دفاعی حکمت عملی کا مقصد مطلق فتح ہونا چاہیے، عدم تیاری خودکشی ہے، محمد یونس
اشاعت کی تاریخ: 30th, April 2025 GMT
بنگلہ دیش کے چیف ایڈوائزر پروفیسر محمد یونس نے جنگ کی بھاری قیمت اور امن برقرار رکھنے کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ دفاعی حکمت عملی کا مقصد مطلق فتح ہونا چاہیے۔
یہ بھی پڑھیں: دنیا کا سب سے بڑا مینوفیکچرنگ ملک بننا چاہتے ہیں، چیف ایڈوائزر بنگلہ دیش محمد یونس کا عزم
’آکاش بیجوئے 2025‘ مشق میں بنگلہ دیش ایئر فورس (بی اے ایف) کے اہلکاروں سے خطاب کرتے ہوئے محمد یونس نے کہا کہ ایک اسٹریٹجک اسٹریٹیجی ضروری دفاعی تیاری کے ساتھ ساتھ امن کو کو یقینی بناتی ہے۔
انہوں نے موجودہ معاشی کمزوریوں اور ماضی کے گورننس کے مسائل کو درست کرنے کی ضرورت پر روشنی ڈالی جنہوں نے ملک کی مالی حیثیت کو کمزور کیا۔
عالمی تنازعات کے خلاف اپنے مؤقف کے باوجود پروفیسر یونس نے موجودہ جغرافیائی سیاسی منظر نامے میں جنگ کے مستقل خطرے کو تسلیم کیا۔ انہوں نے ہندوستان اور پاکستان کے درمیان جاری کشیدگی کو نازک صورتحال کی مثال کے طور پر حوالہ دیا۔
مزید پڑھیے: محمد یونس کا ڈھاکہ اور بیجنگ کے مابین دوطرفہ تعلقات کو مضبوط بنانے کے عزم کا اعادہ
انہوں نے کہا کہ ہم ایک ایسی دنیا میں رہتے ہیں جہاں جنگ کا خطرہ ہمیں ہمیشہ گھیرے رکھتا ہے جس کے لیے تیاری ضروری ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ عدم تیاری خودکشی کے مترادف ہوتی ہے اور آدھی تیاری کی کوئی گنجائش نہیں۔
انہوں نے بی اے ایف پر زور دیتے ہوئے کہا کہ وہ تیاری کی اعلیٰ ترین سطح کو برقرار رکھے۔
پروفیسر یونس نے بی اے ایف کی مشق کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ اس کا مشاہدہ کرنے سے ملک کی دفاعی صلاحیتوں پر ان کے اعتماد کو تقویت ملی۔ انہوں نے بے اے ایف کی پیشہ ورانہ مہارت اور لگن کی تعریف کی۔
یہ مشق 23 اپریل کو شروع ہوئی تھی جس میں مختلف ہوائی جہاز، ریڈار اور دفاعی عناصر شامل تھے۔ اس موقعے پر دیگر سیکیورٹی ایجنسیوں کے نمائندوں نے بھی شرکت کی جنہوں نے جدید جنگ میں مشترکہ آپریشنز کی اہمیت کو اجاگر کیا۔
مزید پڑھیں: محمد یونس کا بنگلہ پاکستان تعلقات کو مضبوط بنانے کے لیے مذاکرات اور تجارت پر زور
فضائیہ کے سربراہ ایئر چیف مارشل حسن محمود خان نے پروفیسر یونس کی موجودگی پر شکریہ ادا کیا جس سے بی اے ایف کے اہلکاروں کے حوصلے میں نمایاں اضافہ ہوا۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
بنگلہ دیش بنگلہ دیش فضائیہ چیف ایڈوائزر محمد یونس.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: بنگلہ دیش بنگلہ دیش فضائیہ چیف ایڈوائزر محمد یونس محمد یونس بنگلہ دیش بی اے ایف انہوں نے یونس نے کہا کہ
پڑھیں:
ان خودکشیوں کا ذمے دار کون؟
