کورنگی میں خاتون کا قتل؛ مقتولہ کو پارک کون لیکر آیا؟ ویڈیو سامنے آگئی
اشاعت کی تاریخ: 23rd, April 2025 GMT
کراچی:
کورنگی کے علاقے بلال کالونی باغیچے کے قریب خاتون کی گولی لگی لاش ملنے کے معاملے پر مزید پیشرفت ہوئی ہے۔
مقتولہ کو پارک کون لے کر آیا اس حوالے سے سی سی ٹی وی فوٹیج بھی سامنے آگئی۔
فوٹیج میں خاتون کو موٹر سائیکل پر بیٹھے ایک شخص کے ساتھ جاتے دیکھا جا سکتا ہے جبکہ موٹر سائیکل سوار کے ساتھ ایک بچہ بھی موجود ہے۔
پولیس کی تحقیقات کے مطابق ممکنہ طور پر خاتون قاتل کو جانتی تھی، خاتون کی شناخت تلاش ایپ کے ذریعے سپنا کے نام سے کی گئی جبکہ خاتون کا تعلق سولنگی قوم سے ہے اور نوشہرو فیروز آبائی گاؤں ہے۔ مقتولہ کے 3 بچے بھی ہیں، جو ایک سال قبل نوشہرو فیروز سے کراچی آگئی تھی۔
پولیس کا کہنا ہے کہ مقتولہ کے شوہر اور بھائی نے لاش لینے سے انکار کر دیا ہے۔
سپنا کراچی کس کے ساتھ آئی اس حوالے سے تحقیقات کی جا رہی ہیں، مقتولہ کے سر میں نامعلوم ملزمان گولی مار کر فرار ہوگئے تھے۔
مقتولہ کی لاش سردخانے میں موجود ہے اور مختلف پہلوؤں سے تحقیقات کی جا رہی ہیں۔
واضح رہے کہ گزشتہ روز کورنگی کے علاقے بلال کالونی باغیچے سے خاتون کی لاش برآمد ہوئی تھی جس کو سر میں گولی مار کر قتل کیا گیا تھا۔
.ذریعہ: Express News
پڑھیں:
سیاہ کاری کے حق میں بیان؛ ماں نے بیٹی کے قتل کو صحیح قرار دے دیا ا
سٹی42: ماں نے بیٹی کے قتل کو صحیح قرار دے دیا اور قتل کا حکم دینے والے سردار کو بے گناہ قرار دے دیا۔
بلوچستان میں جہالت کے زمانے کی رسم کے تحت سیاہ کار قرار دے کر ماری گئی خاتون کی ماں نے غیرت کے نام پر خاتون اور مرد کے قتل کو صحیح قرار دیا ہے جس سے اس کیس کے متعلق سوشل ڈسکورس مزید پھیلنے کا امکان ہے۔
ڈیگاری قتل واقعہ کی مقتول خاتون کی والدہ کا ویڈیو بیان سامنے لایا گیا ہے جس میں یہ عورت اپنی بیٹی کے قتل کو جائز قرار دے رہی ہے اور قاتلوں کو بے گناہ بتا رہی ہے۔ یہ ویڈیو بیان کون لوگ ریکارڈ کروا کر سامنے لائے یہ ابھی معلوم نہیں ہوا تاہم اس بیان سے بلوچ معاشرہ میں جہالت کے وقتوں سے آج تک رائج "سیاہ کاری" کے متعلق پبلک بحث کے مزید گہرا ہونے کا امکان کھل گیا ہے۔
مون سون بارشیں, پی ڈی ایم اے کا الرٹ جاری
نام نہاد غیرت کے نام پر قتل کی جانے والی خاتون بانو کی والدہ نے ویڈیو بیان میں اپنی بیٹی کے قتل کو "بلوچی رسم و رواج کے مطابق سزا” قرار دیتے ہوئے واقعے کے مرکزی کردار سردار شیر باز ساتکزئی کو بے قصور قرار دیا ہے۔
ویڈیو بیان میںمقتولہ خاتون کی ماں نے دعویٰ کیا کہ بانو نے ایسی حرکت کی تھی جو قبیلے کی روایت اور اصولوں کے خلاف تھی، اس لیے اسے سزا دی گئی۔
معروف برطانوی گلوکار انتقال کر گئے
بظاہر گھریلو خاتون نے یہ بھی کہا، اس قتل کے" فیصلے" میں سردار شیر باز ساتکزئی کا کوئی کردار نہیں تھا اور نہ ہی وہ اس قتل کا ذمہ دار ہے۔ نام نہاد قبائل رسم "سیاہ کاری" میں قبیلے کے سردار کا بہرحال بھاری کردار ہوتا ہے تاہم لوگ انفرادی طور پر بھی اپنے کسی رشتہ دار کو "سیاہ کار" قرار دے کر قتل کر سکتے ہیں۔ ایسے قتل پر قبیلہ کے دوسرے لوگ کوئی سوال نہیں کرتے اور قاتل کو مجرم نہیں ٹھہراتے اور نہ ہی اس قتل سے باخبر کوئی شخص پاکستان کی پولیس کو اس جرم کی اطلاع دیتا ہے، پولیس کو پتہ چل جائے اور وہ تحقیقات کرے تب بھی کوئی اس سے تعاون نہیں کرتا۔
