مسلم لیگ (ن) کے رہنما عابد شیر علی نے کراچی کی ابتر صورتحال پر تبصرہ کرتے ہوئے ہاتھ جوڑ لیے۔

عابد شیر علی نے حال ہی میں نجی ٹی وی کے پروگرام میں شرکت کی جس کی میزبانی وسیم بادامی کر رہے تھے انہوں نے رہنما مسلم لیگ ن سے سوال کیا کہ آپ کتنے عرصے بعد کراچی آئے ہیں جس پر انہوں نے کہا کہ آئندہ مجھے کراچی بلانے سے پہلے ائیر پورٹ سے اسٹوڈیو تک سڑک بنا دیجیے گا، میری کمر ٹوٹ گئی ہے۔

ن لیگی رہنما نے کہا کہ مجھے معافی دے دیں اور ایک سڑک بنا دیں، ان کا کہنا تھا کہ میں سمجھا کہ شاید نیا کراچی بن گیا ہو لیکن ایسا کچھ نہیں ہوا۔

عابد شیر علی نے کہا کہ ہمارے دیہات بھی اس سے اچھے ہیں جس پر میزبان وسیم بادامی اس سے متفق نظر آئے اور انہوں نے کہا کہ اندورون پنجاب کی سڑکیں بھی کراچی کی سڑکوں سے بہتر ہیں۔

عابد شیر علی کی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی تو صارفین کی جانب سے اس پر مختلف تبصرے کیے گئے۔ ایک صارف نے انہیں مخاطب کرتے ہوئے لکھا کہ شہباز شریف کو بتائیں کہ وہ صرف پنجاب کے وزیراعظم نہیں بلکہ پورے پاکستان کے وزیراعظم ہیں۔

آصف اقبال لکھتے ہیں کہ ن لیگ سے ہزار اختلاف صحیح لیکن عابد شیر علی نے ایک بات بالکل صحیح کہی کہ پنجاب کے دیہات کے روڈ بھی کراچی کے شہر سے بہت بہتر ہیں۔

شاہد رضا نے سوال کیا کہ این ایف سی کے ذریعے اب ہر صوبے کو اپنے حصے کا پیسہ ملتا ہے تو سندھ حکومت کراچی میں کام کیوں نہیں کراتی؟ جبکہ ایک صارف کا کہنا تھا کہ پیپلز پارٹی والے صرف مال بنا رہے ہیں۔

وسیم بادامی نے مزید کہا کہ وہ ایک بار رات کو عابد شیر علی کے ساتھ فیصل آباد کی سڑکوں پر گھوم رہے تھے تو انہوں نے اپنا فون چوری کے ڈر سے جرابوں میں چھپانے کی کوشش کی جس پر رہنما مسلم لیگ ن نے کہا کہ یہ آپ کا کراچی نہیں ہے یہ محفوظ شہر ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

پی ایس ایل پیپلز پارٹی عابد شیر علی کراچی کراچی کی سڑکیں مسلم لیگ ن وسیم بادامی.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: پی ایس ایل پیپلز پارٹی عابد شیر علی کراچی کراچی کی سڑکیں مسلم لیگ ن عابد شیر علی نے نے کہا کہ مسلم لیگ کراچی کی انہوں نے

پڑھیں:

انسانی حقوق کی بگڑتی ہوئی صورتحال

شہری آزادیاں محدود ہو رہی ہیں۔ انسانی حقوق کی ترویج اور انسانی حقوق کے تحفظ کے لیے گزشتہ صدی کے آخری عشرے سے جدوجہد کرنے والی غیر سرکاری تنظیم انسانی حقوق کمیشن HRCP کی گزشتہ سال انسانی حقوق کی پامالی سے متعلق سالانہ رپورٹ میں تحریر کیا گیا ہے کہ پاکستان میںشہری آزادیوں پر قدغن لگانے، مسلسل خراب ہوتی ہوئی امن و امان کی صورتحال اور وفاقیت کو نقصان پہنچانے والے اقدامات سے انسانی حقوق کی مجموعی صورتحال خراب ہوئی ہے۔

 انسانی حقوق کمیشن کے چیئرپرسن اسد اقبال بٹ نے State of Human Rights in 2024 کے اجراء کے موقعے پر کہا کہ 2024 کے انتخابات میں شفافیت کے اصولوں کو بالائے طاق رکھا گیا جس کی بناء پر انتخابی دھاندلیوں کے بڑے پیمانے پر الزامات لگے جس کی وجہ سے ایک پارٹی کو اپنی قومی اسمبلی کی نشستوں سے محروم ہونا پڑا۔ نتیجتاً ملک میں سیاسی عدم استحکام پیدا ہوا اور اس بحران کے نتیجے میں ایک سال گزرنے کے باوجود مخصوص نشستوں کا فیصلہ نہ ہوسکا۔ ایچ آر سی پی کی اس سالانہ رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ سیاسی عدم استحکام کے نتیجے میں گزشتہ سال دہشت گردی کی وارداتیں بڑھ گئیں۔

