City 42:
2025-06-13@08:28:11 GMT

اور اب  مقبوضہ کشمیر میں پاکستان کے حملے کی افواہ!

اشاعت کی تاریخ: 8th, May 2025 GMT

سٹی42:    بھارت کے ہندوتوا کے جنونی  پیروکار نریندر مودی کی حکومت پاکستان کی مسجدوں پر حملوں کے بعد اب افواہیں اڑا رہی ہے کہ پاکستان نے بھارت پر جوابی ھملے کئے ہیں۔ کل پشرقی پنجاب پر پاکستان کے حملوں کی فیک نیوز بھارتی میڈیا سے پھیلائی، آج شب مقبوضہ کشمیر مین پاکستان کے حمے کی فیک نیوز اندیا کے میڈیا پر پھیلائی گئی ہے۔

پاکستان کے سکیورٹی زرائع نے کنفرم کیا ہے کہ پاکستان نے آج شام، آج رات مقبوضہ کشمیر میں کوئی حملہ نہیں کیا۔ 

پنجاب بھر کے سکولوں میں  تعطیلات کا اعلان

پاکستان کے عسکری ذرائع نے کہا کہ انڈیا کی حکومت پاکستان کے حملے سے سخت خوفزدہ ہے اور پاکستان کی سفارتی محاذ پر دنیا بھر میں انڈیا کا پیچھا کرنے  اور اس کا مکروہ  تشدد پرستی کا چہرا دنیا کے سامنے بے نقاب کرنے کی پالیسی سے بہت زیادہ خوفزدہ ہے۔  انڈیا اپےن عوام اور دنیا کو گمراہ کرنے کے لےئ افواہیں اڑا رہا ہے کہ پاکستان بھی انڈیا کے اندر حملے کر رہا ہے۔

واضح رہے کہ آج انڈیا نے سات مئی کی رات پانچ انڈین طیارے گرائے جانے کی خفت مٹانے کے لئے پاکستان کے اندر درجنوں ڈرون بھیجے، پاکستان نے یہ تمام ڈرون گرا دیئے۔ شام کا اندھیرا ہوتے ہی اندیا نے مقبوضہ کشمیر کے کچھ علاقوں مین بتیاں بند کروا دیں اور اندیا کے کٹھ پتلی میڈیا کے ذریعہ یہ افواہ پھیلا دی کہ پاکستان نے مقبوضہ کشمیر میں کوئی ھملہ کیا ہے۔

علی امین گنڈا پور کا اڈیالہ جیل کی جانب پیدل مارچ، پولیس سے تلخ کلامی

یہ خاص افواہ پاکستان آرمی کے ترجمان جنرل احمد شریف چوہدری کے نیوز بریفنگ میں خاص طور سے کل شب انڈیا میں پاکستانی ھملوں کی برے پیمانے پر پھیلائی افواہ کی پر زور تردید کرنے کے بعد اڑائی  ہے۔ 

Waseem Azmet.

ذریعہ: City 42

کلیدی لفظ: کہ پاکستان پاکستان نے پاکستان کے

پڑھیں:

