پاکستان کی خودمختاری کو چیلنج کیا گیا تو بھرپور طاقت سے جواب دیا جائیگا، آرمی چیف WhatsAppFacebookTwitter 0 5 May, 2025 سب نیوز

راولپنڈی (سب نیوز)آرمی چیف جنرل عاصم منیر چیف نے کہا ہے کہ ایسے دہشت گرد گروہ جو بلوچ شناخت کے نام پر بدامنی پھیلاتے ہیں، دراصل بلوچ قوم کی عزت و وقار پر دھبہ ہیں۔پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر)کی جانب سے جاری بیان کے مطابق سپہ سالار نے ان خیالات کا اظہار جی ایچ کیو میں 15ویں نیشنل ورکشاپ بلوچستان کے شرکا سے بات چیت کرتے ہوئے کیا۔
ترجمان پاک فوج کے مطابق چیف آف آرمی اسٹاف نے آج جنرل ہیڈکوارٹر میں نیشنل ورکشاپ بلوچستان کے 15ویں سیشن کے شرکا سے ملاقات کی۔آئی ایس پی آر نے کہا کہ یہ ورکشاپ 2016 سے جاری ہے جس میں بلوچستان سے تعلق رکھنے والے اراکین پارلیمنٹ، بیوروکریٹس، سول سوسائٹی، نوجوانوں، ماہرینِ تعلیم اور میڈیا کے نمائندوں کی بڑی تعداد شامل ہوتی ہے۔ترجمان پاک فوج نے بتایا کہ اس ورکشاپ میں مختلف سیمینارز، گروپ مباحثے اور ملک کے مختلف علاقوں کے دورے شامل ہوتے ہیں۔بیان کے مطابق ان کا مقصد بلوچستان کے مستقبل کے قائدین کو قومی اور صوبائی سطح کے اہم امور کی بہتر تفہیم دینا اور مشترکہ قومی ردعمل کی تیاری ہے۔
آئی ایس پی آر کے مطابق آرمی چیف نے بلوچستان کے سماجی و اقتصادی حالات میں بہتری کے لیے حکومت کی مسلسل کوششوں پر روشنی ڈالی اور کہا کہ موجودہ اور مستقبل کے ترقیاتی منصوبوں کی وسعت ان تمام گمراہ کن پروپیگنڈوں کو رد کرنے کے لیے کافی ہے۔سپہ سالار کا کہنا تھا کہ کئی منصوبے اب نتائج دے رہے ہیں جن سے بلوچستان کے عوام براہ راست مستفید ہو رہے ہیں۔ترجمان پاک فوج کے مطابق آرمی چیف نے بلوچستان کے نوجوانوں میں شعور بیدار کرنے میں سول سوسائٹی کے کردار کو سراہا اور کہا کہ سول سوسائٹی کی شراکت سے ترقی اور خوشحالی کا عمل مزید مضبوط ہوگا۔
جنرل عاصم منیر نے کہا کہ غیر ملکی سرپرستی میں ہونے والی دہشت گردی بلوچستان کی سلامتی اور ترقی کے لیے سب سے بڑا خطرہ ہے، شرپسند عناصر جو پرتشدد کارروائیوں، خوف و ہراس اور عدم استحکام کے ذریعے بلوچستان کو غیر مستحکم کرنا چاہتے ہیں، ان کے ناپاک عزائم کبھی کامیاب نہیں ہونے دیے جائیں گے۔
آئی ایس پی آر کے مطابق انہوں نے کہا کہ دہشت گردی کا کوئی مذہب، مسلک یا قومیت نہیں ہوتی اور اس کا مقابلہ صرف قومی اتحاد اور پختہ عزم سے ممکن ہے۔ ایسے دہشت گرد گروہ جو بلوچ شناخت کے نام پر بدامنی پھیلاتے ہیں، دراصل بلوچ قوم کی عزت و وقار پر دھبہ ہیں۔آرمی چیف نے کہا کہ پاکستان خطے اور دنیا میں امن کا خواہاں ہے، تاہم اگر پاکستان کی خودمختاری اور علاقائی سالمیت کو چیلنج کیا گیا تو قوم کی عزت اور عوام کی سلامتی کے تحفظ کے لیے بھرپور طاقت سے جواب دیا جائے گا۔جنرل عاصم منیر کا کہنا تھا کہ پاکستان کی مسلح افواج اور قانون نافذ کرنے والے ادارے دہشت گردی کے خلاف اپنی جنگ کو عوام کی مکمل حمایت کے ساتھ جاری رکھیں گے۔آئی ایس پی آر کے مطابق ورکشاپ کا اختتام سوال و جواب کے سیشن کے بعد ہوا۔

روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔

WhatsAppFacebookTwitter پچھلی خبرصدر ایف پی سی سی آئی عاطف اکرام شیخ نے شرح سود میں 1فیصد کمی کو مایوس کن قرار دیدیا صدر ایف پی سی سی آئی عاطف اکرام شیخ نے شرح سود میں 1فیصد کمی کو مایوس کن قرار دیدیا شرح سود میں ایک فیصد کمی،11فیصد مقرر ، اسٹیٹ بینک نے مانیٹری پالیسی کا اعلان کر دیا پاکستان میں دہشتگردی کیلئے بھارتی سہولت کاری کے مستند شواہد سامنے آگئے امریکی اخبار نیویارک ٹائمز آرمی چیف کی قائدانہ صلاحیتوں کا معترف، مرد آہن قرار دے دیا نیب میں اعلیٰ سطحی تبادلے اور ترقی، چار افسران ڈائریکٹر جنرل تعینات جناح ہاؤس حملے میں غفلت برتنے پر فوج کے 3 اعلیٰ افسران کو بغیر پنشن و مراعات ریٹائر کیا گیا، اٹارنی جنرل TikTokTikTokMail-1MailTwitterTwitterFacebookFacebookYouTubeYouTubeInstagramInstagram

Copyright © 2025, All Rights Reserved

رابطہ کریں ہمارے بارے ہماری ٹیم.

ذریعہ: Daily Sub News

کلیدی لفظ: آئی ایس پی آر بلوچستان کے پاکستان کی نے کہا کہ آرمی چیف کے مطابق کیا گیا پاک فوج کے لیے چیف نے فوج کے

پڑھیں:

ڈاکٹر وحید قریشی … ایک حاضر جواب آدمی

 ڈاکٹر وحید قریشی اُردو زبان و ادب کے نامور محقق، ممتاز تنقید نگار، مزاح نگار ، شاعر اور دانشور تھے۔ ان کا بچپن ننھیال میں گزارا ان کے والدِ گرامی محکمہ پولیس میں آفیسر تھے۔ ڈاکٹر صاحب نے 1940 میں اسلامیہ ہائی اسکول بھاٹی گیٹ لاہور سے میٹرک کا امتحان پاس کیا جس کے بعد انھیں گورنمنٹ کالج لاہور میں داخلہ مل گیا، ان کے اسی دور کے چند دوستوں میں عنایت اللہ اور علامہ اقبالؒ کے فرزند ارجمند جاوید اقبال تھے۔ انھوں نے ایم اے تک کی تعلیم اسی کالج میں حاصل کی اور اپنے ذوق وشوق کے مطابق ایک ایم اے فارسی میں اور دوسرا ایم اے تاریخ کے مضمون میں کیا۔ جس کا انھوں نے بعد میں اپنی زندگی میں ادبی فائدہ اٹھاتے ہوئے تحقیق و تنقید پر بقول شہزاد احمد کے اس طرح کام کیا کہ ’’ جب وہ تنقید پر اُتر آتے تو پھر امان ملنی مشکل ہو جاتی اور مرزا غالب کی طرح دوست کے کلام کو دشمن کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔‘‘

ڈاکٹر وحید قریشی جنھوں نے 1952 فارسی ادب میں پی ایچ ڈی کی اور 1962 میں اُردو میں ڈی لٹ کی ڈگری حاصل کی۔ اُس وقت ان کے مقالے کا عنوان غالبا ’’ میر حسن اور ان کا زمانہ تھا‘‘ 150 مشاہیرِ ادب اس کتاب کے مصنف ملک مقبول احمد ہے جس میں ان کے تحریر کردہ مضمون سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ ’’انھوں نے علامہ عباس شوستری ایرانی سے فارسی سبقا ََ سبقا پڑھی تھی اور انھیں ریسرچ کے لیے ایلفرڈ اسکالر شپ دیا گیا تھا جس کی اساس پر انھوں نے پنجاب یونیورسٹی میں تین سال تک خدمات بھی انجام دیں۔‘‘ جیسا کہ میں آغاز میں کہا کہ انھوں نے شعبہ تدریس کو اپنے شوق کے مطابق اور اپنے مزاج کے مناسبت سے اختیار کیا تھا۔ تاریخ کے اوراق سے معلوم ہوتا ہے کہ انھوں نے 1951سے 1956تک اسلامیہ کالج گوجرانوالہ میں تاریخ کے لیکچرار کے خدمات انجام دیں۔

