پاکستان اور بھارت دوبارہ سے جنگ کے دوراہے پر پہنچ چکے ہیں۔ پہلگام میں ہونے والے واقعے نے پاکستان اور بھارت کو دوبارہ سے آمنے سامنے لا کھڑا کیا ہے۔ یہ واقعہ واضح طور پر فالس فلیگ آپریشن ہے اور بہت سے سوالات لیے ہوئے ہے۔
بھارت نے غیر سرکاری طور پر حملے کے 3 منٹ بعد ہی الزام پاکستان پر عائد کردیا تھا یعنی ابھی حملہ آور جنگل میں گم ہو رہے تھے تو سوشل میڈیا پر نہ صرف اس واقعے کی اطلاعات تھیں بلکہ پاکستان پر اس کا الزام بھی عائد کردیا گیا تھا۔ ایک گھنٹے میں بھارتی سوشل میڈیا بریگیڈ نے پاکستان کو مورد الزام ٹھہرا کر مجرم بھی بنادیا تھا۔
کشمیر میں یہ واقعہ پہلگام کے علاقے میں ہوا ہے جو لائن آف کنٹرول سے 400 کلومیٹر دور ہے۔ اس کو آسانی کےلیے سمجھ لیں کہ لاہور سے اسلام آباد کا فاصلہ تقریباً اتنا ہے اور موٹروے کی ہموار سڑک سے سفر کرتے ہوئے 120 کی رفتار کے ساتھ تقریباً 4 گھنٹے لگتے ہیں۔ پہلگام کا یہ علاقہ ویران اور بیابان نہیں ہے، یہ ایک سیاحتی علاقہ ہے جہاں انڈین آرمی کی اسپیشل یونٹس تعینات ہوتی ہیں۔ پہلگام تک پہنچنا البتہ اتنا آسان نہیں ہے۔ راستہ پرخطر ہے۔ خان صاحب کے ورلڈ کپ ثانی کی فتح کے بعد اس علاقے میں سیاحت میں مزید اضافہ بھی دیکھنے میں آیا تھا۔
یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب بھارت میں امریکی نائب صدر دورے پر موجود تھے تو کیا وجہ ہے کہ اتنا بڑا سیکیورٹی خلا نظر آیا؟ بھارت کو اپنی انٹیلی جنس پر مان ہے تو کیا یہ واقعہ اس کی انٹیلی جنس کی ناکامی نہیں ہے؟ کیا وجہ ہے کہ پہلگام میں ہونے والے اس واقعے کے وقت سیکیورٹی موجود نہیں تھی جبکہ یہ ایک مکمل سیاحتی علاقہ ہےاور یہاں بین الاقوامی سیاح بھی آتے ہیں اور ماضی میں یہاں پر اسپیشل یونٹس تعینات ہوتی ہیں۔
جب یہ واقعہ پیش آیا تو سیکیورٹی کہاں تھی؟ اگر فرض کرنے کےلیے یہ تسلیم بھی کرلیا جائے کہ حملہ آور پاکستان سے یہاں تک آئے تھے تو وہ کیسے 400 کلومیٹر کا فاصلہ طے بھی کر گئے اور پھر انہوں نے تمام چیک پوسٹس کی آنکھوں میں دھول بھی جھونک دی۔ فوجی چھاؤنیوں میں موجود فوجی بھی سوتے رہے اور وہ حملہ کرکے واپس بھی چلے گئے، یعنی 800 کلومیٹر کا فاصلہ ایسے طے کیا کہ انڈیا کی دس لاکھ فوج کے پاس کوئی سراغ نہیں ہے؟ کیا ایسا ممکن ہے؟
جس گروپ نے اس واقعے کی ذمے داری قبول کی ہے، وہ مقامی گروہ ہے اور یہ 2019 میں بھارت کی جانب سے آرٹیکل 370 کی منسوخی کے بعد سامنے آیا ہے۔ پہلے یہ آن لائن اپنے نظریات پھیلاتا تھا، اس کے بعد اس نے زمینی طور پر خود کو منظم کرنا شروع کیا اور 2023 میں انڈین حکومت نے اس پر پابندی عائد کردی۔
