بھارت کا پاکستان سے فضائی اور زمینی راستوں سے ڈاک اور پارسل کے تبادلے معطل کرنے کا فیصلہ
اشاعت کی تاریخ: 3rd, May 2025 GMT
بھارت کا پاکستان سے فضائی اور زمینی راستوں سے ڈاک اور پارسل کے تبادلے معطل کرنے کا فیصلہ WhatsAppFacebookTwitter 0 3 May, 2025 سب نیوز
نئی دہلی (آئی پی ایس )آبی جارحیت اور ہر قسم کی تجارت بند کرنے کے بعد ہواس باختہ بھارت نے ایک اور جارحانہ قدم اٹھاتے ہوئے پاکستانی پرچم والے بحری جہازوں کے داخلے پر بھی پابندی عائد کر دی۔بھارت نے پہلگام کے بے بنیاد واقعے کو جواز بناتے ہوئے پہلے آبی جارحیت کرتے ہوئے پاکستان سے سندھ طاس معاہدہ یکطرفہ طور پر ختم کرنے کا اعلان کیا اور پھر بھارت نے پاکستان سے تمام اشیا کی براہ راست یا بالواسطہ درآمد پر پابندی لگا دی۔
اب بھارت نے ایک اور جارحانہ قدم اٹھاتے ہوئے پاکستانی پرچم والے بحری جہازوں کے داخلے پر پابندی لگادی۔ڈائریکٹریٹ جنرل شپنگ ممبئی کا کہنا ہے کہ پاکستانی پرچم والے بحری جہاز کی بھارت کی کسی بھی بندرگاہ میں داخلے پر پابندی ہو گی اور بھارتی پرچم والا کوئی جہاز پاکستان کی کسی بندرگاہ کا دورہ نہیں کرے گا۔
روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔
WhatsAppFacebookTwitter پچھلی خبرکینالز سے متعلق بلاول کا دعوی درست ثابت ہوا تو عارف علوی کو شوکاز دیا جائے گا، علی محمد کینالز سے متعلق بلاول کا دعوی درست ثابت ہوا تو عارف علوی کو شوکاز دیا جائے گا، علی محمد آزاد کشمیر: بڑھتی ہوئی کشیدگی، بھارتی جارحیت کے امکانات کے باعث ہنگامی اقدامات کا جائزہ یوٹیلٹی اسٹورز کارپوریشن کے 3 ہزار سے زائد کنٹریکٹ ملازمین کو نوکریوں سے نکال دیا گیا بھارتی مطالبہ مسترد ؛پاکستان کو 2.3 ارب ڈالر پیکیج ملنے کا امکان ٹرمپ نے سعودی عرب کو ساڑھے تین ارب ڈالر کا اسلحہ فروخت کرنے کی منظوری دیدی پاکستان کا پانی موڑنے کی کوشش کی گئی تو پنجاب اور کشمیر مکمل ڈوب جائیں گے، سابق بھارتی وزیر
Copyright © 2025, All Rights Reserved
رابطہ کریں ہمارے بارے ہماری ٹیمذریعہ: Daily Sub News
کلیدی لفظ: پاکستان سے
پڑھیں:
پاکستان سفارتی محاذ پر سرخرو، بھارت کو ہزیمت
چین کے شہر چنگ ڈاؤ میں منعقد ہونے والی شنگھائی تعاون ( ایس سی او) کے دس رکنی وزرائے دفاع نے بلوچستان میں بھارت کی بالواسطہ دہشت گردی کی مذمت کردی جب کہ پہلگام واقعے پر بھارتی موقف کو مسترد کردیا۔ بھارتی وفد پہلگام واقعہ پر پاکستان کی مذمت کو اعلامیے میں شامل کرانے کے لیے منتیں کرتا رہا لیکن رکن ممالک نے ایسا کرنے سے صاف انکار کردیا۔
خوش آیند بات یہ ہے کہ اب عالمی برادری کی مکمل حمایت پاکستان کو حاصل ہورہی ہے، دنیا کے بیشتر ممالک اب بھارت کے مکروہ چہرے کو پہچاننے لگے ہیں۔ پاکستان ایک پُر امن ملک ہے جو دہشت گردی کے خلاف جنگ میں عالمی برادری کے ساتھ کھڑا ہے۔ یہ دہشت گردوں کی سرپرستی کرنے والی ریاستوں کے خلاف بھی آواز اٹھاتا ہے اور اپنے عوام کی حفاظت کے لیے ہر ممکن اقدام کرتا ہے۔ بھارت کی یہ علت پرانی ہے کہ جب میدانِ جنگ میں شکست کھا جاتا ہے تو محاذ بدل دیتا ہے۔
