Express News:
2025-09-22@15:25:50 GMT

اسلام کا نظامِ انسدادِ گداگری

اشاعت کی تاریخ: 9th, May 2025 GMT

گداگری دوسروں سے بلااستحقاق مادی اعانت طلب کرنے کا نام ہے۔ گداگری، بھیک مانگنا اور بھکاری بن کر زندگی گزارنا فطری اعتبار سے ایک ناپسندیدہ عمل ہے۔ جس کی اسلام میں مذمت و ممانعت اور حوصلہ شکنی کی گئی ہے۔

اس کے برعکس زرق حلال وہ تاب ناک نُور ہے جو محنت کی پیشانی سے چمکتا ہے اور دیانت کے دامن سے مہکتا ہے۔ یہ وہ پاکیزہ دولت ہے جسے صرف خلوص نیت، امانت اور شرعی اصولوں کی پاس داری سے حاصل کیا جا سکتا ہے۔ ایسا مال جس میں سود کی نجاست، ظلم کی تاریکی یا فریب کی آلودگی شامل ہو، رزق حلال نہیں بل کہ روح کی گم راہی اور دل کی سیاہی ہے۔ اور جو ہاتھ محنت کی عظمت کو چھوڑ کر سوال کی ذلت میں دراز ہو جائیں وہ عزت و وقار کے آسمان سے زمین پر آگرتے ہیں۔

لہٰذا گداگری خودداری کا جنازہ اور عزت نفس کی موت ہے۔ سعادت اسی میں ہے کہ انسان اپنے ہاتھوں کی محنت پر بھروسا کرے۔ البتہ دین اسلام میں مستحق و مجبور پر خرچ کرنے کے بڑی فضیلت و اہمیت مذکور ہے اور فرضیت زکوۃ، صدقہ فطر اور مختلف کفارات و نفلی صدقات کی صورت میں شریعت نے ان مجبور و لاچار افراد کے تحفظ کی راہیں متعین کی ہیں اور تلاش رزق کا ہر لمحہ اﷲ تعالیٰ کی راہ میں شمار ہوتا ہے۔

ایک روایت میں ہے کہ ایک شخص رسول اﷲ ﷺ کے پاس سے گزرا تو صحابہ کرامؓ نے اس کی محنت اور تن درستی کو دیکھ کر کہا: یارسول اﷲ ﷺ! کاش یہ اﷲ کی راہ میں ہوتا۔ آپ ﷺ نے فرمایا، مفہوم: ’’اگر یہ اپنے چھوٹے بچوں کے لیے محنت کررہا ہے تو یہ اﷲ کی راہ میں ہے۔ اگر یہ اپنے بوڑھے ماں باپ کی خدمت کے لیے محنت کر رہا ہے تو یہ اﷲ کی راہ میں ہے۔ اگر یہ اپنی ذات کی پاکیزگی کے لیے محنت کر رہا ہے تو بھی اﷲ کی راہ میں ہے اور اگر یہ دکھاوے اور فخر کے لیے محنت کررہا ہے تو یہ شیطان کے راستے پر ہے۔‘‘ (مشکوٰۃ)

ایک روایت میں روزی کی جستجو و مشقت کو گناہوں کا کفارہ قراردیا گیا ہے۔ ارشاد کا مفہوم ہے: ’’بے شک! بعض گناہ ایسے ہوتے ہیں جن کا کفارہ صرف روزی کی تلاش میں محنت و مشقت ہی ہے۔‘‘ (المعجم الاوسط) اور ایک روایت میں قباحتِ سوال اور محنت کی عظمت کے بارے میں ارشاد کا مفہوم ہے: ’’تم میں کوئی اپنی پیٹھ پر لکڑیاں اٹھا کر بیچے یہ اس سے بہتر ہے کہ وہ کسی سے سوال کرے اور وہ دے یا نہ دے۔‘‘ (صحیح بخاری) محنت کی ترغیب اور سوال کی مذمت میں یوں ارشاد فرمایا: ’’جو شخص بغیر ضرورت کے سوال کرتا ہے وہ قیامت کے دن اس حال میں آئے گا کہ اس کے چہرے پر گوشت نہیں ہوگا۔‘‘ (صحیح مسلم) ایک حدیث میں یوں بھی ارشاد ہے: ’’جو اپنا مال بڑھانے کے لیے سوال کرتا ہے تو جہنم کے انگارے جمع کر رہا ہے، اب چاہے تو کم جمع کرے یا زیادہ۔‘‘ (صحیح مسلم)