ملک بھر میں خودکشیاں اب معمول سے بھی بڑھتی جا رہی ہیں اور آئے روز میڈیا پر پنجاب، سندھ اور خصوصاً دونوں بڑے صوبوں کے پس ماندہ اور غربت زدہ علاقوں میں مرد و خواتین کی خودکشیوں کی خبریں مسلسل آ رہی ہیں جن کی مختلف وجوہات تو ہیں مگر مہنگائی، بے روزگاری، بیماری اور مالی مشکلات کے باعث خودکشیوں میں اضافہ ہو رہا ہے۔
ملک میں خودکشیوں میں مہنگی بجلی فراہم کرنے والے اداروں اور ملک کے پولیس اور عدالتی معاملات و سماجی و حکومتی ناانصافیوں کا بھی دخل ہے مگر یہ ادارے اپنا کردار تسلیم نہیں کرتے نہ اپنے نظام کی کوتاہیوں کو تسلیم کرتے ہیں جس سے مجبور افراد مختلف طریقوں سے اپنی جانیں گنوا کر دنیا سے رخصت ہو جاتے ہیں مگر یہ نہیں سوچتے کہ ان کے اس انتہائی اقدام سے ان کے پس ماندگان پر کیا گزرے گی۔
گزشتہ دنوں کراچی کی ملیر جیل سے بڑی تعداد میں قیدی فرار ہو گئے تھے ان فرار ہونے والے قیدیوں میں ایک 25 سالہ قیدی بھی شامل تھا جس نے اس عارضی رہائی کے دوران خودکشی کر لی اور اس کا خود کشی سے قبل کا رضاکارانہ وڈیو بیان سامنے آیا تھا جس میں قیدی کا موقف تھا کہ ’’ مجھے رہائی دی جائے کیونکہ میں بے گناہ اور ناحق قید ہوں‘‘ مگر اس کی کس نے سننی تھی، کیونکہ اس پر تو جیل سے فرار کا ایک مزید مقدمہ بنتا تھا، اس لیے اپنی بے گناہی کا اس نے وڈیو بیان دیا اور موت کو گلے لگا لیا کہ خودکشی کے بعد اس پر جتنے مزید مقدمے درج ہونے ہیں ہوجائیں اس نے تو خودکشی کرکے جان چھڑا لی ۔
ہمارے ملکی قوانین میں اقدام خودکشی جرم ہے ، خودکشی جرم نہیں رہتی کیونکہ خودکشی کرنے والا دنیا میں رہتا ہی نہیں جب کہ اقدام خودکشی کا جرم کرنے والا بچ جاتا ہے یا بچا لیا جاتا ہے مگر قانون کی یہ ذمے داری نہیں ہے کہ وہ بچ جانے والے سے پوچھے کہ اس نے مرنے کی کوشش کیوں کی؟ اس انتہائی اقدام کی وجوہات کیا تھیں؟ اقدام خودکشی کرنے والے کی بدنصیبی کہ وہ زندہ بچ گیا ہے لیکن اب وہ قانون کے مطابق مجرم ہے اور اس نے جرم کی سزا بھگتنی ہے۔
ایسے بھی واقعات ہوتے ہیں جس میں بجلی کا بل جمع کرانے کی سکت نہ رکھنے والے نے خود کشی کرلی، کئی مقدمے کے ڈر سے موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔ سرکاری ملازمین یا عملہ کہہ دیتا ہے کہ قانون کے ڈر سیکسی کی خودکشی کے ہم ذمے دار نہیں۔ واقعی محکمہ تو ذمے دار نہیں ہوتا مگر ملازمین کے رویے اور اخلاقیات کو کون چیک کرتا ہے۔
ملک کی جیلوں میں کئی بے گناہ بھی قید ہوں اور ہزاروں ایسے ہوں گے جن کے جرم معمولی نوعیت کے ہیں لیکن وہ برسوں سے جیل میں پڑے ہیں۔ ہمارا نظام عدل بھی اس حوالے سے خاموش رہتا ہے۔
اس ملک میں ناانصافیوں، جھوٹے مقدمات اور تحقیقات، سرکاری اداروں میں ہونے والی ناانصافیوں، نجی اداروں کے ملازمین پر مظالم، وقت پر تنخواہ نہ ملنا، غیر قانونی برطرفیوں اور معاشرتی برائیوں کی وجہ سے بھی خودکشیاں بڑھ رہی ہیں۔ خودکشی کرنے والوں میں عام لوگ ہی نہیں بڑے نامور لوگ، اعلیٰ افسر بھی شامل ہیں۔
