Express News:
2025-05-05@01:09:02 GMT

پاک بھارت مذاکرات ،امن کا واحد راستہ

اشاعت کی تاریخ: 5th, May 2025 GMT

روسی وزیر خارجہ سرگئی لاوروف نے بھارت اور پاکستان پر زور دیا ہے کہ وہ اپنے اختلافات دو طرفہ سیاسی اور سفارتی طریقے سے طے کریں۔ روسی وزیر خارجہ نے اپنے بھارتی ہم منصب ایس جے شنکر سے رابطہ کر کے کہا کہ شملہ معاہدہ اور لاہورڈیکلریشن کی روشنی میں دونوں ممالک کو سفارتی راستہ اختیار کرنا چاہیے، جب کہ دوسری جانب پاکستان نے 450 کلومیٹر رینج والے ابدالی میزائل سسٹم کا کامیاب تجربہ کیا ہے، اس تجربے کا مقصد افواج کی عملی تیاری اور جدید نیویگیشن سسٹم اور بہتر سمت تبدیل کرنے کی صلاحیت سمیت اہم تکنیکی پہلوؤں کو جانچنا تھا۔

 روس نے کھل کر کہا ہے کہ فریقین کو ضبط کا مظاہرہ کرتے ہوئے مذاکرات کی طرف لوٹنا چاہیے۔ روس کا یہ بیانیہ عالمی طاقتوں کے بدلتے ہوئے رویے کا عکاس ہے جو اب بھارت کی اندھی حمایت سے ہٹ کر حقیقت پسندی کی طرف مائل ہو رہے ہیں۔ روس ماضی میں بھارت کا قریبی اتحادی رہا ہے اور دفاعی شعبے میں آج بھی اس کا بڑا حصہ بھارت کے ساتھ جڑا ہوا ہے۔

ایسے میں روس کی طرف سے پاکستان کے سفارتی مؤقف کی بالواسطہ تائید اور بھارت کو تحمل کا مشورہ دینا اس امر کی علامت ہے کہ دنیا اب امن کی طرف مائل ہے اور کسی بھی جنگی مہم جوئی کو پسند نہیں کیا جا رہا۔ روس کے اس بیان کے کئی ممکنہ اثرات ہو سکتے ہیں۔ ایک تو یہ کہ بھارت پر سفارتی دباؤ بڑھے گا، دوسرے عالمی رائے عامہ بھارت کے جارحانہ عزائم کے خلاف منظم ہو سکتی ہے۔ اس کے ساتھ ہی عالمی اداروں میں پاکستان کا مؤقف زیادہ سنجیدگی سے سنا جائے گا اور ثالثی کی راہ ہموار ہو سکتی ہے۔

 پاک بھارت تعلقات کی تاریخ کشیدگی، بداعتمادی اور تنازعات سے بھری پڑی ہے۔ دونوں ممالک کے درمیان کئی جنگیں ہوچکی ہیں اور سرحدی جھڑپیں معمول کی بات رہی ہیں، لیکن موجودہ حالات میں جس نوعیت کی لفظی گولہ باری، سفارتی کشیدگی اور عسکری حرکات و سکنات دیکھی جا رہی ہیں، وہ خطے کے امن کے لیے ایک گھنٹی کی مانند ہیں جو مسلسل بج رہی ہے اور اسے نظر انداز کرنا خطرناک ہوگا۔ پاکستان نے بارہا یہ مؤقف اپنایا ہے کہ خطے میں پائیدار امن و استحکام ، مسئلہ کشمیر سمیت تمام متنازعہ امور کے پرامن، منصفانہ اور غیر جانبدارانہ حل سے مشروط ہے۔

مگر بھارت کی موجودہ قیادت جنگی جنون میں مبتلا ہو چکی ہے۔ پاکستان کے پر امن رویے اور سفارتی حکمت عملی کے باوجود بھارت کی طرف سے دھمکی آمیز بیانات، محدود فوجی کارروائیوں کی دھمکیاں اور سرحدی خلاف ورزیاں خطے کو کسی بڑے تصادم کی طرف دھکیل سکتی ہیں۔