واضح رہے کہ پابندی کے حامل تمام گروہ انٹیلی جنس کی خصوصی نگرانی میں ہمہ وقت رہتے ہیں۔ جب اس گروہ کی جانب سے پلاننگ ہورہی تھی تو بھارتی انٹیلی جنس کیا کر رہی تھی؟ اس نے اس حملے کو روکنے کےلیے کیا عملی اقدامات کیے تھے؟ ذمے داری قبول کرنے والا مقامی گروہ ہے جس کا پاکستان سے کوئی تعلق نہیں تو کیسے پاکستان اس حملے میں ملوث ہے؟
بھارت کا ہمیشہ سے یہی وتیرہ رہا ہے کہ وہ بغیر ثبوت پاکستان پر الزام عائد کرتا ہے اورجب یہ روتا ہے تو عالمی برادری سے اس کو ہمدردیاں بھی مل جاتی ہیں جبکہ حقیقت یہ ہے کہ بھارت کو اپنا گھر ٹھیک کرنے کی ضرورت ہے۔
بھارت نے اس واقعے کے جواب میں کچھ خوفناک اقدامات کیے ہیں۔ اس نے سب سے پہلے سندھ طاس معاہدہ معطل کیا ہے۔ یہاں یہ واضح نہیں ہے کہ یہ معاہدہ معطل ہوا ہے کہ منسوخ ہوا ہے۔ اگر معطل بھی ہوا ہے تو بھی اُسی معاہدے کے مطابق بھارت اس کو یکطرفہ طور پر معطل نہیں کرسکتا، اس معاہدے کا ضامن ورلڈ بینک ہے۔ اب اگر پاکستان اس کے جواب میں شملہ معاہدے کو معطل یا منسوخ کردیتا ہے تو بھارت کو پھر سوچنا پڑے گا۔ اس کے علاوہ بھارت نے پاکستانیوں کو بھارت چھوڑنے کا حکم دیا ہے اور اس کےلیے 48 گھنٹے دیے ہیں۔
بھارت نے اٹاری بارڈر کو بھی بند کردیا ہے۔ اس کے ساتھ بھارت نے پاکستان میں سفارتی عملہ کم کرتے ہوئے پاکستان کے سفارتی عملہ کو بھی ملک چھوڑنے کا حکم دیا ہے۔ یہ سارے اقدامات بھارت نے تب کیے ہیں جب ابھی اس حملے میں پاکستان کی شمولیت کے کسی بھی سطح پر کوئی بھی ناقابل تردید ثبوت موجود نہیں ہیں۔ یہ اقدامات یہ واضح کرتے ہیں کہ بھارت پاکستان کے ساتھ کسی بھی قسم کا تعلق نہیں چاہتا اور پاکستان جتنا مرضی ہمسائے کے ساتھ امن کی خواہش رکھ لے، ہمسایہ پاکستان کے ساتھ امن کی خواہش نہیں رکھتا ہے۔
عقلی دلیل پر دیکھا جائے تو پاکستانی سیاسی اور عسکری قیادت اتنی بیوقوف نہیں ہے کہ وہ امریکی نائب صدر کی بھارت موجودگی میں ایسا حملہ کرنے کی حماقت کرے۔ پاکستان نے ٹرمپ کے بعد اپنے تعلقات بہت حکمت کے ساتھ امریکی قیادت سے استوار کیے ہیں، وہ کوئی ایسا قدم نہیں اُٹھائے گا جس سے خطے میں کشیدگی کو مزید ہوا ملے۔