کبھی میڈیا کا ہتھیار استعمال کرتا ہے،کبھی سفارت کاری کی آڑ میں زہر گھولتا ہے۔ پچھلے دنوں جب پاکستان نے عسکری سطح پر واضح برتری دکھائی اور بھارت کی بلند بانگ دھمکیاں زمین بوس ہوئیں، تو دہلی کے ایوانوں میں جیسے زلزلہ آ گیا۔ بھارتی حکمران شکست تسلیم کرنے اور مفاہمت کا راستہ اختیار کرنے کے بجائے، دنیا بھر میں پاکستان کے خلاف زہریلا بیانیہ پھیلانے نکل پڑے۔
بھارت کی ہٹ دھرمی، دہشت گردانہ ذہنیت، جارحانہ اور توسیع پسندانہ پالیسیوں کے باعث جنوبی ایشیا اس وقت ایک نازک دور سے گزر رہا ہے۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان کشیدگی خطرناک حدوں کو چھو رہی ہے۔ بھارت کی طرف سے پاکستان پر بے بنیاد الزامات، شہری علاقوں کو نشانہ بنانا اور سندھ طاس معاہدے کی معطلی جیسے اقدامات خطے میں امن و استحکام کے لیے خطرناک پیغام دے رہے ہیں۔
ان حالات میں پاکستان نے عالمی سطح پر سفارتی حکمتِ عملی کو بروئے کار لاتے ہوئے اقوام متحدہ میں اپنا موقف مضبوطی سے پیش کیا ہے۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے منتخب ارکان سے پاکستانی وفد کی ملاقاتیں اس تناظر میں انتہائی اہمیت کی حامل تھیں۔ پاکستانی پارلیمانی وفد کی قیادت چیئرمین پیپلز پارٹی و سابق وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے کی، جنھوں نے اقوام متحدہ کے دفتر میں سلامتی کونسل کے منتخب غیر مستقل ارکان سے ملاقاتیں کیں۔
ان میں ڈنمارک، یونان، پاناما، صومالیہ، الجزائر،گیانا، جاپان، جنوبی کوریا، سیرا لیون، اور سلووینیا شامل تھے۔ بلاول بھٹو زرداری نے بھارتی پروپیگنڈے کو بے نقاب کرتے ہوئے موقف اختیار کیا کہ بھارت کی جانب سے لگائے گئے الزامات بے بنیاد اور بلا ثبوت ہیں، جنھیں دلائل و شواہد کے ساتھ اقوام متحدہ کے نمایندوں کے سامنے رد کیا گیا۔
پاکستان کا ردعمل ان تمام بھارتی اشتعال انگیزیوں کے خلاف نہایت نپا تلا، ذمے دارانہ اور اقوام متحدہ کے چارٹر کے عین مطابق رہا ہے۔ عالمی برادری کے لیے یہ لمحہ فکریہ ہے کہ وہ محض تنازعہ کے بعد ’’کرائسس مینجمنٹ‘‘ کے بجائے، پیشگی حل پر توجہ دے اور جنوبی ایشیا میں دیرپا امن کی بنیاد رکھے۔
حالیہ بھارتی جارحیت کے بعد مسئلہ کشمیر ایک بار پھر عالمی سطح پر اجاگر ہوا ہے، جس پر امریکی صدر ٹرمپ نے بھی بھارت اور پاکستان کے مابین مذاکرات پر زور دیا ہے۔ جب تک یہ مسئلہ اقوام متحدہ کی قراردادوں اور کشمیری عوام کی خواہشات کے مطابق حل نہیں ہوتا، خطے میں پائیدار امن ممکن نہیں۔ پاکستان کو چاہیے کہ موجودہ عالمی توجہ کا فائدہ اٹھاتے ہوئے سفارتی سطح پر بھارت پر دباؤ بڑھائے۔ بھارت نے ہمیشہ خطے میں عدم استحکام پیدا کرنے کی کوشش کی ہے۔ پاکستان نے پوری تیاری، ثبوتوں اور اعتماد کے ساتھ عالمی فورمز پر، بھارت کی ایک ایک سازش کو بے نقاب کیا ہے۔
