پاکستان اور بھارت دوبارہ سے جنگ کے دوراہے پر پہنچ چکے ہیں۔ پہلگام میں ہونے والے واقعے نے پاکستان اور بھارت کو دوبارہ سے آمنے سامنے لا کھڑا کیا ہے۔ یہ واقعہ واضح طور پر فالس فلیگ آپریشن ہے اور بہت سے سوالات لیے ہوئے ہے۔
بھارت نے غیر سرکاری طور پر حملے کے 3 منٹ بعد ہی الزام پاکستان پر عائد کردیا تھا یعنی ابھی حملہ آور جنگل میں گم ہو رہے تھے تو سوشل میڈیا پر نہ صرف اس واقعے کی اطلاعات تھیں بلکہ پاکستان پر اس کا الزام بھی عائد کردیا گیا تھا۔ ایک گھنٹے میں بھارتی سوشل میڈیا بریگیڈ نے پاکستان کو مورد الزام ٹھہرا کر مجرم بھی بنادیا تھا۔
کشمیر میں یہ واقعہ پہلگام کے علاقے میں ہوا ہے جو لائن آف کنٹرول سے 400 کلومیٹر دور ہے۔ اس کو آسانی کےلیے سمجھ لیں کہ لاہور سے اسلام آباد کا فاصلہ تقریباً اتنا ہے اور موٹروے کی ہموار سڑک سے سفر کرتے ہوئے 120 کی رفتار کے ساتھ تقریباً 4 گھنٹے لگتے ہیں۔ پہلگام کا یہ علاقہ ویران اور بیابان نہیں ہے، یہ ایک سیاحتی علاقہ ہے جہاں انڈین آرمی کی اسپیشل یونٹس تعینات ہوتی ہیں۔ پہلگام تک پہنچنا البتہ اتنا آسان نہیں ہے۔ راستہ پرخطر ہے۔ خان صاحب کے ورلڈ کپ ثانی کی فتح کے بعد اس علاقے میں سیاحت میں مزید اضافہ بھی دیکھنے میں آیا تھا۔
یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب بھارت میں امریکی نائب صدر دورے پر موجود تھے تو کیا وجہ ہے کہ اتنا بڑا سیکیورٹی خلا نظر آیا؟ بھارت کو اپنی انٹیلی جنس پر مان ہے تو کیا یہ واقعہ اس کی انٹیلی جنس کی ناکامی نہیں ہے؟ کیا وجہ ہے کہ پہلگام میں ہونے والے اس واقعے کے وقت سیکیورٹی موجود نہیں تھی جبکہ یہ ایک مکمل سیاحتی علاقہ ہےاور یہاں بین الاقوامی سیاح بھی آتے ہیں اور ماضی میں یہاں پر اسپیشل یونٹس تعینات ہوتی ہیں۔
جب یہ واقعہ پیش آیا تو سیکیورٹی کہاں تھی؟ اگر فرض کرنے کےلیے یہ تسلیم بھی کرلیا جائے کہ حملہ آور پاکستان سے یہاں تک آئے تھے تو وہ کیسے 400 کلومیٹر کا فاصلہ طے بھی کر گئے اور پھر انہوں نے تمام چیک پوسٹس کی آنکھوں میں دھول بھی جھونک دی۔ فوجی چھاؤنیوں میں موجود فوجی بھی سوتے رہے اور وہ حملہ کرکے واپس بھی چلے گئے، یعنی 800 کلومیٹر کا فاصلہ ایسے طے کیا کہ انڈیا کی دس لاکھ فوج کے پاس کوئی سراغ نہیں ہے؟ کیا ایسا ممکن ہے؟
