کانفرنس کے شرکاء نے اتفاق رائے سے پاکستان کی قومی سلامتی کونسل اجلاس کے فیصلوں کی مکمل تائید کی۔ ہندوستان کو یہ قانونی حق حاصل نہیں ہے کہ وہ سندھ طاس معاہدہ کو ختم کرنے کا یکطرفہ فیصلہ کرے۔ اسلام ٹائمز۔ وزیراعظم آزاد حکومت ریاست جموں و کشمیر کی میزبانی میں آزاد جموں و کشمیر کی سیاسی و دینی جماعتوں، آل پارٹیز حریت کانفرنس آزاد جموں و کشمیر کے سابق صدور اور وزرائے اعظم پر مشتمل کل جماعتی کانفرنس مظفرآباد میں منعقد کی گئی۔ آل پارٹیز کشمیر کانفرنس میں اپوزیشن لیڈر خواجہ فاروق، صدر مسلم لیگ (ن) شاہ غلام قادر، سپیکر آزاد جموں و کشمیر قانون ساز اسمبلی چوہدری لطیف اکبر، ممبر قانون ساز اسمبلی و سینئر رہنما پیپلز پارٹی چوہدری محمد یاسین، سابق وزیراعظم سردار عتیق احمد خان، سابق وزیراعظم آزاد کشمیر سردار قیوم نیازی، موسٹ سینئر وزیر وقار احمد نور، سابق وزیراعظم سردار یعقوب خان، جموں و کشمیر پیپلز پارٹی کے سربراہ و ممبر اسمبلی سردار حسن ابراہیم، کنوینئر آل پارٹیز حریت کانفرنس غلام محمد صفی، صدر لبریشن لیگ منظور قادر ڈار، وزرائے حکومت، دیوان علی خان چغتائی، سردار عامر الطاف، میاں عبدالوحید، عبدالماجد خان، چوہدری اظہر صادق، پروفیسر تقدیس گیلانی کانفرنس میں شریک ہوئے۔

کانفرنس میں مقبوضہ جموں و کشمیر کی موجودہ صورتحال بالخصوص 22 اپریل 2025ء کو پہلگام مقبوضہ کشمیر میں ہندوستان کی طرف سے فالس فلیگ آپریشن اور اس کے فوری بعد پاکستان پر بے بنیاد الزامات اور ہندوستانی میڈیا کی طرف سے مسلمانوں اور کشمیریوں کے خلاف نفرت کا ماحول پیدا کرنے، 5000 سے زائد عام بے گناہ شہریوں کی بلاجواز گرفتاریوں، گھروں کو بلڈوز کرنے، دیگر ظالمانہ اقدامات اور اس کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال اور اس کے مسئلہ کشمیر پر مضمرات کے تناظر میں بذیل امور زیر بحث لائے گئے۔ کانفرنس کے بعد مشترکہ اعلامیہ جاری کیا گیا جس میں کہا گیا ہے کہ بھارت اپنے سیاسی مفادات کے لیے ہمیشہ کی طرح اب بھی کشمیر میں حالات کو مزید خراب کرنے پر تُلا ہوا ہے تاکہ دنیا کی نظروں سے اصل حقائق چھپائے جا سکیں۔ بھارت کی کوشش ہے کہ پہلگام ڈرامہ کا رخ مقامی کشمیریوں کی طرف موڑ کر بین الاقوامی دباؤ سے بچا جا سکے اور کشمیریوں کو اپنی جائیدادوں سے بیدخل کیا جائے۔ بھارت اپنے ہی شہریوں پر حملے کروا کر ”فالس فلیگ آپریشنز“ کے ذریعے پاکستان اور کشمیری مسلمانوں کو بدنام کرنے کی گھناؤنی سازشوں میں ملوث رہا ہے، ماضی کے درجنوں واقعات اس حقیقت کی تصدیق کر چکے ہیں۔

اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ بھارت کے فالس فلیگ آپریشنز کی تاریخ شرمندگی سے بھری پڑی ہے اور وہ ہر اوچھی حرکت میں وہ خود ہی اپنی قوم اور دنیا بھر میں بےنقاب ہوتا رہا ہے۔ کانفرنس کے شرکاء بھارت کے اس فالس فلیگ آپریشن کی مذمت کرتے ہیں اور بھارتی دہشت گردی کو مسترد کرتے ہیں۔ پہلگام فائرنگ بالکل سکھوں کا چھٹی سنگھ پورہ قتلِ عام جیسا واقعہ ہے، بھارت نے سال 2000ء میں امریکی صدر بل کلنٹن کے دورے کے موقع پر 35 سکھوں کو قتل کر کے کشمیریوں کو بدنام کرنے کی کوشش کی تھی، مقبوضہ کشمیر کے مسلمان پاکستان کی محبت سے سرشار ہیں، مقبوضہ جموں و کشمیر کے مسلمانوں کے دل پاکستان کے ساتھ دھڑکتے ہیں، بھارتی ناکام ایڈونچر کے بعد خطے کے امن کو تباہ کرنے کی دھمکیوں پر پاکستان کے عوام اور مسلح افواج دندان شکن جواب دینے کیلئے تیار ہیں، بھارت کی جانب سے اس قسم کی حرکتوں کا تسلسل بڑھتا جا رہا ہے۔ بھارت میں موجود قدیمی رہائش پذیر مسلمانوں پر زمین کو تنگ کیا جا رہا ہے، بھارت میں مسلمانوں کی وقف املاک اور عمارتوں پر قبضہ کرنے کیلئے مودی حکومت نے اپنے ناجائز قوانین سے توجہ ہٹانے کیلئے فالس فلیگ آپریشن کا ڈرامہ رچایا ہے تاکہ وہ اس عمل کو جواز بنا کر مسلمانوں کو ظلم و ستم کے ساتھ بھارتی سرزمین سے بے دخل کر سکے۔

بھارت دنیا کو مظلوم بن کر دکھا رہا ہے مگر دنیا یہ بات اچھی طرح جانتی ہے کہ بھارت میں اقلیتوں کا مستقبل غیر محفوظ ہے۔ بھارت کی فالس فلیگ آپریشن کی آڑ میں آبی جارحیت بھی کھل کر سامنے آ گئی ہے کیونکہ بھارت نے فالس فلیگ آپریشن کے 24 گھنٹے کے اندر سندھ طاس معاہدے کو یکدم سے غیر قانونی طور پر اس انداز میں معطل کر دیا ہے کہ جیسے بھارت نے پہلگام واقعے کو سندھ طاس معاہدہ معطل کرنے کے لیے بہانہ بنایا ہے۔ سندھ طاس معاہدہ 1960ء کی شق (4)12 کے تحت یکطرفہ طور پر ختم نہیں ہو سکتا، اس معاہدے کے مطابق دونوں ممالک باہمی رضامندی کے بغیر سندھ طاس معاہدہ ختم نہیں کر سکتے۔ اعلامیے میں مزید کہا گیا ہے کہ ہندوستان کی جانب سے کسی بھی قسم کی جارحیت کی صورت میں پوری قوم مسلح افواج پاکستان کے ساتھ سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی طرح کھڑی ہے، مسلح افواج پاکستان مادرِ وطن کی ناقابلِ تسخیر ڈھال ہیں، جو دشمن کے ناپاک ارادوں کے سامنے فولادی عزم بن کر کھڑی ہیں۔ پاکستان کی مسلح ا فواج صرف زمین کی محافظ نہیں بلکہ پوری قوم کے اعتماد کی علامت ہے، اگر عالمی برادری نے بھارتی ریاستی دہشت گردی کی فوری اور مؤثر روک تھام کا اہتمام نہ کیا تو مقبوضہ ریاست میں ایک عظیم انسانی المیہ رونما ہو سکتا ہے، کشمیریوں کی نسل کشی اور قتل عام کے علاوہ لاکھوں کو ہجرت پر مجبور کیا جا سکتا ہے اور آبادیاتی تناسب (Demographic) تبدیلی سے کشمیریوں کا بنیادی حق خودارادیت غیر ریاستی باشندوں کے ہاتھوں منتقل کرنے کی گھنائونی سازش ہو گی۔

