Express News:
2025-09-21@05:16:42 GMT

امن تعلیم اور صحت کی ریاستی ذمے داری

اشاعت کی تاریخ: 7th, August 2025 GMT

امیر جماعت اسلامی حافظ نعیم الرحمن نے کہا ہے کہ ایسی ریاست چاہیے جو امن، تعلیم اور عوامی خدمت کو اپنی ذمے داری سمجھے۔ جماعت اسلامی نے ملک بھر میں نوجوانوں کے لیے ’’ بنو قابل‘‘ کے نام سے ایک تعلیمی پروگرام شروع کر رکھا ہے جس کے تحت جماعت نوجوانوں کو بااختیار بنانے کی بھی کوشش کر رہی ہے اور آیندہ سال دو برس میں دس لاکھ نوجوانوں کو آئی ٹی کی تعلیم دینا چاہتی ہے۔

اسی سلسلے میں جماعت اسلامی مالاکنڈ ڈویژن کے تحت سیدو شریف میں بنو قابل پروگرام کے تحت 1200 نوجوانوں کے گریجویشن کانووکیشن سے خطاب کرتے ہوئے امیر جماعت نے کہا کہ تعلیم خیرات نہیں بلکہ قوم کا آئینی حق اور ریاستی ذمے داری ہے مگر افسوس کہ ملک میں دو کروڑ 82 لاکھ بچے اسکولوں سے باہر ہیں جن میں 55 لاکھ بچے صرف کے پی میں ہیں۔ تعلیم کی آؤٹ سورسنگ حکومتی ناکامی کا واضح ثبوت ہے۔

ملک میں جماعت اسلامی کے علاوہ سیلانی انٹر نیشنل فاؤنڈیشن نے بھی کراچی میں نوجوانوں کو آئی ٹی کی تعلیم دینے کا پروگرام شروع کیا تھا جو ملک بھر میں چل رہا ہے اور مرکزی مسلم لیگ کے تحت بھی نوجوانوں کے لیے متعدد پروگرام چل رہے ہیں اور لاہور میں اخوت فاؤنڈیشن ایک اہم ادارہ بن چکا ہے جو ملک میں نہ صرف تعلیمی ادارے چلا رہا ہے بلکہ مہنگی تعلیم کے حصول کے لیے مالی وسائل نہ رکھنے والے قابل اور شوقین طلبا کو مفت تعلیم سمیت تمام تعلیمی سہولیات بھی فراہم کرنے میں پیش پیش ہیں۔ ملک کے ایک سابق چیف جسٹس، بعض ریٹائرڈ ججز و فلاحی شخصیات و رفاہی ادارے بھی تعلیمی ترقی اور نئی نسل کی خواندگی کی کوشش کر رہے ہیں۔

مگر ملک بھر میں کوئی حکومت اپنی یہ ذمے داری پوری نہیں کر رہی جس کی یہ آئینی ذمے داری ہے مگر ہر حکومت صرف دعوے کرتی ہے جس کے وزرائے تعلیم کا کام اس سلسلے میں عوام کو خواب دکھانا، بے بنیاد وعدے اور صرف آسرے دینا اور اپنی ذاتی شہرت تک محدود ہے۔ وفاقی اور صوبائی حکومتیں تعلیم کو قوم کا آئینی حق نہیں بلکہ عوام پر اپنا احسان سمجھتی ہیں۔

یوں تو اب تعلیم صوبوں کے حوالے کی جا چکی ہے اور وفاقی حکومت کا تعلق برائے نام اور ہائر ایجوکیشن تک محدود کر دیا گیا ہے اور صوبوں کو اپنے صوبوں میں تعلیم کی ترقی یا بیڑا غرق کرنے کا مکمل اختیار ملا ہوا ہے کہ وہ اپنے صوبے میں تعلیمی اداروں کے ساتھ جو چاہے سلوک کرے اسے کوئی پوچھنے یا جواب طلبی کرنے والا کوئی ہے ہی نہیں اور وزیر اعلیٰ اور وزیر تعلیم بادشاہ بنے ہوئے ہیں وہ جو چاہیں کریں۔

نصف صدی قبل تک ملک میں تعلیم کی اتنی بری حالت نہیں تھی جتنی اب ہے۔ نجی ادارے بھی اسکول چلاتے تھے جہاں فیس مناسب اور سہولتیں زیادہ تھیں اور نجی تعلیمی ادارہ صرف وہی تعلیم کے ماہرین کھولتے تھے جو نئی نسل کے اچھے تعلیمی مستقبل کی بہتری کے خواہاں ہوتے تھے اور سرکاری اسکولوں کے حصول تعلیم کے اساتذہ اپنے طلبا کو اپنے گھر بلا کر انھیں مفت تعلیم دیتے تھے اور امتحان کی تیاری کراتے تھے تاکہ ان کی کلاس کے بچے امتیازی نمبروں سے پاس ہو سکیں۔ اس وقت تعلیم کاروبار نہیں خدمت سمجھی جاتی تھی۔ اسکولوں میں پرانے اساتذہ اپنے طلبا کا اپنے بچوں کی طرح خیال رکھتے تھے۔

