 رکنی بینچ نے ایک مقدمے کی سماعت کے دوران ریمارکس دیے کہ خواتین کو وراثت میں حق اپنی زندگی میں ہی لینا ہو گا، بینچ کے سربراہ کا یہ بھی کہنا تھا کہ ’اگر خواتین اپنی زندگی میں اپنا حق نہ لیں تو ان کی اولاد دعویٰ نہیں کر سکتی۔‘

یہ بھی پڑھیں: پاکستان میں “ڈیجیٹل وراثتی سرٹیفیکیٹ” کیسے حاصل کیا جا سکتا ہے؟

پنجاب حکومت نے وراثتی جائیداد میں خواتین کے حصے کی ادائیگی ہر صورت لازم قرار دینے کا فیصلہ کیا ہے، یہی وجہ ہے کہ خواتین کے وراثتی حقوق کے نفاذ کا بل 2025 مسلم لیگ ن کی خاتون ایم پی اے اسما احتشام کی جانب سے پنجاب اسمبلی میں پیش کردیا گیا ہے۔

پنجاب اسمبلی میں پیش کردہ بل میں تجویز کیا گیا ہے کہ خواتین کو وراثتی جائیداد سے محروم کرنا قابلِ سزا جرم قرار دیا جائے۔

 بل کے متن کے مطابق کسی بھی خاتون کو شریعت کے مطابق وراثتی جائیداد سے محروم نہیں کیا جا سکتا، خواتین کے حقوق کے تحفظ کے لیے حکومت کو محتسب مقرر کرنے کی تجویز دی گئی ہے، جہاں متاثرہ خواتین اپنی شکایات درج کروا سکیں گی۔

مزید پڑھیں: وفاقی شرعی عدالت کا بڑا فیصلہ، خواتین کو وراثت سے محروم کرنا غیراسلامی قرار

محتسب کو بل کے تحت نہ صرف زمینوں کا ریکارڈ درست کرنے کا اختیار حاصل ہو گا بلکہ وہ قانونی کارروائی سمیت ضرورت پڑنے پر ثالثی کا کردار بھی ادا کرسکےگا۔

مزید برآں، بل کے مطابق فاسٹ ٹریک وراثتی ٹربیونل قائم کیے جائیں گے، جن میں ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج یا ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج فرائض انجام دیں گے۔

بل میں سخت سزائیں تجویز کی گئی ہیں، کسی خاتون شہری کے حقِ وراثت تلف کرنے پر 3 سال قید اور 10 لاکھ روپے جرمانہ عائد کیا جائے گا۔ بل میں تجویز کیا گیا ہے کہ اگر یہی جرم دوبارہ کیا جائے تو سزا 5 سال قید اور 20 لاکھ روپے جرمانہ تک بڑھائی جا سکتی ہے۔

مزید پڑھیں: خیبرپختونخوا میں 90فیصد سے زائد خواتین وراثتی حصے سے محروم

خواتین کو ان کے وراثتی حقوق سے متعلق آگاہی مہم بھی بل کا حصہ ہو گی، جس کے تحت اسکولوں، مدارس اور خطبات میں وراثت سے متعلق شریعت کے مطابق تعلیم دی جائے گی۔

بل کی منظوری کے بعد حکومت کو 90 دن کے اندر متعلقہ قانون سازی کرنا ہوگی، فی الحال بل کو قائمہ کمیٹی کے حوالے کر دیا گیا ہے، جو 2  ماہ میں رپورٹ پیش کرے گی، رپورٹ کی منظوری کے بعد بل کو رائے شماری کے ذریعے ایوان سے منظور کرایا جائے گا، جس کے بعد گورنر پنجاب اس کی حتمی منظوری دیں گے۔

ماہرین کے مطابق یہ قانون خواتین کے لیے ایک مضبوط قانونی تحفظ فراہم کرے گا اور ان کے وراثتی حقوق کی بحالی کی راہ میں رکاوٹیں دور کرنے میں مددگار ثابت ہوگا۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

اسما احتشام خواتین سپریم کورٹ فاسٹ ٹریک وراثتی ٹربیونل وراثت وراثتی حقوق

متعلقہ مضامین

  • ایک سال میں بیرون ملک جانے والے پاکستانیوں کی تعداد میں حیران کن اضافہ
  • ایک سال میں کتنے لاکھ پاکستانی ملازمت کیلئے بیرون ملک منتقل ہوئے؟ رپورٹ جاری
  • اسرائیل نے غزہ پٹی کے لیے امداد لے جانے والے کشتی روک لی
  • یورپی یونین کا نیتن یاہو کے وارنٹ جاری کرنے والے آئی سی سی ججوں کی حمایت کا اعلان
  • اسرائیل کا غزہ کیلیے امداد لے جانے والی کشتی پر ڈرون حملے کے بعد قبضہ
  • پنجاب اسمبلی میں پیش کیا جانے والا وراثتی بل کیا ہے؟
  • کراچی سے واپس جانے والے قربانی کے جانوروں کے بیوپاری حادثے کا شکار، 3 جاں بحق
  • دادو کینال میں ڈوبنے والے 2 نوجوانوں کو بچا لیا گیا، تیسرے کی تلاش جاری
  • جانور فروخت کرکے کراچی سے واپس جانے والے پیوپاریوں کی گاڑی کو حادثہ، ایک جاں بحق، 14 زخمی
  • بنوں میں گھات لگائے ملزمان کی فائرنگ سے وکیل جاں بحق