یہ کانفرنس ہندوستان کی سکیورٹی پر اس کی کابینہ کمیٹی کے فیصلہ جات کی مذمت کرتی ہے کیونکہ یہ فیصلہ جات یہ ظاہر کرتے ہیں کہ ہندوستان نے ایک طے شدہ منصوبہ کے تحت بغیر کسی تحقیق پر اقدامات کر کے پاکستان اور مقبوضہ جموں و کشمیر میں جاری حق خودارادیت کی تحریک کو بدنام کرنے کی کوشش کی ہے، ہندوستان کو یہ قانونی حق حاصل نہیں ہے کہ وہ سندھ طاس معاہدہ کو ختم کرنے کا یکطرفہ فیصلہ کرے، اس معاہدے میں ورلڈ بینک ایک ضامن کے طور پر موجود ہے، ہندوستان کی طرف سے یہ اعلان اس خطہ کو بدامنی اور جنگ میں دھکیلنے کی کوشش ہے۔ کانفرنس کے شرکاء نے اتفاق رائے سے پاکستان کی قومی سلامتی کونسل اجلاس کے فیصلوں کی مکمل تائید کی اور پاکستان کے دلیرانہ مؤقف کو جموں و کشمیر کے عوام نے بے حد سراہا، پاکستان کی قومی سلامتی کونسل کے فیصلے ہندوستان کے توسیع پسندانہ، جارحانہ اقدامات کا مؤثر جواب دینے پر ان کو خراج تحسین پیش کیا۔

کانفرنس ہندوستان کی قابض افواج کی طرف سے سیز فائر لائن کی خلاف ورزیوں اور بلااشتعال فائرنگ کی مذمت کرتی ہے اور پاکستان کی بہادر افواج کی طرف سے ہندوستان کو بھرپور جواب دینے پر ان کو خراج تحسین پیش کرتی ہے۔ کانفرنس کے شرکاء چیف آف آرمی سٹاف جنرل عاصم منیر کی طرف سے کشمیریوں کے حق خودارادیت کے حوالہ سے دو ٹوک موقف اپنانے، مقبوضہ جموں و کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو اجاگر کرنے اور ہندوستان کے ہندوتوا ایجنڈا کو دنیا کے سامنے بے نقاب کرنے پر خراج تحسین پیش کرتی ہے۔ کانفرنس کے شرکاء قرار دیتے ہیں کہ مقبوضہ جموں و کشمیر میں حق خودارادیت کی جدوجہد عالمی قوانین اور اقوام متحدہ کی قراردادوں کے عین مطابق ہے۔ ہندوستان کا کوئی بھی اقدام کشمیر کی متنازعہ حیثیت کو ختم نہیں کر سکتا اور اقوام متحدہ اور بین الاقوامی برادری سے مطالبہ کرتا ہے کہ اقوام متحدہ کی قراردادوں پر عملدرآمد کے لیے ہندوستان کو مجبور کریں اور مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کا نوٹس لے۔

کانفرنس پاکستان کے میڈیا اور سوشل میڈیا کو خراج تحسین پیش کرتی ہے کہ انہوں نے بھارتی بیانیہ کو شکست دی۔ یہ کانفرنس حکومت پاکستان کے سلامتی کونسل میں مستقل مندوب اور عوامی جمہوریہ چین کی سلامتی کونسل میں مشترکہ کاوشوں کی تحسین کرتی ہے جس کے نتیجے میں بھارت کی خواہش پوری نہ ہو سکی۔ کانفرنس اپنی اس توقع کا بھی اظہار کرتی ہے کہ دونوں ممالک مستقبل میں بھی اسی طرح مل کر کام کرتے رہیں گے۔ OIC کشمیریوں کے اصولی موقف کی مسلسل حمایت کرتی رہی ہے، او آئی سی کا بھی خصوصی سربراہی اجلاس حکومت پاکستان کے اہتمام سے فی الفور طلب کیا جائے۔ کانفرنس میں یقین دہانی کروائی گئی کہ آزاد جموں و کشمیر کے باسی دنیا بھر میں موجود کشمیری اور پاکستانی قوم ان کے شانہ بشانہ ہیں، منزل کے حصول تک کسی قربانی سے دریغ نہ کریں گے۔ شرکاء نے بروقت آل پارٹیز کشمیر کانفرنس منعقد کرنے پر وزیراعظم آزاد کشمیر چوہدری انوارالحق کا شکریہ ادا کیا۔