جس گروپ نے اس واقعے کی ذمے داری قبول کی ہے، وہ مقامی گروہ ہے اور یہ 2019 میں بھارت کی جانب سے آرٹیکل 370 کی منسوخی کے بعد سامنے آیا ہے۔ پہلے یہ آن لائن اپنے نظریات پھیلاتا تھا، اس کے بعد اس نے زمینی طور پر خود کو منظم کرنا شروع کیا اور 2023 میں انڈین حکومت نے اس پر پابندی عائد کردی۔
واضح رہے کہ پابندی کے حامل تمام گروہ انٹیلی جنس کی خصوصی نگرانی میں ہمہ وقت رہتے ہیں۔ جب اس گروہ کی جانب سے پلاننگ ہورہی تھی تو بھارتی انٹیلی جنس کیا کر رہی تھی؟ اس نے اس حملے کو روکنے کےلیے کیا عملی اقدامات کیے تھے؟ ذمے داری قبول کرنے والا مقامی گروہ ہے جس کا پاکستان سے کوئی تعلق نہیں تو کیسے پاکستان اس حملے میں ملوث ہے؟
بھارت کا ہمیشہ سے یہی وتیرہ رہا ہے کہ وہ بغیر ثبوت پاکستان پر الزام عائد کرتا ہے اورجب یہ روتا ہے تو عالمی برادری سے اس کو ہمدردیاں بھی مل جاتی ہیں جبکہ حقیقت یہ ہے کہ بھارت کو اپنا گھر ٹھیک کرنے کی ضرورت ہے۔
بھارت نے اس واقعے کے جواب میں کچھ خوفناک اقدامات کیے ہیں۔ اس نے سب سے پہلے سندھ طاس معاہدہ معطل کیا ہے۔ یہاں یہ واضح نہیں ہے کہ یہ معاہدہ معطل ہوا ہے کہ منسوخ ہوا ہے۔ اگر معطل بھی ہوا ہے تو بھی اُسی معاہدے کے مطابق بھارت اس کو یکطرفہ طور پر معطل نہیں کرسکتا، اس معاہدے کا ضامن ورلڈ بینک ہے۔ اب اگر پاکستان اس کے جواب میں شملہ معاہدے کو معطل یا منسوخ کردیتا ہے تو بھارت کو پھر سوچنا پڑے گا۔ اس کے علاوہ بھارت نے پاکستانیوں کو بھارت چھوڑنے کا حکم دیا ہے اور اس کےلیے 48 گھنٹے دیے ہیں۔
بھارت نے اٹاری بارڈر کو بھی بند کردیا ہے۔ اس کے ساتھ بھارت نے پاکستان میں سفارتی عملہ کم کرتے ہوئے پاکستان کے سفارتی عملہ کو بھی ملک چھوڑنے کا حکم دیا ہے۔ یہ سارے اقدامات بھارت نے تب کیے ہیں جب ابھی اس حملے میں پاکستان کی شمولیت کے کسی بھی سطح پر کوئی بھی ناقابل تردید ثبوت موجود نہیں ہیں۔ یہ اقدامات یہ واضح کرتے ہیں کہ بھارت پاکستان کے ساتھ کسی بھی قسم کا تعلق نہیں چاہتا اور پاکستان جتنا مرضی ہمسائے کے ساتھ امن کی خواہش رکھ لے، ہمسایہ پاکستان کے ساتھ امن کی خواہش نہیں رکھتا ہے۔
عقلی دلیل پر دیکھا جائے تو پاکستانی سیاسی اور عسکری قیادت اتنی بیوقوف نہیں ہے کہ وہ امریکی نائب صدر کی بھارت موجودگی میں ایسا حملہ کرنے کی حماقت کرے۔ پاکستان نے ٹرمپ کے بعد اپنے تعلقات بہت حکمت کے ساتھ امریکی قیادت سے استوار کیے ہیں، وہ کوئی ایسا قدم نہیں اُٹھائے گا جس سے خطے میں کشیدگی کو مزید ہوا ملے۔
