Express News:
2025-08-04@06:10:00 GMT

پاک بھارت مذاکرات ،امن کا واحد راستہ

اشاعت کی تاریخ: 5th, May 2025 GMT

روسی وزیر خارجہ سرگئی لاوروف نے بھارت اور پاکستان پر زور دیا ہے کہ وہ اپنے اختلافات دو طرفہ سیاسی اور سفارتی طریقے سے طے کریں۔ روسی وزیر خارجہ نے اپنے بھارتی ہم منصب ایس جے شنکر سے رابطہ کر کے کہا کہ شملہ معاہدہ اور لاہورڈیکلریشن کی روشنی میں دونوں ممالک کو سفارتی راستہ اختیار کرنا چاہیے، جب کہ دوسری جانب پاکستان نے 450 کلومیٹر رینج والے ابدالی میزائل سسٹم کا کامیاب تجربہ کیا ہے، اس تجربے کا مقصد افواج کی عملی تیاری اور جدید نیویگیشن سسٹم اور بہتر سمت تبدیل کرنے کی صلاحیت سمیت اہم تکنیکی پہلوؤں کو جانچنا تھا۔

 روس نے کھل کر کہا ہے کہ فریقین کو ضبط کا مظاہرہ کرتے ہوئے مذاکرات کی طرف لوٹنا چاہیے۔ روس کا یہ بیانیہ عالمی طاقتوں کے بدلتے ہوئے رویے کا عکاس ہے جو اب بھارت کی اندھی حمایت سے ہٹ کر حقیقت پسندی کی طرف مائل ہو رہے ہیں۔ روس ماضی میں بھارت کا قریبی اتحادی رہا ہے اور دفاعی شعبے میں آج بھی اس کا بڑا حصہ بھارت کے ساتھ جڑا ہوا ہے۔

ایسے میں روس کی طرف سے پاکستان کے سفارتی مؤقف کی بالواسطہ تائید اور بھارت کو تحمل کا مشورہ دینا اس امر کی علامت ہے کہ دنیا اب امن کی طرف مائل ہے اور کسی بھی جنگی مہم جوئی کو پسند نہیں کیا جا رہا۔ روس کے اس بیان کے کئی ممکنہ اثرات ہو سکتے ہیں۔ ایک تو یہ کہ بھارت پر سفارتی دباؤ بڑھے گا، دوسرے عالمی رائے عامہ بھارت کے جارحانہ عزائم کے خلاف منظم ہو سکتی ہے۔ اس کے ساتھ ہی عالمی اداروں میں پاکستان کا مؤقف زیادہ سنجیدگی سے سنا جائے گا اور ثالثی کی راہ ہموار ہو سکتی ہے۔

 پاک بھارت تعلقات کی تاریخ کشیدگی، بداعتمادی اور تنازعات سے بھری پڑی ہے۔ دونوں ممالک کے درمیان کئی جنگیں ہوچکی ہیں اور سرحدی جھڑپیں معمول کی بات رہی ہیں، لیکن موجودہ حالات میں جس نوعیت کی لفظی گولہ باری، سفارتی کشیدگی اور عسکری حرکات و سکنات دیکھی جا رہی ہیں، وہ خطے کے امن کے لیے ایک گھنٹی کی مانند ہیں جو مسلسل بج رہی ہے اور اسے نظر انداز کرنا خطرناک ہوگا۔ پاکستان نے بارہا یہ مؤقف اپنایا ہے کہ خطے میں پائیدار امن و استحکام ، مسئلہ کشمیر سمیت تمام متنازعہ امور کے پرامن، منصفانہ اور غیر جانبدارانہ حل سے مشروط ہے۔

مگر بھارت کی موجودہ قیادت جنگی جنون میں مبتلا ہو چکی ہے۔ پاکستان کے پر امن رویے اور سفارتی حکمت عملی کے باوجود بھارت کی طرف سے دھمکی آمیز بیانات، محدود فوجی کارروائیوں کی دھمکیاں اور سرحدی خلاف ورزیاں خطے کو کسی بڑے تصادم کی طرف دھکیل سکتی ہیں۔

بھارت کے جنگی جنون کے ممکنہ نتائج کی بات کی جائے تو سب سے بڑا خطرہ یہ ہے کہ کوئی محدود جھڑپ یا سرحدی کارروائی مکمل جنگ میں بدل سکتی ہے، اور دونوں ممالک ایٹمی صلاحیت کے حامل ہیں۔

