برکس ممالک طاقتور ممالک کو روکنے کے لیے واضح طور پر کھڑے ہوں، چینی وزیر خارجہ WhatsAppFacebookTwitter 0 1 May, 2025 سب نیوز


برا زیلیا :چین کے وزیر خارجہ وانگ ای نے برازیلیا میں قومی سلامتی کے امور کے   اعلیٰ سطحی  نمائندوں کے 15 ویں برکس اجلاس میں شرکت کی۔ برکس کے  قومی سلامتی کے امور کے لئے  اعلیٰ سطحی نمائندوں اور   سربراہوں نے اجلاس میں شرکت کی اور بین الاقوامی سلامتی، ثالثی اور تنازعات کی روک تھام کے ساتھ ساتھ انسداد دہشت گردی اور سائبر سیکورٹی کو برقرار رکھنے میں برکس ممالک کے کردار پر تفصیلی تبادلہ خیال کیا۔جمعرات کے روز وانگ ای نے کہا کہ بین الاقوامی سیاست کو  لین دین   بنانے اور بین الاقوامی تجارت کو ہتھیار بنانے اوربلیک میلنگ چپس کی تخلیق سے صرف ممالک کے درمیان اعتماد کا بحران مزید بڑھے گا اور عالمی سلامتی کے لئے حقیقی خطرہ بن جائے گا۔ رعایتوں سے بچ نکلنے کا کوئی راستہ نہیں ہے، اور اتحاد ہی واحد امید ہے.

سب سے پہلے، ہمیں ترقی کے حقوق کا محافظ بننا ہوگا۔ برکس ممالک خاموش بیٹھ کر اپنے جائز حقوق اور مفادات سے خود کو محروم ہوتے ہوئے نہیں دیکھ سکتے، انہیں طاقتور ممالک کو روکنے کے لیے واضح طور پر کھڑا ہونا چاہیے اور ترقی پذیر ممالک کے لیے ترقیاتی حقوق اور  دفاع کے لیے واضح موقف اختیار کرنا چاہیے۔دوسرا، ہمیں اتحاد اور تعاون میں رہنما بننا ہوگا۔ برکس ممالک کو ایک مثال قائم کرنی چاہیے، برابری اور احترام کی صداقت کے ساتھ دباؤ اور محاذ آرائی کو روکنا چاہیے اور یکجہتی اور تعاون کے وژن سے منافع کی لالچ کا مقابلہ کرنا چاہیئے۔تیسر۱،  ہمیں کثیرالجہتی کا محافظ بننا چاہیے۔

برکس ممالک کو کثیرالجہتی کے جھنڈے کو بلند رکھنا چاہئے، اقوام متحدہ کی مرکز  حیثیت پر مبنی  بین الاقوامی نظام کو برقرار رکھنا چاہئے  اور ڈبلیو ٹی او  کی مرکزی حیثیت   میں کثیر الجہتی تجارتی نظام کو تحفظ کرنا چاہیئے ، اور بین الاقوامی نظام کی ترقی کو زیادہ منصفانہ اور معقول سمت میں فروغ دینا چاہئے۔

روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔

WhatsAppFacebookTwitter پچھلی خبرپی ٹی آئی کا پاک بھارت کشیدہ صورتحال کے پیش نظر عمران خان کی رہائی کا مطالبہ چین کا نیا ترقیاتی ڈھانچہ – “100 ملین جوتوں” سے “ایک چپ” تک بڑی اسٹریٹجک منتقلی حکومت نے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کردی وفاقی حکومت کا بجٹ میں تنخواہ دار طبقے کو ریلیف دینے کا عندیہ اوگرا نے مئی کیلئے ایل پی جی کی قیمتوں میں کمی کر دی وائٹ پیپر’’نوول کورونا وائرس وباء کی روک تھام، کنٹرول اور وائرس کی ابتداء کا سراغ لگانے پر چین کے اقدامات اور موقف‘‘ کا اجراء امریکہ کی جانب سے بے جا محصولات پر چین نے پانچ سوالات اُٹھا دیئے TikTokTikTokMail-1MailTwitterTwitterFacebookFacebookYouTubeYouTubeInstagramInstagram

Copyright © 2025, All Rights Reserved

رابطہ کریں ہمارے بارے ہماری ٹیم

ذریعہ: Daily Sub News

کلیدی لفظ: کے لیے واضح برکس ممالک ممالک کو

پڑھیں:

ہم کہاں کھڑے ہیں؟

اسلام ٹائمز: ایسی بھی اطلاعات گردش کر رہی ہیں کہ اسرائیلی اسلحہ، جدید لیزر سسٹمز، بارودی جیکٹس اور ڈرونز کی ایک نئی کھیپ بلوچستان میں داخل ہونے کیلئے تیار کی جا چکی ہے۔ ادھر اسرائیلی تھنک ٹینک، خصوصاً میمری، "بلوچستان اسٹڈیز پروجیکٹ" جیسے عنوانات کے تحت پاکستان کیخلاف ایک نیا بیانیہ تشکیل دینے کی کوششوں میں مصروف دکھائی دیتے ہیں اور ہم کیا کر رہے ہیں؟ ہم محض اندرونی خلفشار میں اُلجھے ہوئے ہیں۔ کبھی سیاسی جوڑ توڑ، کبھی وزارتوں کی بندربانٹ، کبھی مفاد پرستانہ فیصلے اور کبھی ناقابلِ فہم بیانات۔ تحریر: ارشد مہدی جعفری

دنیا بدل رہی ہے۔ ہتھیاروں کے نقوش بدل چکے ہیں اور اب جنگ صرف بارود یا بندوق سے نہیں بلکہ مصنوعی ذہانت، ڈرون، الیکٹرانک وارفیئر اور راڈار سے بچاؤ کی صلاحیت سے لڑی جا رہی ہے۔ میدانِ جنگ کے خدوخال میں نئی لکیریں کھنچ رہی ہیں اور اُن کے گرد تیاریاں تیزی سے ہو رہی ہیں۔ کہیں اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری ہو رہی ہے، کہیں ہائبرڈ وار کے نقشے بن رہے ہیں اور کہیں نئی جنگی اتحاد جنم لے رہے ہیں۔ جرمنی میں ایئربس، کریٹوس اور رائن میٹل جیسے صنعتی جنات طویل فاصلے تک مار کرنیوالے ڈرونز پر کام کر رہے ہیں۔ لتھوانیا جیسے چھوٹے ملک نے یوکرین کیلئے پیٹریاٹ ایئر ڈیفنس سسٹم کیلئے 3 کروڑ یورو کا عطیہ دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ پولینڈ روس کے خوف سے 2026ء تک اپنی جی ڈی پی کا 5 فیصد دفاع پر خرچ کرے گا اور امریکہ سے 15 ارب ڈالر کے ہتھیار خریدنے کا معاہدہ کرچکا ہے۔ چین خلیج تائیوان میں اپنی فضائی طاقت کا مظاہرہ کر رہا ہے۔ تھائی لینڈ اور کمبوڈیا کے مابین سرحدی کشیدگی میں یوکرینی بکتر بند گاڑیاں شامل ہوچکی ہیں۔ ترکی اور انڈونیشیا کے درمیان دس ارب ڈالر کا پانچویں نسل کے لڑاکا طیاروں کا معاہدہ ہوچکا ہے، ترکی الیکٹرو میگنیٹک-لیزر ہتھیار "الکا-کپلن" کے ذریعے ڈرونز کو تباہ کرنے کی صلاحیت حاصل کرچکا ہے۔ بھارت اپنی میزائل ٹیکنالوجی میں نئی سطحوں پر پہنچ چکا ہے اور ایران بین الاقوامی پابندیوں کو مات دیتے ہوئے پانچ بوئنگ 777 طیارے خفیہ طریقوں سے اپنے بیڑے میں شامل کرچکا ہے۔

ادھر پاکستان بھی خاموش نہیں رہا۔ گلوبل انڈسٹریل اینڈ ڈیفنس سلوشنز کا تیار کردہ "تیمور" کروز میزائل جدید رہنمائی کے نظام، اسٹیلتھ ٹیکنالوجی اور طویل فاصلے کی صلاحیت کیساتھ خطے میں ایک متوازن قوت کا پیغام بن چکا ہے۔ جے ایف 17 تھنڈر پر نصب ہونیوالا یہ میزائل دشمن کے ایئر ڈیفنس نظام کو چکمہ دے کر ہدف کو کامیابی سے نشانہ بنا سکتا ہے۔ یہ پاکستان کی فضائی صلاحیت میں ایک سنگِ میل ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ یہ تمام تیاری کس کیلئے ہے۔؟ کیا ہم نے اپنی جنگی حکمتِ عملی کو عوامی فلاح اور قومی استحکام کے تابع کر دیا ہے یا صرف دکھاوے اور عالمی منظرنامے پر چند لمحاتی واہ واہ کیلئے ان پراجیکٹس کو اجاگر کر رہے ہیں۔؟ کیونکہ دوسری طرف تصویر کا ایک ایسا رخ بھی ہے، جسے دیکھنے کے بعد دل اضطراب میں مبتلا ہو جاتا ہے۔ ذرائع کے مطابق" یا "بعض غیر مصدقہ اطلاعات کے مطابق" کہنے والے حلقے دعویٰ کرتے ہیں کہ 23 جولائی کی شب مسقط میں اترنے والا گلف اسٹریم جی 550 طیارہ مبینہ طور پر اسرائیلی خفیہ ادارے موساد کے ایک سینیئر افسر، کرنل اییال فروسٹ، کو لے کر آیا تھا۔ کہا جا رہا ہے کہ یہی شخصیت "آپریشن بادیہ گرگ" کی منصوبہ بندی کے مرکزی کرداروں میں شامل ہے اور اس کے حالیہ دورے کا مقصد دوحہ میں بلوچستان سے متعلق شورش کے ایک نئے فیز کو ترتیب دینا تھا۔