اسکولوں میں پڑھائی پر توجہ کم اور ٹیوشن گھروں پر پڑھانے کا سلسلہ شروع ہوا جو بڑھتے بڑھتے اب ٹیوشن سینٹروں تک پہنچ گیا ہے جو ایسے لوگ بھی چلا رہے ہیں جنھوں نے خود کبھی اسکولوں میں نہیں پڑھایا اور مختلف ماہرین تعلیم کو ملازم رکھ کر ٹیوشن سینٹر چلا رہے ہیں۔ بعض نجی اسکولوں اور ٹیوشن سینٹروں والے جن میں شعبہ تعلیم سے تعلق رکھنے والے کم ہیں ایڈمنسٹریٹر بن کر یہ ادارے چلا رہے ہیں اور محکمہ تعلیم کے مبینہ کرپٹ افسروں کی ملی بھگت سے شرطیہ پاس ہونے کی گارنٹی دیتے ہیں اور طلبا کو پوزیشن بھی دلواتے ہیں۔نجی تعلیمی ادارے اب اپنی یونیورسٹیاں اور میڈیکل، انجینئرنگ اور لا کالجز بھی بنا چکے ہیں جب کہ پہلے نجی اسکول مڈل تک ہوتے تھے۔

سرکاری اسکولوں میں اکثر کا تعلیم کا معیار تباہ کیا جا چکا ہے جو اب صرف غریب بچوں کی تعلیم کے لیے رہ گئے ہیں اور اپنے بچوں کو اعلیٰ تو کیا معقول تعلیم دلانے کے لیے بھی ان سرکاری اسکولوں میں پڑھانا پسند نہیں کرتا اور اپنے بچوں کو کم فیس والے نجی اسکول میں پڑھانے کو ہی ترجیح دیتا ہے اور موجودہ مہنگائی اور سرکاری اسکولوں کے حالات سن کر اپنے بچوں کو پڑھاتا ہی نہیں۔ سرکاری تعلیم سستی ہے مگر معیار بالکل نہیں۔ نجی اسکولوں میں پڑھانا آسان نہیں اور نہ ہی صوبائی حکومتوں کو اپنے ان سرکاری اسکولوں سے دلچسپی ہے اور اچھے سرکاری اسکول ملک بھر میں برائے نام رہ گئے ہیں اور نجی تعلیمی اداروں کا کاروبار عروج پر پہنچا ہوا ہے۔ صوبائی محکمہ تعلیم نے اسکولوں کو کمائی کا ذریعہ بنایا ہوا ہے نااہل لوگ رشوت دے کر بھرتی کیے جاتے ہیں۔

گھوسٹ اساتذہ بلکہ اسکولوں کی بھرمار ہے اور سندھ اس معاملے میں سب سے آگے ہے۔ تعلیم اب اسکولوں کا مقصد نہیں جہاں اب کرپشن عروج پر ہے۔ ایجوکیشن افسران ہوں یا سرکاری اساتذہ وہ بھی اپنے بچوں کو اپنے اسکولوں میں پڑھانا پسند نہیں کرتے اور تعلیم حکومتوں کی ترجیح ہی نہ رہی ہو تو کیسی آئینی ذمے داری، کیسا بچوں کا مستقبل۔ تعلیم صرف حکومت اور نجی تعلیمی اداروں کے لیے صرف کاروبار ہے۔ تعلیم کو آئینی ذمے داری سمجھنے والی حکومت تو اب خواب میں بھی ممکن نہیں، ایسی باتیں صرف سیاست کے لیے رہ گئی ہیں۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: سرکاری اسکولوں جماعت اسلامی سرکاری اسکول اپنے بچوں کو اسکولوں میں ملک بھر میں نجی تعلیمی نجی اسکول تعلیم کے ملک میں رہے ہیں ہیں اور کو اپنے ہے اور کے تحت کے لیے

پڑھیں:

آپ کے فریج اب اشتہار بھی دکھائیں گے

سام سنگ نے اپنی اسمارٹ ٹیکنالوجی کو ایک نیا موڑ دے دیا ہے۔ تازہ رپورٹس کے مطابق کمپنی نے اپنے فیملی ہب اسمارٹ فریج پر اشتہارات دکھانے کا پائلٹ پروگرام شروع کر دیا ہے۔ اس اقدام کے بعد سام سنگ کے صارفین جلد ہی اپنی کچن میں موجود فریج کی اسکرین پر پروموشنل ایڈز دیکھ سکتے ہیں۔

یہ تجربہ اس وقت امریکا میں منتخب ماڈلز پر جاری ہے، جسے ایک سافٹ ویئر اپ ڈیٹ کے ذریعے فعال کیا گیا ہے۔ اشتہارات فریج کے کَوَر اسکرین پر اس وقت ظاہر ہوں گے جب اسکرین پر موسم، رنگ یا ڈیلی بورڈ تھیم سیٹ ہو اور ڈیوائس آئیڈل حالت میں ہو۔

