Express News:
2025-05-09@02:46:25 GMT

اسلام کا نظامِ انسدادِ گداگری

اشاعت کی تاریخ: 9th, May 2025 GMT

گداگری دوسروں سے بلااستحقاق مادی اعانت طلب کرنے کا نام ہے۔ گداگری، بھیک مانگنا اور بھکاری بن کر زندگی گزارنا فطری اعتبار سے ایک ناپسندیدہ عمل ہے۔ جس کی اسلام میں مذمت و ممانعت اور حوصلہ شکنی کی گئی ہے۔

اس کے برعکس زرق حلال وہ تاب ناک نُور ہے جو محنت کی پیشانی سے چمکتا ہے اور دیانت کے دامن سے مہکتا ہے۔ یہ وہ پاکیزہ دولت ہے جسے صرف خلوص نیت، امانت اور شرعی اصولوں کی پاس داری سے حاصل کیا جا سکتا ہے۔ ایسا مال جس میں سود کی نجاست، ظلم کی تاریکی یا فریب کی آلودگی شامل ہو، رزق حلال نہیں بل کہ روح کی گم راہی اور دل کی سیاہی ہے۔ اور جو ہاتھ محنت کی عظمت کو چھوڑ کر سوال کی ذلت میں دراز ہو جائیں وہ عزت و وقار کے آسمان سے زمین پر آگرتے ہیں۔

لہٰذا گداگری خودداری کا جنازہ اور عزت نفس کی موت ہے۔ سعادت اسی میں ہے کہ انسان اپنے ہاتھوں کی محنت پر بھروسا کرے۔ البتہ دین اسلام میں مستحق و مجبور پر خرچ کرنے کے بڑی فضیلت و اہمیت مذکور ہے اور فرضیت زکوۃ، صدقہ فطر اور مختلف کفارات و نفلی صدقات کی صورت میں شریعت نے ان مجبور و لاچار افراد کے تحفظ کی راہیں متعین کی ہیں اور تلاش رزق کا ہر لمحہ اﷲ تعالیٰ کی راہ میں شمار ہوتا ہے۔

ایک روایت میں ہے کہ ایک شخص رسول اﷲ ﷺ کے پاس سے گزرا تو صحابہ کرامؓ نے اس کی محنت اور تن درستی کو دیکھ کر کہا: یارسول اﷲ ﷺ! کاش یہ اﷲ کی راہ میں ہوتا۔ آپ ﷺ نے فرمایا، مفہوم: ’’اگر یہ اپنے چھوٹے بچوں کے لیے محنت کررہا ہے تو یہ اﷲ کی راہ میں ہے۔ اگر یہ اپنے بوڑھے ماں باپ کی خدمت کے لیے محنت کر رہا ہے تو یہ اﷲ کی راہ میں ہے۔ اگر یہ اپنی ذات کی پاکیزگی کے لیے محنت کر رہا ہے تو بھی اﷲ کی راہ میں ہے اور اگر یہ دکھاوے اور فخر کے لیے محنت کررہا ہے تو یہ شیطان کے راستے پر ہے۔‘‘ (مشکوٰۃ)

ایک روایت میں روزی کی جستجو و مشقت کو گناہوں کا کفارہ قراردیا گیا ہے۔ ارشاد کا مفہوم ہے: ’’بے شک! بعض گناہ ایسے ہوتے ہیں جن کا کفارہ صرف روزی کی تلاش میں محنت و مشقت ہی ہے۔‘‘ (المعجم الاوسط) اور ایک روایت میں قباحتِ سوال اور محنت کی عظمت کے بارے میں ارشاد کا مفہوم ہے: ’’تم میں کوئی اپنی پیٹھ پر لکڑیاں اٹھا کر بیچے یہ اس سے بہتر ہے کہ وہ کسی سے سوال کرے اور وہ دے یا نہ دے۔‘‘ (صحیح بخاری) محنت کی ترغیب اور سوال کی مذمت میں یوں ارشاد فرمایا: ’’جو شخص بغیر ضرورت کے سوال کرتا ہے وہ قیامت کے دن اس حال میں آئے گا کہ اس کے چہرے پر گوشت نہیں ہوگا۔‘‘ (صحیح مسلم) ایک حدیث میں یوں بھی ارشاد ہے: ’’جو اپنا مال بڑھانے کے لیے سوال کرتا ہے تو جہنم کے انگارے جمع کر رہا ہے، اب چاہے تو کم جمع کرے یا زیادہ۔‘‘ (صحیح مسلم)

