بھارت پاکستان کا پانی نہیں بند کرسکتا، ہمت ہے تو بند کرکے دکھائے، پاکستانی شہری
اشاعت کی تاریخ: 3rd, May 2025 GMT
جب سے بھارت کی جانب سے سندھ طاس معائدہ معطل کرنے کے بعد پاکستان کے پانی کی بندش کی بازگشت ہو رہی ہے تب سے پاکستان میں اس حوالے سے تشویش بھی پائی جا رہی ہے اور غور بھی ہو رہا ہے سوچا جا رہا ہے کہ واقعی اگر بھارت نے پانی روک دیا تو ہمارے پاس اس کے توڑ کے لیے ہوگا؟
جیسا کہ سندھ میں اس سے قبل چھ کنال معاملے پر عوام کا شدید ردعمل سامنے آیا تھا اس سے ظاہر یہ ہوتا ہے کہ سندھ اس وقت پانی کی کسی قسم کی کمی برداشت نہیں کر پا رہا اور اگر بھارت پانی روکتا ہے تو سندھ کے عوام اس پر کیا کہیں گے وی نیوز نے یہ جاننے کے لیے جب شہریوں سے بات کی تو شہریوں کے بہت دلچسپ تبصرے سننے کو ملے۔
مزید پڑھیں: سندھ طاس معاہدے پر بھارتی رویہ ناقابل قبول ہے، وزیر اعظم کی اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل سے گفتگو
ایک شہری کا کہنا تھا کہ بھارت تو بعد میں پانی بند کرے گا یہاں پیپلز پارٹی پہلے ہی تباہی مچا چکی ہے، ایک شہری کا کہنا تھا کہ بھارت کبھی حملہ نہیں کرسکتا یہ سب مودی کی بھڑکیاں ہیں، ایک شہری نے تو یہاں تک کہ دیا کہ اگر ایسا ہوا تو بندوں کو میزائل مار کر توڑ دینا چاہیے کیوں کہ پانی کوئی کسی کا نہیں بند کر سکتا اگر ہمت ہے تو بند کرکے دکھا دیں۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
بھارت پاکستان پانی سندھ طاس معاہدہ.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: بھارت پاکستان پانی سندھ طاس معاہدہ
پڑھیں:
بھارت پہلگام کی آڑ میں پاکستان کا سارا پانی بند کرنے کی خواہش رکھتا ہے، ڈاکٹر محمد بشیر لاکھانی
سندھ طاس معاہدے کی بھارت کی جانب سے معطلی کے بعد سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ کیا بھارت پاکستان کے حصے میں آنے والے 3 دریاؤں سندھ، جہلم اور چناب پر کنٹرول حاصل کر سکتا ہے اور اگر ایسا ہوا تو پاکستان کے پاس کیا آپشنز بچتے ہیں؟
اس صورت حال پر واٹر ریسورسز میں ڈاکٹریٹ رکھنے والے ماہر محمد بشیر لاکھانی نے وی نیوز سے بات چیت میں بہت سی ان باتوں سے پردہ اٹھایا جن سے ان کے مطابق اس معاہدے کے بعد پاکستان کو نقصان ہوا۔
ڈاکٹر محمد بشیر لاکھانی بتاتے ہیں کہ 1961 میں ہونے والا سندھ طاس معاہدہ پاکستان میں پانی کے ماہرین کی رائے کے خلاف ہوا تھا جس کے نتیجے میں پاکستان کو 3 دریاؤں سے محروم ہونا پڑا، یہ دریا جنوبی اور وسطی پنجاب کے کام آتے تھے۔
ڈاکٹر محمد بشیر لاکھانی کے مطابق دنیا کا اصول ہے کہ نیچے رہنے والے خطے پانی کا پورا حق رکھتے ہیں اور اوپر رہنے والا علاقہ ان سے پانی کا حق نہیں چھین سکتا لیکن اس وقت یہ تسلیم کر لیا گیا تھا کہ 3 دریا بھارت اور 3 پاکستان کے حصے میں آئیں گے، ان کا مزید کہنا تھا کہ سندھ طاس معائدے کے نتیجے میں ہمیں ورلڈ بنک کی جانب سے یہ لالی پاپ دیا گیا کہ ہم دستیاب 3 دریاؤں سے کینالز کی مدد سے پانی دیگر مقامات تک پہنچا دیں۔