ایسی بھی اطلاعات گردش کر رہی ہیں کہ اسرائیلی اسلحہ، جدید لیزر سسٹمز، بارودی جیکٹس اور ڈرونز کی ایک نئی کھیپ بلوچستان میں داخل ہونے کیلئے تیار کی جا چکی ہے۔ ادھر اسرائیلی تھنک ٹینک، خصوصاً میمری، "بلوچستان اسٹڈیز پروجیکٹ" جیسے عنوانات کے تحت پاکستان کیخلاف ایک نیا بیانیہ تشکیل دینے کی کوششوں میں مصروف دکھائی دیتے ہیں اور ہم کیا کر رہے ہیں۔؟ ہم محض اندرونی خلفشار میں اُلجھے ہوئے ہیں۔ کبھی سیاسی جوڑ توڑ، کبھی وزارتوں کی بندربانٹ، کبھی مفاد پرستانہ فیصلے اور کبھی ناقابلِ فہم بیانات۔ وہ سیاستدان جو خود کو قومی لیڈر کہتے ہیں، ان کے کاروبار بیرونِ ملک، جائیدادیں محفوظ اور نظریہ مفاد پر مبنی ہے۔ ریاستی وسائل چند خاندانوں کی بقا کیلئے وقف ہوچکے ہیں۔ اسی پس منظر میں محسن نقوی جیسے کردار سامنے آتے ہیں۔ کبھی وہ یہ کہہ کر حیران کرتے ہیں کہ "بلوچستان تو ایک ایس ایچ او کی مار ہے" اور اب اعلان کیا جا رہا ہے کہ عراق میں چہلم کیلئے جانیوالے زائرین کو بائی روڈ سفر سے روکا جائے گا، کیونکہ پاکستان سے روانگی محفوظ نہیں۔ یعنی، زمینی راستے سے جانیوالوں کی زندگی کی ضمانت نہیں، ایئرلائنز کا راستہ ہی واحد آپشن بچا ہے۔

یہ کون سی ریاستی پالیسی ہے۔؟ کیا ہم واقعی اپنی سکیورٹی میں اتنے کمزور ہوچکے ہیں کہ اپنے ہی ملک سے نکلنے والوں کو تحفظ نہیں دے سکتے؟ اور کیا ریاستی نااہلی کو عوام کی جیب پر ڈال کر، انہیں ہوائی سفر کے اخراجات میں جکڑ دینا مسئلے کا حل ہے۔؟ یہ فیصلہ کسی ایک مذہبی طبقے یا گروہ سے متعلق نہیں، یہ ایک ریاستی رویہ ہے، جس پر غیر جانبدار ہو کر سوال اٹھانا ضروری ہے۔ ایسا نہیں کہ ہم کسی خاص فقہ یا گروہ کے ہمدرد ہیں۔ ہمارا نقطۂ نظر صرف اتنا ہے کہ قومی پالیسیاں شخصی مفاد، مالی کمائی یا وقتی دباؤ کے تحت نہیں بننی چاہئیں۔ یہ قومی وقار، عوامی اعتماد اور ریاستی بیانیے کے تحت بننی چاہئیں۔ کیونکہ دنیا جنگ کی تیاری کر رہی ہے۔ پولینڈ کو نیٹو نے خبردار کیا ہے کہ روس 2027ء تک یورپی سرزمین پر لڑائی کے لیے تیار ہو جائے گا۔ امریکہ کے ’’آر سی 135 ایس‘‘ کوبرا بال، طیارے پاکستان اور ایران کے بیلسٹک میزائلوں پر نظر رکھے ہوئے ہیں۔ خلیج تائیوان پر چینی جنگی طیارے خوف کی لہر دوڑا چکے ہیں۔ موساد بلوچستان کی زمین پر اپنے پنجے گاڑنے کو تیار ہے اور ہم ابھی تک اس بحث میں الجھے ہوئے ہیں کہ لوگ بائی روڈ جائیں یا بائی ایئر۔؟

