میری بات/روہیل اکبر
پاکستان کا ریاستی نظام اس وقت کہاں کھڑا ہے ایک طرف پاک بھارت جنگی ماحول پیدا کیا جارہا ہے تو دوسری طرف ہمارے ملک کے اندر اداروں نے عوام کو تگنی کا ناچ نچا رکھا ہے۔ خدمت خلق کے نام پر عوام کی تذلیل ہو رہی ہے صرف چند ایک اداروں کے علاوہ باقی سب نے عوام کو تنگ کرنے کا ٹھیکہ لے رکھا ہے لیکن جن اداروں میں اعجاز قریشی، ڈاکٹر انعام الحق جاوید ،محی الدین احمد وانی ،سید طاہر رضا ہمدانی ،دانیال گیلانی ،شاہد لالی ،راجہ جہانگیر انور ،راجہ منصور ،بینش فاطمہ ،رائے منظور ناصر ،شہنشاہ فیصل عظیم اور نواز سولنگی جیسے ملنسار ،عوامی خدمتگاراور محب وطن لوگ بیٹھے ہوئے ہیں ، وہیں لوگوں کے دکھوںکا مداوا ہورہا ہے۔ اسکے علاوہ آپ یہ سمجھیں کہ ہمارے اداروں میں بھی ایک جنگی ماحول ہی بنا ہوا ہے اداروں کی بات کرنے سے پہلے اس اصل جنگی ماحول کا ذکر کرلیتے ہیں جو بھارت نے پیدا کررکھا ہے ایک بات مودی اور اسکے حواریوں کو یاد رکھ لینی چاہیے کہ پاکستان ہر ممکن جنگ سے بچنا چاہتا ہے کیونکہ دنوں ممالک کی عوام جنگ نہیں چاہتی خوشحالی ،امن اور سکون اہتی ہے اسکے باوجود اگر بھارت نے جنگ مسلط کرنے کی کوشش کی تو پھر بھارت کا نام ونشان مٹ جائیگا اس لیے بھارت کو جنگ کی بجائے اپنی عوام کے مسائل پر توجہ دینی چاہیے کیونکہ بھارت میںپاکستان سے زیادہ برے حالات ہیں ان سب باتوں سے ہٹ کر ایک اور بات کہ جنگ ہو یا نہ ہو لیکن میڈیا نے آسمان سر پر اٹھا رکھا ہے اور اس سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جنوبی ایشیا جنگی خطرات کی لپیٹ میں آ چکا ہے۔ ان حالات میں پاکستانی عوام اس وقت متحد ہے اور اپنی افواج کے ساتھ مکمل یکجہتی کا اظہار کر رہی ہے۔ ہماری فوج نے بھی جوابی کارروائیوں میں جس طرح دشمن کو مؤثر جواب دیا گیا۔ اس نے واضح کر دیا کہ پاکستان اپنی سرزمین کے دفاع میں کسی قسم کی کوتاہی نہیں کرے گا تاہم پاکستان نے ہمیشہ امن کو ترجیح دی ہے اور اپنی دفاعی حکمت عملی کو جارحیت کے بجائے تحفظ اور استحکام پر مبنی رکھا ہے ۔اس وقت دونوں ممالک کو جنگی مہم جوئی کے بجائے سیاسی بصیرت کا مظاہرہ کرنا ہو گاکیونکہ پاکستان اور بھارت کے درمیان ہر جنگ صرف لاشیں، تباہی، معاشی بربادی اور انسانی المیے جنم دیتی ہے۔ ایسے میں عقل، تدبر اور حکمت ہی وہ راستہ ہے جو خطے کو امن اور ترقی کی طرف لے جا سکتا ہے مسئلہ کشمیر سمیت تمام تنازعات کے حل کے لیے سنجیدہ مذاکرات اور اعتماد سازی کے اقدامات کی اشد ضرورت ہے تاکہ جنوبی ایشیا کو بار بار جنگ کے دہانے پر نہ لایا جائے بلکہ اسے خوشحال مستقبل کی طرف گامزن کیا جائے لیکن بھارت کی جانب سے پاکستان کے اندر مختلف مقامات پر بلااشتعال میزائل حملوں نے نہ صرف خطے کے امن کو خطرے میں ڈال دیا ہے بلکہ دونوں ممالک کو ایک نازک موڑ پر لاکھڑا کیا ہے۔ بھارتی افواج نے بہاولپور، کوٹلی ، مظفرآباداورمریدکے کو نشانہ بنانے کی کوشش کی اور انہوں نے ان حملوں کو ‘آپریشن سندور’ کا نام دیاجبکہ ترجمان پاک فوج میجر جنرل احمد شریف چوہدری نے بھی واضح کیا ہے کہ یہ حملے بھارتی فضائی حدود کے اندر سے کیے گئے اور دشمن کو پاکستانی حدود میں داخل ہونے کی اجازت نہیں دی جاسکتی ۔پاک فضائیہ نے فوری طور پر جوابی کارروائی کرتے ہوئے دشمن کے تین طیارے مار گرائے یہ کارروائی اس امر کا ثبوت ہے کہ پاکستان نہ صرف اپنی خودمختاری کا دفاع کرنے کی مکمل صلاحیت رکھتا ہے بلکہ کسی بھی جارحیت کا مؤثر جواب دینے کی تیاری رکھتا ہے۔