پاکستان کے اپنے مسائل ہیں، اور وہ ان کو حل کرنے میں مصروف ہے، اس کو مزید مسائل کھڑے کرنے کی کیا ضرورت ہے۔ 2019 کی فروری میں مودی ہی کی قیادت میں بھارت نے لائن آف کنٹرول کا محاذ گرم کرنے کی کوشش کی تھی۔ پاکستان نے اس کے جواب میں جہاں اسرائیلی حکام کے ساتھ بھارت کی ہائی پروفائل میٹنگ ہو رہی تھی، اس کے قریب خالی پے لوڈ ڈراپ کرکے پیغام دیا تھا کہ ہم کہاں تک پہنچ کر کیا کرسکتے ہیں اور ابھینندن والے واقعے کو تو خیر سے عالمی شہرت ملی تھی جس میں دنیا بھر میں بھارت کی جگ ہنسائی ہوئی تھی۔ بھارت نے تب الزام عائد کیا تھا کہ پاکستان نے ایف سولہ سے حملہ کیا ہے، وہ الزام بھی جھوٹا نکلا تھا۔ بھارت نے تب دعویٰ کیا تھا کہ اس نے پاکستان کا ایف سولہ مار گرایا ہے جبکہ پاکستان کے پاس ایف سولہ اور جے ایف 17 تھنڈر کی تعداد بھی پوری نکلی تھی۔ اس واقعے نے بھارت کو عالمی سطح پر شرمندہ کیا تھا اور پاکستان کی فضائیہ کی دھاک بٹھائی تھی۔
2019 میں ہی بھارت وار ہیڈز کو بارڈر تک لے آیا تھا، جواب میں پاکستان نے نیوکلیئر وار ہیڈز بارڈرز کے ساتھ لگا دیے تھے جس کے بعد عالمی طاقتوں نے فوری اس آگ کو ٹھنڈا کیا تھا۔ تب متحدہ عرب امارت کے شاہی خاندان اور پرنس کریم آغا خا ن نے آگ بجھانے میں کردار ادا کیا تھا۔
پاکستان بھارت کو کسی بھی مہم جوئی کا بھرپور جواب دینے کےلیے تیار ہے۔ بھارت جیسا قدم اُٹھائے گا، پاکستان جواب میں ویسا ہی شدید ترین قدم اُٹھائے گا۔ پاکستان 2019 میں بھی خاموش نہیں بیٹھا تھا، پاکستان اب بھی خاموش نہیں بیٹھے گا۔ بھارت کو یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ یہ 25 کروڑ عوام پر مشتمل جدید ترین ایٹمی صلاحیتوں کا حامل پاکستان ہے، اس کی خالہ کا گھر نہیں ہے، لہٰذا بالی ووڈ کے اسکرپٹ سے باہر آکر حقائق کا سامنا کرے، حقائق بالکل مختلف ہیں۔ بھارت کا جنگی جنون اس خطے کےلیے ہی نہیں بلکہ دنیا بھر کےلیے شدید ترین خطرہ ہے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: نے پاکستان پاکستان کے انٹیلی جنس پاکستان نے میں بھارت بھارت کو یہ واقعہ بھارت نے اس واقعے جواب میں کیا تھا نہیں ہے کے ساتھ کرنے کی ہوا ہے ہے اور کے بعد
پڑھیں:
بھارت پاکستان کے خلاف کیا کرسکتا ہے؟
بھارت پاکستان کے خلاف کیا کچھ سوچے بیٹھا ہے، اس کا حتمی اندازہ تو ہم نہیں لگا سکتے مگرجس طرح بھارت میں نریندر مودی کا حامی میڈیا جنگی جنون پیدا کر رہا ہے اور پاکستان کے خلاف اشتعال انگیز نعرے لگا رہا ہے، اس سے یہ ضرور پتہ لگ رہا ہے کہ بھارتی حکومت کچھ بڑا کرنے کا سوچ رہا ہے۔ اس پر بات کرتے ہیں مگر سردست تو یہ دیکھنا ہے کہ جو بھارت نے اعلانات کیے ان کے اثرات کیا پڑیں گے؟
