اسٹیٹ بینک نے شرح سود میں ایک فیصد کمی کردی
اشاعت کی تاریخ: 5th, May 2025 GMT
کراچی: اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے شرح سود میں ایک فیصد کی کمی کردی۔
اسٹیٹ بینک کی جانب سے شرح سود 12 فیصد سے کم کرکے 11 فیصد کردی گئی ۔
اسٹیٹ بینک کی مانیٹری پالیسی کمیٹی نے شرح سود میں کمی کی تفصیلات بتاتے ہوئے کہا ہےکہ بجلی کی سرکاری قیمتوں میں کمی اور غذائی گرانی نے مہنگائی کی شرح تیزی سے کم کی ہے۔ مہنگائی کا منظر نامہ پچھلے تخمینوں کے مقابلے میں مزید بہتر ہوا ہے۔
مہنگائی اپریل میں اعشاریہ تین فیصد رہی اور قوزی مہنگائی بھی نو فیصد سے کم ہوکر آٹھ فیصد ہوئی ہے۔ کرنٹ اکاونٹ سرپلس ہے۔ جبکہ معاشی نمو رواں مالی سال ڈھائی سے ساڑھے تین فیصد کے درمیان رہنےکی توقعات ہیں۔
کمیٹی کے مطابق مالی سال کے اختتام تک زرمبادلہ ذخائر 14 ارب ڈالر ہوجائیں گے۔ تجارتی ٹیرف سے پیدا ہوئی بے یقینی کیفیت اور بین الاقوامی سیاسی حالات معیشت کے لیے چیلنجز بن سکتے ہیں۔
کمیٹی نے کہا کہ اسٹیٹ بینک کی کوشش ہے کہ مہنگائی قابو میں رہے اور معاشی نمو پائیدار رہے، اس منظر میں ایم پی سی نے شرح سود میں ایک فیصد کمی کرکے محتاط زری پالیسی مؤقف برقرار رکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔
ذریعہ: Daily Mumtaz
پڑھیں:
ترسیلات زر رواں مالی سال 38 ارب ڈالر تک پہنچنے کی توقع ہے، اسٹیٹ بینک
مانیٹری پالیسی پر معاشی تجزیہ نگاروں کو بریفنگ میں مرکزی بینک کا کہنا ہے کہ کرنٹ اکاؤنٹ بیلنس میں 9 ماہ میں 1 اعشاریہ 9 ارب ڈالر کا سرپلس ریکارڈ کیا گیا ہے۔ اسلام ٹائم۔ اسٹیٹ بینک آف پاکستان کا کہنا ہے کہ ورکرز ترسیلات رواں مالی سال 38 ارب ڈالر تک پہنچنے کی توقع ہے۔ مانیٹری پالیسی پر معاشی تجزیہ نگاروں کو بریفنگ میں مرکزی بینک کا کہنا ہے کہ کرنٹ اکاؤنٹ بیلنس میں 9 ماہ میں 1 اعشاریہ 9 ارب ڈالر کا سرپلس ریکارڈ کیا گیا ہے، جبکہ درآمدات کا بڑھنا معاشی بحالی کی نشاندہی کرتا ہے۔ اسٹیٹ بینک کے مطابق عالمی منڈی میں تیل کی قیمتوں میں کمی نے درآمدی بل کو کنٹرول میں رکھا ہے، وکرز ترسیلات رواں مالی سال 38 ارب ڈالر تک پہنچنے کی توقع ہے۔ ایس بی پی نے مزید بتایا کہ زرمبادلہ کے ذخائر جون 2025ء تک 14 ارب ڈالر تک بڑھنے کا امکان ہے، جبکہ پاکستان کا آئی ایم ایف پروگرام ٹریک پر ہے۔
اسٹیٹ بینک نے یہ بھی بتایا کہ آئی ایم ایف کے ساتھ دوبارہ کسی مذاکرے کی ضرورت نہیں، مانیٹری پالیسی موقف مناسب حد تک مثبت ہے مقصد مہنگائی کو 5 سے 7 فیصد بینڈ میں رکھنا ہے۔ ایس بی پی نے معاشی تجزیہ کاروں کو بتایا کہ حکومتی قرض مالی یکجہتی، سود ادائیگی اور سبسڈیز میں کمی سے جی ڈی پی کا 67 فیصد ہوا ہے، موسمی حالات، پانی کی دستیابی، اور ان پٹ قیمتیں زرعی شعبے کو درپیش خطرات ہیں۔