ڈاکٹر محمد بشیر لاکھانی کہتے ہیں کہ پانی کو روکنا اتنا آسان نہیں ہوتا، 1961 میں ہونے والے معاہدے کے بعد اب جا کر بھارت اس پوزیشن میں پہنچا ہے کہ وہ پانی کو مکمل طور پر روک چکا ہے اور جب پانی ان کے کنٹرول سے باہر ہو جاتا ہے تب جا کر وہ بنا خبردار کیے پانی پاکستان کی طرف چھوڑ دیتا ہے جس کا ہمیں نقصان اٹھانا پڑتا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ بھارت کو کچھ علاقوں کی آب پاشی اور ہائڈرو پاور کے لیے بندھ بنانے کی اجازت تھی جس کی ایک خاص حد ہوتی ہے ،اس کے بعد پانی اپنے راستے پر گامزن ہو جاتا ہے لیکن بھارت نے ان دریاؤں پر لاتعداد ہائڈرو پاور پراجیکٹس بنا دیے ہیں، اس وقت 12 کے قریب پراجیکٹس بن چکے جبکہ 7 کے قریب زیر تعمیر ہیں۔
ڈاکٹر بشیر لاکھانی کے مطابق بھارت نے اس پانی کو مکمل طور پر اپنے قابو میں کر رکھا ہے جبکہ ہم پانی کو مسلسل ضائع کر رہے ہیں، بھارت نے سندھ طاس معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے پانی کو اسٹور کیا ہے اور بندھ باندھے ہیں۔
ان کے مطابق سندھ طاس معاہدہ بھارت کے حق میں ہونے کے باوجود وہ اسے ختم کرنا چاہتا ہے اور بھارت نے خود کو اس قابل بنا دیا ہے کہ وہ پاکستان کی طرف بہنے والے پانی کو کسی بھی وقت روک سکتا ہے۔ بھارت کو ملنے والے دریاؤں کا پانی تو سیلاب کی صورت میں آتا ہے لیکن ہمیں ملنے والے دریاؤں کو بھی وہ کسی بھی وقت قابو کر لیں گے۔
ڈاکٹر بشیر لاکھانی کا کہنا ہے کہ پاکستان کا پانی بند ہونے کا مطلب موت ہے اور اس صورت حال میں پاکستان کو نا صرف تمام فورمز پر اپنی بات اٹھانی چاہیے بلکہ قوت کے مظاہرے سے بھی دریغ نہیں کرنا چاہیے بندھوں کو بم سے اڑانا پڑے تو دریغ نہیں کرنا چاہیے کیونکہ قوت کا جواب قوت سے دینا پڑے گا۔ بھارت کا ایک واقعہ کا الزام بنا تحقیق کے پاکستان پر لگانے کا مقصد یہی نظر آرہا ہے کہ بھارت پانی روکنے کی اپنی دیرینہ خواہش پوری کرنا چاہتا ہے اور یہ میلہ اسی لیا سجایا گیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ دریا ئے سندھ پر بھارت کا کنٹرول نہیں لیکن چناب اور جہلم مقبوضہ کشمیر میں سے گزر کر آتے ہیں جس کو وہ کنٹرول کر سکتے ہیں بھارت اپنے حق میں ہونے والے معاہدے کو بھی غلط استعمال کر رہا ہے تو ہمارے پاس قوت کے مظاہرے کے سوا اب کوئی چارہ نہیں رہ جاتا ورنہ پاکستان میں پانی کی عدم دستیابی کے باعث اٹھنے والے مسائل مزید سنگین ہو جائیں گے، عالمی برادری کو بھی اس صورت حال پر کڑی نظر رکھنا پڑے گی کیوں کہ بھارت خود پاکستان کو انتہائی قدم اٹھانے پر مجبور کر رہا ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
آبی امور آبی جارحیت بھارت پاکستان پانی کی تقسیم پہلگام حملہ دریائے سندھ ڈاکٹر محمد بشیر لاکھانی ڈیم سندھ طاس معاہدہ کینالز