یمنی مسلح افواج کے ہاتھوں طیارہ بردار امریکی بحری جہاز فرار پر مجبور!
اشاعت کی تاریخ: 28th, April 2025 GMT
یمنی مسلح افواج کے ترجمان نے طیارہ بردار امریکی بحری جہاز ٹرومین کیخلاف متعدد میزائل و ڈرون کارروائیوں کی خبر دیتے ہوئے اعلان کیا ہے کہ ان مزاحمتی کارروائیوں نے طیارہ بردار امریکی بحری بیڑے کو بحیرہ احمر کے شمالی ترین مقام تک پیچھے ہٹ جانے پر مجبور کر دیا ہے!! اسلام ٹائمز۔ یمنی مسلح افواج کے ترجمان بریگیڈیئر جنرل یحیی السریع نے اعلان کیا ہے کہ امریکہ نے گذشتہ چند گھنٹوں کے دوران صنعا و صوبہ صعدہ میں قتل عام کی 2 کارروائیاں انجام دی ہیں جن میں کئی ایک افریقی ممالک کے تارکین وطن کی نگہداری کے ایک مرکز پر بمباری بھی شامل ہے جس میں درجنوں بے گناہ انسان جانبحق و زخمی ہوئے ہیں۔ اپنے ایک بیان میں بریگیڈیئر جنرل یحیی السریع نے تاکید کی کہ جارحیت و عام شہریوں کی ہلاکت کے جواب میں یمنی مسلح افواج نے طیارہ بردار امریکی بحری جہاز ٹرومین اور اس سے منسلک تمام جنگی بحری جہازوں پر تابڑ توڑ حملے کئے ہیں جبکہ یہ مزاحمتی کارروائیاں، یمنی بحریہ و ڈرون یونٹ نے مشترکہ طور پر انجام دیں۔ جنرل یحیی السریع کا کہنا تھا کہ ان مزاحمتی کارروائیوں میں گذشتہ چند گھنٹوں کے دوران دسیوں کروز و بیلسٹک میزائل اور ڈرون طیاروں کا استعمال کیا گیا ہے۔
یمنی مسلح افواج کے ترجمان نے اس بات پر بھی زور دیا کہ اس تصادم کا نتیجہ؛ طیارہ بردار امریکی بحری جہاز کی ذلت آمیز پسپائی اور اس کے اپنے سابقہ مقام سے بھی پیچھے ہٹتے ہوئے بحیرہ احمر کے شمالی ترین مقام کی جانب عقب نشینی ہے۔ بریگیڈیئر جنرل یحیی السریع نے کہا کہ جب تک کہ یمن کے خلاف جارحیت جاری رہے گی؛ یمنی مسلح افواج بھی بحیرہ احمر و بحیرہ مکران میں واقع طیارہ بردار امریکی بحری جہاز اور تمام دشمن جنگی جہازوں کو نشانہ بناتی اور ان کا تعاقب کرتی رہیں گی۔
انہوں نے زور دیتے ہوئے کہا کہ فلسطین کے مظلوم عوام اور اس کی غیور مزاحمت کی حمایت میں یمنی ڈرون یونٹ نے ایک فوجی آپریشن انجام دیا اور عسقلان کے مقبوضہ علاقے میں واقع غاصب و سفاک اسرائیلی دشمن کے ایک اہم ہدف پر یافا قسم کے ڈرون سے کامیابی کے ساتھ حملہ کیا ہے۔ اپنے بیان کے آخر میں یمنی مسلح افواج کے ترجمان نے بحیرہ احمر و مکران میں غاصب صیہونی رژیم کو جہاز رانی سے روکنے اور غزہ کی پٹی کی حمایت کے لئے مزاحمتی آپریشنز کے جاری رکھنے پر تاکید کی اور زور دیتے ہوئے کہا کہ جب تک غزہ کے خلاف جاری جارحیت بند اور اس کا غیر انسانی محاصرہ ختم نہیں ہو جاتا، غاصب و سفاک صیہونی رژیم کے اہم اہداف کے خلاف مزاحمتی کارروائیاں جاری رہیں گی!!
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: طیارہ بردار امریکی بحری جہاز یمنی مسلح افواج کے ترجمان جنرل یحیی السریع اور اس
پڑھیں:
امریکی صدر ٹرمپ کا پاک بھارت کشیدگی پر ردعمل سامنے آگیا
واشنگٹن:مقبوضہ کشمیر کے علاقے پہلگام میں ہونے والے واقعے کے بعد پاکستان اور بھارت کے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی پر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا ردعمل سامنے آ گیا ہے۔ امریکی صدر نے کہا ہے کہ دونوں ممالک کو چاہیے کہ وہ خود اس مسئلے کو حل کریں کیونکہ ان کے درمیان کشیدگی کوئی نئی بات نہیں۔
غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق صدر ٹرمپ نے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا، "پاکستان اور بھارت کسی نہ کسی طرح اس مسئلے کو خود ہی حل کر لیں گے۔ ان کے درمیان ہمیشہ سے بڑی کشیدگی رہی ہے۔" انہوں نے واضح کیا کہ وہ دونوں ممالک کے رہنماؤں کو جانتے ہیں مگر اس بات کی تصدیق نہیں کی کہ وہ ان سے براہ راست رابطہ کریں گے یا نہیں۔
مقبوضہ کشمیر کے پہلگام علاقے میں حالیہ حملے کے بعد خطے میں تناؤ میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔ یہ واقعہ گزشتہ بیس سالوں میں اپنی نوعیت کا بدترین واقعہ قرار دیا جا رہا ہے، جس میں 26 افراد ہلاک ہوئے۔ بھارت نے حملے کی ذمہ داری پاکستان پر عائد کی ہے جسے پاکستان نے مسترد کیا ہے۔
اس واقعے کے بعد دونوں ہمسایہ ممالک کے تعلقات میں مزید کشیدگی آ گئی ہے۔ بھارت نے سندھ طاس معاہدہ معطل کر دیا ہے جبکہ پاکستان نے بھارتی پروازوں کے لیے اپنی فضائی حدود بند کر دی ہیں۔ تجارتی تعلقات بھی متاثر ہو رہے ہیں۔
مزید پڑھیں: پہلگام واقعہ؛ بھارت پاکستان کی مخالفت میں جعلی تصاویر پھیلانے لگا
صدر ٹرمپ نے کہا، "ان دونوں ممالک کے درمیان 1500 سال سے کشیدگی چل رہی ہے تو آپ جانتے ہیں، یہ ہمیشہ سے رہا ہے۔" انہوں نے مزید کہا کہ وہ پاکستان اور بھارت، دونوں کے "بہت قریب" ہیں لیکن کشمیر کے تنازع پر ان کا براہ راست مداخلت کا کوئی ارادہ نہیں۔
امریکی محکمہ خارجہ کی ترجمان ٹیمی بروس نے بھی اس صورتحال پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ ایک تیزی سے بدلتی ہوئی صورتحال ہے اور ہم اس پر قریبی نظر رکھے ہوئے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ امریکا فی الحال کشمیر کی حیثیت پر کوئی واضح موقف اختیار نہیں کر رہا۔
اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس نے بھی موجودہ کشیدگی پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے دونوں ممالک سے زیادہ سے زیادہ تحمل کا مظاہرہ کرنے کی اپیل کی ہے۔
صدر ٹرمپ کے بیان سے یہ تاثر ملتا ہے کہ امریکا اس تنازعے میں ثالثی کی بجائے دونوں فریقین پر زور دے رہا ہے کہ وہ اپنے مسائل سفارتی اور پرامن طریقے سے خود حل کریں۔