بھارت نے پاکستان کے ساتھ سفارتی تعلقات محدود سطح پر رکھنے، ڈیفنس اتاشیوں کو واپس بھیجنے، واہگہ اٹاری سرحدی راستہ بند کرنے کے ساتھ سندھ طاس معاہدہ معطل کرنے کا اعلان کیا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ سندھ طاس معاہدہ (انڈس واٹرٹریٹی ) معطل کرنا ایک بڑا اور غیر معمولی اقدام ہے۔ اس لیے کہ 65سال قبل یہ معاہدہ ہوا اور اس کے بعد پاکستان اور بھارت دو تین جنگوں میں انوالو ہوئے، جنگ 65 اور 71 کے علاوہ کارگل کا فوجی ٹکراؤ۔ ان جنگوں کے باوجود انڈیا یا پاکستان نے سندھ طاس معاہدہ معطل یا ختم کرنے کی کبھی بات نہیں کی۔
کیا سندھ طاس معاہدہ ختم ہوسکتا ہے؟اب بھارت نے یہ بات کہہ تو دی ہے مگر کیا واقعی کوئی ایک فریق اپنی مرضی سے یہ معاہدہ ختم کر سکتا ہے؟ قانونی ماہرین اس کی شدت سے نفی کرتے ہیں۔ یہ معاہدہ پڑھا جائے تو اس میں واضح ہے کہ کوئی فریق یک طرفہ طور پر اسے ختم نہیں کرسکتا اور جو کچھ بھی ہو، وہ دوطرفہ ہونا ضروری ہے۔
اس معاہدہ کا ثالث عالمی بینک تھا، پاکستان کی قانونی پوزیشن مضبوط ہے اور پاکستان عالمی عدالت انصاف کے علاوہ دیگر عالمی فورمز میں بھی جا سکتا ہے۔ غالباً اسی لیے بھارت نے بھی یہ معاہدہ معطل کرنے کا کہا ہے، اسے ختم نہیں کیا۔
سفارتی تعلقات کا خاتمہ بھی معاہدہ ختم نہیں کرے گابی بی سی کے مطابق 2سال قبل جنوبی ایشیا میں دریاؤں کے تنازع پر ایک کتاب کے مصنف اور سنگاپور نیشنل یونیورسٹی کے مصنف پروفیسر امت رنجن نے اپنے ایک مضمون میں لکھا تھا کہ سندھ طاس معاہدے سے اگر دونوں میں سے کوئی ایک ملک بھی یکطرفہ طور پر نکلنا چاہے تو وہ نہیں نکل سکتا۔ ویانا کنونشن کے تحت معاہدے ختم کرنے یا اس سے الگ ہونے کی گنجائش موجود ہے لیکن اس پہلو کا اطلاق سندھ طاس معاہدے پر نہیں ہوگا۔ ‘ڈاکٹر امت رنجن کے مطابق اگر پاکستان اور بھارت میں سفارتی تعلقات ختم ہوجائیں، تب بھی سندھ طاس معاہدہ ختم نہیں ہوسکتا۔
