پاکستان کا مالی سال 26-2025 کا بجٹ آئندہ ماہ پیش کیا جائے گا بجٹ کیلیے دودھ، دواؤں اور اسٹیشنری سے متعلق تجاویز سامنے آ گئی ہیں۔

وفاقی بجٹ برائے سال 26-2025 آئندہ ماہ جون میں پیش کیا جائے گا۔ اس بجٹ میں اسٹیشنری، دودھ اور دواؤں پر ٹیکس رعایت دینے کی تجاویز دی گئی ہیں۔ایف بی آر ذرائع کے مطابق آئندہ بجٹ میں ڈیری ملک پر سیلز ٹیکس کو 18 فیصد سےکم کر کے 10 سے 12 فیصد کیا جا سکتا ہے۔

دوسری جانب قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کا اجلاس نوید قمر کی زیر صدارت اجلاس میں چیئرمین ایف بی آر راشد محمود نے بتایا کہ آئندہ مالی سال 2025-26 کیلیے بجٹ اہداف مشکل ہوں گے۔ آئی ایم ایف پروگرام میں رہتے ہوئے ٹیکس چھوٹ یا رعایت دینا مشکل ہے۔اجلاس میں بینکوں پر عائد ٹیکس کو بل کا حصہ بنانے کی منظوری دی گئی جس کے تحت ایڈوانس ڈپازٹ ریشو کو ختم کر کے 99 ڈی ٹیکس عائد کیا گیا ہے۔

اجلاس میں وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے کمیٹی کو بریفنگ دیتے ہوئے بتایا کہ آئی ایم ایف اور عالمی بینک کی سالانہ میٹنگز کے دوران پاکستان کے معاشی استحکام کو سراہا گیا ہے جب کہ چین، سعودی عرب، امریکی انتظامیہ اور یو اے ای نے معاشی تعاون کی یقین دہانی کرائی ہے۔ان کا کہنا تھا کہ آئی ایم ایف پروگرام آخری بنانے کیلیے اسٹرکچرل اصلاحات پر عملدرآمد ناگزیر ہے۔ آئندہ بجٹ پر 95 فیصد تجاویز چیمبرز موصول ہو چکی ہیں، جن کا جائزہ لیا جا رہا ہے۔ ٹیکس پالیسی کو معاشی گراؤنڈ کے مطابق بنایا جا رہا ہے۔

.

ذریعہ: Daily Ausaf

پڑھیں:

یوکرین کے لوگ ٹرمپ کے امن منصوبے کے متعلق کیا سوچتے ہیں؟

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 30 اپریل 2025ء) کیا یوکرین تنازع کے پرامن خاتمے کے لیے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی تجویز روس کے مفاد میں زیادہ ہے؟ ایگزیوس نیو‍ز پلیٹ فارم اور دیگر مغربی میڈیا اداروں کا کہنا ہے کہ ٹرمپ کے امن منصوبے میں یوکرین کے جزیرہ نما کریمیا پر ماسکو کے غیر قانونی کنٹرول کو تسلیم کرنا شامل ہے، جسے روس نے الحاق کرلیا تھا- اور ساتھ ہی ساتھ یوکرین کے لوہانسک، ڈونیٹسک اور زاپوریژیا کے علاقوں پر ماسکو کے حالیہ قبضے کو بھی تسلیم کرنا شامل ہے۔

یوکرین جنگ: زیلنسکی امن معاہدے میں رخنہ ڈال رہے ہیں، ٹرمپ

ٹرمپ کی تجویز میں یہ وعدہ بھی شامل ہے کہ یوکرین نیٹو کا رکن نہیں بنے گا لیکن ممکنہ طور پر یورپی یونین میں شامل ہو سکتا ہے۔

(جاری ہے)

اس میں 2014 سے روس پر عائد پابندیاں اٹھانے کے ساتھ ساتھ امریکہ کے ساتھ اقتصادی، بالخصوص توانائی اور صنعتی شعبوں میں، تعاون کو فروغ دینے کا بھی تصور پیش کیا گیا ہے۔

ایگزیوس کے مطابق، ٹرمپ کے منصوبے میں یوکرین کے فرنٹ لائنز کو منجمد کرنا اور یوکرین کی حفاظت کی ضمانت دینا شامل ہے۔ تاہم، ابھی تک اس بارے میں کوئی تفصیلات نہیں دی گئی ہیں کہ ان ضمانتوں میں کیا چیزیں شامل ہوں گی۔ یوکرین کو روس کے زیرقبضہ خارکیف علاقے کے ایک چھوٹے سے حصے کی واپسی کی پیشکش کی جائے گی اور اس کے جہازوں کو دریائے ڈنیپرو میں بغیر کسی رکاوٹ کے گزرنے کی اجازت دی جائے گی، جو یوکرین کے جنوبی فرنٹ لائن کے ساتھ لگتا ہے۔