آپ ﷺ نے میدان محشر میں گداگروں کی ذلت و رسوائی کو ان الفاظ میں ذکر کیا ہے، مفہوم: ’’جو شخص بہ قدر کفایت روزی (ایک وقت کی روزی) ہونے کے باوجود مانگے تو وہ قیامت کے دن اس حال میں آئے گا کہ اس کا چہرہ زخمی ہوگا یا اس پر خراشیں ہوں گی یا نوچا ہُوا ہوگا۔‘‘ (ابوداؤد) ایک روایت میں یوں بھی ارشاد ہے: ’’سوال کرنا اپنے آپ کو نوچنا ہے، اس سے انسان اپنا چہرہ چھیلتا اور نوچتا ہے، چناں چہ جو چاہے اپنے چہرے کی آبرو باقی رکھے اور جو چاہے ضایع کردے۔‘‘ (ابوداؤد) جیسا کہ بلاضرورت دست سوال دراز کرنے پر زبان مبارک نبی کریم ﷺ سے وعیدیں مذکور ہیں ایسے ہی سوال نہ کرنے کی فضیلت یوں بیان فرمائی: ’’جو شخص مجھے اس بات کی ضمانت دے گا کہ وہ لوگوں سے کبھی کچھ نہ مانگے تو میں اسے جنت کی ضمانت دیتا ہوں۔‘‘ (ابوداؤد) نیز یوں بھی ارشاد فرمایا: ’’جو کثیر العیال ہونے کے باوجود کسی کے سامنے دستِ سوال دراز نہ کرے وہ جنتی ہے۔‘‘ (صحیح مسلم)

ان تعلیمات نبویہ ﷺ اور تربیت رسول ﷺ کی بنا پر صحابہ کرامؓ معاشرے میں پیشہ ور بھکاریوں کے خلاف سخت اقدامات اُٹھاتے تھے اور اس کی روک تھام کے لیے تعزیری سزائیں بھی نافذ کیا کرتے تھے۔

حضرت علیؓ حکم دیتے تھے: ’’جو شخص بغیر حاجت کے بار بار سوال کرے اسے قید میں ڈال دیا جائے اور اسے کہا جائے کہ کام کرو اور سوال نہ کرو۔‘‘ (ابن ابی شیبہ)

حضرت عمرؓ ہر اُس شخص کو درّہ مارتے تھے جو بغیر ضرورت کے سوال کرتا تھا اور فرماتے: ’’اپنے ہاتھ سے کام کرو۔ کیوں کہ اﷲ تعالیٰ کمانے والوں کو پسند کرتا ہے۔‘‘ (السنن الکبریٰ)

حضرت ابن مسعود ؓ نے ایک بار سوال کرنے کے بعد دوبارہ مانگنے پر ایک شخص کو لاٹھی ماری اور فرمایا: ’’کیا میں نے تمہیں کام کرنے کا حکم نہیں دیا تھا اور سوال کرنے سے منع نہیں کیا تھا۔‘‘ (مصنف ابن ابی شیبہ)

حضرت عبداﷲ بن عمرؓ نے ایک شخص کو مسجد میں بھیک مانگتے دیکھا تو اسے پکڑ کر باہر نکالا اور فرمایا: ’’اﷲ کا گھر عبادت کے لیے ہے، بھیک مانگنے والوں کے لیے نہیں۔‘‘ (شعب الایمان)