آپ ﷺ نے میدان محشر میں گداگروں کی ذلت و رسوائی کو ان الفاظ میں ذکر کیا ہے، مفہوم: ’’جو شخص بہ قدر کفایت روزی (ایک وقت کی روزی) ہونے کے باوجود مانگے تو وہ قیامت کے دن اس حال میں آئے گا کہ اس کا چہرہ زخمی ہوگا یا اس پر خراشیں ہوں گی یا نوچا ہُوا ہوگا۔‘‘ (ابوداؤد) ایک روایت میں یوں بھی ارشاد ہے: ’’سوال کرنا اپنے آپ کو نوچنا ہے، اس سے انسان اپنا چہرہ چھیلتا اور نوچتا ہے، چناں چہ جو چاہے اپنے چہرے کی آبرو باقی رکھے اور جو چاہے ضایع کردے۔‘‘ (ابوداؤد) جیسا کہ بلاضرورت دست سوال دراز کرنے پر زبان مبارک نبی کریم ﷺ سے وعیدیں مذکور ہیں ایسے ہی سوال نہ کرنے کی فضیلت یوں بیان فرمائی: ’’جو شخص مجھے اس بات کی ضمانت دے گا کہ وہ لوگوں سے کبھی کچھ نہ مانگے تو میں اسے جنت کی ضمانت دیتا ہوں۔‘‘ (ابوداؤد) نیز یوں بھی ارشاد فرمایا: ’’جو کثیر العیال ہونے کے باوجود کسی کے سامنے دستِ سوال دراز نہ کرے وہ جنتی ہے۔‘‘ (صحیح مسلم)

ان تعلیمات نبویہ ﷺ اور تربیت رسول ﷺ کی بنا پر صحابہ کرامؓ معاشرے میں پیشہ ور بھکاریوں کے خلاف سخت اقدامات اُٹھاتے تھے اور اس کی روک تھام کے لیے تعزیری سزائیں بھی نافذ کیا کرتے تھے۔

حضرت علیؓ حکم دیتے تھے: ’’جو شخص بغیر حاجت کے بار بار سوال کرے اسے قید میں ڈال دیا جائے اور اسے کہا جائے کہ کام کرو اور سوال نہ کرو۔‘‘ (ابن ابی شیبہ)

حضرت عمرؓ ہر اُس شخص کو درّہ مارتے تھے جو بغیر ضرورت کے سوال کرتا تھا اور فرماتے: ’’اپنے ہاتھ سے کام کرو۔ کیوں کہ اﷲ تعالیٰ کمانے والوں کو پسند کرتا ہے۔‘‘ (السنن الکبریٰ)

حضرت ابن مسعود ؓ نے ایک بار سوال کرنے کے بعد دوبارہ مانگنے پر ایک شخص کو لاٹھی ماری اور فرمایا: ’’کیا میں نے تمہیں کام کرنے کا حکم نہیں دیا تھا اور سوال کرنے سے منع نہیں کیا تھا۔‘‘ (مصنف ابن ابی شیبہ)

حضرت عبداﷲ بن عمرؓ نے ایک شخص کو مسجد میں بھیک مانگتے دیکھا تو اسے پکڑ کر باہر نکالا اور فرمایا: ’’اﷲ کا گھر عبادت کے لیے ہے، بھیک مانگنے والوں کے لیے نہیں۔‘‘ (شعب الایمان)

