بھارت نے پاکستان سے درآمدات پر پابندی عائد کر دی
اشاعت کی تاریخ: 3rd, May 2025 GMT
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 03 مئی 2025ء) بھارتی ڈائریکٹوریٹ جنرل آف فارن ٹریڈ نے کی طرف سے جاری کیے گئے ایک علامیے میں کہا گیا، پاکستان سے درآمد ہونے والی اور پاکستان کے راستے آنے والی اشیاء پر ''یہ پابندی قومی سلامتی اور عوامی مفاد کے پیشِ نظر عائد کی گئی ہے۔‘‘
گزشتہ ہفتے بھارتی زیر انتظام کشمیر کے علاقے پہلگام میں مشتبہ عسکریت پسندوں کے حملے میں کم از کم 26 سیاح ہلاک ہو گئے تھے۔
اس پیش رفت کے بعد دونوں ایٹمی طاقتوں کے درمیان کشیدہ سفارتی تعلقات میں ایک بار پھر شدت آ گئی ہے۔مسلمان اکثریتی ہمالیائی خطے کشمیر پر بھارت اور پاکستان دونوں ملک ہی دعویٰ رکھتے ہیں اور یہ علاقہ کئی جنگوں، بغاوتوں اور سفارتی کشیدگیوں کا مرکز رہا ہے۔
(جاری ہے)
بھارت نے اس حملے میں پاکستان کے ملوث ہونے کا الزام عائد کیا ہے، جسے اسلام آباد نے مسترد کر دیا ہے۔
پاکستان کا کہنا ہے کہ اُسے ''مصدقہ انٹیلیجنس رپورٹس‘‘ ملی ہیں کہ بھارت فوجی کارروائی کا ارادہ رکھتا ہے۔جوابی اقدام کے طور پر پاکستان نے بھی کئی اقدامات کا اعلان کیا ہے، جن میں تمام سرحدی تجارت معطل کرنا، اپنی فضائی حدود بھارتی طیاروں کے لیے بند کرنا اور بھارتی سفارت کاروں کو ملک بدر کرنا شامل ہے۔
پاکستان نے خبردار کیا ہے کہ اگر بھارت نے سندھ طاس معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے پاکستان کا پانی روکنے کی کوشش کی، تو اسے جنگی اقدام تصور کیا جائے گا۔
گزشتہ چند برسوں میں دونوں ممالک کے درمیان تجارت پہلے ہی کم ہوتی جا رہی تھی۔
پاکستان کی سفارتی کوششیںپاکستانی وزیرِاعظم شہباز شریف نے جمعہ کے روز خلیجی اتحادی ممالک کے سفیروں سے ملاقاتیں کیں تاکہ متنازعہ کشمیر کے علاقے میں سیاحوں پر ہونے والے مہلک حملے کے بعد بھارت کے ساتھ کشیدگی کو کم کیا جا سکے۔
سعودی عرب، کویت اور متحدہ عرب امارات کے سفیروں سے علیحدہ علیحدہ ملاقاتوں میں شہباز شریف نے انہیں 22 اپریل کو بھارتی زیرِ انتظام کشمیر کے علاقے پہلگام میں ہونے والے حملے پر اسلام آباد کے مؤقف سے آگاہ کیا۔
عالمی برادری نے دونوں ممالک پر تحمل اور کشیدگی میں کمی کی اپیل کی ہے۔پاکستان کے وزیر اعظم ہاؤس کی جانب سے جمعہ کے روز جاری بیان میں کہا گیا کہ شہباز شریف نے سعودی عرب سمیت دیگر ''برادر ممالک سے اپیل کی ہے کہ وہ بھارت پر زور دیں کہ وہ کشیدگی میں کمی کرے اور خطے میں استحکام کو فروغ دے۔‘‘ اس بیان میں مزید کہا گیا کہ شہباز شریف نے پاکستان کے خطے میں امن و استحکام کے عزم کا اعادہ کیا۔
وزیراعظم شہباز شریف نے متحدہ عرب امارات کے سفیر حماد عبید ابراہیم سالم الزعابی کو بتایا کہ پاکستان کا سیاحوں پر حملے میں کوئی کردار نہیں اور انہوں نے اس واقعے کی ایک قابل اعتماد، شفاف اور غیر جانبدار بین الاقوامی تحقیقات میں شامل ہونے کی پیشکش بھی کی۔