بھارت کے جنگی جنون کے ممکنہ نتائج کی بات کی جائے تو سب سے بڑا خطرہ یہ ہے کہ کوئی محدود جھڑپ یا سرحدی کارروائی مکمل جنگ میں بدل سکتی ہے، اور دونوں ممالک ایٹمی صلاحیت کے حامل ہیں۔

ایٹمی جنگ کا تصور بھی اس قدر ہولناک ہے کہ انسانیت کانپ اٹھتی ہے۔ لاکھوں جانیں ضایع ہو سکتی ہیں، کروڑوں افراد متاثر ہوں گے، معیشتیں تباہ ہو جائیں گی اور خطے کی نسلیں متاثر ہوں گی۔عالمی برادری کو اب ایک واضح پیغام مل چکا ہے کہ جنوبی ایشیا میں اگر کسی جانب سے جنگ کی فضا پیدا کی جا رہی ہے تو وہ بھارت ہے۔ پاکستان کا رویہ ہر فورم پر ذمے دارانہ رہا ہے۔ پاکستان نے ثبوتوں کے بغیر کسی پر الزام تراشی نہیں کی، جب کہ بھارت آئے دن کسی نہ کسی واقعے کا الزام بغیر تحقیق کے پاکستان پر دھر دیتا ہے۔ بھارتی دانشور حلقے بھی اس حقیقت کو تسلیم کرنے لگے ہیں کہ مودی حکومت اندرونی ناکامیوں کو چھپانے کے لیے پاکستان دشمنی کا کارڈ کھیل رہی ہے۔

 پاکستان کی طرف سے غیرجانبدارانہ تحقیقات کی پیشکش، سفارتی دروازے کھلے رکھنے کی یقین دہانی، اور ثالثی کی تجاویز کو عالمی سطح پر سراہا گیا ہے۔ چین نے پاکستان کے مؤقف کی تائید کی ہے اور زور دیا ہے کہ معاملات کو بات چیت کے ذریعے سلجھایا جائے۔ چین کا یہ ردعمل محض رسمی بیان نہیں بلکہ ایک ایسے ملک کی طرف سے ہے جو خطے میں اقتصادی، جغرافیائی اور اسٹرٹیجک مفادات رکھتا ہے۔ چین کا یہ بھی مؤقف رہا ہے کہ بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو کی کامیابی خطے کے امن و استحکام سے مشروط ہے، اور وہ کسی صورت یہ برداشت نہیں کرے گا کہ دو ہمسایہ ممالک کی کشیدگی پورے خطے کو عدم استحکام سے دوچار کر دے۔ چین کے بعد روس کا حالیہ بیان ایک اہم موڑ کی نشاندہی کرتا ہے۔

دوسری جانب حالیہ ابدالی میزائل کا تجربہ پاکستان کی دفاعی حکمتِ عملی کا ایک اہم جزو ہے، جس کا مقصد ملکی خود مختاری کا تحفظ اور علاقائی توازن کو برقرار رکھنا ہے۔ یہ میزائل 450 کلومیٹر تک زمین سے زمین تک اپنے ہدف کو نشانہ بنانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اس قسم کے تجربات بھارت جیسے پڑوسی ملک کے مقابلے میں پاکستان کی اسٹرٹیجک ڈیٹرنس (strategic deterrence) کو مضبوط بنانے کے لیے کیے جاتے ہیں۔ گو بھارت روایتی فوجی طاقت، فوجی حجم، اور دفاعی بجٹ کے لحاظ سے پاکستان سے کہیں آگے ہے۔

