Express News:
2025-05-01@03:36:58 GMT

چین آج اور کل !

اشاعت کی تاریخ: 1st, May 2025 GMT

تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ قومیں کیسے بنتی ہیں، اللہ کریم بعض اقوام کو ایسے عظیم رہنما عطا کر دیتے ہیں جو ان کی تقدیر بدل کر رکھ دیتے ہیں، ایسے رہنما ہمہ وقت اپنی قوم کے ہر فرد کو عزم و استقلال ، حوصلہ اور قوت ارادی کے ساتھ آگے بڑھنے کی ہمت عطا کرتے ہیں اور ان کے لبوں پر فقط یہی پیغام ہوتا ہے کہ

تو اپنی سر نوشت خود اپنے قلم سے لکھ !

خالی رکھی ہے خامہ حق نے تری جبیں

زندہ قومیں ہمیشہ اپنے ماضی سے سیکھ کر اپنے حال کو سنوارتی ہیں اور مستقبل کی ترقی کے لیے اپنی راہوں کا تعین کرتی ہیں، ایسی ہی زندہ قوموں میں چینی قوم ہمیں سرفہرست نظر آتی ہے کیونکہ جہاں وطن عزیز پاکستان 1947 میں معرض وجود میں آیا وہاں عوامی جمہوریہ چین 1949 میں قائم ہوا لیکن ترقی و کامیابی کے عمل میں عوامی جمہوریہ چین نے انتہائی برق رفتاری سے اپنا سفر ترقی جاری رکھتے ہوئے اپنے کئی اہداف حاصل کیے ہیں اور آج وہی چین اقوام عالم میں خود کو ترقی پذیر ملک کہتے ہوئے بھی ترقی کی اوج ثریا پر نظر آتا ہے۔

 عوامی جمہوریہ چین کے آج اور کل کا احاطہ کرنے کے لیے علم و آگہی کے ساتھ تحقیق اور ادراک کا ہونا ضروری ہے اور یہ کام اتنا آسان بھی نہیں کہ جسے چند الفاظ میں بیان کر دیا جائے چنانچہ اس بھاری ذمے داری کو پاکستان کے ایک باہمت اور باعلم سپوت نے اپنے سر لیتے ہوئے اپنی ایک خوبصورت تصنیف "چین آج اور کل " میں چین کی مکمل تاریخ اور جدوجہد کا حتی المقدور احاطہ کر کے اقوام عالم کو عوامی جمہوریہ چین کا ایک روشن اور درخشندہ چہرہ دکھایا ہے۔

 یہ کتاب چین میں پاکستان کے مایہ ناز مورخ ،دانشور اور ماہر سماجیات و بشریات جناب شاہد افراز خان نے رقم کی ہے اور اس کتاب کی تقریب رونمائی انھی دنوں شہر اقتدار اسلام آباد میں ادارہ فروغ اردو زبان کے کانفرنس روم میں منعقد ہوئی جس میں وفاقی وزیر برائے آبی وسائل میاں محمد معین وٹو اور وزیر مملکت برائے قومی ورثہ و ثقافت ڈویژن حذیفہ رحمان سمیت ممتاز ماہرین تعلیم اور معروف دانشوروں نے شرکت کی اور اس مایہ ناز تصنیف کے حوالے سے سیر حاصل گفتگو کی ، اس موقع پر اس تصنیف "چین آج اور کل " کے خالق شاہد افراز خان نے اپنے پرمغز خیالات میں بتایا کہ دور اندیشی میں عوامی جمہوریہ چین اپنا ثانی نہیں رکھتا ، اس کی سوچ اور فکر آنے والے وقتوں کی ضرورتوں کا خوب ادراک رکھتی ہے۔

 آج 18 ٹریلین ڈالرز ذخائر رکھنے والا چین 80 کروڑ چینی عوام کو غربت کی لکیر سے نکالنے میں کامیاب ہو چکا ہے ، آج کا چین 500 بلین ڈالرز ترقیاتی کاموں پر خرچ کر رہا ہے ، اناج میں اس کی پیداوار 700 ارب کلوگرام سے تجاوز کر چکی ہے ، اس کی پالیسیوں میں تسلسل ہی اس کی ترقی کا ضامن ہے ، چین کے جس شعبہ کو بھی دیکھیں وہاں روز بروز ترقی و خوشحالی کا گراف بڑھتا دکھائی دیتا ہے ، شاہد افراز خان جو لگ بھگ دس سال سے عوامی جمہوریہ چین میں اپنی احسن خدمات انجام دے رہے ہیں اور چائنہ میڈیا گروپ سے وابستہ ہیں فرماتے ہیں کہ گزشتہ دس سال جو کہ چین کی شاندار اور درخشاں ترقی کی دہائی دے رہے ہیں۔