تلخ بحث کے بعد ٹرمپ اور زیلنسکی کی اولین ملاقات

جب میڈیا آؤٹ لیٹس نے ٹرمپ کے منصوبے کی تفصیلات ظاہر کیں تو یوکرین کے صدر وولودیمیر زیلنسکی نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ یوکرین کریمیا پر روس کے قبضے کو تسلیم نہیں کرے گا۔ یوکرین کی نائب وزیر اعظم اور وزیر اقتصادیات جولیا سویریڈینکو نے سوشل میڈیا پر ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے لکھا، "یوکرین مذاکرات کے لیے تیار ہے، لیکن ہتھیار ڈالنے کے لیے نہیں۔

" امریکی صدر ٹرمپ نے بدلے میں کہا کہ زیلنسکی کے کریمیا کےمتعلق تبصرے نے مذاکرات کو "پیچیدہ" کر دیا ہے اور یوکرین کو "خوفناک" صورتحال کا سامنا ہے۔ یوکرین کی اصل صورتحال کیا ہے؟

یوکرین سینٹر فار سکیورٹی اینڈ کوآپریشن نامی تھنک ٹینک کی سربراہ سرہی کوزان نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ یوکرین کا نقطہ نظر اتنا برا نہیں جتنا ٹرمپ سوچتے ہیں۔

"یوکرین کی مسلح افواج محاذ کے ساتھ کچھ حصوں میں حکمت عملی سے کامیابیاں حاصل کر رہی ہیں، ملک کی اسلحہ سازی کی صنعت بڑھ رہی ہے، اور یوکرین کے یورپی شراکت دار اس کی حمایت اور مدد کر رہے ہیں۔ ہماری صورت حال ایک سال پہلے کی بہ نسبت بہت بہتر ہے۔"

اس کے باوجود، کوزان نے اعتراف کیا کہ روس نے میدان جنگ میں بھی حکمت عملی سے کامیابیاں حاصل کی ہیں، کچھ پیش قدمی کی ہے اور ملک کے مشرق میں یوکرین کے چند چھوٹے شہروں پر قبضہ کر لیا ہے۔

کوزان نے کہا کہ تاہم اس میں سے کوئی بھی اسٹریٹیجک اہمیت کا حامل نہیں تھا۔

یوکرین جنگ: کُروسک کو مکمل طور پر آزاد کرا لینے کا روسی دعویٰ

کوزان نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، "روس یہ دعویٰ کرتا ہے کہ ہمارا دفاع تباہ ہو رہا ہے اور وہ پورے یوکرین پر قبضہ کر لیں گے۔" لیکن "ان کے پاس اس کے لئے ضروری فوج نہیں ہیں۔"

یوکرینی تھنک ٹینک پرزم کی ہانا شیلسٹ کا خیال ہے کہ جب بھی امریکی صدر ٹرمپ کے خصوصی ایلچی اسٹیو وٹکوف ماسکو سے واپس آتے ہیں تو وہ صورت حال کا "روسی ورژن" پیش کرتے ہیں، جس کے مطابق روس زیادہ مضبوط ہے اور یوکرین سے زیادہ دیر تک جنگ جاری رکھ سکتا ہے، جو کہ سمجھا جاتا ہے کہ کمزور ہے اور کسی کو اس کی ضرورت نہیں ہے۔

شیلسٹ نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، "اسی لیے ٹرمپ کو پختہ یقین ہے کہ وہ یوکرین کے لیے کچھ اچھا کر رہے ہیں۔" اسی وجہ سے وہ وائٹ ہاؤس جانے والے اور ٹرمپ سے ملنے والے ہر شخص سے یوکرین کے نقطہ نظر کی وضاحت کرنے پر زور دیتی ہیں۔

یوکرین کا مستقبل کیا ہے؟

مبصرین اس بات پر متفق ہیں کہ کریمیا کو قانونی طور پر روسی سرزمین کے طور پر تسلیم کرنے کی ٹرمپ کی تجاویز کو بڑے پیمانے پر مسترد کر دیا جائے گا۔

جب یوکرین کو نیٹو میں شامل ہونے سے روکنے کی بات آتی ہے تو صورتحال مزید پیچیدہ ہوجاتی ہے۔

