اسرائیل کا انگ انگ ٹوٹ رہا ہے
اشاعت کی تاریخ: 8th, May 2025 GMT
(گزشتہ سے پیوستہ)
دوسری جانب اسرائیلی مصنفہ اورت یائل نے اخبار’’زمن اسرائیل‘‘میں شائع شدہ اپنے ایک مضمون میں اسرائیل کے موجودہ سیاسی و نظریاتی رخ پر سخت تشویش کا اظہار کیا ہے۔ انہوں نے لکھا ہے کہ اسرائیل ایک فیصلہ کن موڑ پر کھڑا ہے۔ یائل کے مطابق اسرائیل آج ایک نہایت حساس موڑ پر کھڑا ہے، جہاں سے اس کے مستقبل کا رخ طے ہو سکتا ہے۔ اگر ملک میں جمہوری نظام کا انہدام نہ روکا گیا اور آئینی توازن بحال نہ کیا گیا، تو اسرائیل ایک انتہا پسند مذہبی،قومی ریاست میں بدل سکتا ہے جس کا انجام فناکے سوا کچھ نہیں ہے۔ مصنفہ کاکہنا ہےکہ وزیراعظم بن یامین نیتن یاہو، بظاہر کمزور نظر آنےکے باوجود، اب بھی مکمل طور پر ریاست کے تمام اداروں پر اپنی گرفت برقرار رکھے ہوئے ہیں۔ ان کی طاقت کا سرچشمہ، ان کی طویل سیاسی مہارت اور ریاستی مشینری پر کنٹرول ہے۔
یائل ایک کلیدی سوال اٹھاتی ہیں،’’نیتن یاہو کے جانے کے بعد کیا ہوگا؟‘‘خواہ وہ کنارہ کشی قدرتی اسباب سے ہو یا عوامی،قانونی دبائو کی وجہ سے۔ ان کا خدشہ یہ ہے کہ اگر عوامی بےحسی کا یہی عالم رہا اور مزاحمت نہ کی گئی، تو نیتن یاہو ریاستی اداروں کی خودمختاری مکمل طور پرختم کر دیں گے، وہ ریاست کو اپنی ذاتی خواہشات کے تابع کر دیں گے۔ مصنفہ نے سخت خبردار کیا کہ اگراس صورتحال کو نہ روکا گیا، تو اسرائیل کی جمہوری اقدارمکمل طور پر زوال پذیر ہو جائیں گی، اسرائیل ایک انتہاپسند مذہبی ریاست کی صورت اختیار کر لےگا جو اندرونی طور پرغیرمستحکم ہوگا۔اس مضمون میں اسرائیل کے اندر بڑھتی ہوئی سیاسی آمریت، ادارہ جاتی تباہی اور جمہوری اصولوں کے زوال پر ایک گہرا تجزیہ کیا گیا ہے،جو نہ صرف اسرائیلیوں بلکہ دنیا بھرکے مبصرین کےلیےلمحہ فکریہ ہے۔ اسرائیلی مصنفہ اورت یائل نے اپنے مضمون میں اسرائیل کے مستقبل کے حوالے سے بھی ایک نہایت سنجیدہ اور تشویشناک تجزیہ پیش کیا ہے۔ ان کے مطابق اگر موجودہ سیاسی رجحانات جاری رہے تو اسرائیل ایک ’’نرم آمرانہ نظام‘‘ (Soft Dictatorship) کی طرف بڑھ سکتا ہے، جو آزادیوں کو بتدریج ختم کرے گا، اسرائیلی شہریوں کو ملک چھوڑنے پر مجبور کرے گا اور آخرکار نیتن یاہو کے بعد، کلی اور واضح آمریت کی شکل اختیار کر لے گا۔ یائل نے خاص طور پر تین خطرناک ممکنہ قیادتوں کی نشاندہی کی ہے، جنہیں وہ نیتن یاہو کے بعد اسرائیل کے لئے سب سے بڑا خطرہ قرار دیتی ہیں:
ایتامار بن گویر: جو کہ وزیرِ قومی سلامتی ہیں اور شدت پسند نظریات کے حامل، پولیس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کو نظریاتی بنیادوں پر تشکیل دے رہے ہیں۔ یاریف لیفین: جو کہ وزیرِانصاف ہیں اورعدلیہ کو تباہ کرنے کے مشن پر ہیں۔ ان کا مقصد محض اصلاحات نہیں بلکہ بدلہ لینا ہے۔ بتسلئیل سموٹریچ: جو کہ وزیرِخزانہ ہیں اور ایک مذہبی انتہا پسند نظریے کے علمبردار اور اسرائیل کی بنیادوں کو تباہ کرنے پر آمادہ ہیں۔مصنفہ خبردار کرتی ہیں کہ یہ تینوں رہنما اگرحریدی جماعتوں اورقوم پرست مذہبی گروہوں سےاتحاد کرتے ہیں، تو اسرائیل کی ریاست ایک محدود نظریاتی ایجنڈے کا آلہ کار بن جائےگی، جہاں وسائل کا غلط استعمال، زندگی کےرجعتی اصول اور جمہوریت کا خاتمہ مقدر ہوگا۔ اس گھمبیر صورتحال کے باوجود، یائل ایک امید بھرا منظرنامہ بھی پیش کرتی ہیں: موجودہ حکومت کو عوامی اور شہری احتجاج کے ذریعے گرایاجائے، آزادانہ انتخابات منعقد ہوں اور ایک نئی، جمہوری حکومت تشکیل پائے، جو اسرائیل کی ریاستی ساخت، عدلیہ، جمہوریت اور آزادیوں کو بحال کرے۔ اگرچہ وہ اس راستے کو مشکل اور پرخطر مانتی ہیں، لیکن اس کے سوا کوئی اور راستہ باقی نہیں بچتا، اگر اسرائیل کو ایک جمہوری یہودی ریاست کے طور پر باقی رکھنا ہے، جو اپنے تمام شہریوں کے لیے ایک بہترمستقبل کی ضامن ہو۔کینیڈا میں مقیم تزئین حسن کے بقول دی اسرائیلی لابی کے مصنف جان مرشیمر کا ایک انٹرویو سنا، جس میں اس کا کہنا ہے کہ اسرائیل کو اصل خطرات ایران یا حماس سے نہیں بلکہ اندرونی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اسرائیلی ریاست اس قدر تقسیم اور پولورائیزیشن (دو انتہائوں میں تقسیم)کا شکار ہے کہ اسرائیل میں کسی بھی وقت سول وار شروع ہو سکتی ہے۔ اس انٹرویو کے کچھ دیر بعد ہی اسرائیلی دائیں بازو کے انتہا پسند ایک گروہ نے ایک سناگاگ پر حملہ کر دیا، جہاں اصلاح پسند فلسطین اور اسرائیل کے حوالے سےدعا منعقد گئی تھی۔ اسرائیل کو سب سے بڑا وجودی بحران (Existential Crisis) جو درپیش ہے وہ اس کی آبادی یعنی ڈیموگرافکس ہے۔
برٹش جرنلسٹ جوناتھن کک جو کئی کتابوں کے مصنف ہیں اور ایک فلسطینی سے شادی کر کے کئی سال سے نیزرتھ اسرائیل میں مقیم ہیں، کا کہنا ہے کہ فلسطینی گائوں سے پھلوں کے درخت کاٹ کر اور تمام قابل کاشت زمین کو صاف کر کے وہاں غرقد کے درخت لگائے گئےتاکہ فلسطینی جنہیں پڑوسی ممالک اور ویسٹ بینک اور غزہ میں دھکیل دیا گیا تھا، وہ اگر واپس آبھی جائیں تو وہاں دوبارہ آباد نہ ہو سکیں۔ اس کے ساتھ ہی ان گائوں کے گرد فینس لگا کرانہیں کلوزڈملٹری زون قرار دےدیاگیا،جہاں داخل ہونےوالوں کو انفلٹریٹر (درانداز) قراردیا گیا، جنہیں دیکھتے ہی گولی مارنے کاحکم تھا۔ ایسا کرنا اس لئے ضروری تھا کہ اقوام متحدہ کے مجوزہ تقسیم فلسطین پلان میں جو پچپن فیصد حصہ اسرائیل کی ریاست کے لیے مجوزہ تھا اس میں چار لاکھ چالیس ہزار فلسطینی اور پانچ لاکھ یہودی تھے، جن میں اکثریت یورپی مہاجرین کی تھی، جو پہلی جنگ عظیم کے بعد برطانوی مینڈیٹ کے دوران فلسطین منتقل ہوئے۔ اب اسرائیل کو یہودی ریاست کا اسٹیٹس برقرار رکھنے کے لیے فلسطینیوں کو پراپر اسرائیل سے باہر نکالنا اسرائیلی ریاست کی مجبوری تھی۔ اس کی پلاننگ پہلے سے کرلی گئی تھی۔ اسرائیلی مورخ الان پاپے کا کہنا ہے کہ صہیونیوں کو اسرائیل کے قیام کےپلان بناتے وقت اچھی طرح معلوم تھا کہ فلسطینیوں کو بزور طاقت نکالے بغیر اسرائیل کاایک یہودی اسٹیٹ کے طور پر قیام ناممکن ہے۔ اس کے لیے پلان ڈی یا دلت کو ایگزیکیوٹ (عملی طور پر نافذ)کیا گیا۔
(جاری ہے)
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: ہے کہ اسرائیل کا کہنا ہے کہ اسرائیل ایک تو اسرائیل اسرائیل کی اسرائیل کو اسرائیل کے نیتن یاہو ہیں اور کے بعد کے لیے
پڑھیں:
تعلیم ریاست کی ذمے داری
تعلیم ریاست کی ذمے داری کے فلسفے پر قائم ہونے والی پیپلز پارٹی نے تعلیم کو نجی شعبہ کے حوالے کرنے کی پالیسی پر خوبصورتی سے عمل کرنا شروع کردیا۔ سندھ میں پبلک پرائیوٹ پارٹنرشپ کے تحت صوبہ بھر میں 500 اسکول قائم کیے جائیں گے۔
ایک رپورٹ کے مطابق سندھ کی حکومت نے صوبے میں معیاری تعلیم تک رسائی کے فروغ کے لیے سندھ ایجوکیشن فاؤنڈیشن کے پبلک پرائیوٹ پارٹنرشپ کے ماڈل کے تحت ایک سہ فریقی معاہدے پر اتفاق کیا ہے۔ سندھ ایجوکیشن فاؤنڈیشن (ایس ای ایف)، دی سٹیزنز فاؤنڈیشن (ٹی سی ایف) اور حکومت سندھ کے ایجوکیشن اینڈ لٹریسی ڈپارٹمنٹ کی شراکت سے نئے اسکول تعمیر ہوںگے۔ یہ شراکت داری 2019سے 2029 تک کے عریہ پر محیط ہے۔
بتایا جاتا ہے کہ اس معاہدے کے تحت بعض غیر فعال ، ترک شدہ اور بند اسکولوں کی بحالی عمل میں آئے گی اور یہ غیر سرکاری اداروں کو اسکولوں کی انتظامی ذمے داری سونپی جائے گی۔ اس معاہدے کے تحت حکومت سندھ کی جانب سے ان اداروں کو سبسڈی کی فراہمی کا بھی ایک نیا نظام وضع کیا جائے گا۔
اس نظام کے تحت ٹی سی ایف کو فی طالب علم 200 روپے اساتذہ کی تربیت اور نصابی کتب کے لیے فراہم کیے جائیں گے۔ اس معاہدے کے پہلے مرحلہ میں ٹی ایس ایف نے اب تک بدین، دادو، حیدرآباد، جیکب آباد، کورنگی، ملیر، کشمور، مٹیاری، میرپور خاص، سانگھڑ، شہید بے نظیر آباد، شکارپور اور سجاول سمیت مختلف اضلاع میں 98 اسکول قائم کیے ہیں۔ جون 2029 تک مجموعی طور پر 500 اسکول تعمیر ہونگے۔
وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ کی صدارت میں ہونے والے اجلاس میں اس تجویز پر بھی غور کیا گیا کہ فی طالب علم ماہانہ سبسڈی 2 ہزار 500 روپے کردی جائے گی۔ تعلیم حکومت سندھ کا سب سے بڑا شعبہ ہے۔ پورے سندھ میں سرکاری پرائمری اور سیکنڈری اسکولوں کی کل تعداد 48 ہزار 932 کے قریب ہے جن میں سے 43 ہزار کے قریب اسکول فعال ہیں۔ اسی طرح اسکولوں میں اساتذہ کی تعداد تقریباً 147,945 ہے جن میں سے سرکاری اسکولوں میں کام کرنے والے اساتذہ کی تعداد 141,718 کے قریب ہے۔