دنیا کو بتایا ہے کہ دہشت گردی کا سب سے بڑا سہولت کار بھارت ہے، جو نہ صرف پاکستان بلکہ نیپال، سری لنکا، بنگلہ دیش اور یہاں تک کہ مالدیپ تک میں مداخلت کر چکا ہے۔ کلبھوشن یادیو کا اعترافی بیان دنیا کے سامنے موجود ہے، جس میں اس نے تسلیم کیا کہ وہ بھارتی خفیہ ایجنسی ’’را‘‘ کے ایما پر بلوچستان میں دہشت گردی، علیحدگی پسندی کو ہوا دینے اور پاکستان کے استحکام کو نقصان پہنچانے کے لیے سرگرم رہا۔ یہ محض ایک واقعہ نہیں بلکہ ایک پورا نیٹ ورک ہے جس کا مقصد پاکستان کو اندرونی طور پرکمزورکرنا ہے۔
پنجاب، جو پاکستان کا آبادی کے لحاظ سب سے بڑا صوبہ ہے، اسے عدم استحکام کا شکار کرنے کے لیے بھی بھارت مختلف طریقوں سے مداخلت کرتا رہا ہے۔ دہشت گردوں کو فنڈنگ، اسلحہ، تربیت اور میڈیا پر پراپیگنڈا کے ذریعے عوام کو ریاست سے بدظن کرنے کی منظم کوشش کی جاتی رہی ہے۔ 1971 میں مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے پسِ پردہ بھی بھارت کا کردار بہت واضح تھا۔ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی خود ایک عوامی جلسے میں اعتراف کر چکے ہیں کہ بنگلہ دیش بنانے میں بھارت نے کلیدی کردار ادا کیا تھا۔
بھارتی فوج نے نہ صرف مشرقی پاکستان میں مداخلت کی بلکہ مکتی باہنی جیسے علیحدگی پسند گروہوں کو تربیت اور اسلحہ بھی فراہم کیا۔ یہ سب کچھ بین الاقوامی قوانین اور خود مختاری کی کھلی خلاف ورزی تھی، مگر بھارت اسے اپنی ’’ فتح‘‘ کے طور پر پیش کرتا ہے۔ بھارت ہمیشہ اس کوشش میں رہا کہ دنیا کے سامنے پاکستان کو ایک دہشت گرد ریاست کے طور پر پیش کیا جائے تاکہ سفارتی طور پر وہ باقی دنیا سے کٹ جائے۔ بھارتی ریاست اپنے ملک میں خود ہی دہشت گردی کے واقعات کروا کے اس کا ملبہ پاکستان پر ڈال دیتی۔ دوسری طرف شدت پسندوں کے ذریعے پاکستان کے اندر دہشت پھیلانے اور معصوم بچوں، عورتوں کے قتل میں ملوث رہا ہے۔ مثال کے طور پر پاکستان میں دہشت گردی کے کئی بڑے واقعات پیش آئے ہیں، جنھوں نے ملک کو گہرے صدمے سے دوچار کیا۔
ان کا مقصد خوف و ہراس پھیلانا، ریاستی اداروں کو کمزور کرنا اور مخصوص نظریات کو مسلط کرنا تھا۔انسانی حقوق کی عالمی تنظیمیں بھی بھارت کے ان اقدامات پر تنقید کرچکی ہیں۔ ہیومن رائٹس واچ اور ایمنسٹی انٹرنیشنل نے ان الزامات کو سنگین قرار دیا اور کہا ہے کہ بھارت بیرون ملک مقیم ناقدین کو دھمکانے، ان کی نگرانی کرنے اور بعض اوقات انھیں قتل کرنے جیسے اقدامات میں ملوث ہے۔