اس رپورٹ کے مطابق گزشتہ سال خیبر پختون خوا اور بلوچستان میں دہشت گردی کی 2500 وارداتیں رپورٹیں ہوئیں۔ ان دہشت گردی کی وارداتوں میں 24 افراد جاں بحق ہوئے۔ اسی طرح سندھ اور پنجاب میں دہشت گردی کی وارداتوں میں 379 افراد جاں بحق ہوئے۔ پولیس اہلکاروں پر مسلسل ماورائے عدالت قتل کرنے کے الزامات لگے۔ اسی طرح دونوں صوبوں میں مجموعی طور پر 4 ہزار 864 کے قریب پولیس مقابلے ہوئے۔ انسانی حقوق کمیشن کے چیئرپرسن کا کہنا ہے کہ گزشتہ سال بھی لاپتہ افراد کی تعداد میں کمی آنے کے بجائے یہ تعداد بڑھ گئی۔ ایچ آر سی پی کی اس رپورٹ کے مطابق ملک میں پرتشدد ہجوم کے ہاتھوں 24 افراد مارے گئے ۔ اس رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ ملک کے مختلف علاقوں میں دفعہ 144 نافذ کر کے سیاسی اجتماعات کے حق پر پابندی لگادی گئی ہے۔

 کچھ صحافیوں کو حساس معاملات کی رپورٹنگ کرنے پر گرفتار کیا گیا۔ حکومت نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ’’X ‘‘پر پابندی ختم نہیں کی۔ اس رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ 26 ویں ترمیم کے بعد انصاف کی راہیں اور زیادہ مشکل ہوگئی ہیں اور نچلی سطح کی عدالتوں سے لے کر سپریم کورٹ تک میں 24 لاکھ مقدمات التواء کا شکار ہیں۔ اس طرح جیلوں میں گنجائش سے 228 گنا زیادہ قیدیوں کو رکھا گیا ہے۔ رپورٹ کے مطالعے سے ظاہر ہوتا ہے کہ وفاقی حکومت نے الیکٹرونک میڈیا اور سوشل میڈیا پر نئی پابندیاں عائد کردیں۔ ان پابندیوں کی مبینہ خلاف ورزیوں پر متعدد افراد کو زیرِ حراست لے لیا گیا۔

رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ گزشتہ سال صحافیوں پر حملوں کی تعداد بڑھ گئی۔ ایچ آر سی پی کی تحقیق کے مطابق کان کنوں اور مزدوروں کے علاوہ صفائی کرنے والے مزدوروں کے حالات بھی مزید خراب ہوئے ہیں۔ اسی طرح گزشتہ سال ہی ملک کے کئی علاقوں میں پولیو ورکرز پر پُرتشدد حملے ہوئے۔ اسی طرح خواتین اور بچوں پر تشدد کے واقعات میں اضافہ ہوا۔ خاص طور پر خواتین پر تشدد کی وارداتوں میں تیزی آئی۔ پورے ملک میں ریپ کے 4217 واقعات رپورٹ ہوئے۔ اس رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ گزشتہ سال ریپ کے 4000 سے زیادہ واقعات رپورٹ ہوئے۔ اس رپورٹ میں کہا گیا کہ افغان باشندوں کی ملک سے بدری کے ضمن میں بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی ہورہی ہے۔ اقوام متحدہ نے 1948میں انسانی حقوق کا جامع چارٹر تیار کیا تھا۔

پاکستان دنیا کے ان ممالک میں شامل ہے جن ممالک نے انسانی حقوق کے چارٹر کی توثیق کی۔ اقوام متحدہ کے ارکان ممالک نے سول اینڈ پولیٹیکل رائٹس کا کنونشن تیار کیا۔ پاکستان نے اقوام متحدہ کے ان کنونشنز کی بھی توثیق کی۔ پاکستان کا آئین 1973ء میں نافذ ہوا۔ اس آئین میں انسانی حقوق کا ایک جامع باب شامل کیا گیا۔ یوں ریاست کے تمام ستونوں پر یہ بات فرض کی گئی کہ انسانی حقوق کو نافذ کرنے کے لیے تمام تر وسائل استعمال کیے جائیں، اگرچہ نظری طور پر ملک میں انسانی حقوق کی پاسداری کا بیانیہ بار بار دہرایا جاتا ہے مگر حقائق ظاہر کرتے ہیں کہ ریاستی ادارے مجموعی طور پر انسانی حقوق کے تحفظ کے لیے سنجیدہ نہیں ہیں۔