حضرت سعد بن ابی وقاصؓ نے ایک تن درست و توانا آدمی کو بھیک مانگتے دیکھا تو فرمایا: ’’اگر میرے ہاتھ میں تلوار ہوتی تو میں تمہیں مارتا، کیا تمہیں معلوم نہیں کہ اﷲ تعالیٰ سستی کرنے والوں کو ناپسند کرتا ہے۔‘‘ ؎؎

(مصنف ابن ابی شیبہ)

حضرت زید بن ثابتؓ نے ایک آدمی کو راستے میں بھیک مانگتے سنا تو اس کا ہاتھ پکڑا اور فرمایا: ’’اﷲ سے ڈرو اور کام کرو، کیوں کہ مومن لوگوں سے سوال نہیں کرتا۔‘‘

(شعب الایمان)

صحابہؓ کے بعد تابعین جو اسلامی ریاست کے منتظم تھے انہوں نے بھی پیشہ ور بھکاریوں کے خلاف سخت رویہ اپنایا۔ حضرت حسن بصریؒ نے ایک شخص کو بازار میں بھیک مانگتے دیکھا تو اپنی لاٹھی سے مارا اور فرمایا: ’’تجھ پر افسوس ہے، کیا تُو نہیں جانتا کہ سوال کرنا ذلت ہے۔‘‘ حضرت شعبی کسی کو بھیک مانگتے دیکھتے تو فرماتے: ’’تم نے اپنی عزت اور ایمان کو برباد کردیا۔‘‘

جیسا کہ اسلام میں محنت اور خودداری کو تعظیم و تکریم حاصل ہے ایسے ہی گداگری کی حوصلہ شکنی اور اس کے سدِباب کے لیے فقہائے امت نے مختلف تعلیمات ِ نبویہ ﷺ کی روشنی میں اصول و قوانین وضع کیے ہیں تاکہ معاشرہ اس ناسور سے محفوظ رہتے ہوئے اپنی خداداد صلاحیتوں پر پنپنے اور پروان چڑھنے کا عادی بنے اور خودداری و عزت نفس کی حفاظت اور قوت ِ بازو پر انحصاری کا سبق سیکھتے ہوئے ایک باوقار و باصلاحیت قوم ہونے کا شرف و اعزاز حاصل ہو۔ حضرت امام ابو حنیفہؒ فتویٰ دیا کرتے تھے: ’’جو شخص بلا ضرورت سوال کرے اسے قید کر دیا جائے۔‘‘ (الفقہ الاکبر)

امام شعبہ بھکاریوں کو اپنے گھر سے نکال دیتے تھے اور فرماتے: ’’یہ تو زبردستی ٹیکس لینا ہے۔‘‘ (مصنف ابن ابی شیبہ) امام سرخسی (حنفی) فرماتے ہیں: ’’اگر کوئی شخص سوال کرے جب کہ اس کے پاس اتنا موجود ہو جواس کے لیے کافی ہو تو اسے سزا دی جائے گی، کیوں کہ وہ ایک ممنوع عمل کر رہا ہے۔ اس سے کہا جائے گا کہ کماؤ اور بھیک نہ مانگو، اور اگر وہ باز نہ آئے تو اسے قید کر دیا جائے گا۔‘‘ (المبسوط)

امام نوویؒ (شافعی) لکھتے ہیں: ’’اگر بھیک مانگنے والا شخص کمانے کی طاقت رکھتا ہو اور اس کے پاس اتنا موجود ہو جو اس کے لیے کافی ہو توا س کا سوال کرنا حرام ہے۔ اور اس کی حالت اور اسرار کے مطابق اسے سزا دی جائے گی۔‘‘