پاکستان کے اپنے مسائل ہیں، اور وہ ان کو حل کرنے میں مصروف ہے، اس کو مزید مسائل کھڑے کرنے کی کیا ضرورت ہے۔ 2019 کی فروری میں مودی ہی کی قیادت میں بھارت نے لائن آف کنٹرول کا محاذ گرم کرنے کی کوشش کی تھی۔ پاکستان نے اس کے جواب میں جہاں اسرائیلی حکام کے ساتھ بھارت کی ہائی پروفائل میٹنگ ہو رہی تھی، اس کے قریب خالی پے لوڈ ڈراپ کرکے پیغام دیا تھا کہ ہم کہاں تک پہنچ کر کیا کرسکتے ہیں اور ابھینندن والے واقعے کو تو خیر سے عالمی شہرت ملی تھی جس میں دنیا بھر میں بھارت کی جگ ہنسائی ہوئی تھی۔ بھارت نے تب الزام عائد کیا تھا کہ پاکستان نے ایف سولہ سے حملہ کیا ہے، وہ الزام بھی جھوٹا نکلا تھا۔ بھارت نے تب دعویٰ کیا تھا کہ اس نے پاکستان کا ایف سولہ مار گرایا ہے جبکہ پاکستان کے پاس ایف سولہ اور جے ایف 17 تھنڈر کی تعداد بھی پوری نکلی تھی۔ اس واقعے نے بھارت کو عالمی سطح پر شرمندہ کیا تھا اور پاکستان کی فضائیہ کی دھاک بٹھائی تھی۔
2019 میں ہی بھارت وار ہیڈز کو بارڈر تک لے آیا تھا، جواب میں پاکستان نے نیوکلیئر وار ہیڈز بارڈرز کے ساتھ لگا دیے تھے جس کے بعد عالمی طاقتوں نے فوری اس آگ کو ٹھنڈا کیا تھا۔ تب متحدہ عرب امارت کے شاہی خاندان اور پرنس کریم آغا خا ن نے آگ بجھانے میں کردار ادا کیا تھا۔
پاکستان بھارت کو کسی بھی مہم جوئی کا بھرپور جواب دینے کےلیے تیار ہے۔ بھارت جیسا قدم اُٹھائے گا، پاکستان جواب میں ویسا ہی شدید ترین قدم اُٹھائے گا۔ پاکستان 2019 میں بھی خاموش نہیں بیٹھا تھا، پاکستان اب بھی خاموش نہیں بیٹھے گا۔ بھارت کو یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ یہ 25 کروڑ عوام پر مشتمل جدید ترین ایٹمی صلاحیتوں کا حامل پاکستان ہے، اس کی خالہ کا گھر نہیں ہے، لہٰذا بالی ووڈ کے اسکرپٹ سے باہر آکر حقائق کا سامنا کرے، حقائق بالکل مختلف ہیں۔ بھارت کا جنگی جنون اس خطے کےلیے ہی نہیں بلکہ دنیا بھر کےلیے شدید ترین خطرہ ہے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: نے پاکستان پاکستان کے انٹیلی جنس پاکستان نے میں بھارت بھارت کو یہ واقعہ بھارت نے اس واقعے جواب میں کیا تھا نہیں ہے کے ساتھ کرنے کی ہوا ہے ہے اور کے بعد
پڑھیں:
بھارتی جوہری مواد سے تابکاری جاری
ریاض احمدچودھری
انڈین اٹاامک انرجی ریگولیشن بورڈ نے براہموس میزائلوںکی سٹوریج سائٹ پر پاکستان کے حملے کے بعد وہاں سے جوہری مواد سے تابکاری کا الرٹ جاری کیا ہے۔بھارتی حکومت نے انڈین نیشنل ریڈیولاجیکل سیفٹی ڈویژن کے ذریعے، بیاس، پنجاب کے قریب 10مئی کو برہموس میزائل اسٹوریج سائٹ پر پاکستان کے حملے کے بعد 3سے 5کلومیٹر کے دائر ے میں مقیم لوگوں کو تابکاری کے اخراج کی وجہ سے فوری طورپر انخلاء کرنے گھرسے باہر نہ نکلنے ، کھڑکیاں بند کرنے، زیر زمین پانی کے استعمال سے گریز کرنے اور باہر نکلنے کی صورت میں حفاظتی ماسک پہننے کا مشورہ دیا گیا ہے۔ اس تشویشناک صورتحال سے واضح ہوتاہے کہ بھارت کا جوہری پروگرام غیر محفوظ ہے جس سے خطے میں ماحولیاتی خرابی پیداہونے کے ساتھ ساتھ تابکاری پھیلنے کا خطرہ ہے۔