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: کانفرنس کے شرکاء سندھ طاس معاہدہ جموں و کشمیر کے خراج تحسین پیش حق خودارادیت سلامتی کونسل ہندوستان کی ہندوستان کو کانفرنس میں پاکستان کے پاکستان کی فالس فلیگ آل پارٹیز کی طرف سے بھارت کی کہ بھارت کشمیر کی کرنے کی کی کوشش کرتی ہے رہا ہے کیا جا

پڑھیں:

چوہدری انوار کے (ن) لیگ قیادت سے متعلق بیانات گمراہ کن ہیں، افتخار گیلانی

چوہدری طارق فاروق کی ساری سیاسی زندگی نظریاتی، جماعتی وفاداری اور جمہوری اقدار پر مشتمل جدوجہد سے عبارت ہے، انہوں نے نہ جماعتیں تبدیل کیں، نہ وفاداریاں بدلیں۔ اسلام ٹائمز۔ مرکزی سیکرٹری اطلاعات پاکستان مسلم لیگ نواز آزاد جموں و کشمیر بیرسٹر افتخار گیلانی نے وزیراعظم آزاد کشمیر چوہدری انوار الحق کی جانب سے مسلم لیگ نواز اور اس کی قیادت سے متعلق حالیہ بیانات کو خلاف حقائق، بے بنیاد اور گمراہ کن قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان مسلم لیگ (ن) آزاد جموں و کشمیر کی پارلیمانی پارٹی کے کل نو (9) ممبران اسمبلی میں سے 4 کا تعلق آزاد کشمیر، 4 مہاجرین مقیم پاکستان سے اور ایک خاتون مخصوص نشست پر منتخب شدہ ہیں، موجودہ حکومت میں مسلم لیگ (ن) سے تعلق رکھنے والے 5 وزراء اور ایک مشیر شامل ہیں۔ 3 وزراء کا تعلق مہاجر نشستوں سے اور دو کا آزاد کشمیر سے ہے، خاتون رکن بطور مشیر حکومت ذمہ داریاں سر انجام دے رہی ہیں۔

آزاد کشمیر کے 4 ممبران، جو حکومتی صفوں میں موجود ہیں، اپنے اپنے حلقہ انتخاب میں وہی مراعات اور ترقیاتی فنڈز حاصل کر رہے ہیں جو ہر منتخب نمائندے کو قانون کے تحت ملتے ہیں، ان 4حلقوں اپر نیلم، چکار، ہجیرہ اور برنالہ کو وزیراعظم نے اپنی گفتگو میں نواز لیگ کی "حکومتی شراکت" کی مثال کے طور پر پیش کیا، حالانکہ باقی 29 حلقے اپوزیشن میں ہیں اور شدید حکومتی انتقامی اقدامات کا سامنا کر رہے ہیں، جن میں فنڈز کی بندش، میرٹ سے ہٹ کر تقرریاں، سیاسی دباؤ اور انتقامی تبادلوں کی مداخلت بھی شامل ہے، لہٰذا یہ الزام کہ مسلم لیگ (ن) حکومت میں شامل ہو کر اپوزیشن کا کردار ادا کر رہی ہے، محض چار حلقوں کی بنیاد پر لگایا گیا غیرمنصفانہ اور بدنیتی پر مبنی پراپیگنڈہ ہے۔

سوشل میڈیا پر اپنے آفیشل فیسبک اکائونٹ کے ذریعے جاری کردہ وضاحت میں بیرسٹر افتخار گیلانی کا کہنا ہے کہ وزیراعظم کا اپنے سیاسی حریف کو "مسترد شدہ آدمی" کہنا نہ صرف غیر شائستہ طرزِ گفتگو ہے بلکہ تاریخی طور پر بھی بے بنیاد ہے، وزیراعظم کو یاد رکھنا چاہیے کہ ان کی اپنی انتخابی کامیابی اٴْس وقت کی اسٹیبلشمنٹ کی حمایت، سرمایہ دار سردار تنویر الیاس کی طرف سے مبینہ طور پر دیے گئے دس کروڑ روپے اور سابق صدر ریاست راجہ ذوالقرنین کے بیٹے راجہ علی ذوالقرنین کی محنت کے نتیجے میں ممکن ہوئی، یہ تمام حقائق آج بھی سیاسی و صحافتی ریکارڈ کا حصہ ہیں، سابق وزیراعظم سردار تنویر الیاس خود میڈیا کے ذریعے سنگین الزامات عائد کر چکے ہیں جن کا وزیراعظم آج تک کوئی جواب نہیں دے سکے، جہاں تک "مسترد شدہ" ہونے کا دشنام ہے، یہ بھی تاریخ کا حصہ ہے کہ چوہدری طارق فاروق اسی حلقے سے وزیراعظم کے والد مرحوم سمیت خود وزیراعظم چوہدری انوار الحق کو تین بار شکست دے چکے ہیں۔