پاکستان کوکھل کربھارت کے خلاف بات کرنے پرعالمی دباؤ کا سامنا کرناپڑتاہے

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

کراچی(رپورٹ:حماد حسین)سفارتی دباؤ اور عالمی سیاست بھارت ایک بڑی معیشت اور بڑی آبادی والا ملک ہے، جس کے عالمی تعلقات مضبوط ہیں۔ پاکستان جب بھارت کے خلاف کھل کر بات کرتا ہے، تو بین الاقوامی دباؤ اور مخالفت کا سامنا بھی کرتا ہے پاکستان کو خود بھی متعدد داخلی چیلنجز کا سامنا ہے، جیسے معیشت، سیاسی عدم استحکام، اور انتہا پسندی، جس کی وجہ سے بین الاقوامی سطح پر مؤثر سفارت کاری کرنا مشکل ہو جاتا ہے، صرف بیانات دینا کافی نہیں ہوتا، عملی اقدامات جیسے کہ مسلم دنیا کو متحد کرنا، انسانی حقوق کی تنظیموں کو فعال بنانا، یا عالمی میڈیا میں مستقل لابی کرنا ضروری ہوتا ہے، جو اکثر کمزور ہوتا ہے۔ان خیالات کا اظہارجامعہ کراچی کے شعبہ بین الاقوامی تعلقات کی اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر رضوانہ جبیں،جناح یونیورسٹی برائے خواتین کے شعبہ اسلامی تعلیم کی چیئرپرسن پروفیسر ثریا قمر اور ڈاکٹر رخشندہ منیر نے جسارت کے سوال پاکستان ہندوستان کے مسلمانوں پر ہونے والے ظلم کے خلاف آواز کیوں نہیں اٹھاتا؟کے جواب میں کیا۔جامعہ کراچی کے شعبہ بین الاقوامی تعلقات کی اسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر رضوانہ جبیں کا کہنا تھا کہ ایک بہت اہم اور حساس سوال ہے۔ پاکستان سرکاری سطح پر اکثر ہندوستان میں مسلمانوں کے ساتھ ہونے والے مظالم کے خلاف آواز اٹھاتا رہا ہے، خصوصاً کشمیر کے حوالے سے۔ ہر سال اقوامِ متحدہ سمیت مختلف بین الاقوامی فورمز پر پاکستان کی جانب سے بیانات دیے جاتے ہیں، اور بعض اوقات او آئی سی میں بھی اس مسئلے کو اجاگر کیا جاتا ہے۔تاہم، کئی لوگ سمجھتے ہیں کہ پاکستان کی آواز اکثر کمزور یا غیر مؤثر ہوتی ہے، یا پھر صرف سیاسی مفادات کے تحت بلند کی جاتی ہے۔ اس کی چند ممکنہ وجوہات ہو سکتی ہیں.سفارتی دباؤ اور عالمی سیاست بھارت ایک بڑی معیشت اور بڑی آبادی والا ملک ہے، جس کے عالمی تعلقات مضبوط ہیں۔ پاکستان جب بھارت کے خلاف کھل کر بات کرتا ہے، تو بین الاقوامی دباؤ اور مخالفت کا سامنا بھی کرتا ہے۔پاکستان کو خود بھی متعدد داخلی چیلنجز کا سامنا ہے، جیسے معیشت، سیاسی عدم استحکام، اور انتہا پسندی، جس کی وجہ سے بین الاقوامی سطح پر مؤثر سفارت کاری کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔ صرف بیانات دینا کافی نہیں ہوتا، عملی اقدامات جیسے کہ مسلم دنیا کو متحد کرنا، انسانی حقوق کی تنظیموں کو فعال بنانا، یا عالمی میڈیا میں مستقل لابی کرنا ضروری ہوتا ہے، جو اکثر کمزور ہوتا ہے۔جناح یونیورسٹی برائے خواتین کے شعبہ اسلامی تعلیم کی چیئرپرسن پروفیسر ثریا قمرکاکہنا تھا کہ مسلمان دنیا کے کسی بھی ملک یا خطے میں رہتے ہوںوہ امت مسلمہ کا حصہ ہیں۔بھارت ہو افغانستان یا کوئی اور ملک جہاں بھی کوئی واقعہ ہوتا ہے پاکستان ا س کے لیے آواز اٹھاتا ہے، اسی طرح مقبوضہ کشمیر کو بھارت کہتا ہے کہ ہمارا جبکہ ہم کہتے وہ مقبوضہ ہے وہاں جو بھی کچھ ہورہاہے وہ کون کررہا ہے وہ بھارتی پولیس اور انڈین آرمی کررہی ہے،پاکستا ن مستقل اس کے خلا ف آواز اٹھاتا ہے.بھارت آبادی اور وسائل کے اعتبار سے بڑا ملک ہے اور اس کے دیگر اسلامی ممالک سے بھی بڑے اچھے تعلقات ہیں،جبکہ امریکا،برطانیہ سمیت دیگر یورپی ممالک میں اس کی اکانومی چھائی ہوئی ہے اسی لئے بھارت کے اکنامی ریلیشن پاکستان کے مقابلے میں زیادہ اچھے ہیں۔پاکستان میں مختلف حکومتی آتی ہیں جو اپنا اپنا ایجنڈا لے کر آتی ہیں۔اسی لیے پاکستان معاشی سطح پر دباؤ کا شکار ہے،پے در پے حکومتوں غیر ضروری طور پر تبدیل کرنے کی وجہ سے ہماری حکومت بہت سے چیزوں میں الجھ جاتی ہے وہاں کے مسلمانوں کے ساتھ وہاںکی حکومت نہیں پاکستان بننے کے بعد انہیں وہ قوت حاصل نہیں ہوئی جو کہ ہونا چاہیے جبکہ بھارت کئی مذہبی عناصربڑی تعداد میں موجود ہیںجو پاکستا ن کے مقابلے میں زیادہ ہیں۔پاکستان تو اپنے ہی مسائل میں گھرا ہواہے۔مگر پھر بھی مقبوضہ کشمیر میں رہنے والے ہمارے مسلمان بھائی ہیں۔کلمہ کی بنیاد پر جہاںمسلمانو ں پر جبری تسلط قائم کیا جائے تو بحیثیت مسلمان ہم پاکستانیوں کو تکلیف تو ہوتی ہے ،شعبہ تعلیم سے وابستہ ماہر تعلیم ڈاکٹر رخشندہ منیر کا کہنا تھا کہ پاکستان جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں کہ 1971ء سے پہلے Double Country کے نام سے جانا جاتا تھا اس کی وجہ یہ تھی کہ مشرقی پاکستان اور مغربی پاکستان میں 1000 میل (1600 کلو میٹر) کا فاصلہ تھا۔ پاکستان کے دو حصوں کے بیچ میں بھارت کے کچھ علاقے موجود تھے۔ یہی وجہ تھی کہ مشرقی پاکستان اور مغربی پاکستان کے درمیان ہمیشہ تناؤ برقرار رہا۔ اگر ہم دونوں ممالک کے تعلقات پر نظر ڈالیں تو ہمیں تنازعات دیکھائی دیتے ہیں۔ پاکستان اور بھارت نے 78 سال کے عرصے میں چار بڑی جنگیں لڑیں۔1948، 1947 اور 1965 کشمیر کے معاملے پر 1947-48 میں بھارت کشمیر کا ایک حصہ پاکستان سے لینے میں کامیاب ہوا۔ 1970-71 میں بھارت نے مشرقی پاکستان پر حملہ کیا جس کے نتیجے میں مشرقی پاکستان کی علیحدگی عمل پذیر ہوئی اور بنگلہ دیش وجود میں آیا۔ 1999ء میں بھارت اور پاکستان پھر آمنے سامنے آئے۔ اس بار کارگل نشانہ بنا۔ اس جنگ کے نتیجے میں بھارت نے کارگل پر قبضہ کیا۔ جس پر پہلے ہی پاک فوج قبضہ حاصل کرچکی تھی۔اس کے علاوہ پاکستان اور بھارت کے درمیان کئی موقعوں پر اختلافات پیدا ہوئے۔ ان سب اختلافات کے باوجود پاکستان نے کئی بار کشمیر کے مسئلے کو عالمی سطح پر اُٹھایا ہے۔ اس کے علاوہ کشمیری عوام کو جب سیکورٹی کونسل نے جنوری 1949ء میں حق خودارادیت دیا تو پاکستان نے اس کا خیر مقدم کیا۔ بینظیر بھٹو، نواز شریف اور دیگر کئی حکمرانوں نے کشمیر میں ہونے والی نسل کشی کے خلاف آواز اٹھائی ہے۔ پاکستان کشمیر کے معاملے میں کوئی جارحانہ قدم اُٹھانے کا خطرہ مول نہیں لے سکتا۔ سب سے پہلے تو پاکستان کے اندرون حالات بہت نازک ہیں، ہر صوبہ ایک الگ کشمکش کا شکار ہے۔ اس کے علاوہ ہم معاشی بحران کا شکار ہیں، پاکستان ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف سے مسلسل قرضے لیتا آرہا ہے۔ اگر ایک لمحے کیلئے پاکستان اپنی معاشی کمزوری کو نظر انداز کرکے کوئی بڑا قدم اُٹھائے بھی تو تب اس بات کو یقینی طور پر نہیں کہا جاسکتا کہ باقی مسلمان ممالک بھارت کے خلاف پاکستان کا ساتھ دیں گے۔

