ایس یو سی کے سربراہ کا بجٹ پر تبصرہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ عام آدمی کیلئے کچھ بھی نہیں رکھا گیا البتہ جو کچھ کسی مد میں میسر تھا وہ بھی لے لیا گیا، نصف کے قریب آبادی غربت/فقر کی لکیر سے نیچے، اڑھائی کروڑ بچے تعلیم سے محروم ہیں۔ اسلام ٹائمز۔ قائد ملت جعفریہ پاکستان علامہ سید ساجد علی نقوی کہتے ہیں کہ بجٹ کھوکھلے الفاظ کی داستان کے سوا کچھ نہیں، عام آدمی کیلئے کچھ بھی نہیں رکھا گیا البتہ جو کچھ کسی مد میں میسر تھا وہ بھی لے لیا گیا، نصف کے قریب آبادی غربت/فقر کی لکیر سے نیچے، اڑھائی کروڑ بچے تعلیم سے محروم جبکہ بجٹ میں 500 ارب کے اضافی ٹیکس یہ اسی کے مصداق کہ ”مرے کو مارے شاہ مدار”۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے وفاقی حکومت کی جانب سے پیش کردہ بجٹ 2025-26 پر ردعمل دیتے ہوئے ہوئے کیا۔ قائد ملت جعفریہ پاکستان علامہ سید ساجدعلی نقوی نے بجٹ بارے کہا کہ اب اسے الفاظ کے گورکھ دھندہ کیساتھ ”کھوکھلے الفاظ کی داستان ” کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ آئی ایم ایف نے جو کہا کہ وہ عام آدمی پر نافذ کردیا گیا مگر جن اصلاحات کی جانب متوجہ کیا اس پر گزشتہ مالی سال میں کوئی توجہ نہ دی گئی اورمراعات یافتہ طبقے کو ٹیکس چھوٹ دی جاتی رہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ دیہاڑی دار مزدور کیلئے کم از کم اجرت کا زبانی اعلان بھی وفاقی بجٹ سے ایسے ہی غائب ہوگیا جیسے گندم کی امدادی قیمت کو کسان ترستا رہا، چھوٹے کسان کو قرض کی صورت میں دیا جانیوالا ریلیف اونٹ کے منہ میں زیرہ کے برابر بھی نہیں، ایک طرف دعویٰ کیا گیا کہ کوئی منی بجٹ پورا سال نہیں لایا گیا مگر آئے روز اشیائے خورونوش کی قیمتوں میں اضافے، پٹرولیم مصنوعات میں بین الاقوامی سطح پر کمی کے باوجود قیمتوں میں اضافہ اب پٹرولیم لیوی کیساتھ کاربن لیوی کا فی لٹر اضافہ، عام کھانے پینے کی اشیاء کیساتھ کپڑوں کی خریداری تک پر انکم ٹیکس اور عام اشیائے ضروریہ تک پر ٹیکسز کی بھرمار سمیت 500 ارب کے اضافی ٹیکسز کیساتھ پیش کیا گیا بجٹ کیسے عوام دوست بجٹ کہلایا جاسکتا ہے؟

انہوں نے مزید کہا کہ معاشرے میں امیر اور غریب کی تفریق انتہائی تیزی سے بڑھ رہی ہے، نصف کے قریب آبادی غربت کی لائن کراس کرچکی، معیشت کو چلانے والی مڈل کلاس تقریباً ختم ہوچکی تو ایسی صورتحال میں معاشی و اقتصادی صورتحال کیونکر بہتر ہوسکتی ہے؟ اڑھائی کروڑ بچوں کا سکول تک پہنچ ہی نہ سکنا کیا خطرے کی علامت نہیں؟ مگر افسوس اس طبقہ کو مکمل طور پر نظر انداز کردیا گیا، اس وفاقی بجٹ سے عوام کو ریلیف ملنے کی بجائے عوام میں مزید بے چینی کی کیفیت جنم لے گی لہٰذا بجٹ کی منظوری سے ریلیف کیلئے مستحق عام آدمی کیلئے گنجائش نکالی جائے اور بے جا سرکاری اخراجات و پروٹوکولز پر کٹ لگایا جائے۔

.