چوہدری طارق فاروق کی ساری سیاسی زندگی نظریاتی، جماعتی وفاداری اور جمہوری اقدار پر مشتمل جدوجہد سے عبارت ہے، انہوں نے نہ جماعتیں تبدیل کیں، نہ وفاداریاں بدلیں۔ مرکزی سیکرٹری اطلاعات مسلم لیگ نواز کا مزید کہنا تھا کہ چوہدری طارق فاروق مسلم لیگ (ن) آزاد کشمیر کے 11 سال سینئر نائب صدر اور گزشتہ 3 سال سے سیکرٹری جنرل ہیں، پاکستان مسلم لیگ (ن) کی سنٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کے رکن بھی ہیں، انہیں قائد مسلم لیگ نواز میاں محمد نواز شریف کا بھرپور اعتماد حاصل ہے، دوسری طرف وزیراعظم کے خاندان کی جماعتیں بدلنے کی روایت اتنی پرانی اور مشہور ہے کہ پیپلزپارٹی آزاد کشمیر امور کی انچارج محترمہ فریال تالپور انہیں  "ناقابل اعتبار" کا خطاب دے چکی ہیں۔ ان حالات میں اگر کوئی سیاسی یتیم، لاوارث، نظریاتی طور پر آوارہ شخص بے بنیاد الزامات اور دشنام ترازی کرتا ہے تو ان صاحب کو ریاست کا سب سے بڑا لوٹا ہو کر وزیراعظم کے منصب پر براجمان ہونے کا اعزاز مبارک ہو۔

وزیراعظم کیلئے مشورہ ہے کہ سیاسی مخالفین پر دشنام ترازی اور طعن و تشنیع کے بجائے اپنی کارکردگی، کابینہ کی سمت درست کرنے اور عوامی مسائل پر توجہ دیں، تاکہ آئندہ نسلیں انہیں کسی کارنامے کی بنیاد پر یاد رکھ سکیں، نہ کہ محض اقتدار پر براجمان ہونے کے دعوؤں پر، ان کا نام سیاہ باب کے طور پر یاد رکھا جائے۔

متعلقہ مضامین

  • کشمیریوں کے جذبات کی پارلیمنٹ میں ترجمانی کرنے والے اراکین لائق ستائش ہیں، میرواعظ کشمیر
  • آزاد کشمیر کا ناظم اطلاعات یا ہندوستان کا جاسوس؟
  • حریت رہنمائوں کی 5 اگست کو یوم استحصال کے طور پر منانے کی اپیل
  • حریت رہنمائوں کی5 اگست کو یوم استحصال کے طور پر منانے کی اپیل
  • جموں و کشمیر ہر حوالے سے پاکستان کا حصہ ہے، رانا قاسم نون
  • وزیراعظم کا سیلاب سے متاثرہ گلگت بلتستان کیلئے امدادی پیکیج دینے کا اعلان
  • اپوزیشن والے ذہنی بیماری کا شکار ہو چکے ہیں، عطاتارڑ نے کل جماعتی کانفرنس کوچوں چوں کا مربہ قراردے دیا
  • معروف کشمیری رہنما غازی ملت سردار ابراہیم خان کو بچھڑے 22 برس گزر گئے
  • چوہدری انوار کے (ن) لیگ قیادت سے متعلق بیانات گمراہ کن ہیں، افتخار گیلانی
  • وزیراعظم آزاد کشمیر کا سردار محمد ابراہیم خان کی برسی کے موقع پر بیان