بھارتی حملوں کی نوعیت واضح طور پر سویلین انفراسٹرکچر کو نشانہ بنانے والی تھی جس میں مساجد، درسگاہیں اور ہیلتھ کمپلیکس شامل ہیں ان حملوں میں ایک معصوم بچہ شہید اور متعدد شہری زخمی ہوئے بہاولپور کی مسجد سبحان اللہ اور مریدکے کا تعلیمی و صحت مرکز بھارتی میزائلوں کا نشانہ بنے جو کہ بین الاقوامی جنگی قوانین کی کھلی خلاف ورزی ہے ایسے تمام اقدامات کسی بھی مہذب معاشرے اور ذمہ دار ریاست کے شایانِ شان نہیں یہ حقیقت ہے کہ بھارت نے بارہا اپنی داخلی ناکامیوں، سیاسی بحرانوں اور انتخابی مہمات سے توجہ ہٹانے کے لیے پاکستان کے خلاف عسکری یا سفارتی چالیں چلی ہیں موجودہ حملے بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی محسوس ہوتے ہیں جب بھی دہلی سرکار کو داخلی دباؤ کا سامنا ہو تو پاکستان دشمنی کو بطور ہتھیار استعمال کیا جاتا ہے تاکہ عوامی توجہ اصل مسائل سے ہٹائی جاسکے۔ بھارت کا یہ ایک پرانا اور آزمودہ فارمولا ہے مگر ہر بار یہ کھیل نہ صرف کشیدگی کو ہوا دیتا ہے بلکہ جنگ کے دہانے پر لے آتا ہے اس نازک موقع پر عالمی طاقتوں کی ذمہ داری بھی بڑھ جاتی ہے۔ امریکا، چین، سعودی عرب، ترکی، قطر اقوام متحدہ اور او آئی سی کو فوری طور پر اس کشیدگی کو کم کرنے کے لیے اقدامات کرنے چاہیے کیونکہ پاکستان اور بھارت دونوں ایٹمی قوتیں ہیں اور ان کے درمیان کسی بھی قسم کا مسلح تصادم پورے خطے کو تباہی کی طرف دھکیل سکتا ہے۔ عالمی برادری کو چاہیے کہ وہ دونوں ممالک پر زور دے کہ تحمل کا مظاہرہ کریں۔ اشتعال انگیزی سے گریز کریں اور مسئلہ کشمیر سمیت تمام تنازعات کو مذاکرات کے ذریعے حل کریںاب کچھ باتیں ہمارے اداروں جہاں عوام کو پریشانیوں میں مبتلاکرنے والے براجمان ہیں۔ حالانکہ پاکستان کا ریاستی نظام اصولاً آئین، قانون اور عوامی خدمت پر مبنی ہے، لیکن عملی طور پر یہ نظام ایک ایسے سانچے میں ڈھل چکا ہے جہاں حکومتی طاقت، بیوروکریسی کی آمیزش اور سیاسی مفادات نے اسے عوامی فلاح کے بجائے مخصوص طبقات کی خدمت کا ذریعہ بنا دیا ہے خصوصاً بیوروکریسی جو ریاستی مشینری کی ریڑھ کی ہڈی سمجھی جاتی ہے ۔اب ایک ایسی قوت بن چکی ہے جو آئین و قانون کی پاسداری سے زیادہ، حکمرانوں کی منشا اور ذاتی مفادات کی نگہبان ہے ۔بیوروکریسی کی بنیاد غیر جانبداری، شفافیت اور میرٹ پر رکھی گئی تھی تاکہ ہر شہری کو برابری کی بنیاد پر ریاستی سہولیات فراہم کی جائیں لیکن بدقسمتی سے یہ ادارہ اب سیاسی غلامی کی انتہا پر پہنچ چکا ہے۔ حکومتی جماعتیں اپنے پسندیدہ افسران کو بااثر عہدوں پر تعینات کر کے نہ صرف انتظامی معاملات کو کنٹرول کرتی ہیں۔ بلکہ احتساب کے تمام راستے بھی بند کر دیتی ہیں ۔اس سے ایک ایسا ماحول جنم لیتا ہے جہاں عوامی خدمت ثانوی اور حکمرانوں کی خوشنودی اولین ترجیح بن جاتی ہے۔ اس صورتِ حال کا ایک اور افسوسناک پہلو یہ ہے کہ عوامی نمائندگی کا تصور بھی عملاً مجروح ہو چکا ہے۔ اپوزیشن کے اراکینِ اسمبلی بھی عوامی نمائندے ہوتے ہیں لیکن موجودہ سیاسی ڈھانچے میں ان کے ساتھ واضح امتیازی سلوک روا رکھا جاتا ہے۔ حکومتی جماعتوں سے تعلق رکھنے والے اراکینِ اسمبلی کو فنڈز، ترقیاتی منصوبے اور بیوروکریسی کی مکمل سرپرستی حاصل ہوتی ہے جبکہ اپوزیشن ارکان کو ان سہولیات سے محروم رکھا جاتا ہے۔ یہ فرق نہ صرف پارلیمانی مساوات کی نفی ہے بلکہ عوامی مینڈیٹ کی توہین بھی ہے ۔اس امتیازی رویے کا سب سے بڑا نقصان ان حلقوں کو ہوتا ہے۔ جہاں سے حکومتی امیدوار کو کم ووٹ ملے ہوں۔ ان علاقوں کے ووٹرز کے ساتھ دانستہ طور پر متعصب سلوک روا رکھا جاتا ہے۔ وہاں ترقیاتی فنڈز کی فراہمی محدود یا بند کر دی جاتی ہے۔ افسران کو غیر فعال رکھا جاتا ہے اور عوامی شکایات پر کان نہیں دھرے جاتے ۔یوں حکومتی جماعت ایک جانب ووٹ کے تقدس کا دعویٰ کرتی ہے تو دوسری طرف ووٹرز کو ”اپنا” اور ”غیروں” میں تقسیم کر کے سیاسی انتقام کا نشانہ بناتی ہے۔ ترقیاتی فنڈز کا معاملہ بھی اپنی نوعیت کا ایک گھمبیر بحران ہے۔ ان فنڈز کا مقصد عوامی سہولتیں فراہم کرنا ہوتا ہے لیکن عملاً یہ حکومتی اراکین کے لیے بدعنوانی، کمیشن خوری اور ذاتی انتخابی اخراجات پورے کرنے کا ذریعہ بن چکے ہیں ۔اس عمل میں بیوروکریسی نہ صرف خاموش تماشائی ہے بلکہ بعض اوقات شریکِ جرم بھی ہوتی ہے ۔ٹھیکے من پسند افراد کو دیے جاتے ہیں جہاں معیار کا کوئی پیمانہ نہیں اور منصوبوں کی مانیٹرنگ محض کاغذی کارروائی تک محدود رہتی ہے۔ نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ منصوبے یا تو مکمل ہی نہیں ہوتے یا ناقص کارکردگی کے ساتھ صرف بجٹ خرچ کرنے کی نیت سے نمٹا دیے جاتے ہیں۔
مزید تشویش ناک امر یہ ہے کہ ان تمام بے ضابطگیوں کا کوئی مؤثر احتسابی نظام موجود نہیں نیب، اینٹی کرپشن، یا آڈٹ کے ادارے سیاسی مداخلت یا بیوروکریسی کی ملی بھگت کے باعث بے اثر ہو چکے ہیںجب تک احتساب کا دائرہ مکمل، غیر جانبدار اور مؤثر نہیں بنایا جاتا یہ نظام اندر سے کھوکھلا ہوتا چلا جائے گااسکے ساتھ ساتھ حکومتی بے حسی کا یہ عالم ہے کہ تنقید، تحقیق اور اصلاحی مشورے کو نہ صرف نظر انداز کیا جاتا ہے بلکہ بعض اوقات مخالفت یا دشمنی سمجھا جاتا ہے لکھنے والے، تحقیق کرنے والے، اور سچ بولنے والے افراد کو دیوار سے لگانے کی روایت عام ہو چکی ہے اس فضا میں نہ تو ادارے پنپ سکتے ہیں اور نہ ہی جمہوریت نتیجتاً ایک ایسا سیاسی و ریاستی ماحول وجود میں آ چکا ہے جہاں ادارے شخصیات کے تابع ہیں اور ریاست عوام کے بجائے حکمران طبقے کی باندی بن چکی ہے اگر اس صورتحال پر فوری توجہ نہ دی گئی تو ریاست اور عوام کے درمیان فاصلہ اس حد تک بڑھ جائے گا کہ اسے ختم مرنا ناممکن ہو جائے گا اصلاحات، احتساب، غیر جانبدار بیوروکریسی، اور عوامی مینڈیٹ کا احترام ہی وہ واحد راستہ ہے جس سے پاکستان کو ادارہ جاتی تباہی سے بچایا جا سکتا ہے۔