ایٹمی جنگ کا تصور بھی اس قدر ہولناک ہے کہ انسانیت کانپ اٹھتی ہے۔ لاکھوں جانیں ضایع ہو سکتی ہیں، کروڑوں افراد متاثر ہوں گے، معیشتیں تباہ ہو جائیں گی اور خطے کی نسلیں متاثر ہوں گی۔عالمی برادری کو اب ایک واضح پیغام مل چکا ہے کہ جنوبی ایشیا میں اگر کسی جانب سے جنگ کی فضا پیدا کی جا رہی ہے تو وہ بھارت ہے۔ پاکستان کا رویہ ہر فورم پر ذمے دارانہ رہا ہے۔ پاکستان نے ثبوتوں کے بغیر کسی پر الزام تراشی نہیں کی، جب کہ بھارت آئے دن کسی نہ کسی واقعے کا الزام بغیر تحقیق کے پاکستان پر دھر دیتا ہے۔ بھارتی دانشور حلقے بھی اس حقیقت کو تسلیم کرنے لگے ہیں کہ مودی حکومت اندرونی ناکامیوں کو چھپانے کے لیے پاکستان دشمنی کا کارڈ کھیل رہی ہے۔

 پاکستان کی طرف سے غیرجانبدارانہ تحقیقات کی پیشکش، سفارتی دروازے کھلے رکھنے کی یقین دہانی، اور ثالثی کی تجاویز کو عالمی سطح پر سراہا گیا ہے۔ چین نے پاکستان کے مؤقف کی تائید کی ہے اور زور دیا ہے کہ معاملات کو بات چیت کے ذریعے سلجھایا جائے۔ چین کا یہ ردعمل محض رسمی بیان نہیں بلکہ ایک ایسے ملک کی طرف سے ہے جو خطے میں اقتصادی، جغرافیائی اور اسٹرٹیجک مفادات رکھتا ہے۔ چین کا یہ بھی مؤقف رہا ہے کہ بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو کی کامیابی خطے کے امن و استحکام سے مشروط ہے، اور وہ کسی صورت یہ برداشت نہیں کرے گا کہ دو ہمسایہ ممالک کی کشیدگی پورے خطے کو عدم استحکام سے دوچار کر دے۔ چین کے بعد روس کا حالیہ بیان ایک اہم موڑ کی نشاندہی کرتا ہے۔

دوسری جانب حالیہ ابدالی میزائل کا تجربہ پاکستان کی دفاعی حکمتِ عملی کا ایک اہم جزو ہے، جس کا مقصد ملکی خود مختاری کا تحفظ اور علاقائی توازن کو برقرار رکھنا ہے۔ یہ میزائل 450 کلومیٹر تک زمین سے زمین تک اپنے ہدف کو نشانہ بنانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اس قسم کے تجربات بھارت جیسے پڑوسی ملک کے مقابلے میں پاکستان کی اسٹرٹیجک ڈیٹرنس (strategic deterrence) کو مضبوط بنانے کے لیے کیے جاتے ہیں۔ گو بھارت روایتی فوجی طاقت، فوجی حجم، اور دفاعی بجٹ کے لحاظ سے پاکستان سے کہیں آگے ہے۔

تاہم، پاکستان نے اپنی چھوٹی فوجی و معاشی استطاعت کے باوجود دفاعی ٹیکنالوجی میں جدت پیدا کی ہے، خصوصاً جوہری ہتھیاروں اور میزائل ٹیکنالوجی میں۔ بھارت کے پاس جدید لڑاکا طیارے جیسے رافیل موجود ہیں، جب کہ پاکستان نے JF-17 جیسے جدید مگرکم لاگت طیارے خود بنائے ہیں۔ پاکستان کی نیوی چھوٹی ہے مگر چین کے ساتھ تعاون اور ٹیکنالوجی کی مدد سے جدید ہو رہی ہے، جیسے کہ جدید آبدوزیں اور میزائل سسٹمز۔ اگرچہ بھارت کی روایتی جنگی طاقت مجموعی طور پر زیادہ ہے، پاکستان کی جوہری صلاحیت، میزائل ٹیکنالوجی، اور فل اسپیکٹرم ڈیٹرنس کی حکمت عملی اسے ایک مؤثر دفاعی پوزیشن میں رکھتی ہے۔

 حالیہ بیانات اور اقدامات سے یہ بھی واضح ہو گیا ہے کہ پاکستان کی سفارتی حکمت عملی کامیاب جا رہی ہے۔ چین، روس، ترکی، ایران، سعودی عرب، ملائیشیا اور کئی دیگر ممالک پاکستان کے مؤقف کی تائید کر چکے ہیں۔ اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل نے بھی فریقین سے تحمل کا مظاہرہ کرنے کی اپیل کی ہے۔