گزشتہ دور میں نیب کی چیرہ دستیوں، بے گناہوں کے خلاف جھوٹے مقدمات اور تحقیقات کے نام پر تذلیل کے باعث ایک ریٹائرڈ اعلیٰ فوجی افسر و دیگر افسران بھی خودکشیاں کرچکے ہیں جب کہ حالیہ تین سال سے نیب کے باعث کوئی خودکشی نہیں ہوئی، جو اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ ماضی میں نیب کے اقدامات غیر قانونی تھے۔
مہنگائی اور بے روزگاری نے گھریلو جھگڑوں، طلاقوں اور قتل کی وارداتیں بڑھائی ہیں اور گھریلو خواتین کی روز کے جھگڑوں، معاشرتی مسائل، شوہروں کے مظالم اور اولاد کی نافرمانیاں بھی خودکشیوں کی اہم وجہ ہیں۔ خواتین کو شوہروں کا تشدد بھی سہنا پڑتا ہے جس کی وجہ سے وہ اپنی اولاد کی محبت بھی بھول جاتی ہیں۔ گھروں میں بچوں کے لیے خوراک نہ ہونا، میاں بیوی کے جھگڑوں کا حل خواتین نے خودکشیوں میں تلاش کر لیا ہے۔
میڈیا کی خبروں کے مطابق خواتین ہی نہیں، مردوں نے بھی اپنے بچوں سمیت مختلف ذرایع سے اجتماعی خود کشیاں کی ہیں جس پر سماجی رہنماؤں کے افسوس کے بیانات آئے مگر حکومتوں نے کبھی کوئی بیان جاری کیا نہ لواحقین کی داد رسی کی۔ قدرتی آفات میں فوت ہونے والوں کی تو حکومت مالی امداد کر دیتی ہے مگر خودکشیوں کی کبھی حکومت نے وجوہات جاننے پر توجہ دی نہ خودکشی کرنے والوں کے لواحقین کے لیے کبھی سرکاری امداد کا اعلان ہوا۔
اسلامی حکومتوں میں سربراہ عام لوگ تو کیا کسی لاوارث کی موت کا بھی حکومت کو ذمے دار سمجھتے تھے مگر اب ہر ماہ خودکشیوں کے بڑے واقعات ہو رہے ہیں مگر حکمرانوں کے کانوں پر جوں بھی نہیں رینگتی جب کہ خودکشیوں کے ذمے دار مہنگائی اور بے روزگاری بڑھانے والے یہی حکمران ہیں۔
خودکشی کے رجحان کو روکنے کے لیے معاشرتی رویوں میں بھی تبدیلی لانے کی ضرورت ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ قوانین میں بھی اصلاحات کی ضرورت ہے۔ معمولی نوعیت کے جرائم جن میں چند ہفتوں کی قید اور جرمانہ شامل ہوتا ہے ‘کئی قیدی ایسے ہوتے ہیں جو جرمانہ نہیں دے سکتے اور جیل میں پڑے رہتے ہیں ‘اس کے علاوہ کئی قیدی ایسے ہیں جن کے کیس ہی نہیں چل رہے اور وہ بھی برسوں سے جیل میں موجود ہیں‘ ایسے لوگوں کی رہائی کے حوالے سے کوئی میکنزم ہونا چاہیے۔
جن پر چند ہزار روپے جرمانہ ہوتا ہے‘ اگر کوئی بندہ یہ جرمانہ ادا نہیں کر سکتا اور انتہائی غریب ہے تو اسی وقت اس کا جرمانہ بیت المال سے ادا کر کے اسے رہا کر دیا جائے‘اس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ ایک تو جیل پر بوجھ نہیں ہو تا دوسرا ممکن ہے وہ بندہ معاشرے میں جا کر کوئی کام دھندا کرنے لگے ‘اسی طرح جو طویل قید کاٹ رہے ہیں اور ان کے جرم ایسے ہیں جن میں سزا کی معاشی نہیں ہو سکتی تو ایسے قیدیوں کو کسی سرکاری تعمیراتی کام میں استعمال کیا جا سکتا ہے ‘اس طریقے سے وہ ملک و قوم کے لیے بھی فائدہ مند ہو گا اور اس کو اس کی مزدوری بھی ملتی رہے گی ‘اس پر قومی خزانے پر کوئی پیسہ خرچ نہیں ہو گا ۔حکومت اور ہمارے پارلیمنٹیرینز چاہیں تو اس حوالے سے قانون سازی کر سکتے ہیں۔