فوجی آپریشن کی بجائے فریقین مذاکرات کا راستہ اختیار کریں، پروفیسر ابراہیم
اشاعت کی تاریخ: 3rd, May 2025 GMT
صوبائی ذمہ داران کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے جماعت اسلامی کے صوبائی امیر کا کہنا تھا کہ وسائل کو لوٹنے اور امریکیوں کے حوالے کرنے کے لیے صوبائی حکومت کے مائنز اینڈ منرلز ایکٹ 2025ء کو کسی صورت منظور نہیں ہونے دیں گے۔ اسلام ٹائمز۔ جماعت اسلامی خیبر پختونخوا جنوبی کے صوبائی ذمہ داران کا اجلاس دارالعلوم الاسلامیہ بنوں میں منعقد ہوا۔ اجلاس کی صدارت جماعت اسلامی خیبر پختونخوا جنوبی کے امیر پروفیسر محمد ابراہیم خان نے۔ اجلاس میں صوبائی سیکرٹری جنرل محمد ظہور خٹک، نائب امراء مولانا محمد تسلیم اقبال، مولانا سلیم اللہ ارشد، حاجی عزیز اللہ خان مروت، اختر علی شاہ و دیگر شریک ہوئے۔ اجلاس میں جنوبی پختونخوا کے مسائل، سیاسی صورتحال اور امن و امان کی مخدوش صورتحال پر گفتگو ہوئی۔ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے صوبائی امیر پروفیسر محمد ابراہیم خان نے کہا کہ اس وقت جنوبی پختونخوا خصوصاً لکی مروت میں امن و امان کی صورتحال انتہائی خراب ہو چکی ہے۔ ٹانک اور ڈیرہ اسماعیل خان بھی دہشت گردی سے متاثر ہیں۔ لکی مروت کے گاؤں آتشی مچن خیل کے لوگ فوجی آپریشن کے خوف سے نقل مکانی پر مجبور ہوئے ہیں۔ یہ اچھی علامت نہیں ہے۔ دہشت گردوں کا سراغ لگانا اور ان کا مقابلہ کرنے کی بجائے عوام کو خوفزدہ کرنا اور انخلاء پر مجبور کرنا نا مناسب ہے۔
انہوں نے کہا کہ فوجی آپریشنوں سے عام لوگ متاثر ہوتے ہیں، ان کے گھر تباہ ہوتے ہیں اور جانی و مالی نقصان ہوتا۔ فوجی آپریشن کی بجائے فریقین مذاکرات کا راستہ اختیار کریں۔ مذاکرات ہی تمام مسائل کا حل ہے۔ اب تک ہزاروں قیمتی جانیں اس دہشت گردی کی بھینٹ چڑھ چکی ہیں۔ یہ سلسلہ رک جانا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ بھارت کسی خوش فہمی میں نہ رہے۔ ہمارے اندرونی مسائل اپنی جگہ، لیکن بھارتی جارحیت کے خلاف ہم سب ایک ہیں۔ بھارت نے کسی قسم کی جارحیت کی تو اسے منہ توڑ جواب دیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ جنوبی پختونخوا وسائل سے مالا مال ہے۔ اس کے وسائل کو لوٹنے اور امریکیوں کے حوالے کرنے کے لیے صوبائی حکومت کے مائنز اینڈ منرلز ایکٹ 2025ء کو کسی صورت منظور نہیں ہونے دیں گے۔ حکومت نے اسے منظور کرانے کی کوشش کی تو عوامی احتجاج سے اس کا راستہ روکیں گے۔
انہوں نے مزید کہا کہ جنوبی پختونخوا کے وسائل پر یہاں کے عوام کا حق ہے، کرک سمیت دیگر اضلاع تیل و گیس کی دولت سے مالا مال ہیں۔ حکومت روزانہ کی بنیاد پر یہاں سے بڑی مقدار میں تیل و گیس نکال رہی ہے لیکن یہاں کے عوام کو رائلٹی نہیں دے رہی۔ حکومت ان اضلاع کی تعمیر و ترقی کے لیے تیل و گیس کی رائلٹی دے۔ انہوں نے کہا کہ جماعت اسلامی اسلامی نظام کے نفاذ کے لیے کوشاں ہے۔ ہمارا مقصد اللہ کی زمین پر اللہ کے نظام کا قیام ہے۔ اس کے لیے ہماری جدوجہد جاری رہے گی۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: جنوبی پختونخوا انہوں نے کہا کہ جماعت اسلامی کے لیے