 اس دوران چین کے صدر شی جن پھنگ کی اصلاحات، عالمی برادری کے ساتھ شراکت داری و ہم نصیب معاشرہ کی تشکیل کے کئی اہم مراحل سے گزرتے ہوئے اس تمام جدوجہد میں آگے بڑھنے کا جذبہ اور جنون نظر آتا ہے ، جناب شاہد افراز ایک منجھے ہوئے براڈ کاسٹر ہونے کے ساتھ ساتھ ایک بلندپایہ محقق بھی ہیں جنھوں نے عوامی جمہوریہ چین کے تمام شعبوں کو قریب سے دیکھا ہے ، وہ فرماتے ہیں کہ 2015 میں جو ایک آلودہ ترین ملک سمجھا جاتا تھا آج بیجنگ کھلے ، خوبصورت اور جاذب نظر صاف ستھرے نیلے آسمان کا شہر کہلاتا ہے ،وہاں پینے کے صاف پانی کی فراہمی کے لیے پورے چین میں ایک ہی ٹھوس اور معیاری منصوبہ پورے چین کو پانی مہیا کیے ہوئے ہے ، انھوں نے کہا ہے کہ چینی اور پاکستانی عوام آہنی بھائی ہیں، پاک چین دوستی بلاشبہ ہمالہ سے بلند، شہد سے زیادہ میٹھی اور سمندروں سے زیادہ گہری ہے ، ہم بہت کچھ چین سے سیکھ سکتے ہیں، ہم اپنے تمام شعبہ ہائے زندگی میں انقلابی تبدیلیاں لانے کے لیے عوامی جمہوریہ چین سے بہت کچھ حاصل کر سکتے ہیں، سچ پوچھئے تو شاہد افراز خان کی تصنیف کا مطالعہ کرنے کے بعد عوامی جمہوریہ چین کے لیے فقط اتنا ہی کہہ سکتے ہیں کہ

نشاں یہی ہے زمانے میں زندہ قوموں کا!

کہ صبح و شام بدلتی ہیں جن کی تقدیریں

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: عوامی جمہوریہ چین شاہد افراز خان ا ج اور کل کے ساتھ ہیں اور ہیں کہ چین کے کے لیے

پڑھیں:

ٹرمپ کے دور صدارت کے 100 دن مکمل ہونے پر عوامی مقبولیت کا سروے جاری

امریکا کے 47ویں صدر ڈونلڈ ٹرمپ آج اپنے دورِ صدارت کے ابتدائی 100 دن مکمل ہونے کا جشن منارہے ہیں۔

ٹرمپ کی اس دوسری مدت صدارت کو امریکی تاریخ کے سب سے زیادہ متنازع اور دُوررس اثرات والا دورکہا جارہا ہے، تاہم رائے عامہ کے جائزے بتاتے ہیں کہ امریکی عوام اقتصادی و سیاسی عدم استحکام سے نالاں نظر آ رہے ہیں۔غیر ملکی خبررساں ایجنسی کے مطابق ٹرمپ اپنی حکومت کے 100 دن مکمل ہونے پر ریاست مشی گن میں ایک بڑے جلسے سے خطاب کریں گے۔ یہ ان سوئنگ اسٹیٹس میں سے ایک ہے جہاں گزشتہ نومبر کے انتخابات میں اُنہوں نے کملا ہیرس کو شکست دی تھی۔

مقبولیت میں کمی
ڈونلڈ ٹرمپ نے صرف چند مہینوں میں امریکی سیاست، معیشت اور خارجہ پالیسی کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ ابتدائی 100 دنوں میں ٹرمپ کے قریبی اتحادی اور ارب پتی ایلون مسک کی قیادت میں وفاقی اداروں کی افرادی قوت میں زبردست کمی کی گئی ہے جبکہ خود صدر ٹرمپ نے اتحادی ممالک کو تنقید کا نشانہ بنانے، غیر ملکی امداد تقریباً مکمل طور پر ختم کرنے اور درآمدی اشیا پر بھاری ٹیرف عائد کرنے جیسے اقدامات کیے ہیں۔

تازہ سروے کے مطابق صرف 39 فیصد امریکی صدر ٹرمپ کی کارکردگی سے مطمئن ہیں، یہ فروری میں ہونے والے سروے کے مقابلے میں 6 فیصد کی کمی ہے۔ خاص طور پر امیگریشن کے حوالے سے سخت اقدامات، جو ٹرمپ کی مقبول ترین پالیسی سمجھی جاتی تھی، اب عوامی ناپسندیدگی کا شکار ہیں اور بغیر عدالتی کارروائی کے ملک بدری جیسے اقدامات پر شدید تنقید کی جا رہی ہے۔