حضرت سعد بن ابی وقاصؓ نے ایک تن درست و توانا آدمی کو بھیک مانگتے دیکھا تو فرمایا: ’’اگر میرے ہاتھ میں تلوار ہوتی تو میں تمہیں مارتا، کیا تمہیں معلوم نہیں کہ اﷲ تعالیٰ سستی کرنے والوں کو ناپسند کرتا ہے۔‘‘ ؎؎

(مصنف ابن ابی شیبہ)

حضرت زید بن ثابتؓ نے ایک آدمی کو راستے میں بھیک مانگتے سنا تو اس کا ہاتھ پکڑا اور فرمایا: ’’اﷲ سے ڈرو اور کام کرو، کیوں کہ مومن لوگوں سے سوال نہیں کرتا۔‘‘

(شعب الایمان)

صحابہؓ کے بعد تابعین جو اسلامی ریاست کے منتظم تھے انہوں نے بھی پیشہ ور بھکاریوں کے خلاف سخت رویہ اپنایا۔ حضرت حسن بصریؒ نے ایک شخص کو بازار میں بھیک مانگتے دیکھا تو اپنی لاٹھی سے مارا اور فرمایا: ’’تجھ پر افسوس ہے، کیا تُو نہیں جانتا کہ سوال کرنا ذلت ہے۔‘‘ حضرت شعبی کسی کو بھیک مانگتے دیکھتے تو فرماتے: ’’تم نے اپنی عزت اور ایمان کو برباد کردیا۔‘‘

جیسا کہ اسلام میں محنت اور خودداری کو تعظیم و تکریم حاصل ہے ایسے ہی گداگری کی حوصلہ شکنی اور اس کے سدِباب کے لیے فقہائے امت نے مختلف تعلیمات ِ نبویہ ﷺ کی روشنی میں اصول و قوانین وضع کیے ہیں تاکہ معاشرہ اس ناسور سے محفوظ رہتے ہوئے اپنی خداداد صلاحیتوں پر پنپنے اور پروان چڑھنے کا عادی بنے اور خودداری و عزت نفس کی حفاظت اور قوت ِ بازو پر انحصاری کا سبق سیکھتے ہوئے ایک باوقار و باصلاحیت قوم ہونے کا شرف و اعزاز حاصل ہو۔ حضرت امام ابو حنیفہؒ فتویٰ دیا کرتے تھے: ’’جو شخص بلا ضرورت سوال کرے اسے قید کر دیا جائے۔‘‘ (الفقہ الاکبر)

امام شعبہ بھکاریوں کو اپنے گھر سے نکال دیتے تھے اور فرماتے: ’’یہ تو زبردستی ٹیکس لینا ہے۔‘‘ (مصنف ابن ابی شیبہ) امام سرخسی (حنفی) فرماتے ہیں: ’’اگر کوئی شخص سوال کرے جب کہ اس کے پاس اتنا موجود ہو جواس کے لیے کافی ہو تو اسے سزا دی جائے گی، کیوں کہ وہ ایک ممنوع عمل کر رہا ہے۔ اس سے کہا جائے گا کہ کماؤ اور بھیک نہ مانگو، اور اگر وہ باز نہ آئے تو اسے قید کر دیا جائے گا۔‘‘ (المبسوط)

امام نوویؒ (شافعی) لکھتے ہیں: ’’اگر بھیک مانگنے والا شخص کمانے کی طاقت رکھتا ہو اور اس کے پاس اتنا موجود ہو جو اس کے لیے کافی ہو توا س کا سوال کرنا حرام ہے۔ اور اس کی حالت اور اسرار کے مطابق اسے سزا دی جائے گی۔‘‘