پھر بعد میں وہ لاہور آ گئے اور اسلامیہ کالج میں پڑھانے لگے۔ دسمبر 1964میں وہ اورینٹل کالج لاہور سے وابستہ ہوگئے جہاں انھوں نے مختلف عہدوں پرگراں قدر خدمات انجام دیے۔ ان کے بارے میں یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ ان کا نیم سرکاری اداروں میں خدمات کا دائرہ بہت وسیع تھا۔ وہ جب ریٹائر ہوئے تو اُس وقت پرنسپل کے عہدے پر فائز تھے۔ اس کے بعد انھوں نے مقتدرہ قومی زبان، بزمِ اقبال اور اقبال اکیڈمی میں اُردو زبان و ادب کے فروغ اور اقبالیات کے موضوعات پر کام کیا، اس حوالے سے بہت سی کتابیں بھی شایع ہوئی۔

اس کے علاوہ انھوں نے بہت سے ادبی رسائل کی ادارت کا فریضہ بھی انجام دیا جن میں مجلسِ ترقی ادب کا رسالہ ’’صحیفہ‘‘، قومی زبان اسلام آباد کا رسالہ اخبارِ اُردو، بزمِ اقبال لاہور کا مجلہ ’’اقبال‘‘ اور اقبال اکیڈمی لاہور کا میگزین ’’اقبالیات‘‘ شامل ہیں۔ ان تمام تر رسائل میں سے مجلہ ’’ اقبالیات‘‘ کو بہت شہرت حاصل ہوئی، جب کہ زندگی کے آخری برسوں میں انھیں رسالہ ’’مخزن‘‘ کے مدیر رہے۔ بتایا جاتا ہے کہ ’’ اس رسالہ کے حلقہ مشاورت میں انھوں نے ڈاکٹر انور سدید اور ڈاکٹر سلیم اختر کو شامل کر کے آگ اور پانی کا ملاپ کر دیا۔‘‘

ڈاکٹر وحید قریشی ایک حاضر جواب آدمی تھے۔ ان میں خوبی یہ تھی کہ وہ خود ادبی امور میں متحرک رہنے کے ساتھ ساتھ دوسروں کو بھی متحرک رکھنے کی جدوجہد میں رہتے تھے۔ ان کے بارے میں ڈاکٹر خواجہ زکریا بتاتے ہیں کہ’’ ڈاکٹر وحید قریشی ایسے لوگوں میں سے تھے جو جملہ ضایع نہیں کرتے، دوست ضایع کر دیتے تھے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ وہ دوسروں کو جملہ کسنے کا موقع بھی دیتے اور اس طرح ان کی اپنی ذات دوسروں کے جملے کی زد میں آجاتی تو برا نہ مانتے اور کھل کر قہقہہ لگاتے ان کا قہقہہ ہی ان کی پہچان تھی۔‘‘
اسی طرح ان کی تحقیق و تنقید کے ساتھ شاعری اور مزاح نگاری پہ نظر ڈالتے ہوئے ڈاکٹر انور سدید لکھتے ہیں کہ ’’ انھیں جہاں موقع ملتا اپنا تاثر ایک چست فقرے سے یوں پیش کر دیتے کہ سننے والے قہقہہ بار ہو جاتے۔‘‘

ڈاکٹر صاحب کو تاریخ نگاری پر بھی عبور حاصل تھا جب کہ فوٹو گرافی سے تو ان کو انتہا کی حد تک عشق تھا۔ میرے نزدیک وہ اُردو زبان و ادب کے لیے انسائیکلو پیڈیا تھے۔ یہی وجہ ہے کہ انھیں بہت سی لوگ آج بھی استاد الاساتذہ کی فہرست میں ان کا شمار کرتے ہیں۔ اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ ان سے تعلیم حاصل کرنے والے اب خود اساتذہ کے درجے پر فائز ہیں جو علم کی روشنی کو تقسیم کرتے ہوئے دوسروں کے دلوں کو منور کر رہے ہیں۔ ان کی چند شاگردوں میں ڈاکٹر خواجہ زکریا، ڈاکٹر سہیل احمد خاں، ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی، ڈاکٹر انور سدید، ڈاکٹر سعادت سعید اور ڈاکٹر زاہد منیر عامر کے نام شامل ہیں۔

ڈاکٹر صاحب کی علمی اور ادبی فن و شخصیت کا ذکر یہاں تک ہی محدود نہیں بلکہ وہ اعلیٰ پائے کے منتظم بھی تھے۔ تاریخِ ادب کی کتب کو کنگال کر یہ بات واضح سامنے آتی ہے کہ ان کو ابتدا شہرت ’’ شبلی کی حیاتِ معاشقہ‘‘ لکھنے پر ملی تھی یہ کتاب بڑی متنازعہ ثابت ہوئی لیکن اس کی تردید میں کبھی کچھ نہیں لکھا گیا۔ ‘‘ ڈاکٹر سلیم اختر اس حوالے سے لکھتے ہیں کہ’’ تحقیق کا سخت چھلکا اتر جانے کے بعد ان کے اندر سے نرم اور ملائم شخص برآمد ہو جاتا ۔ ہدف متعین کیے بغیر فقرہ بازی میں مہارت رکھتے۔‘‘