ان تمام باتوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ عالمی برادری کسی بھی قسم کی جنگی صورت حال کو برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ عالمی ادارے بھارت پر دباؤ ڈالیں کہ وہ پاکستان کے ساتھ مذاکرات کی میز پر بیٹھے۔ ثالثی کی پیشکشوں کو قبول کرے اور خطے کو امن کی طرف لے جانے میں کردار ادا کرے۔پاکستان خطے کو ایک پرامن، خوشحال اور باہم جڑا ہوا بلاک بنانا چاہتا ہے، جب کہ بھارت کا رویہ اس خواب کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ بنتا جا رہا ہے۔

اس نازک صورت حال میں میڈیا کا کردار بھی انتہائی اہم ہو جاتا ہے۔ بھارتی میڈیا کا جنگی پراپیگنڈہ جلتی پر تیل کا کام کر رہا ہے جب کہ پاکستانی میڈیا نے اب تک ذمے دارانہ رویہ اپنایا ہے۔ سوشل میڈیا پر بھی اشتعال انگیزی عروج پر ہے جسے روکنا دونوں ممالک کی ذمے داری ہے۔ اگر عوامی سطح پر اشتعال پھیلایا جاتا رہا تو حکومتیں بھی دباؤ میں آ کر غلط فیصلے کر سکتی ہیں۔ اس لیے ضروری ہے کہ دانشور طبقہ، سول سوسائٹی اور عالمی میڈیا اس وقت ہوش کے ناخن لے اور حقائق پر مبنی، غیر جانبدارانہ رپورٹنگ کرے۔اس حقیقت کو جھٹلایا نہیں جا سکتا کہ اگر پاک بھارت تعلقات میں بہتری نہ آئی اور کشیدگی کا یہ سلسلہ جاری رہا تو نہ صرف دونوں ممالک بلکہ پورا خطہ اس کی زد میں آئے گا۔

جنوبی ایشیا ایک ایٹمی فلیش پوائنٹ بن چکا ہے، اور عالمی برادری کی غفلت یا جانب داری اس خطرے کو مزید بڑھا سکتی ہے۔ وقت کا تقاضا یہ ہے کہ بھارت کو ذمے داری کا احساس دلایا جائے اور پاکستان کے ساتھ غیر مشروط، سنجیدہ اور نتیجہ خیز مذاکرات شروع کیے جائیں۔جنگ کسی مسئلے کا حل نہیں۔ یہ ایک آگ ہے جو سب کچھ خاک کر دیتی ہے۔

پاکستان بار بار کہہ چکا ہے کہ وہ امن کا داعی ہے لیکن اگر اس کی خود مختاری، سلامتی یا قومی وقار پر آنچ آئی تو بھرپور جواب دیا جائے گا۔ دنیا کو اب یہ سمجھنا ہوگا کہ مودی حکومت کے جنگی بیانیے کا اصل ہدف نہ پاکستان ہے نہ کشمیر بلکہ اپنے عوام کی توجہ اصل مسائل سے ہٹانا ہے۔ ایسے میں اگر عالمی برادری خاموش تماشائی بنی رہی تو کل کو اس کی قیمت سب کو چکانا پڑے گی۔سفارتی حکمت عملی، عوامی شعور، میڈیا کی ذمے داری، اور عالمی دباؤ ہی وہ عوامل ہیں جو جنگی ماحول کو روک سکتے ہیں۔ پاکستان نے اپنے حصے کا کام کر دیا ہے، اب عالمی برادری کو بھی کھل کر میدان میں آنا ہوگا ۔ یہ وہ وقت ہے جب مصلحتوں کو بالائے طاق رکھ کر انسانیت کے حق میں فیصلہ کرنا ہوگا۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: عالمی برادری دونوں ممالک پاکستان کے پاکستان نے پاکستان کی حکمت عملی کی طرف سے کہ بھارت بھارت کے بھارت کی کے ساتھ سکتی ہے کے لیے خطے کو رہی ہے ہے اور رہا ہے

پڑھیں:

پاکستان-امریکا تجارتی معاہدہ: کامیابی، چال یا نئے عالمی نظام کا جال؟

پاکستان اور امریکا کے درمیان حالیہ دنوں طے پانے والے ممکنہ تجارتی معاہدے نے عالمی سیاست میں نئی حرارت پیدا کر دی ہے۔ جنوبی ایشیا کے تناظر میں دیکھا جائے تو یہ معاہدہ نہ صرف پاکستان کے لیے ایک نئی معاشی راہ کھولتا ہے بلکہ بھارت کے لیے سفارتی دھچکا بھی بن چکا ہے، خاص طور پر اس وقت جب سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بھارت پر 25 فیصد ٹیرف (ٹیکس) عائد کرنے کا اعلان کر دیا۔