اسلامی فقہ میں گداگری کی روک تھام کے لیے سخت قوانین موجود ہیں۔ فقہاء کے مطابق صحت مند اور کما نے کے قابل افراد کے لیے بھیک مانگنا حرام ہے۔ اور انہیں سزا کا حق دار قرار دیا گیا ہے۔ اگر کوئی شخص صحت مند ہو کام کرنے کے قابل ہو پھر بھی پیشہ ور بھکاری بن جائے یا دھوکا دہی کے ذریعے لوگوں سے مال بٹورے تو بعض فقہاء نے نہایت سخت سزا تجویز کی ہے۔ اس میں کوڑوں کی سزا، قید، شہر بدری، ہاتھ کاٹنے کی حد اور بعض انتہائی صورتوں میں سزائے موت بھی شامل ہے۔ جیسا کہ امام طحطاوی ؒ(حنفی) لکھتے ہیں: ’’اگر کوئی شخص بھیک کو پیشہ بنا لے اور لوگوں کو دھوکا دے تو وہ چور کے حکم میں آتا ہے، اسے سخت تعزیری سزا دی جاسکتی ہے۔ اگر وہ اس کام کو جاری رکھے تو حد جاری کرکے اس کا ہاتھ کاٹ دیا جائے۔‘‘

 (حاشیہ طحطاوی علی مراقی الفلاح)

امام ابن القاسمؒ (مالکی) لکھتے ہیں: ’’اگر سوال کرنے والا جھوٹ بولے، فقر کا بہانہ کرے اور بھیک مانگنا اس کا پیشہ بن جائے تو اسے مخصوص مقدار میں مارا جائے گا۔ اگر وہ باز نہ آئے تو اسے اسی کوڑے مارے جائیں گے۔ اگر پھر بھی نہ رکے اور اس کا فساد ظاہر ہوجائے تو اُسے سزائے موت دی جاسکتی ہے۔‘‘ (المدونۃ الکبریٰ)

امام نوویؒ کا ایک قول ہے: ’’اگر بھیک مانگنے والا جھوٹ بول کر سوال کرے اور اسے پیشہ بنا لے تو وہ محارب (ڈاکو) کے حکم میں ہے، اور امام وقت (حاکم) کے لیے جائز ہے کہ اس پر حدِ محاربہ نافذ کردے ۔ یعنی اسے قتل کردے یا سولی پر چڑھا دے۔‘‘ (المجموع)

اگرچہ یہ تمام سزائیں حاکم و قاضی کی صواب دید پر موقوف ہیں اور کسی فرد کے لیے انفرادی طور پر قانون کو ہاتھ میں لیتے ہوئے ان کا نفاذ جائز نہیں، مگر ان اقوال و فتاوٰی سے واضح ہوتا ہے کہ اسلامی معاشرے میں یہ قبیح فعل ایک ناسور و مافیا کی شکل اختیار کر جائے تو اُمت کو خود کفیل و خوددار بنانے اور تعمیر معاشرہ کے لیے اس عضو معطل کو تلف کرنے کی غرض سے ان انتہائی اقدامات کا اُٹھانا بھی حاکم و قاضی وقت کے لیے جائز ہے۔

دوسری جانب اگر ہم اپنی مملکتِ خداداد میں اس رویے کے فروغ پر غور کریں تو دنیا میں یہ مکروہ عمل ہماری پہچان بنتا دکھائی دیتا ہے۔ صرف سعودی عرب میں ہمارے ہزاروں بھکاری پابند سلاسل ہونے کی خبر چند دن قبل کی ہے۔ اور بعض رپورٹس کے مطابق ہمارے ملک کی چوبیس کروڑ آبادی میں سے تین کروڑ اسی لاکھ افراد بھیک مانگنے میں ملوث ہیں۔ جن میں بارہ فی صد مرد، پچپن فیصد عورتیں، اٹھائیس فی صد بچے اور چھے فی صد سفید پوش مجبور افراد شامل ہیں۔ چناں چہ اس ناسور کی روک تھام کے لیے گداگری کی حوصلہ شکنی بھی ضروری ہے۔

اﷲ رب العزت سے دعا ہے کہ ہماری قوم کو گداگری کی لعنت سے نجات دے اور ہم سب کو اس کی روک تھام کے لیے اپنا کردار ادا کرنے کی توفیق دے۔ آمین