ذریعہ: Juraat
کلیدی لفظ: بیوروکریسی کی رکھا جاتا ہے کہ پاکستان جنگی ماحول کے بجائے اور عوام کے ساتھ جاتی ہے رکھا ہے ہیں اور ہے بلکہ چکا ہے اور ان کے لیے ہے اور
پڑھیں:
کالا جادو: ایک خاموش جرم یا ریاستی غفلت؟
’کسی نے کچھ کروا دیا ہے‘، یہ جملہ ہم نے کتنی بار سنا ہے، جب کوئی اچانک بیمار ہو جائے، شادی ختم ہو جائے، کاروبار بیٹھ جائے یا ذہنی دباؤ میں آجائے۔ پاکستان سمیت دنیا کے کئی ممالک میں ایسے حالات کو ’کالا جادو‘ یا ’سحر‘ سے جوڑ دیا جاتا ہے۔
لیکن سوال یہ ہے:
کیا جادو صرف توہم پرستی ہے یا حقیقی خطرہ؟
کیا یہ ایک جرم ہے؟
ریاستیں اس کے خلاف کیا اقدامات کر رہی ہیں؟
اور کیا اسلام اس کی اجازت دیتا ہے؟
آئیے، ان تمام سوالات کے جواب حقائق، قانون اور دین کی روشنی میں تلاش کرتے ہیں۔
کالا جادو کیا ہے؟کالا جادو، جسے عربی میں ’سحر‘ کہا جاتا ہے، ایسے خفیہ اور شیطانی اعمال، کلمات اور عملیات کا مجموعہ ہے جن کا مقصد کسی انسان کو جسمانی، ذہنی، معاشی یا روحانی نقصان پہنچانا ہوتا ہے۔
اس کے عام طریقے:
محبت یا نفرت کا جادو
طلاق یا علیحدگی کے عمل
کاروباری بندش یا تباہی
بیماری یا موت کے لیے عملیات
جنات یا آسیب کا تسلط
اکثر یہ اعمال جعلی پیروں، عاملوں، یا خود ساختہ ’روحانی معالجین‘ کے ذریعے کروائے جاتے ہیں، جو کمزور عقیدے اور لاعلمی کا فائدہ اٹھاتے ہیں۔
قرآن مجید کا حکم: جادو ممنوع اور گمراہ کن عمل ہےقرآنِ حکیم میں جادو کو کھلا گناہ، فتنہ اور کفر کے قریب عمل قرار دیا گیا ہے:
سورۃ البقرہ (آیت 102) ’اور لوگ ان چیزوں کے پیچھے لگ گئے جو شیاطین سلیمان (علیہ السلام) کی سلطنت کے بارے میں پڑھا کرتے تھے، اور وہ لوگوں کو جادو سکھاتے تھے، اور وہ دونوں (ہاروت و ماروت) کسی کو کچھ نہ سکھاتے جب تک نہ کہہ دیتے: ہم تو آزمائش ہیں، پس تُو کافر نہ بن‘۔
سورۃ یونس (آیت 77) ’بے شک اللہ جادوگروں کے کام کو کامیاب نہیں ہونے دیتا‘۔
سورۃ الفلق (آیت 4) ’اور ان عورتوں کے شر سے جو گرہوں پر پھونک مارتی ہیں‘۔
احادیثِ نبوی ﷺ:
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’سات ہلاک کرنے والے گناہوں سے بچو، ان میں سے ایک جادو ہے‘۔ (صحیح بخاری، صحیح مسلم)
مطلب یہ کہ جادو صرف دنیاوی جرم ہی نہیں، بلکہ دینی اعتبار سے مہلک اور ناقابلِ معافی گناہ بھی ہو سکتا ہے۔
عالمی سطح پر جادو کے خلاف اقداماتاقوام متحدہ نے 1992 میں قرارداد 47/8 منظور کی جس میں رکن ممالک کو ایسے توہماتی اور ظالمانہ اعمال کے خلاف قانون سازی کی ہدایت کی گئی جو انسانی حقوق پامال کرتے ہوں۔
گلف ممالک میں سخت اقدامات:سعودی عرب: جادو کو قابلِ گردن زدنی جرم قرار دیا گیا۔ متعدد عاملین کو سزائے موت دی گئی۔
متحدہ عرب امارات: جادو، تعویذ فروشی اور شیطانی عملیات پر قید اور بھاری جرمانے کی سزائیں موجود ہیں۔
قطر: کالا جادو 7 سے 10 سال قید کے زمرے میں آتا ہے.