بھارت کیا کرسکتا ہے؟ماہرین کے مطابق سندھ طاس معاہدے کی بعض خلاف ورزیاں بھارت پہلے سے کر رہا ہے۔ دونوں ممالک کے انڈس واٹر کمشنرز کا ہر سال اجلاس ہونا ضروری ہے، بھارت نے ایسا 4سال سے نہیں کیا۔ دریاؤں میں بہتے پانی کے ڈیٹا کے بارے میں اطلاعات دینا ضروری ہے، مگر اطلاعات کے مطابق بھارت یہ کام پوری طرح نہیں کر رہا، صرف تیس چالیس فیصد ڈیٹا کے بارے میں بتایا جاتا ہے۔ اسی طرح دریاؤں پر بنائے جانے والے پراجیکٹس کی تفصیل بروقت بتانا ضروری ہے، مگر بھارت ایسا نہیں کر رہا۔ یہ سب چیزیں مزید بڑھ سکتی ہیں۔ معاہدہ معطل ہوجانے کے بعد بھارت جو تیس چالیس فیصد عمل کر رہا تھا، اب وہ صفر ہوجائے گا۔
کیا بھارت پاکستانی دریاؤں کا پانی روک سکتا ہے؟یہ ملین ڈالر سوال ہے۔ گزشتہ روز ایک بزرگ لکھاری دوست کا میسج آیا، انہیں کسی نے غلط اطلاع دی کہ بھارت نے پاکستانی دریاؤں کا پانی روک دیا ہے۔ وہ مجھ سے تصدیق کرنا چاہ رہے تھے۔ اتفاق سے میں اس وقت مختلف بھارتی اخبارات اور ویب سائٹس کھنگال رہا تھا، مقصد یہی دیکھنا تھا کہ خود بھارتی ماہرین کے مطابق بھارت پاکستان کے خلاف کیا کیا کرسکتا ہے؟
میں نے محترم بزرگ کو تسلی دی کہ بھارت چاہے تب بھی فوری طور پر پاکستان کے حصے میں آنے والے تینوں دریاؤں کا پانی نہیں روک سکتا۔ اس لیے کہ دریاؤں کا پانی بہت زیادہ ہے اور بھارت کے پاس سردست اتنے بڑے ڈیمز نہیں ہیں کہ وہ پانی روک سکے یا اس کا ایک بڑا حصہ ہی روک پائے۔ مستقبل میں تو یہ ممکن ہوسکتا ہے، آج کی تاریخ میں ممکن نہیں۔
یہ غلط فہمی پاکستان میں بہت سے لوگوں کو لاحق ہوئی۔ اس کا جواب یہ ہے کہ سندھ طاس معاہدے کے تحت پاکستان کے مغربی دریائوں سندھ، چناب اور جہلم کا اسی فیصد پانی پاکستان کو دینا لازم ہے۔ بھارت اس کے پانچویں حصے(19.8فیصد)کو روک سکتا ہے، وہ ان دریاؤں کے پانی پر رن آف ریور ڈیم بھی بنا سکتا ہے مگر پانی ذخیرہ نہیں کرسکتا۔
یاد رہے کہ رن آف ریور ڈیم میں پانی اسٹورکرنے کے بجائے ٹنل وغیرہ کے ذریعے اس سے بجلی پیدا کی جاتی ہے اور پانی آگے جانے دیا جاتا ہے، جیسے پاکستان کا نیلم جہلم پراجیکٹ ہے۔
مقبوضہ کشمیر میں بہتے ہوئے دریائے سندھ نسبتاً چھوٹا دریا ہے تاہم چناب اور جہلم بڑے دریا ہیں۔ مجموعی طور پر ان تینوں دریاؤں سے پاکستان کو سالانہ ایک سو پینتیس (135) ایم اے ایف یعنی ملین ایکڑ فیٹ آتا ہے۔ یہ اتنا زیادہ پانی ہے کہ اسے جمع کرنے کے لیے بہت بڑے درجن سے بھی زیادہ ڈیمز درکار ہوں گے۔ اندازہ لگا لیں کہ بھاشا ڈیم اور کالا باغ ڈیم دونوں اگر بنے ہوں تو ان کی مکمل اسٹوریج کیپیسٹی 18ملین ایکڑفیٹ ہوگی۔ اتنا بڑا ایک ڈیم بنانے میں بھی کئی سال لگتے ہیں، آٹھ دس سال تو کم از کم ہیں۔
