امن تعلیم اور صحت کی ریاستی ذمے داری
اشاعت کی تاریخ: 7th, August 2025 GMT
امیر جماعت اسلامی حافظ نعیم الرحمن نے کہا ہے کہ ایسی ریاست چاہیے جو امن، تعلیم اور عوامی خدمت کو اپنی ذمے داری سمجھے۔ جماعت اسلامی نے ملک بھر میں نوجوانوں کے لیے ’’ بنو قابل‘‘ کے نام سے ایک تعلیمی پروگرام شروع کر رکھا ہے جس کے تحت جماعت نوجوانوں کو بااختیار بنانے کی بھی کوشش کر رہی ہے اور آیندہ سال دو برس میں دس لاکھ نوجوانوں کو آئی ٹی کی تعلیم دینا چاہتی ہے۔
اسی سلسلے میں جماعت اسلامی مالاکنڈ ڈویژن کے تحت سیدو شریف میں بنو قابل پروگرام کے تحت 1200 نوجوانوں کے گریجویشن کانووکیشن سے خطاب کرتے ہوئے امیر جماعت نے کہا کہ تعلیم خیرات نہیں بلکہ قوم کا آئینی حق اور ریاستی ذمے داری ہے مگر افسوس کہ ملک میں دو کروڑ 82 لاکھ بچے اسکولوں سے باہر ہیں جن میں 55 لاکھ بچے صرف کے پی میں ہیں۔ تعلیم کی آؤٹ سورسنگ حکومتی ناکامی کا واضح ثبوت ہے۔
ملک میں جماعت اسلامی کے علاوہ سیلانی انٹر نیشنل فاؤنڈیشن نے بھی کراچی میں نوجوانوں کو آئی ٹی کی تعلیم دینے کا پروگرام شروع کیا تھا جو ملک بھر میں چل رہا ہے اور مرکزی مسلم لیگ کے تحت بھی نوجوانوں کے لیے متعدد پروگرام چل رہے ہیں اور لاہور میں اخوت فاؤنڈیشن ایک اہم ادارہ بن چکا ہے جو ملک میں نہ صرف تعلیمی ادارے چلا رہا ہے بلکہ مہنگی تعلیم کے حصول کے لیے مالی وسائل نہ رکھنے والے قابل اور شوقین طلبا کو مفت تعلیم سمیت تمام تعلیمی سہولیات بھی فراہم کرنے میں پیش پیش ہیں۔ ملک کے ایک سابق چیف جسٹس، بعض ریٹائرڈ ججز و فلاحی شخصیات و رفاہی ادارے بھی تعلیمی ترقی اور نئی نسل کی خواندگی کی کوشش کر رہے ہیں۔
مگر ملک بھر میں کوئی حکومت اپنی یہ ذمے داری پوری نہیں کر رہی جس کی یہ آئینی ذمے داری ہے مگر ہر حکومت صرف دعوے کرتی ہے جس کے وزرائے تعلیم کا کام اس سلسلے میں عوام کو خواب دکھانا، بے بنیاد وعدے اور صرف آسرے دینا اور اپنی ذاتی شہرت تک محدود ہے۔ وفاقی اور صوبائی حکومتیں تعلیم کو قوم کا آئینی حق نہیں بلکہ عوام پر اپنا احسان سمجھتی ہیں۔
یوں تو اب تعلیم صوبوں کے حوالے کی جا چکی ہے اور وفاقی حکومت کا تعلق برائے نام اور ہائر ایجوکیشن تک محدود کر دیا گیا ہے اور صوبوں کو اپنے صوبوں میں تعلیم کی ترقی یا بیڑا غرق کرنے کا مکمل اختیار ملا ہوا ہے کہ وہ اپنے صوبے میں تعلیمی اداروں کے ساتھ جو چاہے سلوک کرے اسے کوئی پوچھنے یا جواب طلبی کرنے والا کوئی ہے ہی نہیں اور وزیر اعلیٰ اور وزیر تعلیم بادشاہ بنے ہوئے ہیں وہ جو چاہیں کریں۔