سعودی سفیر نواف بن سعید المالکی سے ملاقات میں وزیرِاعظم نے تازہ ترین صورتحال سے آگاہ کیا۔
جواباً سعودی سفیر نے کہا کہ مملکت خطے میں امن و سلامتی کے لیے پاکستان کے ساتھ مل کر کام کرنا چاہتی ہے۔پاکستان اور بھارت کے تعلقات ہمیشہ تلخی کا شکار رہے ہیں۔ سن 1947 میں برطانوی نوآبادیاتی حکومت سے آزادی کے بعد سے اب تک دونوں ممالک تین جنگیں لڑ چکے ہیں، جن میں سے دو کشمیر کے مسئلے پر ہوئیں۔
لائن آف کنٹرول پر جھڑپیں جاریجمعہ کے روز بھارتی فوج کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا کہ پاکستانی افواج کی جانب سے بھارتی زیرِ انتظام کشمیر کے کپواڑہ، بارہمولہ، پونچھ، نوشہرہ اور اکھنور کے علاقوں میں مسلسل آٹھویں رات بلا اشتعال فائرنگ کی گئی، جس کا بھارتی فوج نے جواب دیا۔
پاکستان کی طرف سے اس پر کوئی فوری بیان جاری نہیں کیا گیا۔تازہ جھڑپوں میں کسی جانی نقصان کی اطلاع موصول نہیں ہوئی۔ پاکستانی زیر انتظام کشمیر کے دارالحکومت مظفرآباد میں سول سوسائٹی اور مختلف سیاسی جماعتوں کے 200 سے زائد ارکان نے ایک ریلی نکالی اور بھارت کے خلاف اس کے حالیہ اقدامات کی مذمت کی۔
ادارت: امتیاز احمد
.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے انتظام کشمیر کے شہباز شریف نے پاکستان کے کہا گیا
پڑھیں:
قازقستان میں جبری شادیوں اور دلہنوں کے اغوا پر پابندی عائد، 10 سال قید کی سزا
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
آستانہ: قازقستان میں نیا قانون نافذ ہوگیا ہے جس کے تحت ملک میں جبری شادیوں اور دلہنوں کے اغوا پر مکمل پابندی عائد کر دی گئی ہے۔
عالمی میڈیا رپورٹس کے مطابق پولیس نے اعلان کیا ہے کہ اب اگر کوئی بھی شخص کسی خاتون یا لڑکی کو زبردستی شادی پر مجبور کرے گا تو اسے 10 سال تک قید کی سزا دی جا سکتی ہے، اس قانون کا مقصد جبری شادیوں کی حوصلہ شکنی کرنا اور کمزور طبقات خصوصاً خواتین اور نوجوانوں کو تحفظ فراہم کرنا ہے۔
بیان میں مزید کہا گیا کہ دلہنوں کے اغوا پر بھی سختی سے پابندی لگا دی گئی ہے، اس سے قبل اگر کوئی اغوا کار متاثرہ خاتون کو اپنی مرضی سے چھوڑ دیتا تو قانونی کارروائی سے بچنے کے امکانات موجود ہوتے تھے، نئے قانون کے بعد یہ سہولت مکمل طور پر ختم کر دی گئی ہے۔
رپورٹ کے مطابق قازقستان میں جبری شادیوں کے قابلِ اعتماد اعداد و شمار موجود نہیں تھے کیونکہ ملک کے کرمنل کوڈ میں اس حوالے سے کوئی علیحدہ شق شامل نہیں تھی، رواں برس کے اوائل میں ایک رکنِ پارلیمان نے انکشاف کیا تھا کہ گزشتہ تین سالوں کے دوران پولیس کو جبری شادیوں اور دلہنوں کے اغوا کے 214 کیسز رپورٹ ہوئے۔
یاد رہے کہ قازقستان میں خواتین کے حقوق کے مسائل 2023 میں اس وقت عالمی میڈیا کی توجہ کا مرکز بنے تھے جب ایک سابق وزیر نے اپنی اہلیہ کو قتل کر دیا تھا۔ اس واقعے کے بعد ملک میں خواتین کے تحفظ سے متعلق قوانین بنانے کا دباؤ بڑھ گیا تھا، اور نیا قانون اسی سلسلے کی کڑی ہے۔