اسلامی فقہ میں گداگری کی روک تھام کے لیے سخت قوانین موجود ہیں۔ فقہاء کے مطابق صحت مند اور کما نے کے قابل افراد کے لیے بھیک مانگنا حرام ہے۔ اور انہیں سزا کا حق دار قرار دیا گیا ہے۔ اگر کوئی شخص صحت مند ہو کام کرنے کے قابل ہو پھر بھی پیشہ ور بھکاری بن جائے یا دھوکا دہی کے ذریعے لوگوں سے مال بٹورے تو بعض فقہاء نے نہایت سخت سزا تجویز کی ہے۔ اس میں کوڑوں کی سزا، قید، شہر بدری، ہاتھ کاٹنے کی حد اور بعض انتہائی صورتوں میں سزائے موت بھی شامل ہے۔ جیسا کہ امام طحطاوی ؒ(حنفی) لکھتے ہیں: ’’اگر کوئی شخص بھیک کو پیشہ بنا لے اور لوگوں کو دھوکا دے تو وہ چور کے حکم میں آتا ہے، اسے سخت تعزیری سزا دی جاسکتی ہے۔ اگر وہ اس کام کو جاری رکھے تو حد جاری کرکے اس کا ہاتھ کاٹ دیا جائے۔‘‘

 (حاشیہ طحطاوی علی مراقی الفلاح)

امام ابن القاسمؒ (مالکی) لکھتے ہیں: ’’اگر سوال کرنے والا جھوٹ بولے، فقر کا بہانہ کرے اور بھیک مانگنا اس کا پیشہ بن جائے تو اسے مخصوص مقدار میں مارا جائے گا۔ اگر وہ باز نہ آئے تو اسے اسی کوڑے مارے جائیں گے۔ اگر پھر بھی نہ رکے اور اس کا فساد ظاہر ہوجائے تو اُسے سزائے موت دی جاسکتی ہے۔‘‘ (المدونۃ الکبریٰ)

امام نوویؒ کا ایک قول ہے: ’’اگر بھیک مانگنے والا جھوٹ بول کر سوال کرے اور اسے پیشہ بنا لے تو وہ محارب (ڈاکو) کے حکم میں ہے، اور امام وقت (حاکم) کے لیے جائز ہے کہ اس پر حدِ محاربہ نافذ کردے ۔ یعنی اسے قتل کردے یا سولی پر چڑھا دے۔‘‘ (المجموع)

اگرچہ یہ تمام سزائیں حاکم و قاضی کی صواب دید پر موقوف ہیں اور کسی فرد کے لیے انفرادی طور پر قانون کو ہاتھ میں لیتے ہوئے ان کا نفاذ جائز نہیں، مگر ان اقوال و فتاوٰی سے واضح ہوتا ہے کہ اسلامی معاشرے میں یہ قبیح فعل ایک ناسور و مافیا کی شکل اختیار کر جائے تو اُمت کو خود کفیل و خوددار بنانے اور تعمیر معاشرہ کے لیے اس عضو معطل کو تلف کرنے کی غرض سے ان انتہائی اقدامات کا اُٹھانا بھی حاکم و قاضی وقت کے لیے جائز ہے۔

دوسری جانب اگر ہم اپنی مملکتِ خداداد میں اس رویے کے فروغ پر غور کریں تو دنیا میں یہ مکروہ عمل ہماری پہچان بنتا دکھائی دیتا ہے۔ صرف سعودی عرب میں ہمارے ہزاروں بھکاری پابند سلاسل ہونے کی خبر چند دن قبل کی ہے۔ اور بعض رپورٹس کے مطابق ہمارے ملک کی چوبیس کروڑ آبادی میں سے تین کروڑ اسی لاکھ افراد بھیک مانگنے میں ملوث ہیں۔ جن میں بارہ فی صد مرد، پچپن فیصد عورتیں، اٹھائیس فی صد بچے اور چھے فی صد سفید پوش مجبور افراد شامل ہیں۔ چناں چہ اس ناسور کی روک تھام کے لیے گداگری کی حوصلہ شکنی بھی ضروری ہے۔

اﷲ رب العزت سے دعا ہے کہ ہماری قوم کو گداگری کی لعنت سے نجات دے اور ہم سب کو اس کی روک تھام کے لیے اپنا کردار ادا کرنے کی توفیق دے۔ آمین