یہ وقت ہے کہ ہم اپنی ترجیحات درست کریں۔ یہ وقت ہے کہ ہم دنیا کو بتائیں کہ پاکستان صرف دفاعی ہتھیار بنانے والا ملک ہی نہیں بلکہ اپنے عوام، اپنی سرزمین اور اپنے بیانیے کا بھی محافظ ہے۔ بصورت دیگر، ہم عالمی منظرنامے میں محض ایک تضاد بن کر رہ جائیں گے۔ ایک طرف پانچویں نسل کے لڑاکا طیاروں کی تیاری حتمی مراحل میں داخل ہوچکی ہے، "تیمور" کروز میزائل دشمن کیلئے حیرت کا باعث بن چکا ہے، لیکن دوسری طرف بلوچستان سے ایران جانیوالے زائرین کیلئے محفوظ زمینی سفر کی ضمانت نہیں دی جا رہی۔ کیا یہ تضاد نہیں۔؟ حالیہ فیصلے کے تحت یہ طے پایا ہے کہ ان زائرین کو صرف ہوائی راستے سے سفر کی اجازت دی جائے گی، کیونکہ زمینی راستہ مبینہ طور پر محفوظ نہیں۔ سوال یہ ہے کہ جو لوگ محرم کے تقدس میں بھی ایران اسرائیل کشیدگی کی وجہ سے اپنے مذہبی جذبات کی تسکین نہ کرسکے، وہ اب چہلم کے موقع پر ایک بار پھر سے آمادۂ سفر ہیں۔۔۔۔ تو ایسے میں ریاستی سطح پر ان کیلئے زمینی سفر بند کر دینا آخر کس منطق کے تحت کیا گیا ہے۔؟
 
اگر اس فیصلے کیخلاف ردعمل میں ان حلقوں کی جانب سے دھرنوں یا احتجاجی مظاہروں کی کال دی گئی، تو کیا یہ ریاست کے لیے ایک نیا بحران نہیں ہوگا۔؟ کیا ریاست پاکستان دھرنوں اور لانگ مارچ کی سیاست کو معمول کا حصہ سمجھنے لگی ہے۔؟ جہاں ایک طرف جماعت اسلامی لانگ مارچ  کر رہی ہے، وہیں اگر زائرین بھی سڑکوں پر نکل آئے، تو یہ نہ صرف داخلی استحکام کیلئے چیلنج ہوگا بلکہ عالمی منظرنامے میں پاکستان کے وقار کو بھی مجروح کرسکتا ہے۔ یہ بات طے ہے کہ ان ممکنہ بحرانوں کی اصل وجہ عوام نہیں بلکہ وہ پالیسی ساز ہیں، جو غیر سنجیدہ، عارضی اور وقتی فیصلوں کے ذریعے ملک کو داخلی اور خارجی سطح پر کمزور کر رہے ہیں۔ ریاست کو یہ واضح کرنا ہوگا کہ آیا وہ صرف ایئرلائنز کی سہولت کار ہے یا ایک خود مختار، خوددار اور باوقار ریاست۔ جنگ صرف ہتھیاروں سے نہیں بلکہ بیانیے سے جیتی جاتی ہے اور بدقسمتی سے ہمارا بیانیہ اس وقت سخت بحران میں ہے۔

متعلقہ مضامین

  • چین اور امریکہ کو مشاورت کے لیے مزید چینلز قائم کرنے چاہئیں، چینی وزیر خارجہ
  • پاکستان نے ایک بار پھر خود کو خلائی ترقی یافتہ ممالک کی صف میں برقرار رکھا، ترجمان دفتر خارجہ
  • فلسطین،کشمیر کے حل کیلئے قراردادوں پر عمل کیا جانا چاہیے: ایاز صادق
  • تائیوان انتظامیہ کی “علیحدگی ” پر مبنی اشتعال انگیزی کبھی کامیاب نہیں ہوگی، چینی  وزارت خارجہ
  • ہم کہاں کھڑے ہیں؟
  • پاکستان کا اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل سے مسئلہ جموں و کشمیر پر مؤثر اقدام کا مطالبہ
  • عمران خان کے بیٹوں کو پاکستان آنے سے روکنے پر وزیر دفاع خواجہ آصف کا بیان سامنے آگیا
  • چین بحیرہ جنوبی چین کے معاملے کو فوجی اتحاد مضبوط کرنے کے بہانے کے طور پر استعمال کرنے کی مخالفت کرتا ہے، چینی وزارت خارجہ
  • چینی صدر کی سیلاب پر قابو پانے اور قدرتی آفات سے نمٹنے کے امور پر اہم ہدایات
  • غزہ کی صورتحال انسانیت کے ماتھے پر بدنماء داغ ہے، ناروے