ان ممالک میں جادو کو ’عقیدہ‘ نہیں بلکہ فوجداری جرم سمجھا جاتا ہے۔
پاکستان میں کالا جادو: جرم یا بےحسی؟پاکستان میں جادوگر، عامل اور جعلی پیر دیہات سے شہروں تک ایک منظم نیٹ ورک کی شکل اختیار کر چکے ہیں۔
کوئی واضح قانون نہیں
پاکستانی قانون میں جادو کو بطورِ جرم تسلیم نہیں کیا گیا۔ البتہ مندرجہ ذیل دفعات کے تحت کچھ معاملات درج کیے جاتے ہیں:
دفعہ 420 – فراڈ
دفعہ 506 – دھمکیاں
دفعہ 302 – قتل
مگر ان دفعات سے صرف ثانوی جرائم کو کور کیا جاتا ہے، جادو کی اصل نوعیت کو نہیں۔
چند چونکا دینے والے کیسز:لاہور (2018): ایک عورت کو ’جن نکالنے‘ کے بہانے زندہ جلا دیا گیا۔
کراچی (2021): بچی پر جادو کرنے کے بہانے زیادتی۔
فیصل آباد (2023): جادو کے شبہ میں ایک شخص کو قتل کر دیا گیا۔
پولیس افسر کیس (کراچی، 2024): ایک سینئر افسر نے اپنے ماتحت پر الزام لگایا کہ وہ اس پر کالا جادو کر رہا ہے تاکہ اس کی صحت، نیند اور فیصلہ سازی متاثر ہو۔ یہ ایف آئی آر ملکی میڈیا میں وائرل ہوئی اور ایک بنیادی سوال کھڑا کر گئی: ’جب قانون کے محافظ خود جادو سے خوفزدہ ہوں، تو عام شہری کیا کرے؟‘
ریاستی ناکامی کے اسباب: مذہبی اور سیاسی طبقات کی مزاحمت جادو کو ’عقیدے کا مسئلہ‘ سمجھ کر نظر انداز کرنا قانون نافذ کرنے والے اداروں کی تربیت کا فقدان جعلی پیروں اور عاملین کا اثر و رسوخ عوامی لاعلمی اور کمزور قانونی شعور ہم کیا کر سکتے ہیں؟ (سفارشات) خصوصی قانون سازی: جادو کو بطور فوجداری جرم تسلیم کیا جائے۔ عاملین کی رجسٹریشن: ہر ’روحانی معالج‘ کی نگرانی کی جائے۔ خصوصی پولیس سیل: جادو، تعویذ فروشی، جعلی عاملین کے خلاف چھاپے اور تفتیش۔ عدلیہ و پولیس کی تربیت میڈیا کے ذریعے عوامی شعور کی بیداری UNO سے تعاون اور رپورٹنگکالا جادو محض توہم پرستی نہیں، بلکہ ایک خطرناک سماجی اور روحانی دہشتگردی ہے۔
قرآن و حدیث کی روشنی میں یہ حرام اور فتنہ انگیز عمل ہے، جبکہ دنیا کی کئی حکومتیں اسے قانونی جرم مان کر سخت سزائیں دے رہی ہیں۔
اگر پاکستان نے فوری اقدامات نہ کیے، تو جعلی پیر اور عامل معصوم ذہنوں، خاندانوں، اور معاشرے کو برباد کرتے رہیں گے۔
جب تک جادو کو جرم نہ مانا جائے،اور سخت ترین سزائیں نہ دی جایین یہ عاملین قانون سے بالا رہیں گے، ان کے بااثر supporters عوام کو سحر کی زنجیروں میں جکڑتے رہیں گے۔
ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
مصنف سابق سینئر ایڈیشنل ڈائریکٹر لاء پاکستان سول ایوی ایشن اتھارٹی اور اسلام آباد میں مقیم ایوی ایشن اینڈ انٹرنیشنل لاء کنسلٹنٹ ہیں۔ ان سے [email protected] پر رابطہ کیا جا سکتا ہے۔