روس عارضی جنگ بندی کا جھوٹا تاثر پیش کر رہا ہے، زیلنسکی

شیلسٹ نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، "یوکرین پر نیٹو میں شمولیت سے باز رہنے کے لیے دباؤ ڈالا جائے گا۔" انہوں نے کہا،"یہ ہمارے لیے بہتر ہوگا اگر یہ سوال کھلا رہے۔ اگر یہ واضح طور پر نہیں کہا جاتا کہ یوکرین کو نیٹو میں شامل ہونے کا حق حاصل ہے، تو کوئی بھی غیر سرکاری طور پر یوکرین کی رکنیت کا وعدہ کر سکتا ہے، جس پر فوری طور پر عمل نہیں ہو گا۔

جب کہ واشنگٹن اور ماسکو کی سیاسی صورت حال بھی کسی وقت بدل سکتی ہے۔"

اس دوران یوکرین کے ماہر سیاسیات وولودیمیر فیسنکو کا خیال ہے کہ امریکہ غلط راستے پر گامزن ہے کیونکہ وہ یوکرین پر اہم رعایتیں دینے کے لیے دباؤ ڈال رہا ہے اور روس کو ایڈجسٹ کر رہا ہے۔ حالانکہ فیسینکو کا کہنا ہے کہ ٹرمپ کیا سوچتے ہیں اس سے قطع نظردونوں متحارب فریق فرنٹ لائنز پر یکساں طور پر مضبوط نظر آتے ہیں۔

فیسنکو کا کہنا ہے کہ چونکہ امریکہ اب تک یوکرین کو ایک ناموافق امن معاہدے پر مجبور کرنے میں ناکام رہا ہے، اس لیے واشنگٹن مزید سازگار لمحہ پیدا ہونے تک مذاکرات سے وقفہ لینے کی کوشش کر سکتا ہے۔ "یہ ہمارے لیے برا ہے، لیکن یقینی طور پر کریمیا کو روسی علاقہ تسلیم کرنے سے زیادہ برا نہیں، کیونکہ اس کے بعد جو کچھ ہو گا وہ اس سے بھی بدتر ہوگا: مزید علاقے اور مزید مطالبات ہوں گے۔

"

اس دوران کییف کے میئر وٹالی کلِسکو نے برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی کو بتایا کہ یوکرین کو اپنے علاقے کو روس کے حوالے کرنے کی ضرورت پڑ سکتی ہے۔ ممکنہ تصفیہ کے بارے میں کافی بحث ہو رہی ہے۔ کلِسکو نے کہا، "ان میں سے ایک علاقہ سے دست برداری ہے۔ حالانکہ یہ غیر منصفانہ ہے لیکن امن کی خاطر، ایک عارضی امن کی خاطر، یہ شاید ایک عارضی حل ہو سکتا ہے۔"

کلسکو نے مزید کہا کہ یوکرین کے صدر زیلنسکی کو "تکلیف دہ فیصلہ کرنے پر مجبور کیا جا سکتا ہے" کیونکہ امریکی صدر ٹرمپ یوکرین پر دباؤ بڑھا رہے ہیں۔

ج ا ⁄ ص ز (لیلیا رزیوتسکا)

یہ مضمون پہلی بار یوکرینی زبان میں شائع ہوا تھا۔

متعلقہ مضامین

  • خالد حسین مگسی کی زیرصدارت اعلیٰ سطحی اجلاس،وزارتِ سائنس و ٹیکنالوجی کے جاری اور آئندہ ترقیاتی منصوبوں کا جائزہ لیا گیا
  • پاکستان سے اونٹنی کے دودھ کا پاؤڈر چین کو برآمد، اہم معاشی سنگِ میل
  • قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی کا اجلاس، بینکوں پر عائد ٹیکس کو بل کا حصہ بنانے کی منظوری
  • بجٹ میں دودھ، ادویات اور اسٹیشنری پر عائد ٹیکس کی شرح کم کیے جانے کا امکان
  • خدشہ ہے کہ آئندہ 2 سے 3 دنوں میں پاکستان اور بھارت کے درمیان جنگ چِھڑ جائے گی، خواجہ آصف
  • عوام بجلی کی قیمتوں سے متعلق اچھی سنیں گے،وزیر خزانہ 
  • یوکرین کے لوگ ٹرمپ کے امن منصوبے کے متعلق کیا سوچتے ہیں؟
  • آئندہ 5 برسوں میں روبوٹس انسانی سرجنز کو پیچھے چھوڑ دیں گے، ایلون مسک کا دعویٰ
  • آئندہ 15 روز کیلئے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں برقرار رہنے کا امکان