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: کی روک تھام کے لیے کے لیے محنت کر ایک روایت میں اﷲ کی راہ میں بھیک مانگنے اور فرمایا گداگری کی کر رہا ہے رہا ہے تو دیا جائے سوال کرے محنت کی کرتا ہے ایک شخص تو اسے نے ایک شخص کو اور اس میں ہے اگر یہ

پڑھیں:

برابری کی بنیاد پر پانی، تجارت، انسداد دہشت گردی پر مذاکرات چاہتے، مسئلہ کشمیر حل کئے بغیر بھارت سے تعلقات ممکن نہیں: وزیراعظم

لندن+ اسلام آباد (عارف چودھری+ خبرنگار خصوصی) وزیر اعظم محمد شہباز شریف نے اتحاد اور یکجہتی کی اہمیت کو اجاگر کرتے ہوئے کہا ہے کہ 10مئی کی فتح نے دشمن کو وہ سبق سکھایا جسے وہ زندگی بھر یادرکھے گا۔ ہم نے پاکستان کو عظیم عسکری قوت بنایا۔ اب اسے معاشی قوت بنائیں گے۔ سمندر پار مقیم پاکستانی ملک کے عظیم سفیر ہیں جو دنیا میں ہر فورم پر ملک کا دفاع کرتے ہیں۔ اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ کشمیر کے مسئلے کو حل کئے بغیر باہمی تعلقات استوار ہوسکتے ہیں تو وہ احمقوں کی جنت میں رہتا ہے۔ کشمیریوں کا خون رائیگاں نہیں جانے دیا جائے گا۔ مسئلہ کشمیر، پانی کے مسئلہ، تجارت اور انسداد دہشتگردی پر برابری کے بنیاد پر بات چیت کرنا چاہتے ہیں۔ لندن میں سمندر پار پاکستانیوں کے حوالے تقریب سے خطاب کر تے ہوئے وزیر اعظم نے سمندر پار پاکستانیوں کو 10مئی کی فتح اور معرکہ حق کی عظیم کامیابی کی مبارکباد دیتے ہوئے کہا کہ یہ وہ فتح ہے جس کے ذریعے دشمن کو وہ سبق سیکھایا جسے وہ زندگی بھر یاد رکھے گا۔ وزیر اعظم محمد شہباز شریف نے کہا کہ میرے لئے انتہائی مسرت اور فخر کی بات ہے کہ میں سمندر پار مقیم عظیم پاکستانیوں کے سامنے کھڑا ہوں، جو ملک کے وہ عظیم سفیر ہیں جو یورپ، برطانیہ، شمالی امریکہ میں اور مشرق وسطی اور مشرق بعید میں دن رات محنت کرتے ہیں اور دیار غیر میں رزق حلال کماتے ہیں۔ میں صدق دل کے ساتھ اعتراف کرنا چاہتا ہوں کہ آپ محنت سے زرق حلال کماتے ہیں۔ گزشتہ برس خون پسینے کی کمائی سے ساڑھے38ارب ڈالر پاکستان بھجوائے ہیں۔ اس کے بغیر پاکستان کی معیشت آگے نہیں بڑھ سکتی جس پر آپ کو سلام اور خراج تحسین پیش کرتا ہوں۔ وزیر اعظم نے کہاکہ دیار غیر میں ڈاکٹرز، انجینئرز، کاروباری افراد اور محنت کش جس طریقے سے شبانہ روز محنت کرتے ہیں، یہ پاکستان کی عظیم صفات ہیں جو پوری دنیا میں آپ نے بطور محنت، دیانتداری اور باوقار پاکستانی  خدمات متعارف کرائی ہیں۔ فیلڈ مارشل سید عاصم منیر نے اس جنگ کی قیادت کی۔ ان کی بری فوج کے جوانوں اور افسروں نے اپنی اعلی ترین کارکردگی دکھائی اور ہمارے شاہینوں نے اور ایئر چیف ظہیر احمد بابر نے بہترین انداز میں چھپٹ چھپٹ کر دشمن کو قابو کیا اور اللہ تعالی کے فضل سے پاکستان کو وہ سرفرازی عطا فرمائی جس کی حالیہ تاریخ میں کوئی مثال نہیں ملتی۔ وزیر اعظم نے کہاکہ پوری قوم کراچی سے پشاور تک سجدہ ریز تھی اور اللہ تعالی نے عظیم پاکستانیوں کو وہ فتح دی کہ آج مغرب سے مشرق تک لوگ پاکستان کے سبز پاسپورٹ کو دیکھتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ہم عظیم پاکستانیوں کو سلام پیش کرتے ہیں۔ وزیر اعظم نے کہاکہ اس معرکہ حق کے آپریشن میں جسے ہم آپریشن بنیان مرصوص کہتے ہیں کے دوران دشمن کا ایک گولہ لیفٹیننٹ کرنل ظہیر عباس کے گھر کے قریب آ کر لگا جس کے نتیجہ میں ان کے کمسن بیٹے ارتضی عباس شہبد ہوگئے جبکہ لیفٹیننٹ کرنل ظہیر عباس لائن آف کنٹرول پر اپنی ذمہ داری پیش کر رہے تھے۔ وزیر اعظم نے کہا کہ میں نے، صدر مملکت آصف علی زرداری اور آرمی چیف فیلڈ مارشل سید عاصم منیر نے اس ننھے شہید کا جنازہ پڑھا اور شہید کا چہرہ پھول کی طرح کھلا ہوا تھا۔ وزیر اعظم نے کہا کہ ہم نے اس قبیح حرکت کا بھرپور بدلہ لیا ہے۔ جنگ بندی ہو چکی، اب ہم امن چاہتے ہیں۔ ترقی اور خوشحالی چاہتے اور پاکستان کے اندر بے روزگاری کا خاتمہ اور سرمایہ کاری چاہتے ہیں۔ وزیر اعظم نے کہا کہ ہم نے یہ پیش کش کئی مرتبہ دنیا کے سامنے رکھی ہے اور دنیا نے ہماری بات سنی ہے۔ وزیر اعظم نے کہا کہ میں نے یہ بات کئی مرتبہ کہی کہ ہم مسئلہ کشمیر، پانی کے مسئلہ، تجارت اور انسداد دہشتگردی پر برابری کے بنیاد پر بات چیت کرنا چاہتے ہیں۔ وزیر اعظم نے کہاکہ ہم خطے میں ہمسایہ ملک ہیں اور یہ ہم پر منحصر کہ ہم نے امن سے رہنا ہے یا جھگڑالو ہمسایوں کی طرح رہنا ہے۔ انڈیا اچھے ہمسائے کی طرح رہے۔ وزیر اعظم نے کہا کہ یہ ہماری دلی خواہش ہے کہ ہم عزت اور وقار کے ساتھ رہیں لیکن اس کیلئے کشمیر کا مسئلہ حل ہونا ایک بنیادی ستون ہے۔ وزیر اعظم نے کہا کہ کشمیریوں کا خون رائیگاں نہیں جانے دیا جائے گا۔ اسی طرح غزہ میں ظلم و ستم جاری ہے۔ فلسطین اور غزہ کے اندر 64ہزار بزرگ، مائیں، بہنیں اور بچے شہید ہوگئے۔ ان کی خوراک اور ادویات بند کر دی گئیں۔ وزیر اعظم نے کہاکہ میں سمجھتا ہوں کے غزہ کی پٹی کے علاقہ کے تناسب سے 64 ہزار شہادتیں اتنے خطے کے اندر کبھی نہیں ہوئیں۔ اتنی زندگیاں کبھی تباہ نہیں ہوئیں۔ دیکھتی آنکھ نے ایسے دلخراش مناظر کبھی نہیں دیکھے۔ وزیر اعظم نے کہاکہ اب وقت آ گیا ہے کہ ان خطوں میں اب امن قائم ہونا چاہئے اور اسلامی دنیا کو آگے بڑھ کر امن کیلئے بات چیت کرنی چاہئے اور اپنا لوہا منوانا چاہئے۔ وزیر اعظم شہباز شریف نے کہاکہ کبھی بھی کوئی قوم محنت اور محنت کے بغیر اونچا مقام حاصل نہیں کر سکتی۔ ہماری یہ فتح اللہ تعالی کے خاص انعام و اکرام اور افواج پاکستان کے عظیم ولولہ اور شجاعت اور عسکری قیادت فیلڈ مارشل سید عاصم منیر کا وہ دلیرانہ اور منجھا ہوا کردار جس کی وجہ سے اللہ تعالی نے ہمیں یہ فتح نصیب کی۔ وزیر اعظم نے کہا کہ ہمیں قرضوں سے نجات حاصل کرنی ہے اور اپنے پائوں پر کھڑا ہونا ہے۔ جہاں ہم نے پاکستان کو عظیم عسکری قوت بنایا، اب جب اسے معاشی قوت بنائیں گے تو ہمیں بھی دنیا آگے بڑھ کر وہی احترام دے گی جو دوسروں کو مل رہا ہے۔ وزیر اعظم نے کہا کہ ہماری قوم بڑی عظیم اور جری قوم ہے اور پاکستان کی آبادی کا 60فیصد حصہ نوجوانوں پر مشتمل ہے۔ وزیر اعظم نے کہا کہ چین کی کہاوت ہے کہ ہر چیلنج موقع ہوتا ہے۔ جہاں 15سے 30سال کے ہمارے نوجوانوں پر مشتمل 60 فیصد آبادی کا حصہ ایک چیلنج ہے وہیں یہ ایک موقع بھی ہے کہ ہم اپنے نوجوانوں کو انفارمیشن ٹیکنالوجی، مصنوعی ذہانت، پیشہ ورانہ تربیت اور ووکیشنل ٹریننگ فراہم کریں۔ پاکستان نے اس کا آغاز کر دیا ہے۔ وزیر اعظم نے کہا کہ پاکستان کے پاس تیل اور گیس کے بہت کم ذخائر ہیں۔ ہمارا اثاثہ ہماری نوجوان نسل ہے۔ اگر ہم اپنی نوجوان نسل کو بہترین تربیت اور علم سے آراستہ کریں گے تو یہ پاکستان اور اس کے پرچم کو آسمانوں تک لے جائے گی کیونکہ صرف اور صرف محنت ہی وہ امر ہے جس سے قومیں بنتی ہیں اور سمندر پار پاکستانیز ملک کے عظیم سفیر ہیں۔ پاکستانی قومی عظیم قوم ہے اور اگر ہم یہ فیصلہ کرلیں کے ہم نے غربت کا خاتمہ کرنا ہے تو جس طرح دشمن کے 6جہاز گرائے اسی طرح غربت کا خاتمہ بھی کر کے دکھائیں گے۔ وزیر اعظم نے کہا کہ اگر ہم یہ فیصلہ کر لیں کہ ہم نے پاکستان کو قرضوں سے نجات دلانی ہے خدائے بزرگ و برتر کی قسم یہ مشکل ضرور ہے ناممکن نہیں ہے، اس کیلئے صرف اور صرف قوت ارادی کی ضرورت ہے۔ وزیر اعظم نے کہا کہ اگر ہم کمر باندھ لیں اور یہ فیصلہ کرلیں کے دن رات محنت کریں گے تو اللہ تعالی ہمیں وہ مقام عطا فرمائے گا جو قیام پاکستان کے وقت قائداعظم کی عظیم تحریک میں شامل لاکھوں مسلمانوں نے قربانیاں دے کر حاصل کیا اور خون کے دریا عبور کر تے ہوئے اپنے گھر بار چھوڑ کر آنکھوں میں یہ خواب بسائے چل پڑے کے ہم پاکستان جا رہے ہیں اور ہند و انگریز سامراج سے نجات حاصل کر کے اس ملک میں جا رہے ہیں جہاں ہمیں صرف اور صرف میرٹ، محنت اور دیانت کی بنیاد پر مواقع ملیں گے جو قائد اعظم کا خواب تھا۔ وزیر اعظم نے کہا کہ ہم ملکر وہ پالیسیاں بنا رہے ہیں کہ قرضوں سے نجات حاصل کریں گے۔ سرمایہ کاری کو آگے لائیں گے اور پاکستان کو عظیم بنائیں گے جس کیلئے کچھ پالیسیاں اعلان ہو چکی اور کچھ ہو رہی ہیں۔ وزیر اعظم نے کہا کہ سیاسی اور عسکری قیادت متفق ہے کہ ہم نے اس ملک کو عظیم بنانا ہے اور میرا یقین ہے کہ ہم یہ کر کے دکھائیں گے۔ تقریب سے وزیر دفاع خواجہ محمد آصف، نائب وزیر اعظم و وزیر خارجہ سینیٹر اسحاق ڈار، وفاقی وزیر سمندرپار پاکستانیز چوہدری سالک حسین اور چیئرمین اوورسیز پاکستانیز فائونڈیشن قمر رضا نے بھی خطاب کیا جبکہ تقریب میں مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے سمندر پار پاکستانیوں نے شرکت کی۔ وزیراعظم نے کہا ہے کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان چار جنگیں ہوئیں، اربوں ڈالر خرچ ہوئے، جنگوں پر خرچ ہونے والے اربوں ڈالر عوام کی ترقی و خوشحالی پر خرچ ہونے چاہئیں۔ پاکستان اور بھارت ایک دوسرے کے ہمسائے ہیں ہمیں ساتھ رہنا ہے۔ انہوں نے کہا بھارت سے برابری کی بنیاد پر بات کرنا چاہتے ہیں۔ مسئلہ کشمیر حل کیے بغیر پاکستان بھارت تعلقات قائم نہیں ہو سکتے۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان جنگوں پر خرچ ہونے والے اربوں ڈالر عوام کی ترقی و خوشحالی پر خرچ ہونے چاہئیں۔ کشمیریوں کا خون رائیگاں نہیں جانے دیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان نے 1971ء کی شکست کا بدلہ لے لیا۔ کسی حملے سے پہلے بھارت سو بار سوچے گا۔ برطانیہ کے دورے پر لندن میں چار دن قیام کے دوران وزیراعظم نے پاکستانی کمیونٹی اور تاجر رہنماؤں سے ملاقاتیں کیں۔ 