انڈیا نے چناب پر متنازع بگلہیار ڈیم بنا رکھا ہے جو 7لاکھ ایکڑزمین کو پانی دے سکتا ہے، اس کی مکمل اسٹور کیپیسٹی تین اعشارہ چھ (3.6)ملین ایکڑ فٹ ہے۔ معاہدے کے قانونی پہلوؤں کے مطابق بھارت اس پانی کو اپنے پاس ذخیرہ نہیں کرسکتا، وہ صرف بجلی سے فائدہ اٹھا سکتا ہے۔ تاہم موجودہ صورتحال میں اس کا مفروضے کے طور پر امکان موجود ہے کہ بھارت اس ڈیم کے ذریعے کچھ پانی اپنے پاس روک لے اور پاکستان کو تنگ کرے۔
بھارت کی تکنیکی مشکلات کیا ہیں؟معروف بھارتی ویب سائٹ وائر کی رپورٹ کے مطابق، ‘فی الحال ہندوستان کے پاس جموں و کشمیر میں ذخیرہ کرنے کی گنجائش بہت کم ہے، اس لیے زیادہ پانی ذخیرہ کرنا ممکن نہیں ہے۔ بگلیہار ڈیم میں صرف 1.5 ایم اے ایف تک ذخیرہ ممکن ہے۔ ہندوستان صرف اتنا ہی پانی روک سکتا ہے جتنا اس کے پاس ترقی یافتہ ڈھانچے میں ذخیرہ کرنے کی گنجائش ہے۔ اس کے بعد اس پانی کوچھوڑنا ہی پڑے گا۔ اگر ہندوستان بگلہیار ڈیم میں 3.6 ایم اے ایف کی مکمل صلاحیت پیدا کرتا ہے تو وہ پاکستان کو پانی کی فراہمی کو عارضی طور پر کنٹرول کرسکتا ہے، خاص طور پر کھیتی کے سیزن میں۔ لیکن وہ اس پانی کو مستقل طور پر ذخیرہ یا خود استعمال نہیں کرسکتا۔ تاہم باقی 131ملین ایکڑ فیٹ پانی کو وہ نہیں روک سکتا۔’
پاکستان کے لیے اچھی بات یہ ہے کہ چناب، جہلم، سندھ میں 60-70 فیصد پانی گلیشیئرز سے آتا ہے اور 30-40 فیصد مون سون سے آتا ہے، جس پر ہندوستان کا کوئی کنٹرول نہیں ہے۔ مون سون کےدنوں میں پانی کی رفتار بہت تیز ہوتی ہے، اس لیے اس پانی کو بھارت ڈیمز میں بھی نہیں روک سکتا۔ پاکستان کے حق میں یہ نکتہ بھی جاتا ہے کہ ڈھلان ہماری طرف ہے اور پانی نے ادھر آنا ہی آنا ہے۔
پانی روکنا آج ممکن نہیں، کل کے لیے ہوشیار رہنا ہوگاانڈین ماہرین کے مطابق، ‘قدرتی جغرافیہ، نامکمل ڈھانچے اور معاہدوں کی شرائط کی وجہ سے ہندوستان کے لیے پاکستان کو پانی سے محروم کرنا مشکل ہے۔ انڈس سسٹم کا زیادہ تر پانی پاکستان کو ملتا رہے گا۔ ہندوستان کسی حد تک کنٹرول شدہ بہاؤ (3.6 ایم اے ایف) کو کنٹرول کرسکتا ہے، لیکن 131.4ایم اے ایف قدرتی بہاؤ ہندوستان کے کنٹرول سے باہر ہے۔ ہندوستان کے لیے اس وقت تک پانی کے اس بہاؤ کو مکمل طور پر روکنا ممکن نہیں جب تک وہ بڑے پیمانے پر انفراسٹرکچر نہیں بنا لیتا۔’