ایک جمہوری ریاست کا یہ طرزِ عمل بین الاقوامی قوانین، ریاستی خود مختاری اور قانون کی حکمرانی جیسے عالمی اصولوں پر سنگین سوالات اٹھاتا ہے، اگرکوئی ریاست جمہوری ممالک میں اپنے مخالفین یا شہریوں کو قتل کرتی ہے تو یہ ایک خطرناک مثال قائم کرتی ہے۔جنوبی ایشیا کے تناظر میں بھی یہ اقدامات عدم استحکام کو جنم دیتے ہیں۔ پاکستان میں بھارتی سرپرستی میں دہشت گردی کا موضوع نیا نہیں۔ 2014 کے آرمی پبلک اسکول پشاور کے سانحے میں 149 افراد، جن میں 132 بچے شامل تھے، شہید کیے گئے۔ پاکستانی حکام نے اس حملے کو ان گروہوں سے جوڑا جو مبینہ طور پر بھارت کی افغان سرزمین سے حمایت حاصل کرتے تھے۔
پاکستان نے ان الزامات پر بین الاقوامی تحقیقات اور اقوام متحدہ و او آئی سی میں شواہد پیش کرنے کی بارہا کوشش کی۔ مختلف ممالک سے سامنے آنے والے ان شواہد، انٹیلیجنس شیئرنگ اور قانونی اقدامات سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ بھارت پر لگنے والے الزامات محض مفروضے نہیں، اگر یہ الزامات درست ثابت ہوتے ہیں تو بھارت کو دیگر ریاستوں کی طرح بین الاقوامی قانون کے مطابق جوابدہ ٹھہرایا جانا چاہیے۔
عالمی امن و انصاف کو برقرار رکھنے کے لیے کسی بھی ریاست کو استثنیٰ نہیں دیا جا سکتا۔ بھارت کی انتہا پسند حکومت نے آبی جارحیت کا مظاہرہ کرتے ہوئے سندھ طاس معاہدے کو یکطرفہ طور پر معطل کر رکھا ہے۔ نریندر مودی عوامی جلسوں میں بلند بانگ دعوے کر رہے ہیں کہ بھارت پاکستان کا پانی روک دے گا۔ پاکستان نے پانی کے مسئلے کو ریڈ لائن قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ اگر بھارت نے پاکستان کے حصے کا پانی روکا تو اسے اعلان جنگ تصورکیا جائے گا۔
بھارت کی خفیہ ایجنسیاں میڈیا، سوشل میڈیا اور تعلیمی اداروں کے ذریعے پاکستان میں نوجوانوں کو ریاست مخالف بنانے کی کوشش کرتی رہی ہیں۔ انھیں ایسے بیانیے دیے جاتے ہیں جن سے ملک میں انتشار پھیلے۔ یہ ’’ففتھ جنریشن وار‘‘ کا حصہ ہے، جس میں دشمن ہتھیار کے بجائے نظریاتی زہر استعمال کرتا ہے۔ بھارتی سوشل میڈیا اکاؤنٹس، جعلی ویب سائٹس اور یوٹیوب چینلز کے ذریعے پاکستان میں افراتفری پیدا کرنے کی کوششیں جاری ہیں۔ بھارت کی ففتھ جنریشن وار کا سب سے بڑا ہدف ہماری نوجوان نسل ہے۔
بھارت کی سازشوں کا مقابلہ کرنے کے لیے ہمیں اپنے اندرونی اختلافات کو کم کرکے قومی اتحاد پیدا کرنا ہوگا۔ ریاستی ادارے، عوام، میڈیا اور سیاسی جماعتوں کو ایک بیانیے پر اکٹھا ہونا ہوگا۔ صرف حکومتی نمایندے ہی نہیں بلکہ دنیا بھرمیں، خاص طور پر امریکا،کینیڈا، برطانیہ، آسٹریلیا، فرانس اور دوسرے مغربی ملکوں میں آباد پاکستانی تارکین وطن، دانشور، طلبہ اورکاروباری شخصیات کو بھی اپنی اپنی سطح پر بھارت کی انتہا پسندی،کشمیر میں ظلم اور پاکستان مخالف مداخلت پر آواز بلند کرنی ہوگی۔بھارت کے خلاف ہمیں مقامی، عالمی اور سفارتی سطح پر ہر ممکن اقدام اٹھانا ہوگا۔ پاکستان کا کشمیر اور بلوچستان پر ٹھوس بیانیہ سامنے آیا، سفارت کاری کامیابی سے ہم کنار ہو رہی ہے۔ ان دونوں مسائل کے حل کے لیے ہمیں مضبوط بنیادوں پر استوار اپنا بیانیہ جاری رکھنا چاہیے۔