متعلقہ مضامین

  • وزارت تجارت سے سوال ’ہم چین کو کاٹن کیوں بھیجتے ہیں؟ کپڑا بناکر کیوں نہیں بھیجتے؟‘
  • ’ انسداد دہشتگردی قانون میں کمپرومائز کی گنجائش نہیں،‘فرحان غنی سمیت دیگر کیخلاف مقدمے میں گواہ طلب 
  • برابری کی بنیاد پر پانی، تجارت، انسداد دہشت گردی پر مذاکرات چاہتے، مسئلہ کشمیر حل کئے بغیر بھارت سے تعلقات ممکن نہیں: وزیراعظم
  • اترپردیش میں تین مسلم نوجوانوں کو فلسطینیوں کیلئے رقم بھیجنے پر گرفتار کیا گیا
  • کرغزستان میں انتہا پسندی کے انسداد کے لیے پہلی سرکاری اسلامی اکیڈمی
  • مظفرگڑھ: بھیک مانگنے والی بچی نے زیادتی کرنے والے ملزمان کو شناخت کرلیا
  • نیپال کی بغاوت اور جمہوریت کا سوال
  • مظفرگڑھ: بھیک مانگنے والی 10سالہ بچی سے 3 افراد کی مبینہ زیادتی
  • انسداد اسمگلنگ آپریشنز میں 14 کروڑ سے زائد کی منشیات برآمد، ملزمان گرفتار
  • صحافیوں کو ہراساں کرنا جمہوری کلچر پر کاری ضرب ہے، عطا اللہ تارڑ