ان میں سے بہت سے اساتذہ وہ ہیں جو غیر حاضر اساتذہ کی تعریف پر پورا اترتے ہیں۔ حکومت سندھ نے اس سال کے مالیاتی بجٹ میں تعلیم کے لیے 3,45 Trillion روپے مختص کیے ہیں۔ اس رقم میں سے بیشتر حصہ اسکولوں کی تعمیر اور ترقی، ان میں سہولتوں کی فراہمی، اساتذہ کی تنخواہوں، ریٹائرڈ اساتذہ کی پنشن اور دیگر تعلیمی لوازمات پر خرچ ہوتا ہے۔ حکومت سندھ کی اتنی خطیر رقم تعلیم پر خرچ کرنے کے باوجود سندھ بھر میں 7.9 ملین بچے اسکول نہیں جاتے اور سندھ کے تعلیمی اداروں خاص طور پر اسکولوں کا معیار مایوس کن ہے۔ شعبہ تعلیم کی رپورٹنگ کرنے والے سینئر صحافیوں کا بیانیہ ہے کہ سندھ کا تعلیم کا پورا نظام شفاف نہیں ہے۔ اس نظام میں ’سفارش‘ اور ’پیسہ کی چمک‘ دو بنیادی لوازمات ہیں۔
گزشتہ سال میٹرک اور انٹرمیڈیٹ کے نتائج سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ سرکاری اسکولوں سے فارغ التحصیل ہونے والے طلبہ کے مقابلے میں پرائیوٹ اسکولوں کے طلبہ نے امتیازی پوزیشن حاصل کیں۔ میڈیکل اور پری انجنیئرنگ کے داخلہ ٹیسٹ میں حیدرآباد اور دیگر بورڈ سے پاس ہونے والے طلبہ مطلوبہ نمبر حاصل نہ کرسکے۔ سندھ حکومت نے نجی اداروں کو پابند کیا ہے کہ 10فیصد نشستیں غریب طلبہ کے لیے میرٹ کی بنیاد پر مختص کی جائیں گی مگر کوئی تعلیمی ادارہ اس پالیسی پر عملدرآمد کرنے پر تیار نہیں ہے۔
جب 2008میں پیپلز پارٹی کی حکومت قائم ہوئی تو اس وقت ورلڈ بینک اسکولوں کی تعلیم کے لیے خطیر رقم فراہم کرتا تھا۔ ورلڈ بینک کے ماہرین نے اساتذہ کے تقرر کے معیار کو غیر اطمینان بخش قرار دیا اور اس بات پر اتفاق رائے ہوا تھا کہ اساتذہ کے تقرر کے لیے انٹری ٹیسٹ لازمی قرار دیا جائے مگر کئی ہزار افراد کو بغیر انٹری ٹیسٹ پاس کیے بھرتی کر لیا گیا، یوں اس وقت کے وزیر تعلیم پیر مظہر الحق کو سبکدوش کیا گیا اور ان افراد کو رخصت کیا گیا۔ یہ ہزاروں افراد کئی برسوں تک کراچی پریس کلب کے سامنے مظاہرہ کرتے رہے۔
کچھ افراد ٹکنیکل بنیادوں پر قانونی کمزوریوں کی بنیاد پر عدالتوں سے بحال ہوئے۔ اساتذہ کی بھرتی کے لیے سکھر آئی بی اے کے انٹری ٹیسٹ سے پاس ہونا لازمی قرار دیا گیا۔ کہا جاتا ہے کہ سکھر آئی بی اے ٹیسٹ میں بھی کئی خامیوں کا انکشاف ہوا ہے۔ بہرحال پھر حکومت سندھ نے اساتذہ کے تقرر کے لیے لائسنس سسٹم کا اجراء کیا۔ اب کسی بھی فرد کو ٹیچر بننے کے لیے یہ لائسنس حاصل کرنا لازمی قرار دیا گیا۔ اس لائسنس کی مدت 5 سال قرار دی گئی، یوں سندھ میں اس بات کے قوی امکانات پیدا ہوگئے کہ اب اساتذہ کا تقرر میرٹ کی بنیاد پر ہوگا مگر گریڈ 17 اور اس سے بالا کی آسامیوں کے لیے سندھ پبلک سروس کمیشن کا امتحان پاس کرنا لازمی قرار دیا گیا، البتہ سندھ پبلک سروس کمیشن کی ساکھ خراب ہے ۔ حکومت نے میرٹ پر اساتذہ کے تقرر، نئے اسکولوں کی تعمیر اور اسکولوں میں جدید ترین سہولتیں فراہم کرنے کے بجائے ایک نیا طریقہ سیکھا کہ غیر سرکاری تنظیموں کے سپرد اسکولوں کا نظام کردیا جائے مگر اس کے ساتھ حکومت ان تنظیموں کو سبسڈی دینے پر بھی تیار ہے ، یوں اب اربوں روپے ان تنظیموں کو ہر سال سبسڈی کی مد میں دیے جائیں گے۔