ایک طرف پاکستان کے سرکاری حلقے اسے تاریخی کامیابی قرار دے رہے ہیں، تو دوسری طرف کچھ مبصرین اس پیش رفت کو امریکا کی عالمی شطرنج کی نئی چال قرار دے رہے ہیں، جس کا مقصد چین، روس اور مسلم دنیا میں توازنِ قوت کو نئی سمت دینا ہے۔

لیکن سوال یہ ہے:

کیا یہ معاہدہ پاکستان کے لیے واقعی ایک موقع ہے؟ یا یہ صرف نئے عالمی نظام (New World Order) کا دباؤ ہے؟

پاکستان کے لیے ممکنہ فوائد

اگر یہ معاہدہ قومی مفاد اور شفاف حکمت عملی کے تحت استعمال کیا جائے، تو پاکستان کئی معاشی و سفارتی فوائد حاصل کر سکتا ہے:

برآمدات میں نمایاں اضافہ

امریکا دنیا کی سب سے بڑی منڈی ہے۔ اگر پاکستان کو ترجیحی تجارتی رسائی (Preferential Market Access) یا ٹیرف فری ایکسپورٹ کی اجازت ملتی ہے، تو پاکستان کی ٹیکسٹائل، سرجیکل، لیدر، فارماسیوٹیکل اور آئی ٹی مصنوعات کی برآمدات میں انقلاب آ سکتا ہے۔

روزگار اور صنعت کا فروغ

برآمدات بڑھنے سے مقامی صنعتیں متحرک ہوں گی، جس سے لاکھوں ملازمتوں کے مواقع پیدا ہوں گے، خاص طور پر نوجوانوں کے لیے۔

سرمایہ کاری کے مواقع

یہ معاہدہ امریکی کمپنیوں کو پاکستان میں سرمایہ کاری پر آمادہ کر سکتا ہے۔ زراعت، انرجی، آئی ٹی اور ٹرانسپورٹ جیسے شعبوں میں جوائنٹ وینچر بن سکتے ہیں، جن سے ٹیکنالوجی اور گورننس کی بہتری ممکن ہے۔

زرمبادلہ میں بہتری

ڈالر میں برآمدات بڑھنے سے زرِمبادلہ کے ذخائر مستحکم ہوں گے اور روپے کی قدر بہتر ہو سکتی ہے، جس سے مہنگائی میں بھی کمی آئے گی۔

عالمی ساکھ اور پوزیشننگ

ایک بڑی عالمی طاقت سے معاشی تعلقات پاکستان کی عالمی ساکھ کو بہتر بنا سکتے ہیں۔ IMF، FATF اور دیگر بین الاقوامی اداروں کے ساتھ پاکستان کی پوزیشن مضبوط ہوگی۔

بھارت پر سفارتی دباؤ

ٹرمپ حکومت کی جانب سے بھارت پر ٹیرف اور پاکستان سے قریب تر رابطے، خطے میں امریکہ کی حکمت عملی میں بڑی تبدیلی کی علامت ہیں۔ بھارت، جو امریکا کا اسٹریٹیجک پارٹنر سمجھا جاتا رہا، اب دباؤ میں ہے

کیا یہ وقتی دوستی ہے یا دیرپا شراکت داری؟

تاریخ گواہ ہے کہ امریکا نے پاکستان کو ہمیشہ اپنی وقتی ضرورت کے مطابق استعمال کیا:

افغان جہاد میں فرنٹ لائن اتحادی بنایا؛

نائن الیون کے بعد دہشتگردی کے خلاف جنگ میں جھونک دیا؛

اور اب چین کے اثر کو روکنے کے لیے پھر قریب آ رہا ہے۔

یہی سوال جنم لیتا ہے کہ کیا پاکستان ایک بار پھر کسی بڑی عالمی سازش کا ایندھن بننے جا رہا ہے؟ کیا یہ معاہدہ صرف سی پیک کو متنازع بنانے اور چین کو محدود کرنے کا حربہ تو نہیں؟

نیو ورلڈ آرڈر‘ کا خطرناک پہلو

’نیو ورلڈ آرڈر‘ محض ایک نظریہ نہیں، بلکہ ایک جاری عمل ہے جس میں بڑی طاقتیں اپنے معاشی اور فوجی اثرات سے چھوٹے ممالک کو اپنی صف بندیوں میں شامل کرنے کی کوشش کر رہی ہیں۔