متعلقہ مضامین

  • پاکستان کوکھل کربھارت کے خلاف بات کرنے پرعالمی دباؤ کا سامنا کرناپڑتاہے
  • مقبوضہ کشمیر سے خاتون شادی کیلئے بارڈر کراس کرکے آئیں تو پاک فوج نے کیا کیا؟
  • مقبوضہ کشمیر سے خاتون شادی کیلئے بارڈر کراس کرکے آئیں تو کیا کیا؟ پاک فوج کے کیپٹن نے دلچسپ قصہ سنا دیا
  • مقبوضہ کشمیر، کالے قانون کے تحت ایک اور کشمیری کی زرعی اراضی ضبط
  • ٹرمپ ضرور کوشش کرینگے پاک بھارت مذاکرات ہوں( بلاول بھٹو)
  • جے شنکر کی پاکستان پر حملے کی دھمکی عالمی توجہ کشمیر سے ہٹانے کی کوشش ہے، علی رضا سید
  • صدر ٹرمپ کی جانب سے مسئلہ کشمیر حل کرنے کی خواہش کیا کسی بڑی پیشرفت کا پیش خیمہ ہے؟
  • امن کے لیے امریکا کو انڈیا کو کان سے پکڑ کر مذاکرات کی میز پر لائے، بلاول بھٹو
  • امن کے لیے امریکا کو انڈیا کو کان سے پکڑ کر بھی مذاکرات کی میز پر لانا پڑا تو وہ لائے گا، بلاول
  • بھار ت نے مقبوضہ کشمیر کو ایک کھلی جیل میں تبدیل کر دیا ہے، حریت کانفرنس