پڑھیں:
میں گاندھی کو صرف سنتا یا پڑھتا نہیں بلکہ گاندھی میں جیتا ہوں، پروفیسر مظہر آصف
مہمانِ خصوصی ستیش نمبودری پاد نے اپنے خطاب میں کہا کہ جامعہ ملیہ اسلامیہ صرف ایک یونیورسٹی نہیں بلکہ جدید ہندوستان کی تاریخ، ثقافت، ترقی اور امنگوں کی علامت ہے۔ اسلام ٹائمز۔ جامعہ ملیہ اسلامیہ نے اپنے 105ویں یومِ تاسیس کے موقع پر ایک شاندار پروگرام کا انعقاد کیا۔ یہ خصوصی سیمینار جامعہ کے نیلسن منڈیلا سینٹر فار پیس اینڈ کانفلکٹ ریزولوشن کی جانب سے منعقد کیا گیا، جس کا عنوان تھا "مہاتما گاندھی کا سوراج"۔ اس موقع پر "دور درشن" کے ڈائریکٹر جنرل کے ستیش نمبودری پاد نے بطور مہمانِ خصوصی شرکت کی، جبکہ پروگرام کی صدارت جامعہ کے وائس چانسلر پروفیسر مظہر آصف نے کی۔ اس موقع پر متعدد اسکالروں اور ماہرین تعلیم نے مہاتما گاندھی کے نظریات اور ان کے سوراج کے تصور کی عصری معنویت پر اپنے خیالات پیش کئے۔ مہمانِ خصوصی کے ستیش نمبودری پاد نے اپنے خطاب میں کہا کہ جامعہ ملیہ اسلامیہ جیسے تاریخی اور تحریک انگیز ادارے میں بولنا اپنے آپ میں فخر کی بات ہے۔ انہوں نے کہا کہ جامعہ صرف ایک یونیورسٹی نہیں بلکہ جدید ہندوستان کی تاریخ، ثقافت، ترقی اور امنگوں کی علامت ہے۔ انہوں نے کہا کہ سوراج صرف سیاسی آزادی نہیں بلکہ خود نظم، اخلاقیات اور اجتماعی بہبود کا مظہر ہے۔ انہوں نے مہاتما گاندھی کا مشہور قول نقل کیا "دنیا میں ہر ایک کی ضرورت پوری کرنے کے لئے کافی ہے، مگر کسی کے لالچ کے لئے نہیں"۔
ڈاکٹر نمبودری پاد نے بتایا کہ جب وہ نیشنل کونسل فار رورل انسٹیٹیوٹس (این سی آر آئی) میں سکریٹری جنرل تھے تو انہوں نے وردھا کا دورہ کیا جہاں انہیں گاندھیائی مفکرین نارائن دیسائی اور ڈاکٹر سدرشن ایینگر سے رہنمائی حاصل ہوئی۔ انہوں نے یجروید کے منتر "وشوَ پُشٹم گرامے اَسمِن انا تورم" کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ "حقیقی سوراج متوازن دیہی خوشحالی اور انسانی ہم آہنگی میں پوشیدہ ہے"۔ انہوں نے کہا کہ آج کے دور میں "آدرش پسندی بمقابلہ حقیقت پسندی"، "ترقی بمقابلہ اطمینان" اور "شہری زندگی بمقابلہ دیہی سادگی" کے تضادات میں گاندھی کا سوراج انسانیت کے لئے ایک اخلاقی راستہ پیش کرتا ہے۔ پروگرام کی صدارت کرتے ہوئے پروفیسر مظہر آصف نے کہا کہ دنیا مہاتما گاندھی کو پڑھ کر اور سن کر جانتی ہے، لیکن میں گاندھی میں جیتا ہوں، کیونکہ میں چمپارن کا ہوں، جہاں سے گاندھی کے ستیاگرہ کی شروعات ہوئی تھی۔