نصف صدی قبل تک ملک میں تعلیم کی اتنی بری حالت نہیں تھی جتنی اب ہے۔ نجی ادارے بھی اسکول چلاتے تھے جہاں فیس مناسب اور سہولتیں زیادہ تھیں اور نجی تعلیمی ادارہ صرف وہی تعلیم کے ماہرین کھولتے تھے جو نئی نسل کے اچھے تعلیمی مستقبل کی بہتری کے خواہاں ہوتے تھے اور سرکاری اسکولوں کے حصول تعلیم کے اساتذہ اپنے طلبا کو اپنے گھر بلا کر انھیں مفت تعلیم دیتے تھے اور امتحان کی تیاری کراتے تھے تاکہ ان کی کلاس کے بچے امتیازی نمبروں سے پاس ہو سکیں۔ اس وقت تعلیم کاروبار نہیں خدمت سمجھی جاتی تھی۔ اسکولوں میں پرانے اساتذہ اپنے طلبا کا اپنے بچوں کی طرح خیال رکھتے تھے۔
اسکولوں میں پڑھائی پر توجہ کم اور ٹیوشن گھروں پر پڑھانے کا سلسلہ شروع ہوا جو بڑھتے بڑھتے اب ٹیوشن سینٹروں تک پہنچ گیا ہے جو ایسے لوگ بھی چلا رہے ہیں جنھوں نے خود کبھی اسکولوں میں نہیں پڑھایا اور مختلف ماہرین تعلیم کو ملازم رکھ کر ٹیوشن سینٹر چلا رہے ہیں۔ بعض نجی اسکولوں اور ٹیوشن سینٹروں والے جن میں شعبہ تعلیم سے تعلق رکھنے والے کم ہیں ایڈمنسٹریٹر بن کر یہ ادارے چلا رہے ہیں اور محکمہ تعلیم کے مبینہ کرپٹ افسروں کی ملی بھگت سے شرطیہ پاس ہونے کی گارنٹی دیتے ہیں اور طلبا کو پوزیشن بھی دلواتے ہیں۔نجی تعلیمی ادارے اب اپنی یونیورسٹیاں اور میڈیکل، انجینئرنگ اور لا کالجز بھی بنا چکے ہیں جب کہ پہلے نجی اسکول مڈل تک ہوتے تھے۔
سرکاری اسکولوں میں اکثر کا تعلیم کا معیار تباہ کیا جا چکا ہے جو اب صرف غریب بچوں کی تعلیم کے لیے رہ گئے ہیں اور اپنے بچوں کو اعلیٰ تو کیا معقول تعلیم دلانے کے لیے بھی ان سرکاری اسکولوں میں پڑھانا پسند نہیں کرتا اور اپنے بچوں کو کم فیس والے نجی اسکول میں پڑھانے کو ہی ترجیح دیتا ہے اور موجودہ مہنگائی اور سرکاری اسکولوں کے حالات سن کر اپنے بچوں کو پڑھاتا ہی نہیں۔ سرکاری تعلیم سستی ہے مگر معیار بالکل نہیں۔ نجی اسکولوں میں پڑھانا آسان نہیں اور نہ ہی صوبائی حکومتوں کو اپنے ان سرکاری اسکولوں سے دلچسپی ہے اور اچھے سرکاری اسکول ملک بھر میں برائے نام رہ گئے ہیں اور نجی تعلیمی اداروں کا کاروبار عروج پر پہنچا ہوا ہے۔ صوبائی محکمہ تعلیم نے اسکولوں کو کمائی کا ذریعہ بنایا ہوا ہے نااہل لوگ رشوت دے کر بھرتی کیے جاتے ہیں۔
گھوسٹ اساتذہ بلکہ اسکولوں کی بھرمار ہے اور سندھ اس معاملے میں سب سے آگے ہے۔ تعلیم اب اسکولوں کا مقصد نہیں جہاں اب کرپشن عروج پر ہے۔ ایجوکیشن افسران ہوں یا سرکاری اساتذہ وہ بھی اپنے بچوں کو اپنے اسکولوں میں پڑھانا پسند نہیں کرتے اور تعلیم حکومتوں کی ترجیح ہی نہ رہی ہو تو کیسی آئینی ذمے داری، کیسا بچوں کا مستقبل۔ تعلیم صرف حکومت اور نجی تعلیمی اداروں کے لیے صرف کاروبار ہے۔ تعلیم کو آئینی ذمے داری سمجھنے والی حکومت تو اب خواب میں بھی ممکن نہیں، ایسی باتیں صرف سیاست کے لیے رہ گئی ہیں۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: سرکاری اسکولوں جماعت اسلامی سرکاری اسکول اپنے بچوں کو اسکولوں میں ملک بھر میں نجی تعلیمی نجی اسکول تعلیم کے ملک میں رہے ہیں ہیں اور کو اپنے ہے اور کے تحت کے لیے