تاہم، پاکستان نے اپنی چھوٹی فوجی و معاشی استطاعت کے باوجود دفاعی ٹیکنالوجی میں جدت پیدا کی ہے، خصوصاً جوہری ہتھیاروں اور میزائل ٹیکنالوجی میں۔ بھارت کے پاس جدید لڑاکا طیارے جیسے رافیل موجود ہیں، جب کہ پاکستان نے JF-17 جیسے جدید مگرکم لاگت طیارے خود بنائے ہیں۔ پاکستان کی نیوی چھوٹی ہے مگر چین کے ساتھ تعاون اور ٹیکنالوجی کی مدد سے جدید ہو رہی ہے، جیسے کہ جدید آبدوزیں اور میزائل سسٹمز۔ اگرچہ بھارت کی روایتی جنگی طاقت مجموعی طور پر زیادہ ہے، پاکستان کی جوہری صلاحیت، میزائل ٹیکنالوجی، اور فل اسپیکٹرم ڈیٹرنس کی حکمت عملی اسے ایک مؤثر دفاعی پوزیشن میں رکھتی ہے۔

 حالیہ بیانات اور اقدامات سے یہ بھی واضح ہو گیا ہے کہ پاکستان کی سفارتی حکمت عملی کامیاب جا رہی ہے۔ چین، روس، ترکی، ایران، سعودی عرب، ملائیشیا اور کئی دیگر ممالک پاکستان کے مؤقف کی تائید کر چکے ہیں۔ اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل نے بھی فریقین سے تحمل کا مظاہرہ کرنے کی اپیل کی ہے۔

ان تمام باتوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ عالمی برادری کسی بھی قسم کی جنگی صورت حال کو برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ عالمی ادارے بھارت پر دباؤ ڈالیں کہ وہ پاکستان کے ساتھ مذاکرات کی میز پر بیٹھے۔ ثالثی کی پیشکشوں کو قبول کرے اور خطے کو امن کی طرف لے جانے میں کردار ادا کرے۔پاکستان خطے کو ایک پرامن، خوشحال اور باہم جڑا ہوا بلاک بنانا چاہتا ہے، جب کہ بھارت کا رویہ اس خواب کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ بنتا جا رہا ہے۔

اس نازک صورت حال میں میڈیا کا کردار بھی انتہائی اہم ہو جاتا ہے۔ بھارتی میڈیا کا جنگی پراپیگنڈہ جلتی پر تیل کا کام کر رہا ہے جب کہ پاکستانی میڈیا نے اب تک ذمے دارانہ رویہ اپنایا ہے۔ سوشل میڈیا پر بھی اشتعال انگیزی عروج پر ہے جسے روکنا دونوں ممالک کی ذمے داری ہے۔ اگر عوامی سطح پر اشتعال پھیلایا جاتا رہا تو حکومتیں بھی دباؤ میں آ کر غلط فیصلے کر سکتی ہیں۔ اس لیے ضروری ہے کہ دانشور طبقہ، سول سوسائٹی اور عالمی میڈیا اس وقت ہوش کے ناخن لے اور حقائق پر مبنی، غیر جانبدارانہ رپورٹنگ کرے۔اس حقیقت کو جھٹلایا نہیں جا سکتا کہ اگر پاک بھارت تعلقات میں بہتری نہ آئی اور کشیدگی کا یہ سلسلہ جاری رہا تو نہ صرف دونوں ممالک بلکہ پورا خطہ اس کی زد میں آئے گا۔

جنوبی ایشیا ایک ایٹمی فلیش پوائنٹ بن چکا ہے، اور عالمی برادری کی غفلت یا جانب داری اس خطرے کو مزید بڑھا سکتی ہے۔ وقت کا تقاضا یہ ہے کہ بھارت کو ذمے داری کا احساس دلایا جائے اور پاکستان کے ساتھ غیر مشروط، سنجیدہ اور نتیجہ خیز مذاکرات شروع کیے جائیں۔جنگ کسی مسئلے کا حل نہیں۔ یہ ایک آگ ہے جو سب کچھ خاک کر دیتی ہے۔

