اور اب مقبوضہ کشمیر میں پاکستان کے حملے کی افواہ!
اشاعت کی تاریخ: 8th, May 2025 GMT
سٹی42: بھارت کے ہندوتوا کے جنونی پیروکار نریندر مودی کی حکومت پاکستان کی مسجدوں پر حملوں کے بعد اب افواہیں اڑا رہی ہے کہ پاکستان نے بھارت پر جوابی ھملے کئے ہیں۔ کل پشرقی پنجاب پر پاکستان کے حملوں کی فیک نیوز بھارتی میڈیا سے پھیلائی، آج شب مقبوضہ کشمیر مین پاکستان کے حمے کی فیک نیوز اندیا کے میڈیا پر پھیلائی گئی ہے۔
پاکستان کے سکیورٹی زرائع نے کنفرم کیا ہے کہ پاکستان نے آج شام، آج رات مقبوضہ کشمیر میں کوئی حملہ نہیں کیا۔
پنجاب بھر کے سکولوں میں تعطیلات کا اعلان
پاکستان کے عسکری ذرائع نے کہا کہ انڈیا کی حکومت پاکستان کے حملے سے سخت خوفزدہ ہے اور پاکستان کی سفارتی محاذ پر دنیا بھر میں انڈیا کا پیچھا کرنے اور اس کا مکروہ تشدد پرستی کا چہرا دنیا کے سامنے بے نقاب کرنے کی پالیسی سے بہت زیادہ خوفزدہ ہے۔ انڈیا اپےن عوام اور دنیا کو گمراہ کرنے کے لےئ افواہیں اڑا رہا ہے کہ پاکستان بھی انڈیا کے اندر حملے کر رہا ہے۔
واضح رہے کہ آج انڈیا نے سات مئی کی رات پانچ انڈین طیارے گرائے جانے کی خفت مٹانے کے لئے پاکستان کے اندر درجنوں ڈرون بھیجے، پاکستان نے یہ تمام ڈرون گرا دیئے۔ شام کا اندھیرا ہوتے ہی اندیا نے مقبوضہ کشمیر کے کچھ علاقوں مین بتیاں بند کروا دیں اور اندیا کے کٹھ پتلی میڈیا کے ذریعہ یہ افواہ پھیلا دی کہ پاکستان نے مقبوضہ کشمیر میں کوئی ھملہ کیا ہے۔
علی امین گنڈا پور کا اڈیالہ جیل کی جانب پیدل مارچ، پولیس سے تلخ کلامی
یہ خاص افواہ پاکستان آرمی کے ترجمان جنرل احمد شریف چوہدری کے نیوز بریفنگ میں خاص طور سے کل شب انڈیا میں پاکستانی ھملوں کی برے پیمانے پر پھیلائی افواہ کی پر زور تردید کرنے کے بعد اڑائی ہے۔
Waseem Azmet.ذریعہ: City 42
کلیدی لفظ: کہ پاکستان پاکستان نے پاکستان کے
پڑھیں:
بھارت کا معاشی ترقی میں جاپان کو پیچھے چھوڑنے کا دعوی‘شہریوں کا شدید ردعمل
دہلی(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔ 28 مئی ۔2025 )بھارتی حکومت کے ادارے پلاننگ کمیشن کے چیف ایگزیکٹو آفیسر بی وی آر سبرامنیم کی جانب سے جاپان کو پیچھے چھوڑتے ہوئے انڈیا دنیا کی چوتھی سب سے بڑی معیشت بننے کے دعوی پر بھارت میں گرماگرم بحث جاری ہے. بھارتی شہریوں نے جاپان کے شہریوں کے معیار زندگی سے موازانہ کرتے ہوئے اس دعوے کے متعلق سوالات اٹھائے ہیں سوشل میڈیا پر کل پیداوار(جی ڈی پی) اور فی کس آمدنی کے حوالے سے بات کی جا رہی ہے اور یہ سوال بھی اٹھایا جا رہا ہے کہ کیا انڈیا واقعی دنیا کی چوتھی بڑی معیشت بن چکا ہے؟.(جاری ہے)
ان دعوﺅں کے بارے میں ماہرین اقتصادیات نے جی ڈی پی کے بارے میں دعوے کرنے میں جلد بازی کی طرف اشارہ کیا ہے دہلی کی جواہر لعل نہرو یونیورسٹی میں معاشیات کے سابق پروفیسر ارون کمار نے برطانوی نشریاتی ادارے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ برائے نام جی ڈی پی جاپان کو پیچھے چھوڑنا آئی ایم ایف کا تخمینہ ہے اور یہ دعویٰ کرنے میں جلد بازی کی گئی ہے. ایک شہری صارف طفیل نوشاد نے”ایکس“پر اپنی پوسٹ میں لکھا کہ اگر ہم معیشت کے اوپر کے ایک فیصد، پانچ فیصد اور پھر 10 فیصد کو ہٹا دیں تو انڈیا کی فی کس جی ڈی پی کیا ہوگی؟ اور معیشت میں نیچے کے 50 فیصد لوگوں کی فی کس جی ڈی پی کیا ہوگی؟. ترون گوتم نامی ایک صارف نے اسی حوالے سے ایکس پر لکھا کہ حقیقت یہ ہے کہ انڈیا کی فی کس آمدنی 2800 ڈالر ہے جبکہ جاپان کی 33،138 امریکی ڈالر ہے اور اگر آپ امبانی اور اڈانی کی دولت کو ہٹا دیں تو یہ انڈیا کی فی کس آمدنی 2662 ڈالر ہو جائے گی اور 90 فیصد بھارتی شہری 25 ہزار روپے سے کم ماہانہ کماتے ہیں انڈیا کے امیر ترین ایک فیصد کے پاس ملک کی 40 فیصد سے زیادہ دولت ہے اس لیے یہ موازانہ بے معنی ہے. بہت سے ماہرین اقتصادیات فی کس جی ڈی پی یعنی فی کس آمدنی کو کسی ملک کی معاشی ترقی کا اندازہ لگانے کے لیے ایک درست معیار مانتے ہیں اور اس سلسلے میں انڈیا دنیا میں 140 ویں نمبر پر ہے پروفیسر ارون کمار کہتے ہیں کہ کبھی کبھی مذاق میں کہا جاتا ہے کہ اگر ایلون مسک اور جیف بیزوس کسی سٹیڈیم میں جاتے ہیں تو وہاں کی فی کس آمدنی اچانک بڑھ کر 10 لاکھ ڈالر ہو جائے گی کیونکہ وہ ہر سال 100 ملین سے زیادہ کماتے ہیں. انہوں نے کہا کہ ایک طرف انڈیا فی کس آمدنی کے لحاظ سے 140 ویں نمبر پر ہے اور دوسری طرف ارب پتیوں کی تعداد کے لحاظ سے تیسرے نمبر پر ہے اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ انڈیا میں امیر امیر تر ہو رہے ہیں اور غریبوں کی حالت نہیں بدل رہی ہے. انہوں نے کہاکہ فی کس آمدنی بھی حقیقی تصویر نہیں دکھاتی اور اوسط اعداد و شمار میں عدم مساوات چھپ جاتا ہے دوسری جانب ورلڈومیٹرز کے مطابق 2025 کے آخر تک جاپان کی فی کس جی ڈی پی کا تخمینہ 33,806 ڈالر لگایا گیا ہے جب کہ انڈیا کی فی کس جی ڈی پی 2,400 امریکی ڈالر کے لگ بھگ ہوگی جو کینیا، مراکش، لیبیا، ماریشس اور جنوبی افریقہ جیسے ممالک سے بھی کم ہے.