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: کی روک تھام کے لیے کے لیے محنت کر ایک روایت میں اﷲ کی راہ میں بھیک مانگنے اور فرمایا گداگری کی کر رہا ہے رہا ہے تو دیا جائے سوال کرے محنت کی کرتا ہے ایک شخص تو اسے نے ایک شخص کو اور اس میں ہے اگر یہ

پڑھیں:

لاہور :انسداد تجاوزات گرینڈ آپریشن، 2200 سے زائد تجاوزات کا خاتمہ، 25 ٹرک سامان ضبط

سٹی42: ضلعی انتظامیہ اور میٹروپولیٹن کارپوریشن لاہور (ایم سی ایل) کی جانب سے شہر بھر میں انسداد تجاوزات کے تحت گرینڈ آپریشن جاری ہے جس کے دوران اب تک 2200 سے زائد تجاوزات ہٹا دی گئی ہیں جبکہ 25 ٹرک سامان ضبط کیا گیا ہے۔

ضلعی انتظامیہ کے مطابق انسداد تجاوزات آپریشن شاہ عالم مارکیٹ، انارکلی، مال روڈ اور دیگر مصروف علاقوں میں مؤثر طریقے سے جاری ہے۔ اس مہم کا مقصد شہر کی خوبصورتی کی بحالی اور ٹریفک کی روانی کو بہتر بنانا ہے۔

میچ کے دوران بولر دل کا دورہ پڑنے سے انتقال کرگیا

آپریشنز کی نگرانی چیف آفیسر ایم سی ایل شاہد عباس کاٹھیا کر رہے ہیں جبکہ ایم او ہیڈکوارٹرز کاشف جلیل کی قیادت میں ٹیمیں متحرک ہیں۔آپریشن کے دوران سینکڑوں غیرقانونی بینرز اور پوسٹرز کو بھی ہٹا دیا گیا ہے جبکہ دو سنگین خلاف ورزیوں پر ایف آئی آرز بھی درج کی گئی ہیں۔

ڈی سی لاہور سید موسیٰ رضا کا کہنا ہے کہ وزیراعلیٰ پنجاب کی ہدایت پر لاہور کو تجاوزات سے مکمل طور پر پاک کرنے کا مشن کامیابی سے جاری ہے۔ انہوں نے کہا کہ شہریوں کو وسیع سڑکوں، بہتر ٹریفک نظام اور صاف ستھرا ماحول فراہم کرنا ضلعی انتظامیہ کی اولین ترجیح ہے۔

سندرفائرنگ؛ 2 افراد زخمی

ڈی سی لاہور نے مزید کہا کہ شہر بھر میں تجاوزات کے خلاف نوٹسز جاری کیے جا چکے ہیں اور خلاف ورزی کی صورت میں سخت کارروائی جاری رہے گی۔

متعلقہ مضامین

  • فرانسیسی اخبار نے بھارتی فضائیہ کی کارکردگی پر سوال اٹھادیا
  • ذاتی نوعیت کا سوال، مریم نفیس مداحوں پر بھڑک اٹھیں
  • لاہور :انسداد تجاوزات گرینڈ آپریشن، 2200 سے زائد تجاوزات کا خاتمہ، 25 ٹرک سامان ضبط
  • سانحہ 12 مئی، انسداد دہشتگردی عدالت میں گواہوں کو پیش کرنے کا حکم
  • سانحہ 12 مئی؛ انسداد دہشتگردی عدالت نے گواہوں کو پیش کرنے کا حکم دیدیا
  • قومی اسمبلی اجلاس: عمر ایوب نے حکومتی اراکین کی غیرحاضری پر سوال اُٹھا دیا
  • سانحہ 9 مئی کیس: فیروزآباد تھانے میں درج مقدمے میں ملزمان پر فرد جرم عائد
  • نجی نوعیت کے سوال پر مریم نفیس مداح پر غصہ
  • سانحہ 12 مئی کیس: آئندہ سماعت پر گواہوں کو پیش کرنے کا حکم