پاکستان بار بار کہہ چکا ہے کہ وہ امن کا داعی ہے لیکن اگر اس کی خود مختاری، سلامتی یا قومی وقار پر آنچ آئی تو بھرپور جواب دیا جائے گا۔ دنیا کو اب یہ سمجھنا ہوگا کہ مودی حکومت کے جنگی بیانیے کا اصل ہدف نہ پاکستان ہے نہ کشمیر بلکہ اپنے عوام کی توجہ اصل مسائل سے ہٹانا ہے۔ ایسے میں اگر عالمی برادری خاموش تماشائی بنی رہی تو کل کو اس کی قیمت سب کو چکانا پڑے گی۔سفارتی حکمت عملی، عوامی شعور، میڈیا کی ذمے داری، اور عالمی دباؤ ہی وہ عوامل ہیں جو جنگی ماحول کو روک سکتے ہیں۔ پاکستان نے اپنے حصے کا کام کر دیا ہے، اب عالمی برادری کو بھی کھل کر میدان میں آنا ہوگا ۔ یہ وہ وقت ہے جب مصلحتوں کو بالائے طاق رکھ کر انسانیت کے حق میں فیصلہ کرنا ہوگا۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: عالمی برادری دونوں ممالک پاکستان کے پاکستان نے پاکستان کی حکمت عملی کی طرف سے کہ بھارت بھارت کے بھارت کی کے ساتھ سکتی ہے کے لیے خطے کو رہی ہے ہے اور رہا ہے

پڑھیں:

نہریں کیوں نکالنے نہیں دیں گے؟ کالا باغ ڈیم کیوں نہیں بننے دیا گیا؟: خواجہ سعد رفیق

---فائل فوٹو 

پاکستان مسلم لیگ (ن) کے رہنما خواجہ سعد رفیق نے سوال اٹھاتے ہوئے کہا کہ پنجاب کے ساتھ بھی زیادتیاں ہوئی ہیں، نہریں کیوں نکالنے نہیں دیں گے؟ کالا باغ ڈیم کیوں نہیں بننے دیا گیا؟ چولستان پر بھی سوالیہ نشان ہے۔

لاہور میں اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور کی الیومینائی ایسوسی ایشن کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے سعد رفیق نے کہا کہ پاکستان خطے میں جنگ کا خطرہ مول نہیں لے سکتا، اگر جنگ چھڑ گئی تو بھارت کا نقصان زیادہ ہوگا۔

پاکستان نہیں چاہتا جنگ ہو اور دونوں جانب انسانی خون بہے، خواجہ سعد رفیق

رہنما مسلم لیگ ن نے کہا کہ اکھنڈ بھارت کی سوچ کے تحت بنگلہ دیش کو ذہنی غلام بنا کر رکھنے کا بھارتی پروجیکٹ ناکام ہوچکا۔

انہوں نے مزید کہا کہ موجودہ صورتحال میں پاکستان نے درست پوزیشن لی ہے، خطے سے جنگ کے بادل چھٹ جائیں گے، جنگی جنون کے بجائے بامقصد مذاکرات کیے جائیں۔

خواجہ سعد رفیق کا یہ بھی کہنا ہے کہ کشمیریوں کو استصواب رائے کا حق دیا جائے، پانی کا مسئلہ مذاکرات سے حل کیا جائے۔

متعلقہ مضامین

  • امریکی ارکانِ کانگریس کی پاک بھارت کشیدگی پر تشویش، دونوں ممالک کو مذاکرات کا مشورہ
  • روس کا بھی بھارت پر پاکستان سے کشیدگی دو طرفہ مذاکرات کے ذریعے حل کرنے پر زور
  • خلیج تعاون کونسل کا پاکستان اور بھارت سے فوری مذاکرات شروع کرنے کا مطالبہ
  • خلیج تعاون کونسل کا پاکستان بھارت سے فوری مذاکرات شروع کرنے کا مطالبہ
  • بھارت کشیدگی بڑھانے کے بجائے پاکستان سے مذاکرات کرے، روس
  • بھارت کشیدگی بڑھانے کے بجائے پاکستان سے مذاکرات کرے، روس کا دوٹوک پیغام
  • فوجی آپریشن کی بجائے فریقین مذاکرات کا راستہ اختیار کریں، پروفیسر ابراہیم
  • نہریں کیوں نکالنے نہیں دیں گے؟ کالا باغ ڈیم کیوں نہیں بننے دیا گیا؟: خواجہ سعد رفیق
  • سیتھ رولنز کی ریسلنگ کے بجائے کوٹ کے چرچے، مگر کیوں؟