روس-یوکرین جنگ؛

چین-تائیوان کشیدگی؛

مشرق وسطیٰ میں تبدیلی؛

یہ سب ظاہر کرتے ہیں کہ دنیا ایک نئے بلاک سسٹم کی طرف بڑھ رہی ہے۔

بینالاقوامی تجارتی اور قانونی امور کے  ماہر معید الرحمان کے مطابق امریکا چاہتا ہے کہ پاکستان، ایران اور افغانستان کی سرحدی پوزیشن کو استعمال کر کے چین اور روس کے خلاف ایک جغرافیائی دیوار بنائے۔

ان کے مطابق پاکستان کو بہت سوچ سمجھ کر فیصلہ کرنا ہوگا کہ وہ خود کو کسی بلاک میں شامل کرے یا توازن کی پالیسی اختیار کرے۔

پاکستان کو کن نکات پر محتاط رہنے کی ضرورت ہے؟ معاہدے کی شفافیت:

خفیہ شقیں پاکستان کو بعد ازاں نقصان پہنچا سکتی ہیں، جیسا کہ ماضی میں کئی معاہدوں کا انجام ہوا۔

قومی خودمختاری کا تحفظ:

کسی بھی اقتصادی رعایت کے بدلے اگر خارجہ پالیسی، دفاعی خودمختاری یا چین سے تعلقات پر سمجھوتہ کیا گیا تو نقصان دہ ہوگا۔

متوازن خارجہ پالیسی:

چین، ترکی، سعودی عرب، ایران اور خلیجی ممالک سے بھی تعلقات میں توازن رکھنا ضروری ہے۔

قانونی و ادارہ جاتی اصلاحات:

امریکا جیسے ملک سے تجارتی روابط کے لیے پاکستان کو شفاف کاروباری ماحول، مؤثر عدالتی نظام اور کرپشن فری ادارے بنانے ہوں گے۔

نتیجہ: جیت یا جال؟

یہ معاہدہ اگر پاکستان کے مفاد میں صحیح طریقے سے بروئے کار لایا جائے تو یہ ایک معاشی اور سفارتی کامیابی ثابت ہو سکتا ہے۔

لیکن اگر یہ معاہدہ نئے عالمی نظام کی ایک سازش کا حصہ نکلا، تو پاکستان پھر ایک بار اپنے فیصلوں کا خمیازہ بھگتے گا۔

 بین الاقوامی مالیاتی امور سے وابستہ شہزاد افضل کے مطابق اب وقت ہے کہ پاکستان ’جذباتی سفارت کاری‘ کی بجائے ’حکمت عملی پر مبنی معاشی آزادی‘ کو اپنائے۔ ہر رعایت، ہر معاہدہ، اور ہر دوستی کو صرف ایک اصول پر پرکھا جائے:

کیا یہ پاکستان کے مفاد میں ہے؟ اگر نہیں — تو تاخیر سے بہتر ہے انکار۔

ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

عبید الرحمان عباسی

مصنف سابق سینئر ایڈیشنل ڈائریکٹر لاء پاکستان سول ایوی ایشن اتھارٹی اور اسلام آباد میں مقیم ایوی ایشن اینڈ انٹرنیشنل لاء کنسلٹنٹ ہیں۔ ان سے [email protected] پر رابطہ کیا جا سکتا ہے۔

متعلقہ مضامین

  • فیلڈ مارشل عاصم منیر کی قیادت میں پاکستان نئے دور میں داخل، عالمی سطح پر شان دار خراج تحسین
  • پاک بھارت جنگ میں کامیابی اور بہترین سفارتکاری سے پاکستان کی عالمی ساکھ بہتر!!
  • بھارت کی سیاسی اور سفارتی مشکلات
  • شاہراہ ریشم تک پہنچنے کا راستہ
  • پاکستان اور ایران کے درمیان وفود کی سطح پر بھی مذاکرات ہوں گے،اسحاق ڈار  
  • اگر مذاکرات ناکام ہوئے تو جنگ جاری رہے گی، اسرائیلی جنرل کی وارننگ
  • یوکرین امن مذاکرات پر ٹرمپ ضرورت سے زیادہ توقعات کے باعث مایوسی کے شکار ہیں؛ پوٹن
  • پاکستان-امریکا تجارتی معاہدہ: کامیابی، چال یا نئے عالمی نظام کا جال؟
  • بھارت اور پاکستان کے درمیان میڈیا کی سطح پر عالمی مقابلہ جاری ہے؛ بلاول بھٹو
  •  ’بھارت کا کردار عالمی سطح پر مشکوک ہو چکا‘،امریکی وزیر خارجہ