ڈاکٹر وحید قریشی کی بہت سی کتب میں سے میرے پاس ’’جدیدیت کی تلاش میں‘‘ اور ’’افسانوی ادب‘‘ موجود ہیں، جب کہ ان کی دیگر تصانیف کے علاوہ ان کی شاعری کے دو مجموعوں میں ’’ نقدِ جان‘‘ اور ’’الواح‘‘ منظرِ عام پر آئے۔ الطاف حسین حالی کا مقدمہ شعر و شاعری بھی ان ہی کا مرتب کردہ کار نامہ ہے۔ اپنی علالت کے دوران انھوں نے حالاتِ حاضرہ پر سیکڑوں قطعات بھی لکھے۔ مشاہیرِ ادب میں ملک مقبول احمد ان کا ایک جملہ کچھ یوں درج کیا ہے کہ’’ شاعری کرتے وقت مجھے اپنی بیماری بھول جاتی ہے۔‘‘

اُردو ادب اور شعبہ تدریس میں گراں قدر خدمات دینے والے ڈاکٹر وحید قریشی کی وفات 17 اکتوبر 2007 ء میں ہوئی، مگر صد افسوس کہ اب ایسے لوگ دنیا میں بہت کم باقی رہ گئے ہیں۔ میری دعا ہے کہ زندہ لوگ، زندہ لوگوں کے لیے مثال بن کر سامنے آئیں اور اُن کی رہنمائی کرے تاکہ معاشرے میں علم ،شرافت ، صداقت، محبت اور تمدن کا خوبصورت دور دوبارہ لوٹ آئے۔ اس مضمون کے دوران پروفیسر اعتبار ساجد بتاتے ہیں کہ’’ ڈاکٹر صاحب تنقیدی شعور رکھنے کے ساتھ ساتھ نامور ادیب تھے، وہ شاعری کو بخوبی سمجھتے اور جانتے تھے کون کس مقام پرکھڑا ہے اورکون کتنے پانی میں۔

یہی وجہ ہے کہ آج اُن کے پیدا کردہ شاگردوں کا شمار بھی نہایت محترم اساتذہ میں ہوتا ہے۔ میری ایک کتاب کی تقریب رونمائی میں تشریف لائے جہاں وہ مجھے حکیم محمد سعید اور بابا محمد یحییٰ خان کی طرح مجھے بھی وہ انکساری اور عاجزی کا پیکر نظر آئے۔‘‘ آخر میں شاد عظیم آبادی کے اس شعر کے سوا اور کیا کہا جا سکتا ہے کہ۔
ڈھونڈو گے ہمیں ملکوں ملکوں
ملنے کے نہیں نایاب ہیں ہم
 

متعلقہ مضامین

  • سندھ کے مہاجر یوم آزادی اور معرکہ حق بھرپور انداز سے منائیں، ڈاکٹر سلیم حیدر
  • بانی پی ٹی آئی کے بیٹوں سے کوئی خطرہ نہیں ، گرفتار نہیں کیا جائیگا، طلال چودھری
  • اسرائیلی جارحیت کے خلاف بھرپور حمایت پر پاکستانی قوم کا دل سے شکرگزار ہیں،ایرانی صدر مسعود پزشکیان
  • ایران کو اقوام متحدہ کے چارٹر کے مطابق جوہری طاقت حاصل کرنے کا پور احق ہے، شہباز شریف
  • ایران کو اقوام متحدہ کے چارٹر کے مطابق جوہری طاقت حاصل کرنے کا پوراحق حاصل ہے؛وزیراعظم شہبازشریف
  • ڈاکٹر وحید قریشی … ایک حاضر جواب آدمی
  • اگر مذاکرات ناکام ہوئے تو جنگ جاری رہے گی، اسرائیلی جنرل کی وارننگ
  • پاک فوج کی جنگی صلاحیت میں مزید اضافہ، Zـ10ME اٹیک ہیلی کاپٹرز بری فوج میں شامل
  • چیف آف آرمی سٹاف فیلڈ مارشل سید عاصم منیر کا قومی خودمختاری اور جغرافیائی سالمیت کے تحفظ کےلئے پاک فوج کے غیر متزلزل عزم کا اعادہ
  • عوام ہائبرڈ نظام کیساتھ یا اندھی طاقت کو قبول کرنے کیلئے تیار نہیں ہیں، لیاقت بلوچ