اے بی سی نیوز کے مطابق گزشتہ 80 سالوں میں کسی بھی صدر کے ابتدائی 100 دن کی کارکردگی کی مقبولیت کی یہ کم ترین شرح ہے۔ کم ترین مقبولیت کی شرح میں دوسرے نمبر پر بھی ٹرمپ ہی ہیں، ان کی پہلی مدت صدارت کے ابتدائی 100 دنوں میں مقبولیت بھی 42 فیصد تھی۔

ٹرمپ کا ردِعمل
صدر ٹرمپ نے ان سروے نتائج کو ’جعلی‘ قرار دیتے ہوئے اپنے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ٹروتھ سوشل پر لکھا ’ہم زبردست کام کر رہے ہیں، پہلے سے کہیں بہتر!‘۔

تاہم خود ٹرمپ بھی کچھ پالیسیوں میں نرمی لانے پر مجبور نظر آتے ہیں، خاص طور پر اس وقت جب اسٹاک مارکیٹ مسلسل مندی کا شکار ہے۔ ٹرمپ کے عہدہ سنبھالنے کے بعد سے امریکی اسٹاک مارکیٹ میں 6 فیصد سے زائد کمی دیکھی گئی ہے تاہم منگل کو مارکیٹ میں کچھ بہتری اس وقت آئی جب یہ خبر سامنے آئی کہ صدر ٹرمپ گاڑیوں کی صنعت پر لگائے گئے بعض بھاری ٹیرف کو کم کرنے پر غور کر رہے ہیں۔

اسی دوران ٹرمپ نے فیڈرل ریزرو کے چیئرمین جیروم پاول کو برطرف کرنے کی دھمکی سے بھی پیچھے ہٹنے کا عندیہ دیا ہے، پاول نے خبردار کیا تھا کہ ٹرمپ کے ٹیرف سے مہنگائی دوبارہ بڑھ سکتی ہے۔

صدر ٹرمپ کچھ اور تبدیلیاں بھی لے کر آئے ہیں، انہوں نے وائٹ ہاؤس کی مرکزی راہداری میں سابق صدر باراک اوباما کی تصویر ہٹا کر وہاں اپنی ایک پینٹنگ لگا دی ہے جس میں وہ اپنے اوپر ہونے والے قاتلانہ حملے سے بچ نکلتے دکھائے گئے ہیں۔

اس کے علاوہ ان لا فرمز پر بھی دباؤ ڈالا جا رہا ہے جن کے وکلا ماضی میں ٹرمپ کے خلاف مقدمات سے وابستہ رہے، ساتھ ہی ٹرمپ نے یونیورسٹیوں کی اربوں ڈالر کی فنڈنگ بھی منجمد کر دی ہے، جو اکثر ان کی حکومت پر تنقید کرتی ہیں۔

متعلقہ مضامین

  • ترقی میں اہم کردار ادا کرنیوالے محنت کشوں کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں، آصف علی زرداری
  • وفاقی وزیر احسن اقبال کی سیکریٹری جنرل ایگزیکٹو کونسل دبئی سے ملاقات،
  • ٹرمپ کے دور صدارت کے 100 دن مکمل ہونے پر عوامی مقبولیت کا سروے جاری
  • وزیرِ اعظم کی قیادت میں آئی ٹی سمیت دیگر شعبے ترقی کر رہے ہیں؛ وزیرِ آئی ٹی شزا فاطمہ
  • چین کے’’15 ویں پانچ سالہ منصوبے‘‘میں ملک کی معاشی و سماجی ترقی کی سائنسی طریقے سے منصوبہ بندی کرنا ہوگی، چینی صدر
  • پاکستانی قوم ہی بھارتی فوج کیلیے کافی ہے، جارحیت پر منہ توڑ دیں گے، عوامی رائے
  • رجب بٹ پر لندن میں مبینہ قاتلانہ حملہ ، یوٹیوبر نے ویڈیو جاری کر دی 
  • پی ٹی آ ئی کو عدالتی طوفان کا سامنا، ڈائیلاگ یا نااہلی کا راستہ رہ گیا،انصار عباسی نے اپنے کالم میں بتادیا
  • پاکستان معیشت کی بحالی اور ترقی کی راہ پر گامزن: وزیر خزانہ محمد اورنگزیب کا ہارورڈ کانفرنس میں خطاب