جعلی عدالتی دستاویز استعمال کرکے بینک لاکر سے قیمتی اشیأ نکلوانے کا انکشاف
اشاعت کی تاریخ: 2nd, August 2025 GMT
جعلی عدالتی دستاویز استعمال کرکے بینک لاکر سے قیمتی اشیأ نکلوانے کا انکشاف ہوا ہے جب کہ ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج کراچی نے درخواستگزار کو شوکاز نوٹس جاری کردیا۔
ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج ملیر کی عدالت کے روبرو مرحوم شخص کی وراثت کی تقسیم کا کیس کی سماعت ہوئی۔
جعلی عدالتی دستاویز استعمال کرکے بینک لاکر سے قیمتی اشیأ نکلوانے کے انکشاف پر سیشن عدالت ملیر نے درخواستگزار کو شوکاز نوٹس جاری کردیا۔
عدالت نے ریمارکس دیئے کہ ناظر نے جعلی اور من گھڑت دستاویز کے استعمال سے متعلق رپورٹ پیش کی۔
ناظر کی رپورٹ کے مطابق عدالتی دستاویز جعلی تھے، حیران کن طور پر دستاویز کی تصدیق کئے بغیر لاکر سے اشیأ حوالے کردی گئیں، عدالت کی جانب سے درخواست پر کوئی حکم جاری نہیں کیا گیا تھا۔
کیس میں تاحال اشیا کی فہرست نہیں بنائی گئی، درخواستگزار نے سیشن عدالت شرقی میں دائر درخواست کے حقائق کو بھی چھپایا۔
درخواستگزار کے اقدامات بینک انتظامیہ اور دیگر کے ساتھ ملی بھگت کرکے جعلی دستاویز تیار کرنے اور عدالت کے ساتھ فراڈ ظاہر کرتے ہیں۔
درخواستگزار 3 روز میں شوکاز نوٹس کا جواب جمع کروائیں۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: لاکر سے
پڑھیں:
ریاست کو شہریوں کی جان بچانے کیلئے ہر ممکن قدم اٹھانے کا جذبہ دکھانا ہو گا: لاہور ہائیکورٹ
لاہور (خبر نگار) لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس امجد رفیق نے ڈسٹرکٹ انٹیلی جنس کمیٹی کا فیصلہ کالعدم قرار دیتے ہوئے آئی جی پنجاب کو درخواستگزار کو فوری طور پر پولیس پروٹیکشن دینے کا حکم دے دیا۔ عدالت نے قرار دیا کہ اگر کسی شہری کی جان کو خطرہ ہو تو اسے پولیس پروٹیکشن اس کا حق ہے۔ 10صفحات پر مشتمل فیصلے میں کہا گیا ہے کہ آئین میں شہریوں کی جان کا تخفظ مشروط نہیں بلکہ اسے ہر قیمت پر بچانا ہے۔ قرآن پاک میں بھی ہے کہ جس نے ایک جان بچائی اس نے پوری انسانیت کو بچایا۔ ریاست کو اپنے شہریوں کی جان بچانے کے لئے ہر ممکن قدم اٹھانے کا جذبہ دکھانا ہوگا۔ درخواست گزار کے مطابق وہ قتل کے متعدد کیسز میں بطور گواہ ہے۔ درخواستگزار کے مطابق وہ اپنی بہن اور بہنوئی کے قتل کا سٹار گواہ ہے۔ درخواستگزار کے مطابق مقدمے میں نامزد ایک ملزم کا پولیس مقابلہ ہو گیا، مقتول کی فیملی اسے دھمکیاں دے رہی ہے۔ آئی جی پنجاب نے رپورٹ جمع کرائی کہ ڈسٹرکٹ انٹیلی جنس کمیٹی نے درخواستگزار کو دو پرائیوٹ گارڈ رکھنے کی تجویز دی، ہوم ڈیپارٹمنٹ پالیسی 2018 کی تحت پولیس پروٹیکشن کی 16مختلف کیٹگریز بنائی گئی ہیں، جن میں وزیر اعظم، چیف جسٹس، چیف جسٹس ہائیکورٹ، بیوروکریٹس سمیت دیگر شامل ہیں، پالیسی کے پیرا چار میں معروف شخصیات کو پولیس پروٹیکشن دینے کا ذکر ہے۔ آئی جی پولیس مستند رپورٹ پر 30 روز تک پولیس پروٹیکشن دے سکتا ہے، غیر ملکیوں اور اہم شخصیات کو سکیورٹی دینے کیلئے پنجاب سپشل پروٹیکشنز یونٹ ایکٹ 2016 لایا گیا۔ پولیس آرڈر 2002 شہریوں کی جان، مال اور آزادی کے تحفظ کی ذمہ داری واضح کرتا ہے، آرٹیکل 4 کے تحت ہر پولیس افسر پر شہریوں کے تحفظ کی قانونی ذمہ داری عائد ہے، اضافی پولیس کی تعیناتی صوبائی پولیس افسر کی منظوری سے مشروط ہوگی۔ درخواست گزار کاروباری ہونے کے ناطے سنگین دھمکیوں کے پیش نظر پولیس تحفظ کا حق رکھتا تھا، ایف آئی آرز میں گواہ ہونے کے باعث اسے پنجاب وِٹنس پروٹیکشن ایکٹ 2018 کے تحت بھی تحفظ دیا جا سکتا تھا، پنجاب کے تمام قوانین اور پالیسیز شہری کے تحفظ کے حق کی ضمانت دیتے ہیں۔ درخواست گزار کو پولیس تحفظ سے محروم کرنا غیر مناسب ہے۔ پولیس کسی شہری کو جان کے خطرے کی صورت میں خود تحفظ فراہم کرنے کی مجاز ہے۔ ڈی آئی سی کی رپورٹ محض سفارشاتی حیثیت رکھتی ہے، حتمی اختیار پولیس کو حاصل ہے۔