پڑھیں:
پولیس کے شہداء ہمارا فخر، قربانیوں کو فراموش نہیں کریں گے‘ صدر، وزیراعظم
اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 04 اگست2025ء) صدر مملکت اور وزیراعظم پاکستان نے کہا ہے کہ پولیس کے ہزاروں شہداء ہمارا فخر ہیں، اپنے شہداء کی قربانیوں کو کبھی فراموش نہیں کریں گے۔پنجاب بھر میں یوم شہدا پولیس منایاگیا، مختلف شہروں میں ہونے والی تقریبات میں پولیس کے شہداء کی یاد میں شمعیں روشن کی گئیں۔یومِ شہدائے پولیس پر اپنے پیغام میں صدر مملکت آصف علی زرداری کا کہنا ہے کہ آج کے دن ہم اپنے بہادر پولیس افسران اور جوانوں کو خراجِ عقیدت پیش کرتے ہیں، بہادرپولیس افسران اور جوانوں نے ملک و قوم کی خاطر اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا۔انہوں نے کہا کہ پولیس نے دہشت گردی، جرائم اور بدامنی کے خلاف بھرپور جدوجہد کی ہے، قوم اپنے شہداء کی قربانیوں کو کبھی فراموش نہیں کرے گی۔(جاری ہے)
آصف علی زرداری کا کہنا تھا کہ ہزاروں بہادر پولیس جوانوں نے ملک و قوم کے تحفظ کیلئے اپنی جانیں قربان کیں، حکومت شہداء کے ورثا کی فلاح و بہبود کے لئے ہر ممکن اقدامات اٹھاتی رہے گی۔وزیراعظم شہباز شریف کا اپنے پیغام میں کہنا تھا کہ پولیس کے ہزاروں شہداء ہمارا فخر ہیں، شہداء کے اہل خانہ کو بھی سلام جو ہماری خاطر اپنا مستقبل قربان کرتے ہیں، دہشت گردی کے خلاف جنگ میں 8 ہزار سے زائد اہلکاروں نے لہو کا نذرانہ پیش کیا۔
انہوں نے کہا کہ رحیم یار خان میں ایلیٹ فورس کے 5 جوان شہید ہوئے، پاکستان پولیس نے اپنی پیشہ ورانہ صلاحیتوں کا دنیا میں لوہا منوایا، جرائم کی روک تھام کے لئے پولیسنگ میں ٹیکنالوجی کا استعمال خوش آئند ہے۔وفاقی وزیر داخلہ محسن نقوی نے یوم شہدائے پولیس پر اپنے پیغام میں کہا کہ پولیس کے تمام شہداء کو خراج عقیدت پیش کرتا ہوں، 4 اگست کا دن ملک کی داخلی سلامتی کے نگہبانوں کے نام ہے، جنہوں نے اپنی قیمتی جانیں قربان کر کے ریاستی عملداری کو یقینی بنایا۔ان کا کہنا تھا کہ ان عظیم محافظوں کو سلام جو شہادت کے بلند مرتبے پر فائز ہو کر امر ہوگئے، دہشت گردی، جرائم اور سماج دشمن عناصر کیخلاف بہادری سے لڑتے ہوئے جانیں نچھاور کرنے والے پولیس افسر و جوان قوم کے ہیرو ہیں۔انہوں نے کہا کہ ریاست ان عظیم خاندانوں کی مقروض ہے جن کے بیٹوں نے امن و تحفظ کیلئے اپنی جانیں قربان کیں، ایس ایس پی اشرف مارتھ، کیپٹن مبین اور تمام پولیس شہداء ہمارے دلوں میں ہمیشہ زندہ ہیں اور زندہ رہیں گے، آج ہم اپنے ضمیر کے سامنے عہد کرتے ہیں کہ نہ ہم پولیس شہداء کو بھولیں گے، نہ اٴْن کے خاندانوں کو تنہا چھوڑیں گے۔