کمپنی کے مطابق اس اقدام کا مقصد صارفین کے لیے ”روزمرہ کی اضافی ویلیو“ فراہم کرنا ہے، تاہم سوشل میڈیا پر صارفین اسے پرائیویسی میں مداخلت قرار دے رہے ہیں۔

سام سنگ نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ، ’ہم اپنے صارفین کو زیادہ ویلیو دینے کی کوششوں کے حصے کے طور پر امریکا میں منتخب فیملی ہب ریفریجریٹر ماڈلز پر پروموشنز اور منتخب اشتہارات دکھانے کا تجرباتی پروگرام چلا رہے ہیں۔‘

کمپنی کے مطابق، اشتہارات صرف اسی وقت ظاہر ہوں گے جب اسکرین ڈیفالٹ کور اسکرین پر ہو۔ اگر صارفین اسے آرٹ موڈ یا اپنی ذاتی فوٹو البمز پر سیٹ کریں تو کوئی اشتہار نظر نہیں آئے گا۔

سام سنگ نے وضاحت کی ہے کہ صارفین کسی اشتہار کو ڈسمس کر سکتے ہیں، یعنی وہ مخصوص اشتہار دوبارہ ظاہر نہیں ہوگا، تاہم مکمل طور پر اشتہارات کو بند کرنے کا آپشن دستیاب نہیں ہے۔

یہ پہلا موقع نہیں کہ سام سنگ نے اسمارٹ ڈیوائسز پر اشتہارات لانے کا عندیہ دیا ہو۔ رواں سال کے آغاز میں نیویارک میں ایک پریزنٹیشن کے دوران کمپنی نے کہا تھا کہ مستقبل میں ”سام سنگ ایڈز“ برانڈ پیغام کو گھر کے ہر اسکرین تک پہنچا سکتی ہیں۔

پائلٹ پروگرام ستمبر 2025 میں شروع ہوا ہے اور چند ماہ تک جاری رہے گا۔ کسی بڑے پیمانے پر لانچ کا فیصلہ صارفین کے ردعمل کو دیکھتے ہوئے کیا جائے گا۔

دوسری جانب، صارفین کے ردعمل میں خاصی تنقید سامنے آئی ہے۔ ریڈٹ جیسے فورمز پر کئی صارفین نے کہا کہ وہ اس وجہ سے کبھی سام سنگ اسمارٹ فریج خریدنے کا ارادہ نہیں کریں گے، بعض نے تو یہ بھی کہا کہ وہ ان اشتہارات دینے والے برانڈز کو ہی بائیکاٹ کر دیں گے۔ کچھ صارفین نے خدشہ ظاہر کیا کہ یہ قدم اُن کے کچن کی خوبصورتی اور ”کلین ڈیزائن“ کو متاثر کرے گا۔

یاد رہے کہ سام سنگ فیملی ہب ریفریجریٹرز میں بڑی اسکرینز نصب ہوتی ہیں، جو 32 انچ تک بھی ہوسکتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ کمپنی کے لیے اشتہارات کو نمایاں انداز میں دکھانے کی گنجائش موجود ہے۔ تاہم، اگر صارفین اشتہارات سے مکمل طور پر بچنا چاہیں تو انہیں فریج کو انٹرنیٹ سے منقطع کرنا پڑے گا، جس کے نتیجے میں اسمارٹ فیچرز بھی بند ہو جائیں گے۔

سام سنگ بھی اب ان کمپنیوں کی فہرست میں شامل ہو گیا ہے جو اپنے اسمارٹ ہوم ڈیوائسز کو اشتہارات کے ذریعے کمرشلائز کر رہی ہیں۔ اس سے پہلے ایل جی نے اپنے اسمارٹ ٹی وی پر اشتہارات دکھانے شروع کیے تھے، جبکہ ایمیزون اپنے ایکو شو ڈیوائسز پر پروموشنز پیش کرتا رہا ہے۔

Post Views: 1

متعلقہ مضامین

  • اللہ کے نام پر…
  • ویکسی نیشن حقائق اور خدشات
  • نئی دہلی میں اسکولوں کو بم سے اُڑانے کی دھمکی
  • آپ کے فریج اب اشتہار بھی دکھائیں گے
  • پاکستان اور چین کا اشتراک : زرعی، تعلیمی اور سبز ترقیاتی منصوبوں میں نئی پیش رفت
  • بلوچستان کے نوجوانوں کو فوجی آپریشن نہیں تعلیم کی ضرورت: حافظ نعیم
  • آپریشن نہیں بلوچستان کے نوجوانوں کو تعلیم کی ضرورت ہے‘ حافظ نعیم الرحمن
  • صبح صبح دعائیہ کلمات کے پیغامات اور ہم
  • فلسطین، مزاحمت اور دو ریاستی حل کی حقیقت
  • سرکاری اسکولوں کے صرف 12 فیصد طلبا کراچی کے بڑے کالجوں میں داخلہ لے سکے