لاہور سمیت پنجاب کے مختلف شہروں میں طوفانی بارش، نشیبی علاقے زیر آب
بلوچستان میں جہالت کے زمانہ سے جاری اس رسم کو سندھ میں "کاری" کا نام دیا جاتا ہے۔
بانو کی والدہ نے اعلیٰ حکام س سے کہا کہ ان کی بیٹی کے قتل کے الزام مین گرفتار کئے گئے قبیلہ کے سردار شیر باز ساتکزئی اور دیگر گرفتار افراد کو رہا کر دیا جائے۔
فرزانہ باری کیا کہتی ہیں
یہ پہلا واقعہ نہیں کہ سیاہ کار قرار دے کر مار ڈالی گئی کسی خاتون کے وارث اس کے قاتلوں کو برحق اور خود مقتولہ کو ہی مجرم قرار دے رہے ہیں۔ یہ رسم دراصل ہے ہی یہی کہ جسے سیاہ کار قرار دے ڈالا گیا اس کو قتل کرنا جائز بلکہ حق تصور کیا جاتا ہے۔ پاکستان میں انسانی حقوق کے کارکنوں کو ان بھیانک رسموں سے لڑتے کئی دہائیاں گزر چکی ہیں۔
غزہ جنگ اب ختم ہونی چاہیے' مصائب 'نئی گہرائیوں تک پہنچ چکے ہیں'
غیرت کے نام پرقتل کی گئی مقتولہ کی والدہ کے ویڈیو بیان پرخواتین کے حقوق کی رہنما اور عورتوں کے بہیمانہ قتل کے سلسلہ کے خلاف جدوجہد کرنے والی پروفیسرفرزانہ باری نے کہا ہمیں کہانیاں نہ سنائیں۔ ایک سنگین جرم ہوا ہے سزا ملنی چاہیے۔ اس جرم کے ویڈیو شواہد موجود ہیں۔
وکیل لیاقت گبول نے کہا کہ افسوس کی بات ہے کہ سردار کو بچانے کی کوشش کی جارہی ہے، ایسےمجرموں کو چھوڑ دیا گیا تو پھر ایسے واقعات کو روکنا مشکل ہوگا۔
کولمبیا یونیورسٹی نے اسرائیل مخالف مظاہروں پر درجنوں طلباء کو یونی ورسٹی سے نکال دیا
یاد رہے کہ بلوچستان کے دارلحکومت کے نواحی علاقے ڈگاری میں انیس جولائی کو بانو نامی خاتون اور احسان اللہ نامی شخص کے قتل کرنے کا واقعہ سامنے آیا تھا، فائرنگ کے دردناک مناظر کی ویڈیو سوشل میڈیا پروائرل ہوئی۔ اس ویڈیو کو لے کر پاکستان بھر کے انسانی حقوق کے کارکن اور عام شہری جاگے اور اس قتل کے خلاف آواز اٹھائی۔ یہ آواز بلند ہوتی گئی تو بلوچستان کی حکومت نے قانونی کارروائی کا آغاز کیا، اس ویڈیو کے مقام کا تعین کر کے واقعہ کے تمام کرداروں کا سراغ لگایا گیا۔
ابتدائی تحقیقات میں بتایا گیا کہ نام نہاد فیصلے کے تحت مرنے والا مرد اور خاتون ڈیڑھ سال سے روپوش تھے، دونوں کو دعوت کے بہانے بلایا گیا، جرگے میں فیصلہ سنایا گیا اور پھر کھلے میدان میں لے جا کر گولیاں چلا دی گئیں۔
خاتون اور مرد کے سفاکانہ قتل کی وائرل ویڈیو کے سلسلے میں کوئٹہ پولیس نے بڑے پیمانے پر کارروائی کرتے ہوئے 20 افراد کو گرفتار کیا۔
پولیس کے مطابق واقعے میں ملوث 13 ملزمان کو گرفتار کر لیا گیا ہے، جن میں مقتولہ کا کزن اور ساتکزئی قبیلے کے سربراہ سردار شیرباز ساتکزئی بھی شامل ہیں۔
مقامی عدالت کے حکم پر ڈیگاری کے ویرانے میں قتل ہونے والے مرد اورعورت کا ان کے قتل کے 47 دن بعد قبریں کھود کر پوسٹ مارٹم کیا گیا۔ اس پوسٹ مارٹم سے صرف انہیں ماری جانے والی گولیوں کی تعداد کی ہی تصدیق ہوئی، باقی تمام ضروری مواد تو قتل کی ویڈیو سے پہلے ہی سامنے آ چکا تھا۔
گذشتہ روز وزیر اعلیٰ بلوچستان میر سرفراز بگٹی نے دعویٰ کیا تھا کہ یہ شادی شدہ جوڑا نہیں تھا، خاتون شادی شدہ اور 5 بچوں کی ماں تھی۔ تاہم یہ قتل اور بربریت ہے، میری ساری ہمدردیاں قتل ہونے والے افراد کے ساتھ ہیں اور ہم مظلوم کے ساتھ کھڑے ہیں۔
Waseem Azmet