نتیجہ یہ نکلا کہ سردست شارٹ ٹرم میں پاکستان کو زیادہ خطرہ نہیں، تاہم چونکہ آب پاشی کے لیے پانی کا ہر قطرہ اہم ہے، اس لیے پاکستانی حکومت نے بہت سخت وارننگ دی ہے کہ اگر سندھ طاس معاہدے پر عمل درآمد نہ ہوا اور پاکستانی حصے کا پانی روکا گیا، بے شک وہ ایک دو ملین ایکڑ فیٹ ہی کیوں نہ ہو، تو اسے ایکٹ آف وار سمجھا جائے گا۔
پاکستان کو لانگ ٹرم میں بھی ہوشیار رہنا ہوگا کہ عین ممکن ہے کہ جب حالات پرامن ہوجائیں تو بھارت چپکے سے مزید بڑے ڈیم وہاں بنانا شروع کر دے تاکہ مستقبل میں کبھی پاکستانی پانی کو روکنا اس کے لیے عملی طور پر ممکن ہوسکے۔
بھارت مزید کیا کر سکتا ہے؟جو پاکستانی اور عالمی ماہرین بھارتی اقدامات اور وہاں چلتی ہنگامہ خیزی پر نظر رکھے ہوئے ہیں، وہ خطرے کا پیغام دے رہے ہیں۔ بھارتی میڈیا کو جس طرح ہائپ دی جا رہی ہے، اس سے یہ خدشہ تو موجود ہے کہ مودی حکومت کچھ بڑا کرنا چاہ رہی ہے۔ 2016 یا 2019کی طرح کی کوئی حماقت، اگرچہ ابھیینندن والا واقعہ ان کے لیے سخت شرمندگی کا باعث بنا تھا۔ دراصل پاکستان کے خلاف کوئی بھی ایڈونچر بھارتی حکومت کو سیاسی فوائد پہنچائے گا۔ حالیہ واقعات کے نتیجے میں بھی یہ کہا جارہا ہے کہ بی جے پی اب بہار میں آسانی سے ریاستی اسمبلی کا الیکشن جیت جائے گی۔
دفاعی ماہرین یہ خیال ظاہر کر رہے ہیں کہ اگلے دو تین دنوں میں کوئی سرجیکل اسٹرائیک کا امکان بہرحال موجود ہے۔ اگر ایسا ہوا تو پاکستان اس کا منہ توڑ جواب دے گا۔ یہ بات بھارتی حکومت بھی جانتی ہے۔ ایسے میں پھر بھی وہ کوئی ایڈونچر کرے گی؟ یہ ایک اہم سوال ہے۔ ایک آپشن یہ بھی ہے کہ بھارتی حکومت کوئی محفوظ کیلکولیٹڈ رسک لے۔
کسی سرحدی علاقے میں غیر معروف جگہ پر اسٹرائیک کرکے اسے جنگجوئوں کا اڈہ قرار دے دے۔ بے شک وہاں پر صرف درخت ہی کیوں نہ ہوں۔ دو ہزار سولہ میں ایسا ہی کیا گیا تھا۔
دیکھیں اگلے چند دنوں میں کیا سامنے آتا ہے۔ یہ پاکستان کے لیے بہرحال بہت سنجیدہ اور گمبھیر صورتحال ہے۔ ہمیں اندرون ملک استحکام اور اتحاد رکھنا ہوگا۔ اپنی فوج کے ساتھ کھڑا ہونے اور اپنے جانبازوں کو مکمل اسپورٹ دینے کا وقت ہے۔ پاکستانی قوم نے اس حوالے سے ماضی میں کبھی مایوس کیا ہے اور نہ ان شااللہ اب کرے گی۔
ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
نیچرل سائنسز میں گریجویشن، قانون کی تعلیم اور پھر کالم لکھنے کا شوق صحافت میں لے آیا۔ میگزین ایڈیٹر، کالم نگار ہونے کے ساتھ ساتھ 4 کتابوں کے مصنف ہیں۔ مختلف پلیٹ فارمز پر اب تک ان گنت تحریریں چھپ چکی ہیں۔