بھارت کے جوہری پروگرام کو فوری طور پر بند کیاجانا چاہیے۔ پاکستان اب قانونی طور پر اس مسئلے کو بین الاقوامی فورمز پر اٹھا سکتا ہے، آئی اے ای اے اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل جیسے اداروں پر زور دے سکتا ہے کہ وہ بھارت کے جوہری اثاثوں کو بین الاقوامی نگرانی میں رکھیں اور پابندیوں پر غور کریں۔بھارت کا ٹریک ریکارڈ، بشمول مارچ 2022میں پاکستان پر برہموس میزائل کی حادثاتی فائرنگ، لاپرواہی کے خطرناک رحجان کی عکاسی کرتا ہے۔
مودی حکومت جوہری مواد کو سیاسی مفادات کے لیے استعمال کرنے میں مصروف ہے، جس کے باعث یورینیم چوری، اسمگلنگ اور ایٹمی مواد کی بدانتظامی بھارت کی تاریخ کی سنگین مثال بن چکی ہے۔یہ تمام صورتحال بھارتی سیکیورٹی کی ناکامی اور مودی کی نااہلی و غفلت کو بے نقاب کرتی ہے، بین الاقوامی میڈیا مشرقی جھارکھنڈ ریاست میں تین سرکاری کانوں سے نکلنے والے تابکاری فضلے کو صحت کے لیے سنگین خطرہ قرار دے چکا ہے۔ انتہا پسند مودی کا جوہری جنون عوام کی صحت اور زندگیوں کو تابکاری کے سنگین خطرات سے دوچار کر رہا ہے، جھارکھنڈ کے یورینیم ذخائر کو جوہری ہتھیاروں سے جوڑنا مودی حکومت کے سیاسی ہتھکنڈوں اور غیر ذمہ داری کا واضح ثبوت ہے۔ مودی حکومت کا جوہری ایجنڈا خطے میں کشیدگی اور عالمی امن کے لیے سنگین خطرہ بن چکا ہے۔امریکہ کے دارا لحکومت واشنگٹن ڈی سی میں نیشنل تھریٹ انڈیکس کے نام سے ایک ادارہ قائم ہے۔جو دنیا کے170ممالک کے جوہری ہتھیاروں کی حفاظت، ان کے پھیلاؤ اور عدم پھیلاؤ پر تحقیق کرتا ہے۔بعد از تحقیقات یہ ادارہ ایک رپورٹ شائع کرتا ہے،جس میں اس بات کی نشاندہی کی جاتی ہے کہ کس ملک کے ایٹمی ہتھیار زیادہ محفوظ ہیں اور کس ملک کا حفاظتی انتظام ناقص ہے۔
این ٹی آئی انڈیکس کی جوہری، تابکاری سلامتی کی درجہ بندی کے مطابق پاکستان جوہری مواد کی سکیورٹی امور میں 19ویں نمبر پر براجمان ہے۔پاکستان کے بعد ہندوستان، ایران اور شمالی کوریا کا درجہ ہے۔ پاکستان کا رواں سال 3 مزید پوائنٹس حاصل کرکے جوہری مواد کی سلامتی میں اسکور 49پر پہنچا، پاکستان نے 2020ء کے مقابلے میں 3پوائنٹس، 2012ء کے مقابلے میں 18 پوائنٹس بہتری دکھائی۔ ہندوستان میں جوہری سلامتی کو درپیش خطرات کے باعث سکور جوں کا توں یعنی 40 رہا، جوہری تنصیبات کی سلامتی میں پاکستان 47میں سے 32 ویں نمبر پر رہا ہے۔