انسانی حقوق کے تحفظ کا تعلق جمہوری ریاست سے وابستہ ہے۔ جمہوری ریاست کی بنیاد شفاف انتخابات اور پرامن طور پر اقتدار کی منتقلی میں مضمر ہے، مگر گزشتہ سال ہونے والے عام انتخابات میں فارم 45اور فارم 47کے تنازعات نے انتخابات کی شفافیت کو مجروح کیا ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق انتخابی ٹریبونل بیشتر دائر کی جانے والی انتخابی عذر داریوں کے بارے میں اب تک فیصلہ نہیں کرسکے ہیں۔ سپریم کورٹ نے تحریک انصاف کے انٹرا پارٹی انتخابات کو کالعدم قرار دے کر الیکشن کمیشن کے فیصلہ کی توثیق کی جس کے نتیجے میں پیدا ہونے والے تنازع کا نتیجہ یہ نکلا کہ خیبر پختون خوا اسمبلی کی مخصوص نشستوں کا ابھی تک فیصلہ نہیں ہوا اور سینیٹ کے درمیانی مدت کے انتخابات منعقد نہیں ہوئے، یوں ایک وفاقی اکائی کی ایوانِ بالا میں نمائندگی کا معاملہ التواء کا شکار ہے۔ یورپی یونین نے پاکستان کو جی ایس پی پلس کا خصوصی اسٹیٹس دیا ہوا ہے۔

 جی ایس پی پلس کا اسٹیٹس پاکستان میں انسانی حقوق کی بالادستی کے حوالے سے وابستہ ہے۔ جی ایس پی پلس کی بناء پر پاکستان کی گارمنٹس کی مصنوعات پورے یورپ، امریکا اور کینیڈا میں سستی قیمتوں میں دستیاب ہوتی ہیں۔ یورپی یونین کی پارلیمنٹ کا مسلسل مطالبہ ہے کہ شہریوں کے درمیان امتیاز پیدا کرنے والے قوانین کو منسوخ کیا جائے اور جبری طور پر تبدیلی مذہب کی شکایات کا تدارک کیا جائے۔ یورپی یونین کا یہ بھی مطالبہ ہے کہ شہری کو لاپتہ کرنے کو فوجداری جرم قرار دیا جائے، اگرچہ سابق حکومت کے دور میں شہری کو لاپتہ کرنے کو فوجداری جرم قرار دینے کے قانون کا مسودہ سینیٹ میں منظور ہوا تھا مگر پھر تحریک انصاف کی انسانی حقوق کی وزیر ڈاکٹر شیریں مزاری نے اچانک اعلان کیا کہ یہ مسودہ سینیٹ سیکریٹریٹ سے لاپتہ ہوا ہے۔

موجودہ حکومت کے دعوؤں کے باوجود شہری کو لاپتہ کرنے کو فوجداری جرم قرار دینے پر قانون سازی نہیں ہوسکی ۔ عدالتی فیصلوں کے تحت وفاق اور سندھ کی حکومت نے لاپتہ افراد کے لواحقین کو معاوضہ دینے کا اعلان کیا، مگر اب یہ معاملہ مکمل طور پر حل ہونا چاہیے۔ اس رپورٹ میں پنجاب اور بلوچستان کی جیلوں میں مقید خواتین اور سیاسی کارکنوں کی مسلسل نظربندی پر تشویش کا اظہار کیا گیا ہے اور خواتین کی رہائی پر زور دیا گیا ہے۔ انسانی حقوق کے تحفظ کا معاملہ غربت کے خاتمے اور ترقی سے منسلک ہے۔ انسانی حقوق کی بالادستی سے غربت کے خاتمے کا عمل تیز ہوسکتا ہے ۔ ریاست انسانی حقوق کی پاسداری کرے گی تو عوام کا ریاست پر اعتماد مضبوط ہوگا۔

متعلقہ مضامین

  • ’بندر کے ہاتھ ناریل‘: فرانسیسی اخبار نے بھارتی فضائیہ کی خامیاں، آپریشن سیندور کے سیاہ پہلو اجاگر کردیے
  • پاکستان کے ایک اور اہم شہر میں تعلیمی ادارےغیر معینہ مدت تک بند
  • کشیدہ صورتحال کے باعث فضائی آپریشن معطل، لاہور اور سیالکوٹ کے فضائی راستے بند
  • انسانی حقوق کی بگڑتی ہوئی صورتحال
  • ہر دہشت گردی کے پیچھے ’را‘ کا ہی ہاتھ رہا ہے، بیرسٹر گوہر
  • بھارتی جارحیت: سندھ پولیس کو الرٹ رہنے کی ہدایت، چھٹیاں منسوخ
  • آپ نے شیر کے منہ میں ہاتھ ڈالا ہے، اداکار منیب بٹ کا بھارت کو انتباہ
  • وفاقی کابینہ کا کل ہونے والا اجلاس موخر ہو گیا
  • ہائیکنگ کیلئے گئے دو افراد کے ہاتھ خزانہ لگ گیا!