یہ تنظیمیں اپنے معیارکے مطابق اساتذہ کا تقرر کریں گی، یوں حکومت کو نئے اساتذہ کو میرٹ پر ملازمت دینے، ان اساتذہ کو بہتر تنخواہیں دینے اور ریٹائرمنٹ کے بعد پنشن ادا کرنے کے جھنجھٹ سے نجات حاصل ہوجائے گی۔ نیو لبرل ازم کے نظریے کے تحت اب سندھ حکومت بھی تعلیم کی ذمے داری سے بچ جائے گی۔
یہ بھی خبریں ہیں کہ صوبے کے سب سے بڑے سرکاری کو بھی غیر سرکاری تنظیموں کے سپرد کیا جارہا ہے۔ صوبائی وزراء جب پبلک پرائیوٹ پارٹنرشپ کا ذکر کرتے ہیں تو وہ ایس آئی یو ٹی کا حوالہ دیتے ہیں۔ ایس آئی یو ٹی کے سربراہ عظیم ڈاکٹر ادیب الحسن رضوی نے نجی شعبے سے فنڈز تو لیے مگر سارا انتظام سرکاری شعبے میں ہے۔ اس تناظر میں اہم سوال یہ ہے کہ جب حکومت تعلیم اور صحت کی ذمے داریاں بھی پوری نہیں کرے گی، تو اتنی بڑی کابینہ اور اتنی بڑی بیوروکریسی کا کیا جواز ہے؟
سوویت یونین کے خاتمے کے بعد فری مارکیٹ آنے سے تعلیم بھی ایک جنس کی حیثیت اختیار کرگئی ہے۔ عالمی بینک اور آئی ایم ایف کی یہ پالیسی ہے کہ تعلیم اور صحت کے شعبے نجی شعبے کے سپرد ہونے چاہئیں۔ سندھ کی حکومت بالواسطہ طور پر ان عالمی مالیاتی اداروں کی پالیسیوں کو عملی شکل دینے کی کوشش کررہی ہے۔ بعض دانشوروں کا کہنا ہے کہ ان غیر سرکاری اداروں کے تحت قائم کرنے والے تعلیمی اداروں کا معیار بلند ہوتا ہے، یوں عام طالب علم کو معیار تعلیم ملے گی مگر یہ مفروضہ ایک محدود سوچ کی پیداوار ہے۔ یہ غیر سرکاری ادارے حکومت کی سبسڈی سے ہی تعلیمی اداروں کا نظام چلائیں گے۔
ان اداروں میں فرائض انجام دینے والے اچھی تنخواہ، ریٹائرمنٹ کے بعد پنشن نہ ہونے اور کسی بھی وقت ملازمت ختم ہونے کے خطرے کی بناء پر ذہنی دباؤ کا شکار رہیں گے جس کے اثرات ان کے خاندانوں پر ہی نہیں بلکہ طالب علموں پر بھی پڑیں گے۔
یوں اسکول نہ جانے والے کروڑوں بچوں کے اسکولوں میں داخلہ کا معاملہ الجھا رہے گا۔ یہ حقیقت ہے کہ تعلیم اور صحت کی ذمے داری صرف ریاست ہی پورا کرسکتی ہے۔ پیپلز پارٹی نے اسی اصول کی بنیاد پر تعلیمی اداروں کو قومیانے کی پالیسی اختیار کی تھی اور یہی پالیسی تھی کہ جس کی وجہ سے پیپلز پارٹی عوام میں مقبول ہوئی تھی ، اصولی طور پر تو پیپلز پارٹی کو اپنی بنیادی تعلیمی پالیسی میں جو خامیاں ہیں انھیں دور کرنا چاہیے تھا۔ پیپلز پارٹی کی حکومت اپنی اساسی پالیسی دستاویز سے انحراف کرکے کچھ حاصل نہ کرسکے گی۔