بھارتی صحافی اور سماجی کارکن کاویہ کرناٹیک نے کہا ہے کہ بھارت کے جوہری طاقت ہونے کی اصل قیمت جھارکھنڈ کے بھولے بھالے لوگ اور تباہ شدہ دیہات ادا کررہے ہیں جہاں جوہری فضلہ پھینکنے کی وجہ سے لوگوں کو جلتی ہوئی زمین، زہر آلود پانی اور آہستہ آہستہ موت کا سامنا ہے۔ کاویہ نے انکشاف کیا کہ جھارکھنڈ جو بھارت کے یورینیم اور کوئلے کا سب سے بڑا حصہ پیدا کرتا ہے، بنجر زمین میں تبدیل ہو چکا ہے۔ہم نے انہیں ملازمتیں فراہم کرنے کے بجائے معذوری دی ہے۔ جادو گورا نامی گائوں کی حالت المناک ہے کہ وہاں ہرپانچ میں سے ایک عورت اسقاط حمل سے گزرتی ہے کیونکہ ہم نے اپنا ایٹمی فضلہ وہاں پھینک دیا ہے۔ جھارکھنڈ میں ہر تیسرا آدمی کسی نہ کسی طرح کی معذوری کا شکار ہے جبکہ لوگ اپنے پورے جسم پر دھبوں اور پگھلے ہوئے چہروں کے ساتھ رہنے پر مجبور ہیں۔ آدھے بچوں کو ذہنی کمزوری کا سامنا ہے۔ کوئلہ پیدا کرنے والے ایک علاقے میں ضرورت سے زیادہ کھدائی کی وجہ سے مٹی خود بخودجل رہی ہے اور لوگ آلودہ پانی استعمال کرنے پر مجبور ہیں۔
کاویہ نے حکومت کے ترقی کے دعوئوں پر سوال اٹھاتے ہوئے کہا کہ ہمارے لوگ کہتے ہیں کہ بھارت وشوا گرو بن گیا ہے لیکن یہ حقیقت نہیں ہے بلکہ حقائق اس کے برعکس ہیں۔ ممبئی میں بڑی فلک بوس عمارتیں ہیں لیکن اس میں دنیا کی سب سے بڑی کچی آبادی بھی ہے جہاں تقریبا بیس لوگ ایک چھوٹے سے کمرے میں رہتے ہیں جو بارش میں پانی سے بھر جاتا ہے۔ دارالحکومت نئی دہلی میں لوگوں کو ایسا پانی پلایا جاتا ہے جو پیٹرول کی طرح دکھتا ہے۔آپ باقی بھارت کی صورتحال کا تصور اسی سے کر سکتے ہیں۔شہری خوشحالی کے سرکاری دعوئوںکی مذمت کرتے ہوئے کاویہ نے کہاکہ ہماری فلموں نے ہمیں سکھایا ہے کہ ممبئی اور دہلی رہنے کے لیے بہترین جگہیں ہیں جس سے لوگ دھوکہ کھا جاتے ہیں۔ بھارتی شہر دنیا میں سب سے بدترین ہیں ، چاہے وہ آلودگی کا معاملہ ہو یا قدرت سے ہم آہنگی کا۔کچی آبادیوں میں بھی وائٹنر جیسی منشیات پہنچ چکی ہیں۔جب ہم باہر نکلتے ہیں، خاص طور پر خواتین کے طور پر، ہمیں کوئی تحفظ نہیں ہوتا۔ صحافی ایسی چیزوں کو رپورٹ نہیں کرتے کیونکہ وہ اسے بے نقاب نہیں کرنا چاہتے۔کاویہ کے انکشافات بھارت کی نام نہاد اقتصادی ترقی کے دعوئوں اور ماحولیاتی تباہی کی قلعی کھول دیتے ہیں جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ غریب ترین علاقے کس طرح بھارت کے جوہری اور صنعتی طاقت کے حصول کی بھاری قیمت ادا کر رہے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